اسلامی اجتماعیت کا احوال
یہ ہے دنیا کی قیمتی ترین چیز، یعنی ہماری اسلامی اجتماعیت ، جسے امت مسلمہ کی اجتماعیت کہا جا سکتا ہے۔ وہ جس سے ہماری دنیا اور آخرت دونوں وابستہ ہیں اور جس کا ہاتھ سے جانا، دنیا و آخرت دونوں کی بربادی۔ اسی کو الجماعۃ کہا جاتا ہے ، اسی کے بارے میں ارشاد ہوا کہ جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے ۔ یعنی مسلمانوں اور امت مسلمہ کی اجتماعیت۔
ماضی قریب میں عثمانی خلافت کے ہاتھوں ، ممکنہ طور پر عربوں کے ساتھ کوئی نا انصافی ہو گئی ہو گی۔ انسانوں کی حکومت تھی ، انسان سے خطا نہ ہو تو پھر وہ آخر کاہے کا انسان ہوا؟ یہ بھی ممکن ہے کہ معاملہ سِرے سے کچھ بھی نہ ہو مگر اس کو پوری بات ، بلکہ بتنگڑ بنا دیا گیا ہو!!! مغرب کا اور کام کیا ہے ؟ اس کے سوا ان کا کیا مصرف ہے؟
سو معاملہ وہی رہا ہو گا جو فیض نے بیان کیا کہ
وہ بات ، سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کوبہت نا گوار گزری ہے
اور یہ بھی ممکن ہے کہ بات ہو تو واقعتاً ، مگر اتنی بڑی نہ ہو ، جس قدر بڑا رد عمل اہل عرب والوں نے پیش کیا ۔ اور اس ذرا سی بات کو بہت بڑی بات بنا دینا مغربی کرشمہ سازوں کے لیے کیا مشکل تھا؟
یعنی اقبال کے بقول
ذرا سی بات تھی ، اندیشۂِ عجَم نے جسے
بڑھا دِیا ہے فقَط زیبِ داستاں کے لیے
آخر اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے کےلیے ملتِ صلیب نے لارنس آف عریبیا کو پراجیکٹ دیا کہ وہ عربوں میں خلافت سے "آزادی "حاصل کرنے کی تحریک اٹھائے۔ یہ تحریک کامیاب رہی۔ لارنس کے تیار کیے ہوئے عرب راہنماؤں کی استدعاء پر انگریزی افواج نے بروقت کارروائی کرکے عربوں کو خلافت سے آزادی لےدی۔ یہاں تک کہ انگریز ان میں سے ایک کو دوسرے سے اور دوسرے کو تیسرے سے آزادی دلواتا چلا گیا ۔ اور چند عشروں کے اندراندر عربوں کو درجنوں آزاد ملک مل گئے جو ڈھیروں وسائل کے باوجود، فقط اپنی رسوائی اور ذلت کی داستان کہنے کو ہی آج ہمارے سامنے موجود ہیں۔ اپنے ترک بھائیوں کی وہ مبینہ نا انصافی (اگر کوئی ہو بھی تو ) برداشت نہ ہوئی۔ جب کہ حالت یہ ہے کہ تب یہودی کو عرب سرزمین کی طرف آنکھ اٹھانے کی ہمت نہ تھی، اور آج دیکھ لو صلیب کی شریعت، اس کے فوجی اڈے اور اس کے لےپالک اسرائیل کے جوتے کیسے راس آ رہے ہیں!
دوسری جانب ماضی کا ایک واقعہ ہمارے سامنے ہے جو امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ الاسلام میں سن 478 ہجری کے واقعات میں درج کیا ہے۔امام لکھتے ہیں کہ جب مسلم اندلس میں طوائف الملوکی پھیلی اور یہ موقع دیکھ کر صلیبی بادشاہ ، الفانسو پوری تیاری کے ساتھ مسلم خطوں پر چڑھائی کےلیے عازمِ جنگ ہوا، تو ملوک الطوائف میں سب سے نمایاں بادشاہ، اشبیلیہ کے حکم ران معتمد بن عباد نے امیر المرابطین یوسف بن تاشفین کا دروازہ جا کھٹکھٹایا۔
اس پر اعیانِ سلطنت سٹپٹا گئے کہ مراکش کا وہ بدو سلطان اگر اندلس آیا تو الفانسو کو شکست دے کر وہ اندلس تمہیں واپس تھوڑا ہی کر دے گا۔ یہاں معتمد نے اپنا وہ تاریخی جملہ کہا: دیکھو، یوسف بن تاشفین کے اونٹ چرانا الفانسو کے خنزیر چرانے سے کہیں باعزت ہے!
بعض مورخین نے معتمد کا یہ قول بھی نقل کیا ہے: "میں تو کھایا ہی جانے والا ہوں، مگر اندلس پر آج اگر اسلام کا سورج غروب ہوتا ہے تو منبروں اور محرابوں سے آنے والی کئی صدیوں تک جو مجھ پر لعنت ہوتی رہے گی، میں وہ کیوں مول لوں؟"
واقعتاًاعیانِ سلطنت کے وہ تمام خدشات بعد از آں سچ ثابت ہوئے۔ معتمد کو اپنے تخت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ساری زندگی قید میں گزری۔ برس ہا برس بعد ایک بار عید کے موقع پر بیٹیوں سے ملاقات کی اجازت ملی تو شہزادیوں کے سوت کات کات کر گزر اوقات کرنے والے ہاتھ معتمد سے دیکھے نہ گئے۔اس پر اُس نے جو شعر کہے وہ آج بھی آپ کے بی اے عربی کے نصاب میں شامل ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی قید خانے سے معتمد کی اٹھنے والی اس فریاد کو اپنی بالِ جبریل میں نشر کیا ، مگر !!!
ہاں مگر زلاقہ کے مشہور معرکے میں مرابطین کے اڑتالیس ہزار مجاہدین نے الفانسو کے ایک لاکھ جاں بازوں کی تکہ بوٹی کر ڈالی، مورخ کہتا ہے کہ بہت کم صلیبی تھے جو زلاقہ سے زندہ بچ کر گئے۔ اور اس کے بعد مزید ساڑھے تین سو سال اندلس میں اذان گونجتی رہی۔
بارہا ایسا ہوا ہے کہ کسی ایک فرد کے صبر وحوصلہ نے جماعت کو صدیوں کی زندگی دے دی۔ اور صبر و برداشت چھوڑنے کے نتیجے میں جماعت کے کروڑوں نفوس نسلوں خوار ہوتے رہے۔ آج جن خطوں میں آپ کو مسلمانوں کی ذلت اور بےبسی پر رونا آئے اور جہاں کہیں مسلم بیٹیوں کی چیخیں سنیں، لازماً وہاں کچھ مسلمانوں سے اسلامی اجتماعیت کے سلسلے میں کوئی جرم ہوا ہوگا جس کے نتیجے میں مسلمان وہاں اس حالت کو پہنچے۔
بشکریہ ایقاظ