اس جادہ عشاق کی تقدیر عجب ہے

اس جادہ عشاق کی تقدیر عجب ہے
مٹھی میں جہاں پاؤں میں زنجیر عجب ہے


بے وقعت و کم مایہ سہی خواب ہمارے
خوابوں سے الگ ہونے کی تعزیر عجب ہے


میں شعر کہوں اور ترے نام پہ رو دوں
یہ رنج کا پیرایۂ دلگیر عجب ہے


آنکھوں میں بچھے سرمئی مخمل کی ادا اور
محمل میں پھٹے ہونٹوں کی تحقیر عجب ہے


ہر اینٹ مری نظم کو دیتی ہے دلاسا
یہ کنج غزل صحن مزا میر عجب ہے


داغوں کی بہاروں سے معطر ہے کوئی جسم
اور اسم پڑھے جانے میں تاخیر عجب ہے


یہ خاک بسر حسن یہ مہتاب کی ٹہنی
روندی ہوئی سبزے کی یہ جاگیر عجب ہے


نیلائے ہوئے صحنوں کی بستی میں ہے کہرام
دریافتہ سیارے کی تسخیر عجب ہے


دل سکتے کے عالم سے نکلتا نہیں عامرؔ
اک بات کے سہہ جانے کی تاثیر عجب ہے