بلووولف ٹیکنالوجی: ظالم اسرائیلی حکومت کا مسلمانوں کی جاسوسی کا نظام کیسے کام کرتا ہے؟
مبینہ طور پر اسرائیلی فوج مقبوضہ مغربی کنارے میں آباد فلسطینیوں کی ذاتی معلومات کا ایک وسیع ڈیٹا بیس بنانے کے لیے چہرے کی شناخت والی ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہی ہے۔ ان حاصل کی جانے والی معلومات میں فلسطینیوں کی تصاویر، خاندانی تاریخ اور تعلیم شامل ہیں۔ ان معلومات کی بنیاد پر انھیں سیکیورٹی کی درجہ بندی تفویض کی گئی ہے۔ اب، ایک سرکاری اسمارٹ فون میں بلیو وولف ایپلی کیشن
Blue Wolf Surveillance Application
کا حامل اسرائیلی فوجی، کسی فلسطینی کے چہرے کو اسکین کرے گاتو ایپ پیلی، سرخ یا سبز رنگ کی بتی ظاہر کرے گی کہ کیا اس شخص کو حراست میں لیا جانا چاہیے یا گزرنے دیا جانا چاہیے۔
ہم میں سے انسانی حقوق کے ایک چینی محقق کے لیے اسرائیل کا بلیو وولف سسٹم بالکل نیا نہیں۔ کیوں کہ اسی طرح کا ایک بڑے پیمانے پر نگرانی کا نظام سنکیانگ میں چینی حکام کے زیر استعمال ہے، جسے انٹیگریٹڈ جوائنٹ آپریشنز پلیٹ فارم (IJOP) کہا جاتا ہے۔ یہ سسٹم پورے خطے میں مختلف سینسری سسٹمز کے پیچھے "دماغ" کا کام کرتا ہے۔ IJOP ایک بڑا ڈیٹا سسٹم بھی ہے، جو حکام کی طرف سے اپنے تئیں قرار دیے گئے غیر معمولی رویے کی شناخت کرتا ہے۔
وہ لوگ جن کے فون اچانک "آف لائن" ہو جائیں یا وہ لوگ جو بہت زیادہ بجلی استعمال کریں ، IJOP خود بخود انہیں شناخت کر دیتا ہے اور انہیں پولیس تفتیش کے لیے بلا لیتی ہے۔ پھر ان میں سے کچھ کو بعد میں "سیاسی تعلیم" کے لیے حراست میں لے کر قید کر دیا جاتا ہے۔
حالیہ برسوں میں چین میں نافذ بڑے پیمانے پر نگرانی کے نظام اور اس کی برآمد پر توجہ دی گئی ہے۔ لیکن چینی کمپنیاں تنہا نہیں ہیں جو نگرانی کی ٹیکنالوجیز فراہم کر رہی ہیں۔ عالمی سطح پر کئی کمپنیاں اور بھی ہیں جو قانونی اور ریگولیٹری کے حوالے سے قانونی شِقوں کی عدم موجودگی میں پھیلتی جا رہی ہیں۔
اسی طرح کی ایک کمپنی این ایس او گروپ ہے۔ حکومتوں نے اسرائیل میں قائم کمپنی NSO گروپ کے تیار کردہ اسپائی ویئر پیگاسس کو 45 ممالک میں ڈیوائسز کو ہیک کرنے کے لیے استعمال کیا ہے، جن میں صحافیوں، مخالفین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے آلات شامل ہیں۔ پیگاسس، کسی فون کے کیمرہ، مائیکروفون اور ٹیکسٹ میسجز تک رسائی حاصل کرکے ایک متاثرہ ڈیوائس کو پورٹیبل سرویلنس ٹول
Portable Surveillance Tool میں بدل دیتا ہے۔
اس ماہ کے شروع میں پیگاسس ، چھ فلسطینی انسانی حقوق کے کارکنوں کے فون میں پایا گیا۔ ان میں سے تین نے سول سوسائٹی کے گروپوں کے لیے کام کیا تھا۔ ان گروپس کو اسرائیل نے اکتوبر میں "دہشت گرد تنظیموں" کے طور پر نامزد کر کے غیر قانونی قرار دیا تھا۔ نگرانی کرنے والی ٹیکنالوجی نے انسانی حقوق کی پامالیوں کو بڑھایا ہے۔ اس نے حکام کو پرامن اختلاف رائے کی فوری شناخت اور اسے بے اثر کرنے، اور وسیع آبادی پر دخل اندازی سے کنٹرول کرنے کے قابل بنا دیا ہے۔
یہ نگرانی کا ٹیکنالوجی سے مسلح نظام ہے جو ایک خود ساختہ یہودی ریاست اسرائیل کو، فلسطینیوں پر اپنا تسلط برقرار رکھنے میں مدد کرے گا۔ اس سے نسل پرستی اور ظلم و ستم پر مبنی انسانیت کے خلاف جرائم کا نیا باب کھلے گا۔
بلیو وولف ایپ اور نگرانی کے اثرات پر ایک حالیہ مضمون میں، واشنگٹن پوسٹ نے مغربی کنارے میں رہنے والے ایک فلسطینی کے حوالے سے کہا: "ہم اب ارد گرد کے لوگوں سے گھلنے ملنے میں آسانی محسوس نہیں کرتے کیوں کہ کیمرے ہمیشہ ہم پر نظر رکھتے ہیں۔ اس کی یہ بات ایک مسلمان خاتون جس کا ہیومن رائٹس واچ نے 2018 کی ایک رپورٹ کے لیے انٹرویو کیا تھا، کی آئینہ دار ہے۔ اس نے کہا تھا: "لوگ ایک دوسرے سے ملنے نہیں جاتے۔ اگر کوئی کہے، ایک بوڑھی عورت مجھ سے بات کرنے کے لیے سڑک پار سے آ رہی ہے تو میں بھاگ جاؤں گی۔"
انسان جب فلسطین کے اندر اسرائیلی غاصب حکومت کے ہاتھوں میں بلو ولف جیسی ٹیکنالوجی کی آمد کا سوچتا ہے تو اس کے بدن میں خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ کیوں کہ یہ ٹیکنالوجی پھیل رہی ہے اور حکومتوں کو شہریوں کی نجی زندگیوں میں دخل اندازی کرنے کے قابل بنا رہی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی طور پر فوری قانون سازی ہو کہ حکومتیں اپنی شہریوں کی کون سی معلومات اکھٹی کر سکتی ہیں اور کون سی نہیں۔ نہیں تو یہ ٹیکنالوجی اگر آج فلسطین میں نافذ ہے تو کل کسی اور ملک میں بھی ہو سکتی ہے۔ آج اگر ان کے ذریعے صرف مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں تو کل کسی اور پر بھی ڈھائے جا سکتے ہیں۔
مترجم: فرقان احمد