اس واسطے وہ قابل دستار نہیں تھا

اس واسطے وہ قابل دستار نہیں تھا
وہ شخص کسی شہر کا سردار نہیں تھا


منظر یہ مری آنکھ نے دیکھے ہیں لگاتار
دیوار تو تھی سایۂ دیوار نہیں تھا


پتھر تھا محبت کو نہیں جان سکا وہ
وہ شخص تو ہرگز مرا دل دار نہیں تھا


جانا ہے ہمیں لوٹ کے ہرگز نہیں رکنا
کیا ہم نے بتایا تمہیں سو بار نہیں تھا


حالات ہی ایسے تھے بنے ہجر کے قیدی
چاہت سے مگر آپ کی انکار نہیں تھا


میں خانہ بدوشوں کی طرح گھوم رہی تھی
دنیا میں کسی سے بھی مجھے پیار نہیں تھا


آتی ہی نہیں اس کو مری یاد بھی زیبیؔ
رستہ تو مرے گاؤں کا دشوار نہیں تھا