عالمی ریاست کی طرف گامزن دنیا میں اسلام کے لیے چیلنج کیا ہوگا؟
دنیا بہت عرصے تک الگ الگ سیاسی یونٹوں میں منقسم نہیں رہ سکتی۔ اُس کو ایک عالمی ریاست بننا ہو گا۔ اس عالمی ریاست کی فکری بنیادیں کیا ہوں گی؟ یہ ایک حل طلب سوال ہے۔
دنیا بہت عرصے تک الگ الگ سیاسی یونٹوں میں منقسم نہیں رہ سکتی۔ اُس کو ایک عالمی ریاست بننا ہو گا۔ اس عالمی ریاست کی فکری بنیادیں کیا ہوں گی؟ یہ ایک حل طلب سوال ہے۔
نبی کریمﷺ ورثے میں 9 تلواریں دے گئے امت کو ، جو ان کے حجرے میں وصال کے وقت لٹکی تھیں۔ جہاد میں ہی عزت ہے، نشانوں پر نظر رکھنے میں عظمت ہے، اور گھوڑوں کو تیار رکھنے میں سالمیت ہے۔ بےشک عزت ہے اللہ کے لیے، اس کے رسول کے لیے اور مومنین کے لیے۔ یہ بزدل، موت سے ڈرنے والی، تکاثر کی چاہ میں برباد ہونے والی امت، ہمارے رسول کی امانت دار تو نہیں۔ یہ خوف اور دنیا کی چاہ تو ہمیں کسی اور نے انجیکٹ کی ہے۔ اقبال نے کہا تھا، وہ نبُوّت ہے مسلماں کے لِیے برگ حشیش ، جس نبُوّت میں نہیں قُوّت و شوکت کا پیام
اسی تحریک کے ثمرات تھے کہ میلکم ایکس (عمر شہباز شہید) جیسے لوگ اس عظیم مشن کو باضابطہ آگے بڑھانے کیلئے میدان میں آگئے ۔طاغوت کو یہ کیسے برداشت ہوتا ۔ چنانچہ پوری قوت ان لوگوں کو مٹانے میں لگ گئی۔ جو میلکم ایکس کی شہادت کا باعث بھی بنی اور مسلمانوں کے آپس کے مسائل کا بھی ۔
میں سوچتا ہوا گاڑی میں آبیٹھا۔ غربت کی آگ ضرور بھڑک رہی ہے ۔مفلسی کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ مگر آسمانوں سے ابابیلوں کے جھنڈ بھی، اپنی چونچوں میں پانی کی بوندیں لیے، قطار باندھے اتر رہے ہیں۔ خدا کے بندے اپنا کام کررہے ہیں۔چپ چاپ۔ گم نام۔ صلے و ستائش کی تمنا سے دور۔ اس یقین کے ساتھ، کہ خدا دیکھ رہا ہے اورمسکرا رہا ہے ، کہ اس کے بندے اب بھی اس کے کام میں مصروف ہیں۔
وہ ، جو اس ملت اور امت کی آبیاری کے لیے جان پر کھیلا کرتے تھے، وہ جنہوں نے اس شجرِ طیّبہ کو اپنے خونِ جگر سے سینچا اور پروان چڑھایا ہے، وہ جو اِن روِشوں کو اپنے نالۂ نیم شب سے گل و گلزار کر گئے ، وہ جو بیچتے تھے دَوائے دِل ، وہ دکان اپنی بڑھا گئے ، فادخلی فی عبادی ، وادخلی جنتی
بیسویں صدی وہ عرصہ ہے جس میں اسلام کے مقابل اشتراکیت ، الحاد اور سرمایہ دارنہ نظام کھل کر آ گئے۔ ایسے میں بہت سے اسلام کے سپاہیوں نے امت کی رہنمائی اور اسلام کا دفاع کیا۔ برصغیر میں اس کام کا بڑہ اور مسلمِ خوابیدہ کو اٹھ کر ہنگامہ آرا ہونے پر اکسانے والی سب سے نمایاں دو شخصیات علامہ محمد اقبال اور سید مودودی تھیں۔
وہ جو غفور الرحیم ہے،جس کا رحم و کرم اور رحمت اس کے غضب پر حاوی ہے،چھوٹے بڑے گناہوں اور خطاؤں کو وہ نظر انداز فرما دیتا ہے یا ان کا حساب روزِ آخرت تک مؤخر فرما دیتا ہے ،لیکن کیا وہ اپنے محبوب ترین فرستادہ و رسول کی شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والے کو نشانِ عبرت نہیں بنائے گا؟ شہید احسن عزیز ؒ نے کہا تھا لو تباہی کا اپنی تماشا کرو عمر باقی ہے جو زخم دھوتے رہو خود پہ روتے رہو! ظالموں پر نہ افسوس کوئی کرے قاتلوں پر نہ آہیں کو ئی بھی بھرے جن کو مٹی کا پیوند رب نے کیا جو ہو مومن انہیں آج پُرسہ نہ دے
جب تبوک کی فتح یاد آئے تو خندق کے جانثاروں کو مت بھولیے، اگر بدرمیں جانبازوں نے جان کی بازی نہ لگائی ہوتی تو یرموک کیسے برپا ہوتی۔ ایران، روم اور ہند کے دروازے کیونکر کھلتے اگر کھولنے والا خیبر کے پہاڑی قلعے کے دروازے نہ کھول دیتا؟؟
’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ محض ایک کتاب نہیں،بلکہ تاریخ ہے ایک طویل جدوجہد کی جس کا نتیجہ ایک طرف سنت رسول اور اسلامی ذخیرہ احادیث پر معترض طبقہ کی مستقل خاموشی کی صورت میں برآمد ہوا اور دوسری طرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام میں سنت کی تشریعی و قانونی حیثیت بعد کتاب اللہ ہمیشہ کے لیے دوسرے مستند و مامون ماخذ کی طے ہوگئی۔
مولانا مودودیؒ کی شخصیت، ان کی علمیت اور ان کے تجدیدی کارنامے اتنے بڑے ہیں کہ ان کو ان الفاظ کی ضرورت نہیں لیکن پھر بھی علامہ البانیؒ جیسے محدث کے یہ الفاظ اس بات کی گواہی ہے کہ عرب جن کو اپنا امام اور استاد مانتے ہیں، وہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو استاد اور مجاہد کہہ کر پکارتے ہیں۔