عشق کا نغمہ جنوں کے ساز پر گاتے ہیں ہم
عشق کا نغمہ جنوں کے ساز پر گاتے ہیں ہم
اپنے غم کی آنچ سے پتھر کو پگھلاتے ہیں ہم
جاگ اٹھتے ہیں تو سولی پر بھی نیند آتی نہیں
وقت پڑ جائے تو انگاروں پہ سو جاتے ہیں ہم
زندگی کو ہم سے بڑھ کر کون کر سکتا ہے پیار
اور اگر مرنے پہ آ جائیں تو مر جاتے ہیں ہم
دفن ہو کر خاک میں بھی دفن رہ سکتے نہیں
لالہ و گل بن کے ویرانوں پہ چھا جاتے ہیں ہم
ہم کہ کرتے ہیں چمن میں اہتمام رنگ و بو
روئے گیتی سے نقاب حسن سرکاتے ہیں ہم
عکس پڑتے ہی سنور جاتے ہیں چہرے کے نقوش
شاہد ہستی کو یوں آئینہ دکھلاتے ہیں ہم
میکشوں کو مژدہ صدیوں کے پیاسوں کو نوید
اپنی محفل اپنا ساقی لے کے اب آتے ہیں ہم