ختم نبوت پر ایمان: دین حق کی شرط اول
دین اسلام کے نوع انسانی پریوں تو بے شمار احسانات ہیں لیکن اگر سب سے بڑے احسانات کو یاد کیا جائے تو ایک عظیم ترین احسان دنیا کو شرک و ضلالت کی گمراہیوں سے نکال کر توحیدکی روشنی میں لانا ہے جبکہ دوسرا احسان اسی توحید کے پرتو کے طور پر اس کے عملی اطلاق اور اتباع کے لیے کائنات کی عظیم ترین ہستی کو مبعوث فرمانا ہے۔حضرت محمد مصفطیٰﷺ احمد مجتبیٰ ؐ کی ہستی جو پوری کائنات کے لیے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجی گئی ، بشیر و نذیر بنا کر بھیجی گئی اور سب سے بڑھ کر خاتم النبیین بنا کر بھیجی گئی یعنی سلسلہ نبوت و ہدایت کو اس کی کمال معراج پر پہنچا کر پایہ تکمیل کوپہنچانے والی۔ آپ ؐ کا احترام ہر مسلمان پر واجب ہے اور آپ ؐ کی محبت دین حق کی شرط اول ہے۔گویا جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کو ایک مانے بغیر کوئی شخص موحد و مومن نہیں کہلاسکتا اسی طرح عشق مصطفیؐ کو حرز جاں بنائے بغیرمسلمان کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ بقول اقبال:
در دل مسلم مقام مصطفیؐ است
آبروئے ما زنام مصطفیؐ است
(یعنی محمد مصطفیﷺ کا مقام تو مسلمان کے دل میں ہے اور بحیثیت امت اس امت کی عزت و آبرو دراصل اسی نام سے قائم ہے۔)
گویا رسول ﷺ کی ذات اقدس سے محبت، آپ ؐ کی رسالت پر پختہ ایمان اور ختم نبوت کا عقیدہ دراصل دین اسلام کا ایک اساسی اور بنیادی عقیدہ ہے۔بلکہ ایک طرح سے دین اسلام کی پوری عمارت اس عقیدہ پر کھڑی ہے۔ یہ ایک ایسا حساس عقیدہ ہے کہ اس میں شکوک و شبہات کا ذرا سا بھی رخنہ پیدا ہو جائے تو ایک مسلمان نہ صرف اپنی متاع ایمان کھو بیٹھتا ہے بلکہ وہ حضرت محمدﷺ کی امت سے بھی خارج ہو جاتا ہے۔
ختم نبوت پر ایمان عقیدہ رسالت کی تکمیل ہے:
اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک ماننے اور اسے کائنات کا خالق و مالک تصور کرلینے کے بعد ایک مسلمان کا ایمان حضور اکرم ؐ کی رسالت پر ایمان و یقین سے شروع ہوتاہے ۔ ایک مسلمان یہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے ہر دور میں اپنے برگزیدہ بندوں کو نبی اور رسول بنا کر دنیا مین مبعوث فرمایا یہاں تک کہ اس سلسلہ نبوت کی آخری کڑی یعنی ہمارے پیارے رسول و آقا ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے جن کے ذریعے سے اللہ رب العزت نے انبیاء ورسلؑ کے سلسلہ کو مکمل فرمایا۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل کی جانب سے آخری پیغمبر ہیں جن کو تاقیامت تک نوع انسانیت کی رہنمائی کے لیے مبعوث کیاگیا۔
ایمان و ہدایت محض نبی کریمﷺ کو سچا جاننے کا نام نہیں بلکہ آپؐ کی نبوت و رسالت کو آخری تسلیم کرنا، ایمان و ہدایت کی بنیاد ہے۔ قرآن مجید کی ایک سو سے زائد آیات مبارکہ اور حضور نبی کریم کی تقریباً دو سو دس احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام قیامت تک اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔
عقیدۂ ختم نبوت سے انکار یقیناًکفر و ارتداد ہے جس سے کوئی تاویل نہیں بچا سکتی۔ صحابہ کرامؓ سے لے کر آج تک امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے۔ عقیدہ ختمِ نبوت کا منکر وہی شخص ہوسکتا ہے جو حضور نبی کریم کی نبوت و رسالت پرہی ایمان نہ رکھتا ہو کیونکہ اگر یہ شخص آپ کی رسالت کا قائل ہوتا تو جن چیزوں کی آپ نے خبر دی ہے، ان میں آپ کو سچا سمجھتا۔ جن دلائل اور طریق تواتر سے آپؐ کی رسالت، نبوت اور دعوت ہمارے لیے ثابت ہے، ٹھیک اسی درجہ کے تواتر سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ آپ ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں اوراب قیامت تک کوئی نیا نبی نہ ہوگا ۔بالفاظ دیگر جس شخص کو ختم نبوت کے اس مفہوم میں شک ہو، اسے خود رسالت محمدیﷺمیں بھی یقیناً شک ہوگا۔
ختم نبوت پر ایمان اسلام کے دور آغاز سے آج تک ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی جزو رہا ہے اور جب کبھی بھی جھوٹے مدعیان نبوت کی صورت میں ہنود ویہود نے دین اسلام کے خلاف سازش کی ہے ۔عاشقان رسول ﷺ اور وارفتگان ختم نبوت نے ان سازشوں کو ناکام بنایا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی انگریزوں کی زیر سرپرستی اس قسم کی سازش قادیانیوں کے وجود ناپاک کی صورت میں پیدا کی گئی تاہم علما و صلحائے امت کی علمی اور عملی کاوشوں سے بالآخر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ تاہم یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہر مسلمان کو ختم نبوت کے عقیدے کا علم پوری طرح ہو اور وہ جان و دل سے اس عقیدے کی حفاظت کے لیے تیار و مستعد رہے۔
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کہ کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
عقیدہ ختم نبوت سے متعلق ہم نہیں دیکھتے کہ آج تک امت مسلمہ کے کسی بھی دور میں کوئی اشکال و اعتراض کیا گیاہو ۔یہ مسئلہ ہمیشہ مسلمانوں میں متفقہ رہا ہے۔ اس کی وجہ قرآن و حدیث کی بہت سے نصوص اور تصریحات ہیں۔ ذیل میں ہم ان کا ایک اجمالی جائزہ پیش کرررہے ہیں:
عقیدہ ختم نبوت اور قرآن کریم:
عقیدہ ختم نبوت سے متعلق قرآن کریم میں بے شمار صریح آیات ہیں، ان میں سے چندایک ہی فی الوقت ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں:
مسلمانوں پر جس طرح لاالہ الا اﷲ ماننا، اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کو احدو صمد، وحدہ لاشریک لہ جاننا فرض اول و مناط ایمان ہے، اسی طرح محمد رسول اﷲﷺ کو ’’خاتم النبیین‘‘ ماننا، ان کے زمانے میں یاان کے بعد کسی نئے نبی کی بعثت کو یقینی طور پر محال و باطل جاننا اہم فرض اور جزو ایقان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود یہ فرما کر نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت پر مہر ثبت کردی ہے کہ :
ولکن رسول اﷲ و خاتم النبیین
’’ ہاں(محمدﷺ) اﷲ کے رسول ہیں اور (سب نبیوں کے بعد تشریف لانے والے)خاتم النبیین ہیں۔‘‘(الاحزاب: 40/33)
قرآن نص قطعی ہے، اس کا منکر ، اس میں شک کرنے والا کہ ادنیٰ ضعیف احتمال کی وجہ سے اس کا خلاف کرنے والا بھی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔
اس سورہ ٔ مبارکہ میں ایک اور مقام پر نبی اکرم ﷺ کی حیثیت بطور حکم اور قانون ساز بیان کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وماکان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اﷲ ورسولہ امراً ان یکون لہم الخیرۃ من امرہم، ومن یعص اﷲ ورسولہ فقد ضل ضلٰلاً مبیناً(الاحزاب: 36/33)
’’اور نہ کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اﷲ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ مانے اﷲ اور اس کے رسول کا وہ بے شک صریح گمراہی میں مبتلا ہے۔ ‘‘گویا اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے کسی معاملے میں فیصلہ فرمادینے کے بعد کسی مسلمان کو اختیار نہیں ہے وہ اس کے خلاف رائے بھی دے یا دل میں بھی برا منائے۔ یہاں یہ ثابت ہے کہ محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ فرمادینے کا ذکر نہیں ہوا بلکہ اللہ اور رسولؐ کا ایک ساتھ ذکر نبی اکرم ؐ کی حیثیت بطور حکم نہایت واضح کررہا ہے۔
اب اگر رسول اللہ ﷺ کو ہی حکمران اور ان کے بنائے ہوئے قوانین کو قطعی حیثیت حاصل ہے تو آپؐ کے بعد کسی اور نبی کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔
اس طرح ایک اور مقام پر اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے:
وما اٰتٰکم الرسول فخذوہ وما نہٰکم عنہ فانتہو واتقوا اﷲ ان اﷲ شدید العقاب (الحشر: 7/59)
’’ اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں، باز رہو اور اﷲ سے ڈرو، بے شک اﷲ کا عذاب سخت ہے۔‘‘
سورۃ اعراف کی درج ذیل آیہ مبارکہ بھی نبی اکرم ﷺ کی نبوت کے خاتم ہونے پر دلیل ہے:
قل یآایھا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا الذی لہ ملک السمٰوٰت والارض، لا الہ الا ہو یحی و یمیت فاٰمنو باﷲ و رسولہ النبی الامی الذی یومن باﷲ وکلمٰتہ واتبعوہ لعلکم تہتدون (سورۂ اعراف: 158/7)
’’آپؐ فرمادیجیے، اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اﷲ کا رسول ہوں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کو ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جلائے اور مارے تو ایمان لاؤاﷲ اور اس کے رسول بے پڑھے غیب بتانے والے پر کہ اﷲ اور اس کی باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی غلامی کرو کہ تم راہ پاؤ۔‘‘
تفسیر خزائن العرفان میں مولانا نعیم الدین فرماتے ہیں :
’’یہ آیت سید عالمﷺ کے عموم رسالت کی دلیل ہے کہ آپﷺ تمام خلق کے رسول ہیں اور کل جہاں آپ کی امت۔بخاری و مسلم کی حدیث ہےکہ حضورﷺ فرماتے ہیں: پانچ چیزیں مجھے ایسی عطا ہوئیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہ ملیں ۔نیز فرمایا: ہر نبی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں (تمام انسانوں)سرخ و سیاہ کی طرف مبعوث فرمایا گیا… اور میں تمام خلق کی طرف رسول بنایا گیا اور میرے ساتھ انبیاء ختم کئے گئے۔‘‘
سورۃ الانبیا کی مشہور آیت پر غور فرمائیے:
ومآ ارسلنٰک الا رحمۃ للعٰلمین (سورۂ انبیا: 107/21)
ترجمہ: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لئے‘‘
ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شیٔ علیماً (الاحزاب: 40/33)
’’’محمدﷺ تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں، ہاں اﷲ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اﷲ سب کچھ جانتا ہے۔‘‘
تفسیر خزائن العرفان میں اس آیہ مبارکہ کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے :
’’یعنی آپؐ آخر الانبیاء ہیں کہ نبوت آپ ؐپر ختم ہوگئی۔ آپؐ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی حتیٰ کہ جب حضرت عیسٰی علیہ السلام نازل ہوں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں مگر نزول کے بعد شریعت محمدیہ پر عامل ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپؐ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نمازپڑھیں گے، حضور کا آخر الانبیاء ہونا قطعی ہے۔ نص قرآنی بھی اس میں وارد ہے اور صحاح کی بکثرت احادیث توحد تواتر تک پہنچتی ہیں۔ ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرمﷺ سب سے آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں جو حضورﷺ کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے، وہ ختم نبوت کا منکر اور کافر خارج از اسلام ہے‘‘
ختم نبوت اور احادیث:
نبی اکرم ﷺ کی بہت سے مستند اور صحیح احادیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آپؐ کے بعد کوئی دوسرا نبی اور رسول نہیں آئے گا اور یہ کہ آپؐ کی نبوت قیامت تک کے انسانوں کے لیے ہے۔
1۔ صحیح مسلم و مسند امام احمد و سنن ابو دائود و جامع ترمذی و سنن ابن ماجہ وغیرہ میں ثوبان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ فرماتے ہیں:
انہ سیکون فی امتی کذابون ثلثون کلہم یزعم انہ نبی وانا خاتم النبیین لانبی بعدی (جامع ترمذی، ابواب الفتن)
’’ بے شک میری امت میں تیس کذاب ہوں گے کہ ہر ایک اپنے آپ کو نبی کہے گا اور میں خاتم النبیین ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
2۔ امام احمد ’’مسند‘‘ اور طبرانی ’’معجم کبیر‘‘ اور ضیائے مقدسی ’’صحیح مختارہ‘‘ میں حذیفہ رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ فرماتے ہیں:
یکون فی امتی کذابون ودجالون سبعۃ و عشرون منہم اربعۃ نسوۃ وانی خاتم النبیین لا نبی بعدی (المعجم الکبیر للطبرانی)
’’ میری امت میں ستائیس دجال کذاب ہوں گے۔ ان میں چار عورتیں ہوں گے حالانکہ بے شک میں خاتم النبیین ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
مذکورہ احادیث میں نئے ’’نبی‘‘ کی نفی کی گئی ہے۔ رسول کی نہیں، تو کیا نیا ’’رسول‘‘ آسکتا ہے؟ جواب آنے والی حدیث میں ہے۔
3۔ احمد وترمذی و حاکم بسند صحیح بر شرط صحیح مسلم حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲﷺ فرماتے ہیں:
ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولانبی (جامع الترمذی، ابواب الرؤیا)
’’ بے شک رسالت و نبوت ختم ہوگئی اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ نبی۔‘‘
4۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم و سنن ترمذی و تفسیر ابن حاتم و تفسیر ابن مردویہ میں جابر رضی اﷲ عنہ سے ہے رسول اﷲﷺ فرماتے ہیں:
مثلی و مثل الانبیاء کمثل رجل ابنتی داراً فاکملہا واحسنہا الا موضع لبنۃ فکان من دخلہا فنظر الیہا قال، مااحسنہا الا موضع اللبنۃ فانا موضع اللبنۃ فختم بی الانبیاء (صحیح مسلم، کتاب الفضائل)
’’ میری اور دیگرنبیوں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک مکان پورا کامل اور خوبصورت بنایا مگر ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی تو جو اس گھر میں جاکر دیکھتا، کہتا یہ مکان کس قدر خوب ہے مگر ایک اینٹ کی جگہ خالی ہے تو اس اینٹ کی جگہ میں ہوا ،مجھ سےبعد انبیاء ختم کردیے گئے۔‘‘
5۔ مسند احمد و صحیح ترمذی میں باوفادہ تصحیح ابی بن کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہے۔ رسول اﷲﷺ فرماتے ہیں:
مثلی فی النبیین کمثل رجل بنی داراً فاحسنہا واکملہا واجملہا وترک فیہا موضع لبنۃ لم یضعہا فجعل الناس یطوفون بالبنیان ویعجبون منہ ویقولون لو تم موضع ہذہ اللبنۃ فانا فی النبیین موضع تلک اللبنۃ (جامع ترمذی)
’’پیغمبروں میں میری مثال ایسی ہے کہ کسی نے ایک مکان خوبصورت و کامل و خوشنمابنایا اور ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی وہ نہ رکھی، لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اس کی خوبیو خوشنمائی سے تعجب کرتے اور تمنا کرتے کسی طرح اس اینٹ کی جگہ پوری ہوجاتی تو انبیاء میں اس اینٹ کی جگہ میں ہوں‘‘
ختم نبوت کے عقلی دلائل:
عقیدہ ختم نبوت جس طرح قرآن و سنت اور سواد اعظم سے ثابت ہے، اسی طرح عقل صحیح بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ آپﷺ کے دنیا میں مبعوث ہوجانے کے بعد رہتی دنیا تک کسی نئے نبی یا رسول کی ضرورت نہ ہو۔ کیسے؟
قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حالات جن میں حضرات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا گیا ،وہ چار قسم کے تھے:
پہلی قسم: ایسی اقوام موجود تھیں جن میں پہلے کوئی نبی نہیں آیا تھالہٰذا ان کی ہدایت کے لیے نبی کی ضرورت تھی۔
دوسری قسم: کسی گروہ انسانی تک نبی تو بھیجا گیا لیکن اس کی لائی ہوئی شریعت میں تحریف ہوگئی اور نیا نبی نئی شریعت لے کر تشریف لایا ہو۔ جیسے بنی اسرائیل نے شریعت موسوی میں تحریف کردی تھی، تو حضرت عیسٰی روح اﷲ علیہ السلام نئی شریعت لے کر ان میں تشریف لائے۔
تیسری قسم: گزشتہ نبی کی تعلیمات انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر حاوی نہ تھیں تو پچھلی شریعت کی تکمیل کے لئے نیا نبی مبعوث کیا گیا۔
چوتھی قسم: کبھی ایک نبی کی زندگی ہی میں اس کی معاونت کے لیے دوسرا نبی بھیجا گیا۔ مثلا حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما الصلوٰۃ والسلام۔
اب اگر ان حالات پر غور کریں کہ آج ان حالات میں سے کون سی حالت پائی جاتی ہے؟ تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ الحمدﷲ آج مذکورہ حالات میں سے کوئی حالت نہیں پائی جاتی۔
1۔ کیونکہ رسول اﷲﷺ کے لائے ہوئے دین اسلام کا پیغام کرۂ ارض کے گوشے گوشے میں پہنچ چکا ہے۔
2۔ آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیےہوئے ہے، اس میں حیات انسانی کے کسی شعبہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔
3 ۔آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل کردہ کتاب قرآن کریم آج بھی بحمدﷲ تعالیٰ اسی طرح صحیح سلامت بغیر کسی کمی بیشی کے ہمارے پاس ہے، جس طرح نبی اکرمﷺ پر نازل کیا گیا تھا۔ تقریباً دو ہزار سال کا عرصہ گزرا لیکن انجیل کے کسی ایک متن پر اتفاق نہ ہوسکا جبکہ مسلمانوں کے اگرچہ کئی فرقے ہوئے جن میں اختلاف بھی رہا لیکن قرآن کریم پر سب کا ایمان ایک ہی رہا۔ اس میں حروف تو کیا زیر و زبر کی تبدیلی بھی نہ آئی، اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ قیامت تک کے لئے یہی ایک کتاب ہدایت ہے، اور کیونکر نہ ہو کہ اس کی حفاظت کا ذمہ اﷲ تعالیٰ نے خود لیاہے۔
4۔ چوتھا نکتہ یعنی کسی مددگار نبی کی ضرورت کا جائزہ لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر کسی ہستی کو آپﷺ کی اعانت کے لئے نبی بنایا جانا ضروری تھا تو وہ آپﷺ کی زندگی میں بنایا جاتا، کیونکہ اسلام کے ابتدائی دور میں کفار و مشرکین نے طرح طرح کے مظالم کیے جس کی وجہ سے نبی کریمﷺ کو مختلف قسم کی اذیتیں اور دکھ اٹھانا پڑے۔ جب اس دور میں آپﷺ کی حیات مبارکہ میں کسی نبی کو آپﷺ کی مدد کے لئے ضروری نہیں سمجھا گیا تو پھر آج کے دور میں جبکہ اسلام کرۂ ارض کے کونے کونے میں رسول اﷲﷺ کا پیغام امن وسلامتی پہنچ چکا ہے، کسی بھی نبی کی بعثت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
خلاصہ کلام:
قرآن و حدیث کے مطالعہ اور عقل و دلیل دونوں سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ آپؐ صرف اپنے ملک، اپنے زمانے اور اپنی قوم کے لیے ہی نہیں بلکہ آپ قیامت تک پوری نوع انسانی کے لیے رسول مبعوث فرمائے گئے۔لہذا رسالت پرایمان لانے میں یہ داخل ہے کہ آپؐ کو انسانیت کی طرف اللہ کا آخری رسول ماناجائے،اوریہ عقیدہ رکھا جائے کہ رسولؐ جوکچھ بتائے وہ حق ہے جو کچھ کہے وہ سچ اور جو عمل کرے وہ قابل اتباع ہے۔ ان کی بتائی ہوئی تمام باتوں پر عمل کرنا فرض ہے، خواہ ان باتوں کا تعلق عبادت و معاملات، تہذیب و معاشرت، اخلاق و کردار یا زندگی کے کسی بھی شعبہ سے ہو، اس لیے کہ یہی اسوہ کامل ہے۔
نبوت محمدی ﷺکی خاتمیت نے آپ ﷺکی سیرت طیبہ کو کائنات انسانی کی آخری پیغمبرانہ سیرت بنا دیا ہے۔ باری تعالیٰ نے ہرچند آپ ﷺکو خلقاً اوّل الانبیاء بنایا مگر آپ ﷺبعثاً آخر الانبیاء قرار دیئے گئے گویا آپ ﷺنبوت کے ملنے میں سب سے مقدم کئے گئے مگر نبوت کے ظاہر کرنے میں سب سے موخر کئے گئے تاکہ اولین و آخرین کے تمام فضائل و کمالات آپ کے دامن نبوت میں سمٹ جائیں۔ چونکہ آپ ﷺکو خاتم الانبیاء بنایا گیا اس لئے آپ ﷺکی سیرت طیبہ کو وہ کمال و دوام اور حسن و مقام عطا کیا گیا جو آپ سے قبل کسی کو نہ ملا اور نہ ہی آپ ؐ کے بعد کسی کو نصیب ہوسکتا ہے۔ آپ ﷺکی آمد سے نظام نبوت کے بپا کئے جانے کا مقصد پورا ہو گیا، آپ ﷺکی بعثت سے سلسلہ رسالت کے قیام کی غرض و غایت مکمل ہو گئی سو ضروری تھا کہ اب باب رسالت کسی بھی نئی بعثت کے لئے بند کر دیا جائے اور ختم نبوت کا دائمی اعلان کر دیا جائے تاکہ قیامت کے دن تک جملہ ادوار و زمن نبوت و رسالت محمدی ﷺکے زیر سایہ رہیں اور آئندہ تمام انسانی نسلیں فیضان سیرت محمدیﷺسے فیض یاب ہوں۔