عشق کی دھوپ میں ہم تو جلتے رہے

عشق کی دھوپ میں ہم تو جلتے رہے
آبلے پڑ گئے پھر بھی چلتے رہے


اک چراغ محبت جلا تھا کہیں
شمع کی طرح ہم بھی پگھلتے رہے


بے حجابانہ محفل میں وہ آ گئے
اور دوانوں کے ارماں مچلتے رہے


تنگ حالی میں پورے نہیں ہو سکے
خواب مفلس کی آنکھوں میں پلتے رہے


انتہا ہو گئی وحشیوں کی یہاں
کتنی معصوم کلیاں مسلتے رہے


سادگی ہی ہماری سبب بن گئی
میرے اپنے ہی سب مجھ کو چھلتے رہے


عشق نے اتنا بے بس ہمیں کر دیا
جھوٹے وعدوں سے ان کے بہلتے رہے