کیا کھانے کا ذائقہ مخصوص ہوتا ہے؟
ہم اپنے اردگرد موجود چیزوں کے بارے میں معلومات پانچ بنیادی حسوں کے ذریعے اکٹھی کرتے ہیں۔ یہ پانچ حسیات حواس خمسہ کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ان حواس خمسہ میں ایک چکھنے کی حس بھی ہے جوہمیں چیزوں کے ذائقے کے بارے میں بتاتی ہے۔ ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں توانائی کی ضرورت پورا کرنے کے لیے غذا درکار ہوتی ہے۔ غذا کی طلب کو ہم کھانا کھا کر پورا کرتے ہیں۔
ہم کھانا کھا کر ناصرف اپنی توانائی کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں بلکہ اپنی ذائقے کی حس کی تسکین کا سامان بھی کرتے ہیں۔ دنیا کے ہر خطے کی اپنی تہذیب اور اپنا کلچر ہوتا ہے۔ اس خطے کی مرغوب غذائیں اور پکوان اس کلچر کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ پکوان اس علاقے کی اناج، سبزیوں، پھلوں اور موسمی حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔
کون سا کھانا ذائقے دار اور لذیذ ہوتا ہے؟
کھانا پکانا ایک آرٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کھانا میں ذائقے کا دارومدار اجزاء کے تناسب پر ہوتا ہے۔ عمومی خیال یہ ہے کہ کسی جزو کی معمولی سی مقدار میں بھی کمی یا زیادتی ذائقے میں "بگاڑ " کا سبب بن سکتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اجزاء کی کمی بیشی یا ترکیب میں تبدیلی سے کھانے کے ذائقے میں آنے والی وہ تبدیلی جسے ہم "بگاڑ" سمجھتے ہیں آیا واقعی وہ بگاڑ ہوتا ہے۔ کیا بد ذائقہ کھانے واقعی بد ذائقہ ہوتے ہیں یا محض یہ ہماری سوچ (perception) کا کرشمہ ہوتا ہے کہ ہم کسی کھانے کو خوش ذائقہ اور کسی کو بے ذائقہ قرار دے دیتے ہیں ؟
ان سوالات کا جواب دینا ایسے ہی ہے جیسے حُسن کی تعریف چند لفظوں میں بیان کرنا . جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ حسن دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے اسی طرح ذائقہ بھی کھانے والے کی زبان میں ہوتا ہے۔ جس طرح ہم حُسن کو اپنے ذہن میں پہلے سے موجود معیارات کے ساتھ موازنہ کے ذریعے جانتے ہیں۔۔۔ اسی طرح ذائقہ بھی ہمارے ذہن میں پہلے سے محفوظ شدہ "اچھے ذائقے" کے نمونوں کے ساتھ موازنہ کرکے ہم اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں.
جس طرح اس بات کا قوی امکان موجود ہوتا ہے کہ جو چیز ہمیں حسین لگ رہی ہے وہ کسی دوسرے کی نظر میں ایک عام اور سطحی سی چیز ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ ایک کھانا جو ہمیں نہایت لذیذ اور خوش ذائقہ محسوس ہو رہا ہے وہ کسی دوسرے کے لئے بالکل نارمل ذائقے یا بد ذائقہ ہونے کے مقام پر فائز ہو۔
ماہر شیف کون ہوتا ہے؟
یعنی اجزاء کی تبدیلی سے جو بگاڑ پیدا ہوتا ہے وہ اگر پہلے سے موجود معیارات سے قطع نظر دیکھا جائے تو ممکن ہے بگاڑ کی بجائے سدھار ہو۔ ممکن ہے اس لغزش سے کوئی نیا ذائقہ۔۔۔ نئی ڈش وجود میں آگئی ہو کیونکہ ظاہر ہے جو معیاری کھانے آج ہم کھا رہے ہیں کبھی کسی نئے تجربے کے تحت ہی وجود میں آئے ہوں گے۔
تو جناب! اگر غلطی سے آپ نے بریانی میں مصالحہ کم ڈال دیا ہے تو مت سوچئے کہ آپ نے بریانی خراب کر دی ہے بلکہ یہ سمجھئے کہ آپ نے "کم مصالحہ والی بریانی" ایجاد کر لی ہے .آپ اسے نئے نام اور نئے برانڈ کے ساتھ پورے اعتماد سے پیش کیجئے.بعض چیزوں کے نام بدل دینے سے ان کو نئی زندگی میں مل جاتی ہے ۔چیزوں کو دیکھنے پرکھنے اور جانچنے کے پیمانے بدل دینے سے ان چیزوں کے بارے میں ہمارے خیالات اور احساسات بھی بدل جاتے ہیں۔
کیا آپ نے کبھی "وجدانی پکوان" کھایا ہے؟
ہمارے ہاں کھانے روایتی طور پر ترکیب یا (Recipe) کی پیروی کرتے ہوئے پکائے جاتے ہیں لیکن مغرب میں بے ترکیب کھانوں کا رجحان بھی فروغ پا رہا ہے.. "دی نیویارک ٹائمز" نے گزشتہ برس کھانا پکانے کی تراکیب پر مشتمل ایک کتاب شائع کی جس کا ٹائٹل (No-Recipe recipes) تھا. جس میں بے ترکیب کھانوں کی ترغیب دی گئی تھی۔ اسی طرح ایک عالمی طور پر مقبول شیف (David Chang) نے ایک کتاب لکھی جس کا نام
How I learned to stop worrying about recipes تھا ۔
اس کتاب میں بھی موصوف شیف نے اسی فلسفے پر روشنی ڈالی کہ کھانا پکانے کے لیے بے شمار تراکیب کا آنا ضروری نہیں اور نہ ہی ذائقے کا تعلق تناسب اور توازن سے ہے۔ آپ کھانا پکانے کا تجربہ نہ ہونے کے باوجود اچھے بے نام کھانے بنا سکتے ہیں۔ بعض لوگ اس انداز سے کھانا پکانے کو Intuitive Cooking یعنی "وجدانی پکوائی" کا نام بھی دیتے ہیں.اس طریقہ کار کا فائدہ یہ بھی ہے کہ راقم جیسے بالکل پھوہڑ اور کچن میں کام کرنے کی مہارتوں سے نابلد افراد بھی پورے اعتماد کے ساتھ کھانا بنانے کا 'رسک' مول لے سکتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اب 'کھانے میں نمک کم ہے' یا 'مرچ زیادہ ہے' قسم کے اعتراضات سے تھوڑا بلند ہو کر نئے دور کی نئی سوچ کو خوش آمدید کہتے ہیں !