اتنی سی زندگی بھی ہے کتنی گراں مجھے
اتنی سی زندگی بھی ہے کتنی گراں مجھے
دینا ہے گام گام ابھی امتحاں مجھے
رستے میں تار تار بکھیر آئے تھے جسے
لوٹے ہے شام شام وہی داستاں مجھے
اچھا ہوا کہ جل گئی تنکوں کی کائنات
اب تو نہ دیں گی طعنہ کبھی بجلیاں مجھے
حسن فریب میرا مزاج سخن نہیں
رکھیو معاف اس سے مگر دوستاں مجھے
آپ آ گئے تو کالی گھٹا بھی برس پڑی
آتا ہے ورنہ حرف شکایت کہاں مجھے
قسمت کی بات کہئے کہ یہ وقت کا قصور
اب مہرباں بھی بن گئے نا مہرباں مجھے
یہ دھندلا دھندلا نقش یہ یادیں یہ شام غم
لے جا رہا ہے وقت نہ جانے کہاں مجھے
یادش بخیر نازشؔ آوارہ چل بسا
دیوانہ دے گیا ہے مگر دھجیاں مجھے