جان اپنی چلی جائے ہے جائے سے کسو کے (ردیف .. ی)

جان اپنی چلی جائے ہے جائے سے کسو کے
اور جان میں جان آئے ہے آئے سے کسو کے


وہ آگ لگی پان چبائے سے کسو کے
اب تک نہیں بجھتی ہے بجھائے سے کسو کے


بجھنے دے ذرا آتش دل اور نہ بھڑکا
مہندی نہ لگا یار لگائے سے کسو کے


کیا سوئے پھر غل ہے در یار پہ شاید
چونکا ہے وہ زنجیر ہلائے سے کسو کی


کہہ دو نہ اٹھائے وہ مجھے پاس سے اپنے
جی بیٹھا ہی جاتا ہے اٹھائے سے کسو کی


جب میں نے کہا آئے من جائے بولی
ہم اور بھی روٹھیں گے منائے سے کسو کی


چپی میں جو کچھ بات کی میں نے تو یہ بولی
ہم تو نہیں دبنے کی دبائے سے کسو کی


یارو نہ چراغ اور نہ میں شمع ہوں لیکن
ہر شام کو جلتا ہوں جلائے سے کسو کی


پاتا نہیں گھر اس کا سمجھتا ہی نہیں میں
اس بیت کے معنی بھی بتائے سے کسو کی


جب اس سے کہا میری سفارش میں کسو نے
حاصل بھی رلائے سے کڑھائی سے کسو کی


اک طعن سے یہ ہنس کے لگا کہنے کہ بے شک
ہم رولتے موتی ہیں رلائے سے کسو کی


کہتا ہے کہ احسانؔ نہ کہے گا تو سنے گا
مطلع یہ کہا میں نے کہاں سے کسو کی