ایران اور جوہری توانائی

اس جمعے کو ایران اور مغربی طاقتوں کے مابین  نیوکلیر ڈیل کا ساتواں مرحلہ  مزاکرات کے بعد ختم ہو گیا۔ اس مرحلے نے 2015 کے JCPOA معاہدے کو بحال کرنے  کے  معاملات پر فریقین کے اختلافات کو کھل کر  واضح کر  دیا۔ ایرانی وفد نے کہا کہ جب تک ضروری ہو مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے اس کے پاس مینڈیٹ ہے اور وہ آسٹریا کے دارالحکومت میں ہی  موجود رہے گا۔  لیکن یورپی مشنز نے اگلے مرحلے کے لیے مشاورت  کرنے کی خاطر دارالحکومتوں میں واپسی کے لیے مختصر وقفے کا مطالبہ کیا۔

 یہ متوقع ہے کہ تمام نمائندے   آٹھویں مرحلے  میں JCPOA کی بحالی کی کاوش کو آگے بڑھانے اگلے ہفتے کے آخر میں ویانا کے پیلس کوبرگ  کا رخ کریں گے۔  

ایران نے جمعرات کو JCPOA کے مشترکہ کمیشن کو دو دستاویزات پیش کیں جن میں چین، فرانس، جرمنی، روس اور برطانیہ کے مذاکرات کار بھی شامل  تھے۔ اس کے بعد  یورپی نمائندوں  نے یہ دستاویزات امریکہ کو بھیجیں، جو  بالواسطہ  مزاکرات کا فریق ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ اس نے یک طرفہ طور پر 2018 میں معاہدے کو ترک کر دیا تھا اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

دستاویزات میں ایران  کی طرف سے تجاویز کی تفصیل دی  گئیں ہیں کہ کس طرح ایران پر سے پابندیاں ہٹائی  جائیں اور کس طرح ایران اپنی جوہری کاوشوں میں کمی  لائے گا۔  ایران چاہتا ہے کہ 2018 سے اس پر لگائی گئی تمام پابندیاں ایک ساتھ ہٹا دی جائیں،

ایران کی طرف سے ایک تیسری  دستاویز بھی تیار کی گئی ہے۔ یہ دستاویز  جلد روانہ کر دی جائے گی۔ اس میں ایران کی جانب سے اس بات کی   ضمانت مانگی گئی ہے کہ امریکا دوبارہ معاہدے سے دستبردار نہیں ہوگا، اور پابندیاں ہٹانے کی  تصدیق مانگی گئی ہے۔

ایران کی جانب سے ان دستاویزات کو دیکھ کر یورپی نمائندے خاصے مایوس نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دستاویزات ایران کی جانب سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کی حکمت عملی کی نشان دہی   کرتی ہیں۔ ایران، بہت سی ان باتوں سے پلٹ گیا ہے جن پر وہ سابقہ صدر   حسن روحانی کے دور میں مان گیا تھا۔ سینئر یورپی سفارت کاروں کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دستاویزات میں ایران کی طرف سے مانگی گئی کچھ تبدیلیاں 2015 کے معاہدے سے مطابقت نہیں رکھتیں، اور کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ ان  نئی تبدیلیوں  پر حقیقت پسندانہ ٹائم فریم   میں کیسے اتفاق حاصل کیا جا سکے گا۔

امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے بھی جمعے کے روز کہا کہ ایران JCPOA کو بحال کرنے کے لیے ضروری  اقدامات کرنے میں سنجیدہ نہیں دکھائی دیتا ۔  لیکن انہوں نے  یہ عہد کیا کہ  امریکہ ایران کو مذاکرات سے پیچھے نہیں ہٹنے دے گا، جبکہ وہ اپنا جوہری پروگرام آگے بڑھا رہا ہو۔

یورپی بیان کے جواب میں، روس کی طرف سے ان مذاکرات میں نمائندے  کار میخائل الیانوف نے کہا کہ  یورپ کی مایوسی قبل از وقت لگتی ہے کیونکہ تبدیلیاں اب بھی ممکن ہیں۔

 ایران کے ڈپٹی وزیر خارجہ باقری نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ یہ تجاویز ان اصولوں پر مبنی ہیں جنہیں دوسرے فریق بھی قبول کرتے ہیں۔ دوسرے فریقوں نے ایرانی تجاویز کی قانونی حیثیت یا مطابقت پر سوال نہیں اٹھایا۔

اس سے قبل جمعہ کو باقری نے الجزیرہ کو بتایا کہ ایران کی تجاویز کو ہرگز مسترد نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ 2015 کے جوہری معاہدے کی شقوں پر مبنی ہیں۔

جب ویانا مذاکرات جاری تھے، تو بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) نے ایک رپورٹ میں اعلان کیا کہ ایران نے زیر زمین فورڈو تنصیب میں یورینیم   کو بیس فیصد تک خالص کرنے کے لیے افزودگی شروع کر دی ہے۔

 ایران  کا "بریک آؤٹ ٹائم"  ایک ماہ تک پہنچ چکا ہے۔ بریک آؤٹ ٹائم وہ وقت ہوتا ہے ۔ جو اس بات کا اشارہ دیتا ہے  کسی ملک کو اگر جوہری ہتھیار تیار کرنا پڑیں تو وہ کتنا وقت   لے گا۔ ایران ، اب جو صلاحیت حاصل کر چکا ہے، اس کے مطابق اسے جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے ایک ماہ لگے  گا۔

تاہم ایران نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ کبھی بھی بم کی  نہیں  بنائے گا اور اس کا جوہری  منصوبہ  بالکل پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ آئی اے ای اے نے تصدیق کی ہے کہ ایران فی الحال بم رکھنے کے لیے درکار 90 فیصد افزودگی میں ملوث نہیں ہے۔

تاہم، جمعے کے روز ایک انٹرویو میں، IAEA کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے خبردار کیا کہ اگر ایران مزید مسائل سے بچنا چاہتا ہے تو اسے  IAEA  کے معائنہ کاروں کو غیر متزلزل رسائی دینی چاہیے۔

ایران اور عالمی جوہری نگراں ادارے کے درمیان حالیہ مہینوں میں کئی مسائل پر اختلافات رہے ہیں۔ ویانا مذاکرات سے ایک ہفتہ قبل گروسی کا دورہ تہران کسی معاہدے یا صرف مشترکہ  بیان جاری کرنے  پر اتفاق پیدا نہیں کر سکا، لیکن دونوں فریقین نے بات چیت کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا۔

 

مترجم: فرقان احمد