عشق رسول علیہ السلام میں لبریز گلہائے عقیدت
محبوب مجازی ہو تو زندگی لمحہ لمحہ کر ب میں گزرتی ہے اور اگر محبوب حقیقی ہو تو گلہائے عقیدت نچھاور کیے جاتے ہیں۔محبوب کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے نثر اور شاعری میں اہل ادب ادیبوں اور شاعروں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق لفظوں کے پھول نچھاور کیے ہیں۔اپنے جذبات و احساسات کو مختصر انداز میں پیش کرنا جس سے مکمل مفہوم بھی کھل کر عیاں ہو جائے شاعری کے علاوہ کسی دوسری صنف میں ممکن نہیں ہے۔
جب سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے اس نے اپنے محبوب حقیقی اور مجازی دونوں کے لیے مدحت سرائی کی ہے۔میرے نزدیک دُنیاوی محبوب کوئی معانی نہیں رکھتا شاید آپ مجھ سے اتفاق کریں یا نہ کریں،مگر محبوب حقیقی کے لیے شاعروں نے دیوان کے دیوان تخلیق کر دئیے ہیں۔کسی نے حمدیہ شاعری کرکے اللہ تعالیٰ کی مدحت سرائی کی ہے۔اس خالق کائنات کے لیے جس کو کسی قسم کی تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔سمندروں کا پانی سیاہی بن جائے،درخت قلم بن جائیں اور لکھنے والے فرشتے بھی ہوں تب بھی اس ذات کبریائی کی حمد و ثنا ممکن نہیں لیکن حضرت ِانسان نائب خدا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے تئیں کوششیں ضرور کرتا ہے۔
اس خالق کائنات کا محبوب جس کی محبت میں یہ کائنات سجائی گئی اور اس کائنات میں ان گنت نعمتوں کی بارش برسائی،جس کا ذکر خود خدا بھی کرتا ہے اور اپنے فرشتوں سے بھی کرواتا ہے۔جس کی محبت میں ساتوں آسمان سجائے،زمین سجائی اور اس میں طرح طرح کے میوے،پھل،اناج اگائے۔پتھروں میں زندگیاں بسائیں،آبشاروں میں ترنم پیدا کیا،بادلوں میں گرج پیدا کی،پھولوں میں مہک پیدا کی،دریاوں میں روانی دی،یہی نہیں چرند پرند،پتھر،نباتات،جمادات و حیوانات سب اس کی تعریف کے لیے پیدا کیے اور یہ سب اپنے اپنے انداز میں اللہ کے محبوب کی مدحت سرائی میں مصروف عمل ہیں۔
انسانوں میں وہ شخص کتنا خوش بخت ہے جس کے ہاتھوں میں قلم تھما دیاگیا۔ اس کے تخیل اور دل میں اپنے محبوب کی محبت ڈال دی۔وہ شخص اپنے لبوں سے،اس کے محبوب کے قصیدے پڑھتا ہے اس کا قلم اس کی نعت لکھتا ہے۔اس کا انگ انگ اپنے خالق کے محبوب کی محبت میں ہمہ تن محو رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے محبوب کے لیے ہزاروں کتب لکھی گئیں،لکھی جا رہی ہیں اور لکھی جاتی رہے گی لیکن قیامت تک اس کی مدحت سرائی میں کمی نہیں آئی گی۔
عشرت گورداسپوری عرصہ ساٹھ سال سے بچوں کے لیے حمدیہ اور نعتیہ شاعری کر رہے ہیں۔یہ خالق کائنات اور اس کے محبوب کی محبت کا ثمرہے کہ ان کے چہرے پہ مسکراہٹ رہتی ہے لبوں پہ ذکر حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلیم رہتا ہے۔آپ خوش اخلاق،مہمان نواز،نفیس شخصیت کے مالک ہیں۔آپ کا دل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلیم کی محبت سے روشن ومنور ہے۔میری ان سے دوران تقریبات ملاقاتیں رہی ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کے علم وعمل،صحت وجان میں برکتیں عطا فرمائے آمین!
علم وقلم کا مجھے شوق دے
حمد ونثا ء کا مجھے ذوق دے
مدحت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو یا تعریف خدا،نثر ونظم لکھنے والوں نے اپنے اپنے تخیل سے قلم سے دل کے جذبات و احساسات اپنے اپنے انداز میں قرطاس پر پھیلائے ہیں۔کسی نے بغیر نقطوں والی نعتیں لکھیں اور کسی نے حمد،کسی نے م سے محبت کا ثبوت دیا تو کسی نے م سے محبوب کے قصیدے پڑھے۔عشرت گورداسپوری نے اپنے قلم سے ”گلہائے عقیدت“کے پھول اپنے خوبصورت انداز میں نچھاور کیے ہیں۔
شاہی کے گو سب کے سر تاج ہیں
مگر سب کے سب تیرے محتاج ہیں
”گلہائے عقیدت“ عشرت گورداسپوری نے ۱۳۱حمدیہ اشعار اور ۳۴۱نعتیہ اشعار پر مشتمل خوبصورت گلدستہ سجایا ہے۔جس کا انتساب خالق کائنات اور اس کے محبوب کے نام ہے۔بچوں کا پرستان کے مدیر اعلی امان اللہ نیئر شوکت،اپنے دوست،ہم عصر شاعر،رفیق عشرت گورداسپوری کے بارے اعلی اور عمدہ رائے کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں:”عشرت گورداسپوری کی محبت اور عقیدت میں ڈوبی ہوئی حمدیہ اورنعتیہ شاعری اصلاحی پہلو سے خوب لبریز ہے۔ان کی نظمیں بچوں کے رسائل میں بے حد مقبول و معروف ہیں۔نظموں کو اصلاحی،سبق آموز اور اسلامی پہلو کے انداز میں پیش کرنا عشرت گورداسپوری کا کمال ہے۔عشرت گورداسپوری برس ہا برس سے بچوں کے ادب کی ترویج وترقی کے لیے لکھ رہے ہیں۔ان کے شعوروفکر کی روشنی سے سینکڑوں نونہالان ملت فیض یا ب ہو رہے ہیں۔ان کی شاعری کی تخلیقی اہمیت کو دیکھ کر ایک شعر فوراًذہن میں آجاتا ہے کہ:
دعویٰ ہے سب کو اپنے سخن کے کمال پر
شاعر وہ ہے ک جس کا ہنر بولنے لگے
عشرت گورداسپوری نے حمدیہ اور نعتیہ شاعری میں سہل انداز اپنایا ہے۔مشکل پسندی سے گریز کرتے ہوئے بڑوں اور بچوں کے لیے لکھا تاکہ ہر عام کی سمجھ میں آجائے۔ان کی شاعری میں سچائی کا عنصر خوب غالب ہے۔ان کے نعتیہ اور حمدیہ شاعری سے سچائی کی خوشبو آتی ہے۔معیار اور مقدار کے حوالے سے ادب کی شعری دُنیا میں ان کا نام سر فہرست رہے گا
پیدا کروں ایک میں رازداں
مری ذات ہوجائے جس سے عیاں
ہر شئے مکمل ہوئی جس گھڑی
دُنیا میں تشریف لائے نبی ؐ
ایسے خوبصورت نعتیہ اشعار لکھنے والے عشرت گورداسپوری اپنے فن کے عروج پر ہیں۔ان پر خاص کرم الہی ہے کہ ان کا انداز اسلوب ہر کسی کو اپنا گرویدہ کر لیتا ہے۔وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو دل کی آنکھ سے دیکھ کر اپنے قلم کی نوک سے اس کی واضح تصویر ہمارے سامنے لاتے ہیں۔”گلہائے عقیدت“کا مطالعہ کرتے ہوئے آشکار ہوتا ہے کہ رب کائنات نے اپنے محبوب کو روح زمین پر بھیجنے سے پہلے پہلے کیا کیا انتظامات کیے۔یہ سب انہوں نے اپنی شاعری سے عیاں کیا ہے۔کہتے ہیں:
ہو گی کمی نہ کسی بات کی
کرو تم عبادت اُسی ذات کی
مدحت لکھوں آپ ؐ کی برملا
اتنی سکت مجھ میں نہ حوصلہ
اللہ تعالیٰ سے بدست دعا ہوں کہ عشرت گورداسپوری کو صحت کاملہ کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آپ جیسی شخصیات ہمارے معاشرے اور اُردوادب کے لیے انمول سرمایہ ہیں۔