اس شوخ دم شعار سے کہتا سلام شوق
اس شوخ دم شعار سے کہتا سلام شوق
قاصد یہی ہے آج ہمارا پیام شوق
تائید غیب طالع فرخندہ کی مدد
وہ عشوہ سنج آج ہوا ہم کلام شوق
قاصد کیا ہے عہد جو ایفائے عہد کا
صبح امید وصل ہوئی اپنی شام شوق
کیا متصل ہو یار تلون ہے طبع میں
یہ دیر پا کہاں ہے تمہارا قیام شوق
مد نظر جو ہے وہ ہمیں آشکار ہو
اے جذب دل نواز مدار المہام شوق
مجذوب اشتیاق ہیں مست مے جمال
روز نخست سے ہے یہ شرب مدام شوق
بے راہ جا رہا ہے تجھے کچھ خبر نہیں
کس پھیر میں پڑا ہے بتا ہرزہ گام عشق
اس کیف ذوق و شوق میں تصویر یار ہے
فرخ سروش نے یہ دیا ہے پیام شوق
توفیق کا ہے فیض نگاہ دلیل راہ
ہم کو ملا ہے غیب سے کاس الکرام شوق
ساقیؔ وہ دیکھ شاہد مے نوش آ گیا
لبریز ہے یہ شائق نظارہ جام شوق