عشق میں عشق کا عنواں نہیں دیکھا جاتا
عشق میں عشق کا عنواں نہیں دیکھا جاتا
درد میں درد کا درماں نہیں دیکھا جاتا
عالم خواب پریشاں نہیں دیکھا جاتا
دل کو احساس بہ داماں نہیں دیکھا جاتا
ان سے کہہ دے کوئی وہ موند لیں آنکھیں اپنی
جن سے نیرنگ گلستاں نہیں دیکھا جاتا
بے خودی میری وہاں لائی جہاں پھر دل سے
عالم ہوش کو گریاں نہیں دیکھا جاتا
میری مستی کو جو سمجھے ہیں بنام مستی
ان سے پیمانۂ انساں نہیں دیکھا جاتا
ان خزاں آشنا آنکھوں سے برنگ فطرت
کیف ہنگام بہاراں نہیں دیکھا جاتا
زیبؔ کیا ہے یہ نظام غم دوراں توبہ
انقلاب غم دوراں نہیں دیکھا جاتا