اسی خیال اسی غم میں ڈھل گیا ہوں میں
اسی خیال اسی غم میں ڈھل گیا ہوں میں
بدل گئے ہو تمہیں یا بدل گیا ہوں میں
تری نظر کا یہ احسان کون بھولے گا
کہ لغزشوں کی بدولت سنبھل گیا ہوں میں
گلے لگا لیا خود شعلۂ محبت کو
عجیب بات ہے دانستہ جل گیا ہوں میں
نظر زمانے کی چھوڑ آئی تھی جہاں مجھ کو
اب اس مقام سے آگے نکل گیا ہوں میں
مرا وجود بھی اب ہے مری حیات پہ بار
عجب نہیں کہ زمیں کو بھی کھل گیا ہوں میں
جہاں کسی نے محبت سے مجھ کو یاد کیا
بصد خلوص وہاں سر کے بل گیا ہوں میں
شفقؔ پسینے پسینے ہوئے وہ جانے کیوں
کبھی جو تھام کے دامن مچل گیا ہوں میں