یومِ خودی: اقبال کے یوم وفات پر خصوصی تحریر
20 اپریل1938 کی شب تھی !
برصغیر کے مسلمانوں میں عقابی روح بیدار کرنے والا اور انہیں ستاروں سے آگے کے جہانوں کا پتہ بتانے والا داناۓ راز بستر علالت پر تھا. مرض میں رفتہ رفتہ اضافہ ہو رہا تھا۔ ان کے کمرے میں میاں محمد شفیع، ڈاکٹر عبدالقیوم اور راجہ حسن اختر رنجیدہ مغموم ان کی پل پل بگڑتی ہوئی حالت کو بے بسی سے دیکھ رہے تھے۔ ان اصحاب کے علاوہ اقبال کا باوفا خادم علی بخش بھی ان کی خدمت میں موجود تھا۔ لگ بھگ رات کے 2 بجے ہوں گے جب اقبال کے صاحبزادے جاوید اقبال کمرے میں داخل ہوئے۔ اقبال نے نحیف سی آواز میں پوچھا " کون ہے؟"
جاوید اقبال نے جواب دیا " جاوید ہوں"
اقبال نے فرمایا :
"جاوید بن کر دکھاؤ"
کیا خوبصورت الفاظ تھے۔۔۔ ایک شفیق باپ کے ایک بیٹے کے لیے۔۔۔ جن میں والہانہ محبت تھی۔۔۔ دعا تھی۔۔۔ اور دل کی گہرائیوں سے نکلی تمناؤں، آرزؤں اور امیدوں کا اظہار تھا۔ چوہدری محمد حسین وہاں موجود تھے، ان سے مخاطب ہوکر اقبال نے فرمایا:
" اسے جاوید نامہ کے آخر میں وہ دعا 'خطاب بہ جاوید' ضرور پڑھائیں"
کیا تھا اس نظم میں!
اقبال کی نظم "خطاب بہ جاوید" پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے. جس میں انہوں نے بظاہر تو اپنے صاحبزادے سے خطاب کر کے پندونصائح کیے ہیں لیکن درحقیقت وہ اس امت کے تمام نوجوانوں سے مخاطب نظر آتے ہیں۔ اقبال نے اس طویل نظم میں اپنی زندگی اور اپنی فکر کا نچوڑ سمودیا ہے۔ نظم کے آخر میں وہ جاوید اقبال سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں:
اے مرا تسکین جان نا شکیب
تو اگر از رقص جاں گیری نصیب
سرِدینِ مصطفیٰ گویم ترا
ہم بقبر اندر دعا گویم ترا
یعنی اے میرے فرزند تو میرے لئے بے قرار جان کی تسکین ہے۔۔۔ اگر تجھے رقصِ جاں کی کیفیت نصیب ہو جائے، تو پھر میں تجھے دین مصطفیٰ (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راز بتاؤں گا۔ اور میں تیرے لیے قبر کے اندر بھی دعا کو رہوں گا۔ اپنے وصال کی رات اقبال کا ان اشعار کی طرف اشارہ کرنا ایک طرف تو ایک باپ کے اپنے لا زوال جذبات کو اپنے بیٹے تک پہنچانا تھا ، جو انہوں نے اس نظم میں موتیوں کی طرح پرو دیے تھے۔۔۔۔ دوسری طرف اس فکری خزانے کے طرف جاوید اقبال کی توجہ مبذول کروانا تھا جو اس نظم میں اقبال نے محفوظ کر دیا تھا ۔۔۔ اس نظم میں اقبال نے ایک چارٹر اپنے صاحبزادے کے سامنے رکھ دیا ہے، ایک مرد مومن کی حیثیت سے کامیاب زندگی بسر کرنے کا ۔۔۔ اس نظم کا
ایک ایک لفظ حکمت و دانائی میں ڈوبا ہوا ہے۔ آپ اسی نظم میں دین کا خلاصہ محض دو سطروں میں یوں نظم کرتے ہیں:
دیں سراپا سوختن اندر طلب
انتہایش عشق و آغازِش ادب
یعنی دین کیا ہے ؟.... پروردگار کی طلب اور جستجو میں خود کو جلاتے رہنا (دین ہے). دین کی انتہا عشق پر ہوتی ہے اور اس کا آغاز ادب سے ہوتا ہے .
یوں قطرے میں قلزم بند کرنے کا فن اقبال سے بہتر کون جانتا ہے ۔ اور کیوں نہ ہو ۔۔۔ان کی شاعری محض شاعری نہ تھی
بلکہ قدرت کے سربستہ رازوں کی عقدہ کشائی تھی۔ اس لئے تو وہ خود فرماتے ہیں:
میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرمِ راز درونِ میخانہ !
اس آخری رات بھی اس دانائے راز کے لبوں پر اپنی یہ رباعی تھی:
سرودِ رفتہ باز آید کہ ناید
نسیم از حجاز آید کہ ناید
سر آمد روز گار ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
یعنی اقبال فرماتے ہیں کہ خدا جانے کے وہ پہلے والا دور آئے گا یا نہیں ۔۔۔ حجاز کی طرف سے نسیم صبح بھی آئے گی یا نہیں آئے گی۔۔۔ اب اس فقیر کا وقتِ آخر آ پہنچا ہے ۔۔۔خدا جانے اب کوئی اور داناے راز آئے گا یا نہیں۔۔۔!
یہ رباعی اقبال نے اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کرنے سے 10 منٹ قبل پڑھی تھی ۔۔۔21 اپریل 1938 کی صبح طلوع ہو چکی تھی۔۔۔ 5 بج کر 14 منٹ پر اقبال اپنے خالق حقیقی کے حضور ہمشہ کے لیے حاضر ہو گئے۔
اقبال کی وفات کی خبر لاہور شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور ہر طرف ایک کہرام سا مچ گیا تھا۔ اظہار تعزیت کے لیے اس روز شہر کی دکانیں بند ہوگئیں۔ اقبال کے جنازے میں ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مندوں نے شرکت کی ۔ ان کو بادشاہی مسجد کے باہر حضوری باغ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ ہندو، سکھ ، مسلمان۔۔۔۔ ہر صاحب دل اس روز سوگوار تھا ۔۔۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔۔۔ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے تعزیتی پیغامات ارسال کیے۔۔۔ متعدد رسالوں نے اقبال نمبر شائع کیے۔۔ شعراء نے تاریخیں لکھیں۔۔۔سکندر علی وجد نے کیا خوب اقبال کے پرستاروں کی ترجمانی کی ہے:
تونے اے اقبال پائی عاشقِ شیدا کی موت
جاں نثارو غم گسارِ ملتِ بیضا کی موت
موت ہے تری زبان و قوم کی آقا کی موت
سوز و ساز وداغ و عشق بے پروا کی موت
کون اب عقل و جنوں کی گتھیاں سلجھائے گا
کون سوزِ دل سے قلب وروح اب گرمائے گا