اسلام کے پیش کردہ سائنسی انداز فکر اور جدید سائنس میں کیا مماثلت ہے؟
قرآن حکیم کا تصور توحید ،خالصتاً ایک سائنسی انداز فکر ہے ۔ محمد اسد نے اپنی تفسیر The Meaning of Quran میں تقویٰ کا ترجمہ ’’خدا شعوری‘‘ (God consciousness) سے کیا ہے ، ظاہر ہے کہ خدا شعوری کے بے شمار مدارج ہو سکتے ہیں۔ان میں سے ایک درجہ یہ بھی ہے جو اس کائنات کا مشاہدہ اور اس کے نظام تخلیق میں غور و خوض کرکے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور قدرت کی نشانیاں دیکھنے سے حاصل ہوتا ہے :
’’یقیناً رات اور دن کے الٹ پھیر میں اور ہر اس چیز میں جو اللہ نے آسمان اور زمین میں پیدا کی ہے نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں ‘‘۔ (یونس ۔۶)
سائنس کی ساری تگ و دو کی غرض و غایت یہ ہے کہ مظاہر فطرت کا گہر امطالعہ کر کے قوانین فطرت میں بصیرت پیدا کی جائے ۔ یہ بصیرت ایسے تمام لوگوں میں خدا شعور ی کے داعیات پیدا کرتی ہے، جو اس کائنات کو ایک تخلیق شدہ کائنات مانتے ہیں۔ لیکن عصر حاضر کا المیہ یہ ہے کہ الحاد اور لادینیت کے غلبے کے اس دور میں سائنس اپنی اس حقیقی منزل سے غافل بلکہ منحرف ہوگئی ہے، جو قرآن حکیم کے نزدیک اس کی اصل منزل ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ملحدانہ سائنس نے خدا ، کا ئنات اور انسان کے درمیان کے متوازن ربط کی کلید کھودی ہے اس لیے حقیقی یہ خدا شناسی اور خود شناسی سے بے بہرہ ہے ۔ اتنا ہی نہیں روحِ تقویٰ سے محرومی نے خود انسانی رشتوں کے سہ پہل حقائق کو بھی نظروں سے اوجھل کر دیا ہے۔ مرد کا رشتہ مرد سے ، مرد کا رشتہ عورت سے اور فرد کا رشتہ اپنے نفس سے کا نظریہ اسی غفلت کا مظہر ہے ۔
قرآن و سنت نے ان تمام حقائق کی تفصیل کو حقوق اللہ اور حقوق العباد میں سمیٹ کے فرد کی اصلاح و تربیت کا ایک جامع نظام پیش کر دیا ہے، تاکہ اہل تقویٰ معرفت نفس ، تربیت نفس ، احتساب نفس اور عزت نفس کی منزلوں سے گزرتے ہوئے فرد کے ارتقاء ، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل تک کامیابی سے ہمکنارہوں۔اسی لیے قرآن وسنت کے تحت اسلامی علوم کی بنیاد پر جو متوازن معاشرہ ارتقاپذیر ہوا اس میں ہرنفع و نقصان کو خدا یا شیطان سمجھ کے نہ کبھی پرستش کا مقام دیاگیا نہ مادہ اور روح کی حقیقی صورت حال کو نظر انداز کیا گیا۔
قرآن پاک نے سائنسی تحقیق کے لیے جس ذہنی رویے ’’ اور سائنٹفک اسپرٹ‘‘کی ضرورت تھی اس کو فروغ دینے کے لیے حیات و کائنات کی ہر ہر چیز پر غور وفکر اور تدبر و تفکر کی تلقین کی ۔ محمد احمد العمری کے مطابق قرآن حکیم کی کل چھے ہزار چھے سو چھیا سٹھ ( ۶۶۶۶) آیات میں سے سات سو چھپن (۷۵۶) آیات ایسی ہیں، جو براہ راست مظاہر فطرت اور پر غورفکر کی دعوت دیتی ہیں ، جن پر فکر و تدبر کے نتیجے میں مسلم مفکرین کے اندر ذوق و شوق اور مضبوط جذبے کے ساتھ عجز و انکسار کا سائنسی رویہ پیدا ہوا۔ مسلم سائنسدانوں نے ماضی کے جملہ یونانی و ہندی و فلسفہ و سائنسی علوم کوازسرنوکھنگا لا۔ قبل اسلام تک جو سائنس، منطق کی صرف ایک ٹانگ استقرائی (Inductive Logic) مفروضے پر بمشکل اُچک کے اُچک چل رہی تھی ،مسلم سائنسدانوں نے استخراجی منطق (Deductive Logic)کی دوسری ٹانگ فراہم کرکے اسے سرپٹ دوڑنا سکھا دیا ۔ اتنا ہی نہیں سائنسی فکر کی بے لگامی، بے سمتی اور مادہ پرستی کے زیر اثر محض علت (Cause)اور معلول (Effect)کی حد سے آگے ’’غایت ‘‘ (Purpose)کا خدا پرستانہ قطب نما بھی فراہم کردیا ۔
معروف مغربی مفکر رابرٹ بریفالٹ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’تشکیل انسانیت ‘‘ (Making of Humanity)میں تفصیلی تحقیق و تجزیہ کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس کا خلاصہ اس طرح پیش کیا ہے :
’’ہماری موجودہ سائنس کی پیدائش اور ارتقا کا گہوارہ یونان نہیں ، یورپ ہے ۔سائنس کو یہ عروج ، تحقیق و تفتیش کے نئے جذبات ، سعی و تجسس کے نئے نئے طریقے ،تجربے کے نوع بنوع انداز مشاہدات کی وسعت اور حیرت انگیز انداز میں ریاضی کے ارتقا کی بدولت نصیب ہوا ہے اور یہ امر واقعہ ہے کہ ان چیزوں سے یورپی دنیا کو روشناس کر انے والے عرب تھے نہ کہ یونانی ‘‘(صفحہ۱۹۰)
کیوں کہ قرآن حکیم فطرت کے آثار و شواہد کے مطالعہ کو خدا یابی کا ذریعہ قرار دیتا ہے یہاں اللہ تعالیٰ کے بارے میں انسان کو جو تصور دیا گیا ہے، وہ کسی صوفیانہ مراقبے یا کسی شاعرانہ تخیل پر مبنی ہونے کے بجائے ٹھوس مادی حقائق کے سمندر کے بیچ سے گزرتے ہوئے ہر بالا و پست میں اس کے قوانین کی کارفرمائی کی سیر کرتے ہوئے اس کی طرف بڑھنے سے قائم ہوتا ہے۔ جوش ملیح آبادی جیسا آزاد خیال شاعر بھی لاشعوری طور پر شاعرانہ ترنگ میں کیسی خدا لگتی بات کہہ گیا :
ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کا فی تھی
ثبوت حق کا قرآنی طرز استدلال ٹھوس مادی حقائق کے عمیق مشاہدے کے بعد گہرے تعقل ، تفکر اور تدبر کے ذریعے و جود باری تعالیٰ کا شعور حاصل کرنے کی رہنمائی دیتا ہے ۔ قرآن ان مشاہدات کی جزئیات و تفصیلات کو کچھ اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ انسان میں سائنسی انداز فکر اپنا نے کی آپ ہی آپ ذہنی تربیت ہو جاتی ہے۔ ’’تشکیل انسانیت ‘‘ ( Making of Humanity)کا مصنف رابرٹ بریفا لٹ (Rabert Briffault)بالکل سچ کہتا ہے :
’’ اگر چہ یورپ کی ترقی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس پر اسلامی تہذیب کے فیصلہ کن اثرات نہ موجود ہوں لیکن یہ اثر کہیں بھی اتنا واضح اور اہم نہیں جتنا کہ اس طاقت کے ظہور میں جو دنیا ئے جدید کی مخصوص اور مستقل قوت اور اس کی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے ، یعنی سائنس اور سائنسی طرز فکر ‘‘
یہ سائنسی طرز فکر فطرت کے حسیاتی مشاہدے اور مطالعے سے آگے بڑھ کر انسان کو خشیت الٰہی کی صفت سے بھی متصف کردیتا ہے جو اسلام کی ایک بنیادی اور خالص روحانی و اخلاقی قدر ہے :
’’ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے بادلوں سے پانی برسایا ، پھر ہم نے اس کے ذریعے رنگ رنگ کے پھل نکالے ۔ اسی طرح پہاڑوں میں سرخ و سفید رنگ کے طبقات ہیں جن کے رنگ اور قسمیں مختلف ہیں ۔ ان میں سے بعض کالے بھجنگ ہیں۔ اسی طرح انسانوں، جانداروں اور مویشیوں کی بھی رنگتیں اور قسمیں جدا جدا ہیں اور بے شک جو لوگ (ان کے عالم ہیں ) ان کے دل خشیت الٰہی سے لرز جاتے ہیں ۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے‘‘۔(الفاطر:۲۷،۲۸)
یہ ارشاد صرف ایک ایسی ہستی کی طرف ہی کیا جاسکتا ہے جو صاف طور پر سامنے نظر آرہی ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف مشاہدہ و مطالعہ فطرت پر بہت زور دیتے تھے ۔ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کی صوفیانہ اور فقہی تصانیف کا تو بکثرت ذکر کیا گیا ہے مگر ان کی ایک کتاب ’’الحکمۃ فی مخلوقات اللّٰہ ‘‘ کا خال خال ہی ذکر کیا گیا ہے جس میں مختلف مظاہر کے بارے میں اس وقت سائنس کی جو معلومات تھیں ان کی روشنی میں قرآن حکیم کی آیات کی تشریح و تفسیر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ قرآنی غور و فکر کا یہ سلسلے آگے بڑھا تو بڑے بڑے مسلم سائنسداں اور فلاسفر کی تحقیقات و ایجادات نے سائنسی دنیا میں ایک انقلاب عظیم برپا کردیا ۔ مثلاً محمد بن موسیٰ خوارزمی (م ۸۵۰ء)نے کتاب الجبر والمقابلہ لکھ کر الجبراکی بنیاد ڈالی جو اور آگے چل کر کمپیوٹر اور انفارمیش ٹکنالوجی کی بنیادبنی۔البیرونی (۹۲۸ء)نے Solar year کے بارے میں بتایا کہ وہ اس وقت کے کیلنڈر سے کس طرح ۲۴ سیکنڈ بڑاہے۔ الخوارزمی (م۹۷۱)کی کتاب The Book of the Balance of Wisdom نے سب سے پہلے مرکز قوت کشش کا تصور دیا ۔ ابن سینا (م۱۰۳۷ء)کی کتا ب The Cannon of Medicineآج سے آٹھ سو سال پہلے یورپ میں میڈیکل سائنس پر سب سے اہم کتاب سمجھی جاتی تھی ۔ قرآن ہی کی تحریک پر دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی الازہر کی بنا پڑی اور ابن الہیثم نے اس کو مر کز بنا کر Opticsمیں جو بنیادی کام کیے اس نے نیوٹن کو Opticsمیں تحقیقات کی بنیادیں فراہم کیں۔
اسی لیے علامہ اقبال کے نزدیک وحی کے بعد ہماری قومیت کی اساس ہی سائنسی اندازِفکر پر استوار ہوتی ہے مگر اس میں کمزوری اس وقت پیدا ہوئی جب خلافت کے بجائے ظالمانہ ملوکیت اور تاتاری شکست و ریخت نے مریضانہ عجمی تصوف کے ذریعہ اسلام کی زندگی کو کچل ڈالا اور اس کی اصل روح اور مقاصد کو ابھر نے نہیں دیا۔چنانچہ علامہ اقبال پوری تحدی سے فرماتے ہیں کہ جدید اسلام اس تجربہ کو نہیں دہراسکتا کیوں کہ وہ جدید تفکر اور تجربہ کی روشنی میں قدم رکھ چکا ہے اور اب کوئی ولی اور پیغمبر بھی اس کو قرون وسطیٰ کے تاریکیوں کی طرف نہیں لے جاسکتا ۔جدید تفکر اور تجربہ سے علامہ اقبال کی مراد سائنس کا حسی اور تجرباتی طریق تحقیق ہے ، جس نے دور حاضر کے انسان کو فکر محسوس کا عادی بنا دیا ہے ۔ ان کے خیال میں یہ وہی طرز فکر ہے جس کی اسلام نے اپنے تہذیبی نشوونما کے ابتدائی دور میں حمایت کی تھی ۔ قرآن کی رو سے فطرت کے تمام مظاہر جو انسان کے حواس کے سامنے جلوہ گرہیں درحقیقت اللہ تعالیٰ کے انوار و تجلیات ہیں جن کا مطالعہ و مشاہدہ خدا کی معرفت حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔اقبال کے خیال میں قدرت کا علم در حقیقت خدا کے کردارکا علم ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس خدا کو جاننے کا اولین ذریعہ حواس ہی ہیں ، لہٰذا محسوس کائنات کا علم ہی خدا کا علم ہے ۔
یہ سب ہیں ایک ہی سالک کی جستجو کے مقام
وہ جس کی شان میں آیا ہے علم الاسماء
مقام ذکر کمالات رومی و عطار
مقام فکر مقالات بو علی سینا
مقام فکر ہے پیمایش زمان و مکاں
مقام ذکر ہے سبحان ربی الاعلٰی
علامہ اقبال کا یہ خیال ہے کہ عبادت اور دعا درحقیقت مطالعہ فطرت کی سائنسی سرگرمیوں کا لازمی تکملہ ہیں، جوحقیقت مطلقہ کے بارے میں مزید گہری بصیرت کے لیے ہمارے اندرونی ادراک کو تیز تر کردیتا ہے ۔ قرآن پاک کی رو سے انسان کے سارے اعمال و افعال کی قوت محرکہ خدا کی محبت ہے، جو کائنات کا خالق اور رب ہے ۔ خدا کی محبت ،خدا کی ستایش اور عبادت واطاعت کا تقاضا کرتی ہے ۔ کیوں کہ خدا نے انسانوں کو سواے عبادت کے کسی اور کام کے لیے پیدا ہی نہیں کیا ہے ۔ عبادت کا جذبہ اس کی فطرت میں رکھ دیا گیا ہے ۔
فطرت کا مطالعہ (سائنسی علوم ) اس پر گرفت اور دسترس خدا کی محبت میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ یہی محبت حقیقت مطلقہ کے مشاہدے پر ابھارتی ہے کہ مشاہدے کی یہ خواہش ہر انسان کے دل میں رکھ دی گئی ہے ۔ علامہ اقبال نے سائنسی علوم کو معرفت الٰہی کا وسیلہ قرار دینے میں بہت زور کلام صرف کیا ہے ۔ کہیں علم و عرفان اور عقل ووجدان کو اصلاً ایک ہی قرار دیاہے اور کہیں علم کو عرفان پر فوقیت دی ہے۔ اپنے مضمون ’’ علم ظاہر اور علم باطن ‘‘ میں انھوں نے ’’المیثاق‘‘ سے حضرت جنید بغدایؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ :
’’علم معرفت سے بلند تر ، کامل اور جامع تر ہے اور اللہ کے نام کے ساتھ علم منسوب کیا جاتا ہے نہ کہ معرفت ‘‘۔
غرض علم کی جستجوجس رنگ میں بھی کی جائے عبادت ہی کی ایک شکل ہے ۔ اس لیے فطرت کا علمی یاسائنسی مشاہدہ بھی کچھ ویسا ہی عمل ہے، جسے حقیقت کی تلاش میں صوفی کا سلوک و عرفان کی منزلوں کوطے کرنا کہا جا سکتا ہے۔
آئے دن مختلف النوع سائنسی تحقیقات و ایجادات کے ذریعے یہ اور اس طرح کی قرآنی آیات کی توثیق و توضیح ہوتی جارہی ہے ۔ اسلام نے ہر ہر قدم پر تسخیر کا ئنات کے انسانی جوہر کی جو نشاندہی کی ہے اس کے مظاہر ہم آفاق میں جوہری اور خلائی ٹیکنا لوجی کے ذریعہ چاند ستاروں پر کمند ڈالنے کے ساتھ علم نفسیات اور علم الاعصاب کے ذریعے انفس میں بھی جھانکنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اس مقام پر قرآن پاک کی سورہ فاطر آیت: ۱۱، اور حضور کریم ﷺ کے آخری تاریخی خطبہ کے بعض الفاظ و نکات کو یاد کیجیے ۔ حضور اکرم ﷺ نے لوگوں کو یاد دلایا کہ:
’’سارے انسانوں کو اللہ نے ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ، بہت سے فرقے اور قبیلے محض پہچان کے لیے ہیں ۔ کسی عربی کو عجمی پر یا کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں ۔ بڑائی کا پیمانہ صرف تقویٰ ہے ‘‘۔
قرآن حکیم نے مظاہر فطرت کو خداکی نشانیوں کے طور پر پیش کر تے وقت ان صفات کے حامل لوگوں کو دو طرح کے الفاظ و القاب سے نوازا ہے ۔ عام انسانی فضائل کے حامل اصحاب بصیرت کو: لقوم یعقلون ، لقوم یتفکرون ،لقوم یفقہون ، لقوم یعلمون کے الفاظ سے اور دوسری طرف خالص دینی یا اسلامی نقطہ نظر سے روحانی فضائل کے حاملین کو : لقوم یتقون ، لقوم یومنون ، لقوم موقنون ، لقو م یسلمون ، لِقوم یشکرون ، لقوم یذکرون ، کے خطابات سے نوازا ہے ۔ منشا یہ کہ مظاہر کا ئنات کا مشاہدہ اور اس میں تعقل تفکر اور تفقہ بلاشبہ بصیرت افروز ہیں مگر اس طرح سے ہمیں جو بصیرت حاصل ہوتی ہے وہ ہدایت اور رحمت صرف اور صرف اس صورت میں بن پائے گی جب اس بصیرت سے ہمارے اندر تقویٰ ، ایمان ، تسلیم ، تشکر ، اور تذکر کے روحانی داعیات بیدار ہوں ۔ دوسری طرف اس کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ اسلام جس قسم کی روحانی صفات کا حامل انسان پیدا کر نا چاہتا ہے ، اس میں تقویٰ ، ایمان ، تسلیم (اسلام ) تشکر اور تذکر جیسے فضائل کے ساتھ تفکر ، تفقہ اور تعقل جیسے فضائل کا پایا جا نا بھی بے حد ضروری ہے ۔ کیوں کہ فضائل کی یہ دو اصناف ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اس طریقے سے مربوط اور پیوستہ ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لیے اسلامی نقطہ نظر سے انسان کی روحانی ترقی و تکمیل کے لیے یہ دونوں قسم کے فضائل یکساں اہمیت کے حامل ہیں اور کسی ایک قسم کو نظر انداز کر دینے سے انسان روحانی اعتبار سے نامکمل رہ جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم فضائل کی ایک صنف کو ’’ ذکر ‘‘ اور دوسری کو ’’ فکر ‘‘ کا نام دے کر ان دونوں کو لازم و ملزوم قرار دیتا ہے ۔