اس وقت غزل کی بات نہ کر
سنتان ہنسے تو کیسے ہنسے
اس وقت ہے ماتا خطرے میں
سنسار کے پربت کا راجہ
ہے اپنا ہمالہ خطرے میں
ہے سامنا کتنے خطروں کا
ہے دیش کی سیما خطرے میں
اے دوست وطن سے گھات نہ کر
اس وقت غزل کی بات نہ کر
مہندی ہوئی پیلی کتنوں کی
سندور لٹے ہیں کتنوں کے
ہیں چوڑیاں ٹھنڈی کتنوں کی
ارمان جلے ہیں کتنوں کے
اس چین کے ظالم ہاتھوں سے
سنسار پھنکے ہیں کتنوں کے
مسکان کی تو برسات نہ کر
اس وقت غزل کی بات نہ کر
مت کاٹ کپٹ کر ماتا سے
دینا ہے جو کچھ ایمان سے دے
یہ پرشن وطن کی لاج کا ہے
جی کھول کے دے جی جان سے دے
گورو کی حفاظت کر اپنے
دے دھن بھی تو پیارے آن سے دے
تو دان نہ دے خیرات نہ کر
اس وقت غزل کی بات نہ کر
جس گھر میں برستا تھا جیون
چھائی ہے وہاں پر ویرانی
بیوہ ہوئیں کتنی سندریاں
مارے گئے کتنے سینانی
کیوں جوش نہیں آتا تجھ کو
ہے خون رگوں میں یا پانی
آزادی کے دن کو رات نہ کر
اس وقت غزل کی بات نہ کر
سنتے ہیں مصیبت آئے گی
آئے گی تو دیکھا جائے گا
جس نے ہمیں کائر سمجھا ہے
اس دیش سے سمجھا جائے گا
ہر شوخ ادا سے کھیل چکے
اب خون سے کھیلا جائے گا
ایسے میں ہمیں بے ہات نہ کر
اس وقت غزل کی بات نہ کر
اب بینڈ پہ گایا جائے گا
یہ ساز نہ چھیڑے جائیں گے
لے رکھ دے ٹھکانے سے یہ غزل
مرنے سے بچے تو گائیں گے
ہے ساتھ ہمارے سچائی
ہم پا کے وجے مسکائیں گے
جیتی ہوئی بازی مات نہ کر
اس وقت غزل کی بات نہ کر