اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش: اقبال ؒ کے شخصی اوصاف
حضرت علامہؒ بڑے بذلہ سنج اور حاضر جواب واقع ہوئے تھے ۔ روتوں کو ہنسا دینا تو ان کے لیے معمولی بات تھی ، گفتگو کے دوران میں چھوٹے چھوٹے چٹکلے بیان کرنا ان پر ختم تھا ۔ ان کی گفتگو میں اس قدر روانی اور زور ہوتا کہ کسی کو قطع کلامی کی جرأت نہ ہوتی ۔ دوسروں کو لاجواب کردینے کا انھیں خاص ملکہ تھا ۔ کوئی سوال کرتا تو جواب میں الفاظ و معانی کا بحرِ ذخار امنڈتا چلا آتا۔ آسان موضوع ہوتا یا کوئی دقیق مسئلہ وہ بلا تکان بولتے چلے جاتے۔ ایسے معلوم ہوتا کہ خیالات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جس میں حاضرین بہے چلے جا رہے ہیں اور کسی کو تن بدن کا ہوش نہیں۔ ان کا جواب اس قدر جامع اور معلومات افزا ہوتا کہ اس موضوع پر مزید سوالات کی گنجائش مشکل ہی سے پیدا ہوتی ۔ عام طور پروہ گفتگو پنجابی زبان میں کرتے ، البتہ جب کوئی دقیق اور فلسفیانہ مسئلہ در پیش ہوتا تو اردو اور انگریزی وغیرہ کو اظہار مطلب کا ذریعہ بناتے ۔ گھر میں وہ ہمیشہ پنجابی اور وہ بھی ٹھیٹھ سیالکوٹی میں بات چیت کرتے ۔
آپ بڑی بلند اور رعب دار آواز میں گفتگو کرنے کے عادی تھے ۔ دورانِ گفتگو میں وہ آنکھوں کو تھوڑا سکیڑ لیتے ، البتہ جب گفتگو میں شدت پیدا ہوتی تو آنکھیں پوری کھل جاتیں، چہرہ جلال اور جوش سے سرخ ہو جاتا ۔ آپ کی آواز بڑی صاف ، بلند ، پُرسوز اور پر وقار تھی ۔ علی الصبح قرآن حکیم کی تلاوت ان کا روز کا معمول تھا ۔ وہ اس قدر خوش الحان تھے کہ سننے والے مسحور ہوجاتے۔ دل چاہتا کہ وہ یونہی تلاوت کیے جائیں اور آدمی سنتا رہے ۔ قرآن مجید کی تلاوت کے دوران میں ان پر اس قدر رقت طاری ہو جاتی کہ وہ زار و قطار رونے لگتے اور بعض اوقات اس قدر روتے کہ قرآن پاک کے صفحات تر ہو جاتے ۔
انتہائی طور پر سادگی پسند تھے ، خصوصاً لباس کے معاملے میں تو وہ بے پروائی کی حد تک سادہ مزاج تھے ۔ گرمیوں میں گھر پر صرف دھوتی اور بازو والی بنیان پہنے رہتے ۔ اکثر یہ دونوں کپڑے کافی میلے ہو جاتے لیکن وہ اپنے حال میں مست ، نشست گاہ میں لوگوں کے درمیان بیٹھے حکمت کے خم لنڈھاتے رہتے ۔ والدۂ جاوید کئی کئی بار ان کی توجہ میلے کپڑوں کی طرف مبذول کراتیں لیکن وہ ٹال جاتے ۔ آخر جب وہ زیادہ ہی مصر ہوتیں تو بڑی بے نیازی سے کپڑوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرماتے : ’’ کوئی ایسے میلے تو نہیں ہیں ، البتہ اگر تمھاری یہی خوشی ہے تو لاؤ بدل ہی لیتے ہیں۔ ‘‘سردیوں میں گھریلو لباس میں دو چیزوں کا اضافہ ہو جاتا ، ایک تو گلے میں ’’ٹاسے ‘‘ کا کھلا کرتا پہن لیتے اور دوسرے شانوں پر دُھسّا ڈال لیتے ۔ گرمی کے مقابلے میں سردی کا احساس انھیں زیادہ ہوتا تھا ۔ گرمیوں میں عام طور پر بغیر پنکھے کے بیٹھے رہتے لیکن سردیوں میں جہاں بیٹھتے کوئلوں کی انگیٹھی قریب رکھواتے ۔ گھر پر پاؤں میں سلیپر کی بجائے سیاہ رنگ کا پمپ شو (گُرگابی) پہنتے جس کے اوپر ’’ بو‘ ‘ لگی ہوتی تھی ۔
جوانی میں انھیں عام پنجابیوں کی طرح شلوار قمیص پسند تھی ۔ قمیص پرعام کوٹ لیکن سردیوں میں بند گلے کا فراک کوٹ پہنتے تھے اور سر پر سفید یا موتیے رنگ کی ململ کی پگڑی باندھتے تھے ۔ بعد میں انھوں نے ترکی ٹوپی بھی پہننی شروع کر دی ۔ انگریزی ٹوپی (ہیٹ ) شاید ہی کبھی پہنتے تھے۔ ولایت جانے سے بیشتر انھوں نے کبھی انگریزی لباس نہیں پہنا ۔ ولایت سے واپس آ کر بھی انھوں نے سوٹ وغیرہ بہت کم استعمال کیا ۔ دراصل انھیں انگریزی لباس بالکل ناپسند تھا اور وہ دیسی لباس ہی کو دل سے پسند فرماتے تھے ۔ والدہ محترمہ بیان کرتی ہیں کہ ’’ میں نے چچا جان کو بہت ہی کم کوٹ پتلون پہنے دیکھا ہے ۔ یا تو کچہری جانے کے لیے کوٹ پتلون پہنتے اور بڑی ناگواری سے نکٹائی لگاتے یا پھر کسی خاص تقریب میں شمولیت کے لیے انگریزی لباس زیب تن کرتے تھے۔ کپڑے پہنتے وقت وہ سرد آہیں بھرا کرتے تھے ۔ شاید انگریزی لباس سے دلی نفرت کی بنا پر اسے پہننا طبیعت پر گراں گزرتا ۔ گھر واپس پہنچتے ہی سب سے پہلے کوٹ پتلون اتارتے اور اپنا پسندیدہ گھریلو لباس پہن لیتے ۔ ‘‘
سادگی کا یہ عالم تھا کہ جیسا بھی کپڑا مل جاتا پہن لیتے ۔ انھیں اس سے سروکار نہ تھا کہ کپڑا ریشمی ہے یا سوتی ۔ انھوں نے کبھی اپنے لیے کپڑے وغیرہ پسند نہیں کیے ۔ والدۂ جاوید جیسے کپڑے بنوا دیتیں وہ بخوشی پہن لیتے ۔ کپڑے کے معاملے میں پہچان کا یہ عالم تھا کہ والدۂ جاوید کے بھائی کی شادی پر انھیں جو کپڑے ملے ان میں ’’بوسکی ‘‘کی قمیص تھی ۔ والدۂ جاوید نے قمیص دکھاتے ہوئے انھیں بتایا کہ یہ ’’ بوسکی ‘‘ ہے ۔ وہ بڑے حیران ہوئے اور فرمایا : ’’ اچھا ! تو یہ ’بوسکی‘ ہے لیکن اس میں کوئی خاص بات تو نظر نہیں آتی ۔ ‘‘
سفر سے ان کی طبیعت بہت گھبراتی تھی ۔ اگر کہیں جانے کا پروگرام بنتا تو کئی روز پہلے ہی سے اس کی فکر دامن گیر ہو جاتی ۔ بار بار ہدایات دیتے ؛ کبھی گاڑی کا وقت معلوم کراتے ، کبھی سامان وغیرہ کے متعلق دریافت کرتے ۔ اگر کبھی مستورات کو بھی ساتھ جانا ہوتا تو ان کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو جاتا ۔ والدۂ مکرمہ بیان فرماتی ہیں کہ ’’سیالکوٹ آنے کے لیے پہلے کئی روز تک تو ارادہ ہی باندھتے رہتے اور اس قدر پریشان ہوتے اور اہتمام فرماتے جیسے سفرِ حج پر روانہ ہو رہے ہوں ۔ سیالکوٹ کے لیے ہمیشہ شام کی گاڑی سے روانہ ہوتے اور جب تک گھر پہنچ نہ جاتے ان کی بے شمار اور بے بنیاد پریشانیوں کا خاتمہ نہ ہوتا ۔ اگر کبھی چچی جان (والدۂ جاوید) اور میں بھی ان کے ہمراہ ہوتیں توان کی پریشانی دیدنی ہوتی ۔ یوں محسوس ہوتا کہ ان کے ساتھ کوئی بہت بڑا خزانہ ہے جس پر ڈاکا پڑ جانے کا ڈر انھیں چین نہیں لینے دے رہا ۔ ‘‘
کھانے کے معاملے میں وہ سادہ مزاج ضرور تھے لیکن نفاست پسند بہت تھے ۔ جو کچھ کھانے میں مل جاتا بہ رضا و رغبت کھا لیتے ، کبھی کسی چیز میں نقص نہ ڈالتے ، البتہ اچھے کھانے کی تعریف ضرور کرتے ۔ لیکن جو چیز آنکھوں کو بھلی معلوم نہ ہوتی اسے کھانے سے انکار کر دیتے ۔ والدہ صاحبہ اس سلسلے میں ایک واقعہ یوں بیان کرتی ہیں کہ ’’ ایک روز ہنڈیا بھوننے میں زیادہ سرخ ہوگئی جس کی وجہ سے سالن ذرا سیاہی مائل ہوگیا ۔ چچا جان (علامہ صاحب )نے کھانے سے انکار کیا تو چچی جان (والدۂ جاوید ) نے کہا کہ ’’مزے دار تو بہت ہے ۔ ‘‘فرمایا : ’’ جو چیز آنکھوں کو بھلی معلوم نہیں ہو رہی اس کے لذیذ ہونے کا کیا فائدہ ؟ ‘‘ انھیں مغز یا کلیجی وغیرہ پکی ہوئی دیکھنی بھی گوارہ نہ ہوتی ۔ ایک دفعہ بیماری کے دوران میں حکیم نابینا نے انھیں بکرے کا مغز بھون کر کھانے کا مشورہ دیا لیکن انھوں نے انکار کردیا کہ کھانا توایک طرف ، مغز دیکھ کر ہی میری طبیعت متلانے لگتی ہے ۔ ترش ، چٹ پٹے اور مرغن کھانے انہیں بہت مرغوب تھے ۔ نمک مرچ تیز پسند کرتے تھے ۔ کھانے کے بعد میٹھا ضرور کھاتے ۔ عام طور پر والدۂ جاوید دودھ اور سویوں کی کھیر پکا کر رکھتیں جسے وہ بڑے شوق سے کھاتے ۔ عید کے دن ہمیشہ سویوں پر دہی ڈال کر کھاتے اور فرماتے کہ یہ میری والدہ کی پسند ہے ۔ ہر قسم کا اچار انھیں بہت پسند تھا ۔ خاص طور پر شلغم کا اچار بہت مرغوب تھا ۔ فرمایا کرتے : ’’ اچار ِ شلغم ایک نعمت ہے ۔ ‘‘ آم کا اچار جب ڈالا جاتا تو خاص طور پر ان کی ہدایت ہوتی کہ آم کی گٹھلی کے اندر کا گودا رہنے دیا جائے کیونکہ انھیں یہ بہت پسند تھا اور اچار کی پھانک کے ساتھ گودا بھی بڑی رغبت سے کھایا کرتے تھے ۔ خشکہ ان کی طبیعت کو راس نہیں آتا تھا اس لیے عام طور پر روٹی ہی کھاتے ۔ شب دیگ کے بہت شوقین تھے اور شب دیگ ہمیشہ خشکے کے ساتھ کھاتے تھے ۔