اس قدر غور سے دیکھا ہے سراپا اس کا
اس قدر غور سے دیکھا ہے سراپا اس کا
یاد آتا ہی نہیں اب مجھے چہرہ اس کا
اس پہ بس ایسے ہی گھبرائی ہوئی پھرتی تھی
آنکھ سے حسن سمٹتا ہی نہیں تھا اس کا
سطح احساس پہ ٹھہرا نہیں سکتے جس کو
ایک اک خط میں توازن ہے کچھ ایسا اس کا
اپنے ہاتھوں سے کمی مجھ پہ نہ رکھی اس نے
میری تو لوح مقدر بھی ہے لکھا اس کا
میں نے ساحل پہ بچھا دی ہے صف ماتم ہجر
لہر کوئی تو مٹا دے گی فسانہ اس کا
وصل اور ہجر کے مابین کھڑا ہوں کاشفؔ
طے نہ ہو پایا تعلق کبھی میرا اس کا