کیا عرب دنیا تیزی سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف جارہی ہے؟
ٹن۔۔۔ ٹن۔۔۔۔ ٹن، ہیلو بھائی میری سن لو۔ یہ پاکستانی سیاسی ڈرامہ ختم نہیں ہونا۔ ابھی میں جب یہ مضمون لکھ رہا ہوں تواب تک عدالت عالیہ نے یہ نہیں بتایا کہ ریاست پاکستان میں حکومت موجود ہے یا نہیں۔ یعنی جب تک معزز جج صاحب نہیں بتائیں گے کہ ہمارا والی وارث کون ہے۔ تب تک ہم لا وارث ہی رہیں گے۔
تو لا وارث قوم کے ہونہار باشندو! آنکھیں کھولو ذرا اپنے کچھار سے باہر بھی دیکھو۔ عرب کی دنیا میں ایک اہم کانفرنس ہوئی ہے۔ پانچ عرب وزرائے خارجہ، امریکہ اور اسرائیل کے مابین، وہ بھی اسرائیلی شہر نگیو میں۔ اس کا اثر ہم پر براہ راست ہو سکتا ہے۔ یعنی ہم بھی اسرائیل کو قبول کر کے تعلقات بحال کرنے کی لائن میں لگ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے عرب جب اسرائیل سے پیار کی پینگیں بڑھا سکتے ہیں تو ہمارے حکمرانوں کو کیا جپھی ڈالنی نہیں آتی؟ یا اسرائیلییوں کو دیکھ کر انہیں ابکایاں آنے لگتی ہیں؟
خیر، ابھی کی سنو!
2020 میں ابراہیم اکارڈ کے بعد عرب ممالک کا اسرائیل سے تعلقات کو مزید پروان چڑھانے کی طرف نیگو سمٹ اہم قدم ہے۔ اس میں متحدہ عرب عمارات، بحرین، مراکش، اور مصر کے وزرا ئےخارجہ اسرائیل اور امریکی وزرائے خارجہ سے ملے ہیں۔ سب نے مل کر خوب کچھڑی پکائی ہے۔ میرا مطلب ہے کہ سب نے مل کر علاقائی سکیورٹی اور معاشی استحکام پر خوب تبادلہ خیال کیا ہے۔ عرب کے خطے میں ایران کو کیسے گھیرنا ہے اور امریکہ کو کیسے منانا ہے کہ وہ ایران سے جے سی پی او اے ڈیل بحال نہ کرے ۔ دراصل یہ وہ ڈیل ہے جس کے ہونے کے بعد 2015 میں ایران پر سے امریکی پابندیاں ہٹ گئی تھیں لیکن پھر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں اس ڈیل کو ٹانگ مار کر توڑ دیا تھا۔ اب چونکہ روس پر پابندیاں لگانے کی وجہ سے عالمی منڈی میں امریکہ کو تیل کی ضرورت پڑ گئی ہے تو وہ چاہتا ہے کہ کیوں ناں ایران سے پابندیاں ہٹا کر تیل حاصل کر لیا جائے۔ اس کے لیے جے سی پی او اے کو بحال کرنا ہے۔ جب سے امریکہ کے ایسے ارادے ظاہر ہوئے ہیں تو عرب چاہے اماراتی ہوں، بحرینی ہوں یا سعودی، سب پریشان ہیں، کیونکہ ایران کے تیل کی امریکہ کو فروخت عربوں کو کہاں برداشت ہوتی ہے۔ ادھر سے اسرائیل کے وزیر اعظم نفتا ایلی بینٹ بھی پمبیری کی طرح اس ڈیل کو ناکام کروانے کے لیے دنیا بھر میں گھومتے پھرتے ہیں۔
اماراتی اور سعودی عربی کہتے ہیں ڈیل سے پہلے ایران سے کہو کہ یقین دہانی کروائے کہ پابندیاں ہٹنے کے بعد یمنی حوثی باغی ہم پر حملے نہیں کریں گے اور نہ ہی پاسداران انقلاب کے دیگر گروہ ہم سے الجھیں گے۔ اسرائیل بھی یہی کہتا ہے۔ ابھی تو ایران پر پابندیاں ہیں، تو وہ ہمارے خواب میں آ آ کر ہمیں ڈراتا ہے، اگر پابندیاں ہٹ گئیں تو وہ واقعی ہمیں کہیں ڈرانے نہ لگ جائے۔
ادھر امریکہ ان مطالبات پر دونوں پارٹیوں کو دلاسا دے کر چاہتا ہے کہ ایران سے ڈیل کرلے تاکہ عالمی منڈی میں تیل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔ کیونکہ ایران اس قسم کی یقین دہانیاں کروانے کے لیے تیار نہیں۔ اسے منانے کے لیے خاصا وقت لگ سکتا ہے۔ دوسری طرف صرف دلاسے پر پارٹیاں نہیں مانتی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ سعودی اور اماراتی شہزادوں نے کچھ دن پہلے بائیڈن کی کال نہیں اٹھائی تھی۔ وہ اسی ناراضگی کا نتیجہ تھی۔ شیخ کہہ رہے تھے کہ ادھر ایران کی پشت پناہی سے حوثی باغی ہم پر میزائل مار رہے ہیں ادھر آپ اس سے ڈیل کرنے لگےپر ہوئے ہو۔ اوپر سے جو اماراتیوں نے ایف 35 کا آڈر دیا تھا وہ بھی آپ نے کھٹائی میں ڈال دیا ہے۔
اس کے بعد اماراتی شیخوں نے روسی امیر زادوں کو آواز دی تھی کہ بھئی ہماری طرف آ جاؤ۔ یہ امریکہ اور یورپ جو تم پر پابندیاں لگا رہے ہیں ہم نہیں لگائیں گے۔ آ جاؤ آ جاؤ۔ تم اپنی دولت کو ہمارے ہاں محفوظ بنا کر امریکہ کو آنکھیں دکھا سکتے ہو۔ روسی امیر زادوں کو یہ آفریں اس وقت کروائی گئی تھیں، جب رپورٹس کے مطابق روس نے جے سی پی او اے ڈیل پر معاہدے سے ذرا کچھ پہلے اسے ٹانگ مار دی تھی۔ کیونکہ اس ڈیل کا وہ بھی رکن تھا۔ شیخ بہت خوش ہوئے تھے۔ کیونکہ انہیں امریکہ کو کچھ کچھ دباؤ میں لانے کا موقع ملا تھا۔
اس سب داؤ پیچ کے بعد اب یہ وزرائے خارجہ کا سمِٹ ہوا تھا۔ تمام ممالک کے وزرا خارجہ اسی سیاست کے پس منظر میں اپنے اپنے مفادات لے کر پہنچے تھے۔ صرف مراکش ایسا ملک تھا جو اس سب کھیل سے کچھ حد تک باہر تھا۔ اس کے سمِٹ کے راگ میں سُر کچھ اور مفادات کے تھے جو صحارا کے علاقے سے منسلک ہیں۔ اس پر پھر کبھی کھل کر بات کریں گے۔ باقی فریقین کو دیکھیں تو امریکہ چاہتا تھا کہ عرب ممالک تیل کی پیداوار بڑھانے میں اپنا کردار ادا کریں اور ایران سے ڈیل میں روڑے نہ اٹکائیں، اس پراماراتی و بحرینی چاہتے تھے کہ ہمیں گارنٹی دو کہ ایران ہمارے خلاف اقدامات نہیں کرے گا، اسرائیل بھی اسی قسم کی بات کرتا تھا، ادھر سے مصر کچھ کچھ ایران کی حمایت کر رہا تھاتو یوں رپورٹس کے مطابق سارا سمٹ کا کاروبار چلتا رہا۔
یہ سب تو ہوا لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ فلسطینی ان سارے حالات میں کہاں کھڑے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ ان کے لیے بات ہلکی پھلکی امریکہ نے کی یا مصر نے۔ باقی فریق انہیں بالکل نظر انداز کر گئے۔ مصر کا موقف تھا کہ عرب میں امن فلسطین کے مسئلے کو حل کیے بغیر ممکن نہیں۔ سمٹ میں تو مصر نے ہلکی پھلکی ان کے لیے بات کی، باقی اردن کے شاہ اس سمٹ کے وقت فلسطینی صدر کے پاس رملہ اڑ کر گئے اور دلاسہ دیا۔ جناب فکر نہ کرو اسرائیل سے معاملات آپ کا مسئلہ حل کیے بغیر نہیں آگے بڑھیں گے۔ یوں تمام تر کہانی کہانی ہی رہی۔
اس سمٹ سے دنیا کو بہر حال پیغام چلا گیا کہ عربیوں اور اسرائیل کے مابین پیار کی پینگیں بڑھ رہی ہیں۔ اس پر پاکستان جیسے ممالک سوچ میں ضرور پڑ گئے ہیں کہ ہم کیا کریں۔ حکومت پاکستان جو بھی کرے ہمارا موقف تو اس سب پر وہی ہے جو ہمارے محسن لیڈر قائد اعظمؒ کا تھا۔ اسرائیل مغرب کی ناجائز اولاد ہے اور ایسوں سے تعلقات قائم نہیں رکھے جاتے۔