اس درجہ ہوا خوش کہ ڈرا دل سے بہت میں (ردیف .. ا)
اس درجہ ہوا خوش کہ ڈرا دل سے بہت میں
خود توڑ دیا بڑھ کے تمناؤں کا دھاگا
تاکہ نہ بنوں پھر کہیں اک بندۂ مجبور
ہاں قید محبت سے یہی سوچ کے بھاگا
ٹھوکر جو لگی اپنے عزائم نے سنبھالا
میں نے تو کبھی کوئی سہارا نہیں مانگا
چلتا رہا میں ریت پہ پیاسا تن تنہا
بہتی رہی کچھ دور پہ اک پیار کی گنگا
میں تجھ کو مگر جان گیا شمع تمنا
سمجھی تھی کہ جل جائے گا شاعر ہے پتنگا
آنکھوں میں ابھی تک ہے خمار غم جاناں
جیسے کہ کوئی خواب محبت سے ہے جاگا
جو خود کو بدل دیتے ہیں اس دور میں باقرؔ
کرتے ہیں حقیقت میں وہ سونے پہ سہاگا