جانے کب تک قطار میں رہیں گے
جانے کب تک قطار میں رہیں گے
ہم ترے انتظار میں رہیں گے
تم اسی باغ میں رہو گے سدا
ہم اسی خار زار میں رہیں گے
ہم بچھڑنے کے بعد بھی شاید
آپ کے اختیار میں رہیں گے
کتنے منظر دکھائی دیں گے ہمیں
اور کتنے غبار میں رہیں گے
حال تفصیل سے بتاتے ہوئے
کوشش اختصار میں رہیں گے
شعر ستر ہزار کہہ ڈالے
ایک دو تو شمار میں رہیں گے
اک تنازع کھڑا کریں گے نیا
اور پھر اشتہار میں رہیں گے