اقبال کی سیاسی فکر: ایک طائرانہ نظر

اقبال کی فکر میں ایک وحدت ہے۔ ان کی سیاسی فکر کو ان کے فلسفہ خودی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ انہوں نے ہندوستانی فلسفے، مغربی افکار اور انیسویں صدی کے اہم نظریات سے واضح اثر قبول کیا مگر ان کی فکر کا سر چشمہ اسلام اور اس کی اساس قرآن ہے۔ اقبالؔ ایک عالمی برادری کا خواب دیکھتے ہیں۔ مگر جیسا کہ انہوں نے نکلسن کو اپنے خط میں لکھا تھا۔ اس عالمی برادری کے لئے جو راستہ اسلام نے مہیا کیا ہے، اس سے وہ چشم پوشی نہیں کر سکتے یعنی منزل مقصود ایک عالمی برادری کا قیام اور مساوات انسانی ہے مگر اس کے لئے ان کے نزدیک اسلام کا راستہ ہی سب سے زیادہ مناسب اور موزوں ہے۔ ہمیں اقبال کی اہمیت متعین کرتے ہوئے ان کی منزل اور اس کے راستے دونوں کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔


یہاں اقبالؔ اور مارکسؔ میں حیرت انگیز مماثلت نظر آتی ہے۔ اگرچہ اس کے ساتھ بین اختلاف بھی ہے۔ دونوں ایک عالمگیر انسانی برادری کا خواب دیکھتے ہیں۔ دونوں سرمایہ داری کو انسانیت کے لئے ایک عذاب تصور کرتے ہیں۔ دونوں قومیت یا نیشنلزم کو چنداں اہمیت نہیں دیتے۔ گو قومی شعور کو مانتے ہیں، دونوں جمہوریت کے قائل ہوتے ہوئے اس کی خامیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ مگر مارکس مذہب کو افیون سمجھتا ہے اور اقتصادی رشتوں کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اور اقبالؔ مذہب کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں، وہ اقتصادیات کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کلچر یا تہذیب کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ مارکس کے نزدیک پرولتاریہ یا مزدور کی آمریت ہی انقلاب کی محرک اور ایک غیر طبقاتی سماج کی ضامن ہے۔


اقبال طریق کوہکن میں بھی پرویز کے حیلے دیکھ سکتے ہیں۔ مارکس عوام کی ملکیت اور اقتدار کا قائل ہے، اقبال خدا کی۔ مارکس کے نزدیک زمین زمین جوتنے والی کی ہے۔ اقبال ؔ کے نزدیک خدا کی، مارکس کے نزدیک بنیادی تعمیر اقتصادی رشتوں کی ہے اور بالائی تعمیر مذہب، قانون، ادبیات کی۔ کچھ نو مارکسیوں کے نزدیک بالائی تعمیر بھی بنیاد کو متاثر کر سکتی ہے۔ گویا یہ ایک دوطرفہ عمل ہے۔ مگر مارکس کہتا ہے کہ بالآخر اقتصادی رشتے خصوصاً طبقاتی کشمکش ہی فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے۔ اقبال کے نزدیک بالآخر مذہب و تہذیب فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ مارکس سرمایہ داری ہی کو ٹاٹ باہر کرنا چاہتا ہے۔ گو وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ جاگیردارانہ نظام کے مقابلے میں یہ زیادہ ترقی یافتہ نظام ہے اور اس کی وجہ سے بھی انسانیت کو بڑی ترقی ہوتی ہے۔


اقبال گاندھی جی کی طرح امانت کے نظریے کے قائل ہیں یعنی سرمایہ دار اور امیر دولت کے امین ہیں تاکہ اس کے ذریعہ وہ انسانیت کی فلاح کا کام کریں۔ مارکس سوشلزم کو انسان کی تقدیر سمجھتا ہے۔ اقبال کے نزدیک اسلام خود تقدیر ہے اور کسی اور تقدیر کو برداشت نہیں کر سکتا۔ مگراقبال سوشلزم کی مادی اور غیر مذہبی اساس سے اختلاف کرتے ہوئے اس سے نہ صرف ہمدردی رکھتے ہیں بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ قوانین اسلام کی اگر مناسب ترجمانی کی جائے اور اجتہاد کے اختیار سے کام لیا جائے تو روٹی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔


اقبال کو فرقہ پرست اور دوقومی نظریہ کا علمبردار اور فاشسٹ میلان رکھنے والا تک کہا گیا ہے۔ ان کے انسان کامل کے نظریے کو نتشے کے فوق البشر کا چربہ بتایا گیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں میں بہت سے لوگ انہیں پاکستان کا بانی سمجھتے ہیں۔ یہ سب ادھوری سچائیاں ہیں اور ادھوری سچائیاں بڑی گمراہ کن ہوتی ہیں۔ آیئے جو حقیقت ہے اس پر ایک نظر ڈالی جائے۔


اقبال کے محب وطن ہونے میں کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ ۱۹۰۵ء تک تو ان کے یہاں وطن پرستی اور قومیت کا ایک رومانی اور یوٹوپیائی تصور بھی ملتا ہے۔ وہ غلامی کو دنیا کی سب سے بڑی لعنت سمجھتے ہیں اورآزادی کی حقیقت کو سب سے بڑی نعمت۔ وہ ہر قسم کے شہنشاہیت کے خلاف ہیں خواہ وہ انگریزی سامراج ہویا عرب شہنشاہیت۔ ان کے نزدیک اسلام کے جوہر اس وجہ سے نمایاں نہ ہو سکے کہ عرب شہنشاہیت نے اس پر اقتدار حاصل کرلیا۔ وہ جاویدنامہ اور ضرب کلیم میں ہندوستان کی آزادی کا بڑے ولولہ انگیز انداز سے ذکر کرتے ہیں۔ ضرب کلیم ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی یعنی ان کے الہ آباد کے خطبے کے چھ سال بعد، مگر اپنی نظم شعاع امید میں ہندوستان کی عظمت اور ہندوستان کی بیداری کا جو رجز انہوں نے پیش کیا ہے، اسے کوئی حقیقت میں نظرانداز نہیں کر سکتا۔ وہ نہ صرف ہندوستان کی انگریزوں کی غلامی سے آزادی پر زور دیتے ہیں بلکہ مشرق و مغرب میں ہر شب کے سحر ہونے یعنی تمام ملکوں کے آزاد ہونے پر بھی اصرار کرتے ہیں۔


رہی ان کی فرقہ واریت کی بات تو اقبال نے خود اسے ایک اعلیٰ فرقہ واریت کہا ہے۔ اقبال نے واضح کردیا ہے کہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں اور ان کے مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ مگر ان کا یہ جذبہ قدرتی اور سمجھ میں آنے والا ہے کہ جس برادری یا فرقے نے انہیں وہ سب کچھ دیا ہے جس سے ان کی سیرت و شخصیت، ان کا مزاج، ان کی تاریخ، ان کا تشخص، ان کا کردار اور ان کی بصیرت کی تشکیل ہوتی ہے، اس کی اصلاح و فلاح کے لئے وہ مساعی ہوں۔ یہ اعلیٰ درجہ کی فرقہ واریت اگر اسے فرقہ واریت کہا جائے، سرسید میں بھی تھی، مولانا شبلی میں بھی، محمدعلی جوہر میں بھی، شیرکشمیر میں بھی اورمجھے کہنے دیجئے کہ مولانا آزاد میں بھی۔ مولانا کے رام گڑھ کے خطبے میں بھی پہلے کس بات کا ذکر ہے اور پھر کس بات کا، ملاحظہ کیجئے۔


’’میں مسلمان ہوں اور فخرکے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان ہوں۔ اسلام کی تیرہ سو سال کی شاندار روایتیں میرے ورثہ میں آئی ہیں، میں تیار نہیں ہوں کہ اس کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں۔ اسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم و فنون، اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں۔ بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے پر اپنی ایک خاص ہستی رکھتا ہوں اور میں برداشت نہیں کر سکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے۔‘‘


اس تصویر کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ ہو۔ مولانا فرماتے ہیں،


’’لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ ایک اور احساس بھی رکھتا ہوں جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا ہے۔ اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی، وہ اس راہ میں میری راہنمائی کرتی ہے۔ میں فخرکے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں، میں ہندوستان کی ایک اور ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں، میں اس متحدہ قومیت کا عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے۔ میں اس کی تکوین (بناوٹ) کا ایک ناگزیرعامل (Factor) ہوں اور میں اس دعوے سے کبھی دستبردار نہیں ہوسکتا۔‘‘


اہم نکتہ یہ ہے کہ مولانا آزاد نے مذہبی اور کلچرل دائرے میں اپنی خاص ہستی پر اصرار کیا ہے اور متحدہ قومیت کی اصطلاح پر زور دیا ہے جس میں کئی قومیتیں (Nationalities) آجاتی ہیں۔ اس متحدہ قومیت میں وحدت کے ساتھ کثرت پر اصرار بھی شامل ہے۔ مولانا آزاد اور اقبال میں فرق یہ ہے کہ آزاد کے نزدیک اسلام کی روح متحدہ قومیت اور ہندوستانیت سے نہیں روکتی بلکہ اس راہ میں راہنمائی کرتی ہے اور اقبال کے نزدیک وطن یا علاقے سے محبت فطری ہونے کے باوجود، طبیعت ایک سیاسی آئیڈیل کے، اسلام کے عالمگیر آئیڈیل سے متصادم ہوتی ہے۔


قومیت یا وطنیت کے تصور نے در اصل مغرب میں فروغ پایا۔ قومی شعور، قومیت یا وطنیت اور قومیت یعنی National Consciousness اور Nationalism کے سلسلے میں آکسفورڈ کے مشہور پروفیسر ازایا برلن (Isaiah Berlin) کے خیالات بڑی اہمیت رکھتے ہیں جو اس کے مضمون نیشنلزم پچھلی اور موجودہ طاقت میں ملتے ہیں۔ یہ مضمون اس کی کتاب دھارے کے خلاف (Against The Current) میں شامل ہے۔ کتاب ۱۹۷۹ء میں شائع ہوئی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ،


نیشنلزم کی تحریک اگرچہ انیسویں صدی کی سب سے نمایاں تحریک تھی مگر اس زمانے میں کسی با اثر مفکر نے اس کی طاقت اور اس کے مستقبل کا کچھ اندازہ نہیں کیا۔ نیشنلزم کو ایک جذبے اور ایک آئیڈیالوجی کے طور پر قومی شعور کے مترادف نہیں سمجھا گیا اور روشن خیال لبرل اور سوشلسٹ بھی یہ سمجھتے رہے کہ چونکہ کلیسا اور شہنشاہیت نے قوموں کی روح کو جو زخم لگائے ہیں وہ آزادی کے بعد تبدیل ہو جائیں گے اور نیشنلزم بحیثیت ایک آئیڈیالوجی کے کمزور پڑ جائے گی۔ مارکس تو اور آگے گیا۔ مارکس کے نزدیک قومی جذبہ بذات خود ایک غلط شعور کا کام ہے۔ یہ آئیڈیالوجی شعوری یا غیر شعوری طور پر ایک خاص طبقے کی اقتصادی بالادستی سے وجود میں آتی ہے۔ جس میں پرانی اشرافیہ کے باقیات بھی شریک ہیں۔ اس کا مقصد اپنے طبقہ کا اقتدار قائم رکھنا اور پرولتاریہ کا استحصال کرنا ہے اور وقت آنے پر جب مزدور منظم ہو جائیں گے اور ان کا سیاسی شعور بیدار ہو جائے گا تو وہ منظم جدوجہد کے ذریعہ سے ان سرمایہ داروں کا جوا اتار پھینکیں گے۔ اس وقت قومی جذبہ، مذہب اور پارلیمانی جمہوریت کی ساری آئیڈیالوجی بھی تحلیل ہو جائے گی۔


اس کے ساتھ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ روشن خیالی کے بڑھنے کے ساتھ عقلیت کے فروغ کی روشنی میں سماجی مساوات کی قیدوبند، اقتصادی اور سیاسی جمہوریت، عالمی تجارت کے قومی حدوں کو پھلانگنے، سائنس کی ترقی اور انسان کی تمام صلاحیتوں کے بروئے کار آنے کی وجہ سے نیشنلزم ایک زوال پذیر طاقت ہو جائے گا مگرایسا ہوا نہیں۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم اس کی شاہد ہیں۔ استالین نے ہٹلر کے حملے کا صرف کمیونزم کے بل پر نہیں، قومی جذبہ ابھار نے کی وجہ سے کامیابی سے مقابلہ کیا۔


ایزایا برلن کہتا ہے کہ نیشنلزم ایک ذہنی کیفیت کے طور پر نہ دنیائے قدیم میں ملتا ہے نہ ازمنہ وسطیٰ میں۔ اس کے نزدیک نیشنلزم ایک جدید یورپی مظہر ہے جس کا ایک خاص عقیدہ ہے۔ اس عقیدے کے مطابق لوگ ایک خاص گروپ سے وابستہ ہوتے ہیں اور اس گروپ کا طرز زندگی دوسرے گروپوں سے علیحدہ ہوتا ہے۔ پھر اس گروپ کے افراد کا کردار اس گروپ کا تشکیل کردہ ہوتا ہے اور اس گروپ سے علیحدہ سمجھا نہیں جا سکتا۔ اس گروہ کی خصوصیت مشترکہ علاقے، رسم و رواج، قوانین، حافظے، عقائد، زبان، فنی اور مذہبی اظہار، سماجی اداروں اور طرز زیست میں ہوتی ہے۔ کچھ لوگ ان خصوصیات میں وراثت، خاندانی اور نسلی امتیازات کو بھی شامل کرتے ہیں۔


برلنؔ کے نزدیک اس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ایک ایسے سماج کی زندگی ایک حیاتیاتی آرگنزم کی طرح ہے جو قدریں اس کے بقا اور ترقی کی ضامن ہیں، انہیں کو بالادستی حاصل ہونی چاہئے۔ اس طرح یہ بات قطعی ہو جاتی ہے کہ فرد کی اہمیت نہیں ہے، وہ اکائی نہیں ہے، اکائی قوم ہے اور قومیت کا ایک خاص شعور ہے۔ برک نے اسے سماج کے مترادف کہا تھا، روسوؔ نے عوام کے، ہیکلؔ نے ریاست کے لیکن قوم پرستوں کے لئے یہ نیشن ہو سکتی ہے، خواہ سماجی ڈھانچے کے اعتبار سے یا حکومت کے فارم کے مطابق۔ تیسرے کسی عقیدے، پالیسی یا لائحہ عمل پر عمل پیرا ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ یہ ہمارا ہے یعنی اب خیر یا عدل یا مساوات کی علمبرداری کی وجہ سے نہیں بلکہ ہمارے گروپ یا ہمارے قوم کے اصول ہونے کی وجہ سے یہ ہمارے لئے سب کچھ ہیں اور قوم سے الگ ہونے کے معنی اس پتے کے ہیں جو شاخ سے جدا ہوگیا ہے۔


برکؔ نے جب یہ کہا تھا کہ فرد حماقت کر سکتا ہے مگر نوع (Species) عقلمند ہوتی ہے تو وہ اور بات تھی مگر فشتےؔ جب یہ کہتا ہے کہ فرد کو غائب ہوجانا چاہئے اور نوع میں جذب ہونا چاہئے اوراس طرح رفع حاصل کرلینا چاہئے تو بات دوسری ہو جاتی ہے۔ اس قسم کے خیالات کا اثر ظاہر ہے۔


چوتھے ترقی یافتہ نیشنلزم یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ اگر اس کی ضروریات دوسرے گروپ کے مفادات سے متصادم ہوتی ہیں تو دوسرے گروپ کو انہیں تسلیم کرنا ہوگا، خواہ اس کے لئے طاقت کے استعمال کی ضرورت ہی کیوں نہ پڑے۔ اس طرح نیشنلزم بالآخر ایک طرف فرد کی انفرادیت کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، دوسری طرف آفاقی اور انسانی قدروں کو۔ اس طرح برلنؔ کے نزدیک برتر قوموں کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ جیسا کہ جرمنی میں ہوا اور جس کا اظہار یورپ اور امریکہ میں خاصا عام ہے تو کبھی ان کو بعض قدروں یا معیاروں کا نام دے دیا جاتا ہے۔


برلنؔ کے تجزیے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ وہ نیشنلزم کی پیدائش کے لئے ایک زخم ضروری سمجھتا ہے، خواہ وہ زخم بیرونی سامراج کا ہو یا کسی بیرونی تہذیب کا۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ایک ایسا گروپ موجود ہو جو یا تو اپنی شناخت چاہتا ہے یا نئے حالات کی وجہ سے طاقت حاصل کرنے کے لئے نئے مواقع۔ پھر ایسا بھی ضروری ہے کہ اس گروپ کے سامنے ایک نیا تصور حیات آجائے۔ میرے نزدیک ہندوستان میں یہی ہوا۔ غلامی کے زخم نے ایک ہم خیالی پیدا کی۔ مغربی سامراج کے انتظامیہ کی ضرورتوں نے ایک نئے طبقے اور اس کے مفادات کو جنم دیا۔ پھر مغربی افکار، سائنس، عقلیت، مغربی ادب میں انسان دوستی کے تصور اور مغربی اداروں کی کشش نے پہلے ایک خاص مغربی تعلیم کے آشنا پڑھے لکھے طبقے میں اور پھر اس کی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ سے نسبتاً بڑے حلقے میں ایک قومی شعور پیدا کر دیا۔


شروع شروع میں یہ تصور رومانی یا یو ٹوپیائی زیادہ تھا۔ اقبال کے پہلے دور کی شاعری میں یہ رنگ واضح ہے۔ مگر ہندوستانی سماج کے بعض حصوں میں اس قومی تصور میں احیا پرستی کا رنگ آگیا جو ہندوستان کی تاریخ کے ارتقا اور اس کی مشترک تہذیب کی رنگارنگی کو کم اہمیت دیتا تھا، اور ہندوستان میں اسلام کے گوناگوں اثرات کو بھی غلامی کا ایک تحفہ سمجھتا تھا۔ اس کے ساتھ چونکہ بقول مارکسؔ ہندوستان پر مغرب کی حکومت اگرچہ ہندوستان کے استحصال کے لئے تھی مگر اس نے ایک تاریخ کے آلے کا کام بھی کیا اوراس کے نتیجہ میں نہ صرف مغربی تعلیم عام ہوئی، رسل و رسائل کا سلسلہ بڑھا، ملک کو ایک سیاسی وحدت حاصل ہوئی جو پہلے اس طرح نہیں ہوئی تھی، تعلیم کو فروغ ہوا اور سرمایہ داری کا بھی آغاز ہوگیا۔ اس لئے ہندوستانی سماج کا وہ حصہ جس نے وقت کی آواز کا ساتھ دیا وہ آگے بڑھ گیا اور جو اپنے شاندار ماضی کو یاد کرتا رہا اور نئے دور کے احکامات سے غافل رہا، وہ بچھڑ گیا۔


سرسید کی تحریک سماج کے اس پچھڑے ہوئے گروہ کو وقت کے بہاؤ سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش تھی، اس کا دائرہ کار اگرچہ مسلمانوں کی ترقی اور خوشحالی اور جدید تعلیم کے فروغ تک محدود تھا مگر در اصل یہ بھی ایک قومی تحریک تھی جس کا اعتراف جواہر لال نہرو اور پانی کر جیسے ارباب نظر نے کیا ہے۔ مگر برلنؔ کے تجزیے کے مطابق کہا جا سکتا ہے کہ گاندھی جی کی کوششوں کے باوجود ہندوستانی نیشنلزم جس راستے پر جا رہا تھا وہ یورپی نیشنلزم کا راستہ تھا۔ اس لئے اقبال کے نیشنلزم پر اعتراضات سمجھ میں آتے ہیں۔


اقبال سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے ملت کو نیشن کے مترادف قرار دیا۔ ملت ایک مذہبی برادری کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ قوم کا لفظ اپنے جدید معنی میں جو یورپ سے لئے گئے ہیں نیشن کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ کسی نیشن کے لئے مذہبی ہم آہنگی ضروری نہیں، قومیں مذاہب سے نہیں بنتیں اور یہ کہنے میں مذہب کی کوئی تحقیر یا قوم کی کوئی برتری مقصود نہیں۔ اقبال جب یہ کہتے تھے کہ ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست، تو وہ اسلام کی آفاقیت پر زور دیتے ہیں۔ اوراس آفاقیت سے علاقوں یا ملکوں میں رہنے والی انسانیت کی قومی خصوصیت پر ضرب نہیں پڑتی۔


ہندوستان میں مسلمان اپنا ایک مخصوص مذہبی اور تہذیبی وجود، ایک انفرادیت، ایک تشخص رکھتے ہیں۔ اس تشخص کے باوجود وہ جس ملک میں رہتے ہیں، جس زمین و آسماں، کوہ و دریا، خیابان و گلزار، شہر اور دیہات، تاریخ و تہذیب سے ان کی تشکیل ہوتی ہے جو زبانیں وہ بولتے ہیں، جو ادب انہیں جمالیاتی، اخلاقی اور سماجی شعور دیتا ہے اس کی اہمیت سے وہ کیسے انکار کر سکتے ہیں۔ تفریق کی سیاست نے صرف فرق پر زور دیا، مشترک عناصر کو نظر انداز کر دیا۔


اقبال نے یورپی نیشنلزم کے خطرات تو دیکھ لئے مگر مارکس کی طرح نیشنلزم کی طاقت، اس کے اثر اور نفوذ کو مناسب اہمیت نہیں دی۔ ان کی یہ تاویل کہ ان ملکوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، پوری سچائی نہیں ہے۔ ترکی، مصر اور ایران میں قومی عناصر برابر ایسا زور دکھاتے رہے ہیں۔ پھر اسلامی تاریخ میں مسلمان ملکوں میں برابر لڑائیاں ہوتی ہیں، جو قومی جذبے کے اثر سے ہیں۔ ایران اور عراق کی حالیہ جنگ بھی اس کی مثال ہے۔ اقبال کو ہندوستانی نیشنلزم کے اس رخ میں جوان کے سامنے تھا مسلمانوں کی بقا اور ترقی کے لئے جو خطرہ نظر آیا وہ واقعی تھا۔


اس زمانے کی سیاست، سندھ کو ایک الگ صوبہ بنانے اور سرحدی صوبے کو دوسرے صوبوں کے برابر درجہ دینے کو بھی تیار نہ تھی۔ گاندھی جی کی کوششوں کے باوجود ہندوستانی نیشنلزم میں ہندو جارحیت کے عناصر برابر کام کر رہے تھے۔ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں اپنے الہ آباد کے خطبے میں جو حل پیش کیا تھا وہ ملک کی تقسیم کا حل تھا۔ یعنی شمالی مغربی صوبوں کو ہندوستان کے وفاق کے اندر ایک الگ ریاست بنانے کا۔ اس سلسلے میں اس خطبے کے طویل اقتباسات پیش کرنے سے بہتر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس خط کا ذکر کیا جائے جو انہوں نے پروفیسر ایڈورڈ ٹامسنؔ کو ۱۹۳۳ء میں لکھا تھا۔ ان خطوط کے عکس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے سمینار میں محفوظ ہیں اور ٹامسن کے صاحب زادے کا عطیہ ہیں۔ جناب حسن احمد استاد شعبہ سیاسیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انہیں شائع بھی کر دیا ہے۔ ۱۹۳۳ء میں یعنی الہ آباد کے خطبے کے خاصے عرصے کے بعد اور راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں شرکت کے بعد انہوں نے ٹامسن کو ایک خط میں لکھا کہ انہوں نے اپنے ریویو میں اقبال کو پاکستان اسکیم کا خالق کہا ہے۔ اقبال کے الفاظ یہ ہیں،


’’پاکستان اسکیم میری نہیں، یہ کیمبرج کے کچھ طلباء کی اسکیم ہے (یہاں اشارہ چودھری رحمت علی کی طرف ہے) میں جو شمال مغربی ریاست چاہتا ہوں وہ ہندوستان کے وفاق کے اندر ہوگی۔‘‘


آگے چل کر انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کیمبرج کے طلباء راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کے مندوبوں کے متعلق کہتے ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کے کاز کو نظرانداز کردیا ہے۔ اقبال ۱۹۳۶ء تک اسی موقف پر قائم رہے۔ ہاں محمدعلی جناح کے نام جون ۱۹۳۷ء کے خط میں انہوں نے یہ ضرور لکھا کہ،


’’کیونکہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمان ایسے قوم نہ سمجھے جائیں جنہیں خود ارادیت کا اسی طرح حق حاصل ہے جس طرح ہندوستان اوراس کے باہر دوسری قوموں کو ہے۔‘‘


میرے نزدیک یہ اسی قسم کا نعرہ ہے جو جنوبی ہند میں ڈی ایم کے نے شمالی ہند کی بالادستی کی مخالفت کرتے ہوئے بلند کیا تھا اور جو آج کچھ انتہا پسند ملکوں کی طرف سے بھی بلند کیا جارہا ہے۔ اقبال نے اپریل 1938ء میں وفات پائی اور اس وقت تک پاکستان کا خاصا چرچا ہو چکا تھا مگر اقبال کے یہاں پاکستان کا لفظ اپنے خیالات کی وضاحت کے لئے نہیں آیا۔


۱۹۷۷ء میں جب لاہور میں میری ملاقات نذیر نیازیؔ سے ہوئی جو اقبال کے آخری سالوں میں ان کے بہت قریب رہے تھے، تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ اقبال کا یہ تصور نہیں تھا جو آج پاکستان کی صورت میں ہے۔ وہ مسلم اکثریتی صوبوں کی اندرونی خود مختاری ایک ہندوستانی وفاق میں چاہتے تھے۔ ۱۹۴۶ء میں کیبنٹ مشن پلان کو کانگریس اور لیگ دونوں نے منظور کیا تھا اس میں جو منطقے بنائے گئے تھے انہیں یہ آزادی ہوتی کہ وہ ہندوستانی وفاق میں رہیں یا نہ رہیں۔ اصولی طور پر یہ حق ان ریاستوں کو بھی دیا گیا ہے جو سوویت یونین میں شامل ہیں گو ان کی علیحدگی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا مگر اس وقت شکوک و شبہات کی جو فضا تھی اس کی وجہ سے بالآخر کیبنٹ پلان مسترد ہوگیا اور ملک تقسیم ہو گیا۔


اقبالؔ نے جناح کو یہ بھی لکھا تھا کہ ان صوبوں کے مسلمانوں کو جہاں وہ اقلیت میں ہیں، ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور انہیں نظرانداز کر دیا جائے۔ یہ گویا ملت کے ایک حصہ سے چشم پوشی تھی جسے انہوں نے ایک قوم کہا تھا۔ بہرحال کہنا یہ ہے کہ اقبال کو پاکستان کا خالق کہنا درست نہیں ہے۔ جس طرح اشتیاق حسین قریشی کا سر سید کے یہاں دو قومی نظریے کا دکھانا درست نہیں ہے۔ اقبال کے بیانات اور تقریروں سے پاکستان کی تحریک کو تقویت ضرور ملی لیکن یہ کہے بغیر بھی نہیں رہا جا سکتا کہ اس کے لئے غذا ہندوستان کی جارحانہ قوم پرستی، طاقتور سیاسی اور کاروباری عناصر اور ہندوستانی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے مغربی اداروں کو ان کے بند کر کے نافذ کرنے اور جدیدکاری کو مغرب پرستی کے مترادف سمجھنے کی ذہنیت بھی ہے۔


پھر یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اقبال نے ملت کے اس حصے کی خاطر جو شمال مغربی ہندوستان میں اکثریت میں تھا، ان ہندوستانی مسلمانوں کو نظر انداز کر کے جو باقی ملک میں اقلیت میں تھے قوم کے لئے ایک علاقائی بنیاد کو بہرحال تسلیم کر لیا اور قید مقامی جس کا نتیجہ وہ تباہی سمجھتے تھے بالآخر اس بندۂ آفاقی کو بھا گئی۔ جس طرح قوم پرستی کے متعلق اقبال کے خیالات کو صرف فرقہ وارانہ سیاست کے رنگ میں دیکھا جاتا ہے اور قوم پرستی کی جارحیت اور اس کی بعض انسانی اور آفاقی قدروں کی نفی کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، اسی طرح جمہوریت کے متعلق اقبال کے خیالات کو صحیح طور پر نہیں سمجھا گیا۔


اقبال جمہوریت کے خلاف ہرگز نہیں ہیں۔ وہ روحانی جمہور کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ وہ جمہوریت کو اسلام کی تعلیم کے عین مطابق سمجھتے ہیں۔ وہ خلیفہ تک کے منتخب ہونے تک کی تائید کرتے ہیں۔ وہ علماء کی آمریت کے بھی خلاف ہیں کیونکہ ان کے الفاظ میں اسلام میں کلیسا نہیں ہے۔ لیکن جس طرح وہ نیشنلزم کے مغربی روپ کے خلاف ہیں اسی طرح اس جمہوری نظام کو آنکھ بند کرکے قبول کرنے کے خلاف ہیں جو مغرب سے مستعار لیا گیا ہے۔ جمہوریت اور قوم پرستی کا جادو ایسا ہے کہ اگر کوئی بھی اس کے کسی روپ کی مذمت کرے تو اسے تنگ نظر اور دقیانوسی کہا جاتا ہے، مگر مغربی جمہوریت کس حد تک جمہوری ہے اس کی داستان برنارڈشا کی Apple Cart اور ای ایم فاسٹر کی اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے جس کا تاریخی عنوان ہے، ’’جمہوریت کے لئے دونعرے۔‘‘ یہ در اصل یہاں سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ مغرب کی تاریخ، فکر کے ارتقا، سماجی میلانات، سیاسی انقلابات، تہذیبی خصوصیات کو نظرانداز کر کے ہم نے ویسٹ منسٹر ماڈل کو بڑی حد تک ہندوستان کے لئے راہ نجات اور ہر درد کی دوا مان لیا۔


اقبال نے شعر میں ضرور جمہوری طرز حکومت کے متعلق چونکا دینے والی باتیں کہی ہیں مگر ایک تو اسٹنڈل کے قول کا ترجمہ ہے جس میں گننے اور تولنے کے فرق پر بجا زور دیا گیا ہے۔ اور دوسرے میں پختہ کاری (Maturity) کی غلامی پر زور دیا گیا ہے۔ مگران کی شکایت در اصل اس جمہوری نظام سے ہے جو انگریز ہندوستان پر لادنا چاہتے تھے اور جس کا مقصد دیو استبداد کو جمہوری قبا میں پائے کوب ہونے کا موقع دینا تھا۔ اقبال نے ٹامسن کے نام خطوں میں ہندوستان کو بر صغیر کہا ہے اور بجا طور پر اس کے مسائل اور اس کی پیچیدگی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ آزادی کے بعد جمہوریت کا تجربہ بتاتا ہے کہ ہماری جمہوریت کو سستی سیاست، اقتدار کی بھوک، ہوس زر اور اخلاقی قدروں کی پامالی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔


ہمارے دستور میں بہت سی خوبیاں ہیں مگر ابھی تک اس کا میلان مرکز کی مضبوطی کی طرف ہے اور ریاستوں پر مرکز کی گرفت سب سے زیادہ ہے۔ ابھی تک نہ ہم فرقہ وارانہ مسائل کا حل تلاش کر سکے ہیں، نہ روٹی روزی کا، نہ تعلیم کا اور نہ بڑھتی ہوئی آبادی کا، شری بی کے نہرو سابق گورنر جموں و کشمیر نے تھرڈ ورلڈ کواٹری میں مغرب سے لئے گئے اس جمہوری ڈھانچے کی خامیاں واضح کردی ہیں۔ اس کا علاج صدارتی انتخابات نہیں ہے جیسا کہ انہوں نے تجویز کیا ہے مگر متناسب نمائندگی (Proportional Representation) ضرور ہے۔


اس کے ساتھ ریاستوں کی تنظیم نو بھی ضروری ہے تاکہ علاقائی جذبات کی تسکین ہو جائے اور ہر علاقے کے رہنے والوں کو اپنا تشخص برقرار رکھنے کا موقع ملے۔ اس کے بعد ہی وہ صحیح معنوں میں قومی شعور پیدا کر سکتا ہے۔ اقبال کا یہ احسان ضرور ہے کہ انہوں نے ہمیں قوم پرستی اور جمہوریت کے متعلق مقبول خیالات پر نظرثانی کرنے کی طرف مائل کیا۔ ان کا یہ بھی احسان ہے کہ انہوں نے عقل پرستی کی نارسائی واضح کر کے پرسوز عقلیت پر زور دیا اور عقل کو ادب خوردۂ دل بنانے کی سعی کی۔ ان کا یہ کارنامہ بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے سرمایہ داری اور کمیونزم کے درمیان ایک تیسرے راستے پر زور دیا۔


یوں انہیں سوشلزم سے ہمدردی ہے مگر وہ سوشلسٹ نہیں کہے جا سکتے۔ انہیں سرمایہ داری سے نفرت ہے مگر وہ اسلامی قوانین کے ذریعہ سے سرمایہ داروں پر پابندی عائد کرنے اور ایک منصفانہ سماج قائم کرنے کے حق میں ہیں۔ اسلام کے آفاقی اور اخلاقی مشن کو بروئے کار لانے کے لئے وہ اجتہاد کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ وہ جدید دور اور اس کے کرب، اس کے آشوب اور اس کے امکانات سب سے واقف ہیں۔ وہ قومی شعور اور حب وطن کے خلاف نہیں، جارحانہ اور اندھی قوم پرستی کے خلاف ہیں۔ وہ جمہوریت کے خلاف نہیں، اس کے پورے ڈھانچے کے خلاف ہیں۔ وہ سوشلزم کے انسانی چہرے کی حمایت کرتے ہیں، وہ اس لامذہبیت کے خلاف ہیں جو آج کل فیشن بن گئی ہے۔ انہوں نے انتقال سے چند ماہ قبل یکم جنوری 1938ء کو آل انڈیا ریڈیو سے ایک نشریہ میں کہا تھا،


’’صرف ایک اتحاد ہی قابل اعتبار ہے اور یہ اتحاد انسانی برادری کا اتحاد ہے، یہ اتحاد نسل، قومیت، رنگ یا زبان سے بلندتر ہے۔ جب تک یہ نام نہاد جمہوریت، یہ لعنتی قوم پرستی اور یہ نیچ سامراجیت ختم نہ ہوگی جب تک لوگ اپنے عمل سے یہ ثابت نہ کر دیں گے کہ ان کے نزدیک ساری دنیا خاندان ہے، جب تک نسل، رنگ اور جغرافیائی قوم پرستی بالکل ختم نہ ہوگی وہ ایک آسودہ اور خوشحال زندگی نہ گزار سکیں گے اور آزادی، مساوات اور اخوت کے خوبصورت آئیڈیل کبھی وجود میں نہ آسکیں گے۔‘‘


مجھے اس پر صرف یہ اضافہ کرنا ہے کہ انسان بڑی چیز کا تصور چھوٹی چیز کی مدد سے کرتا ہے۔ سچی قومیت کی بنیاد علاقوں کی اندرونی آزادی اور ہر مذہبی گروہ کے اطمینان اور اس کے تشخص کی پوری ضمانت پر ہی پڑسکتی ہے اور آفاقیت کا راستہ بھی جارحانہ قوم پرستی میں نہیں بلکہ قومی شخصیت کی نشوونما ہی میں مل سکتا ہے۔ جہاں تک جمہوریت کا سوال ہے، بقول چرچل یہ بدترین نظام حکومت ہے مگر دوسرے نظام اس سے بھی برے ہیں۔ اس لئے سوال انہیں رد کرنے کا نہیں ان کی اصلاح کرنے کا ہے۔ کانتؔ جیسے فلسفی نے تو مایوس ہوکر کہہ دیا تھا کہ انسانیت کی ٹیڑھی لکڑی سے کوئی سیدھی چیز کبھی نہیں بن سکتی لیکن مارکس مارکوزے یا اقبال یا گاندھی کا عالم گیر برادری کا خواب، یا دنیا کی نئی تنظیم کا خواب، یا تازہ بستیاں آباد کرنے کا خواب خواہ ہم اس کے ہر پہلو سے اتفاق کریں نہ کریں، ہماری توجہ اور غور و فکر کا مستحق تو ہے۔


شاید کہ ہمیں بیضہ بر آید پر و بال