اقبال کی شاعری میں اخلاقیات کا تصور
1۔تعصب چھوڑ ناداں! دہر کے آئینہ خانے میں
یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے خدا تو نے
2۔ زباں سے گر گیا تو حید کا دعویٰ تو کیا حاصل؟
بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تونے
3۔محبت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے
ذرا سے بیج سے پیدا ریاض طور ہوتا ہے
4۔یہ استغنا ہے،پانی نگوں رکھتا ہے ساغر کو
تجھے بھی چاہیے مثل حباب آبجو رہنا
5۔نہ رہ اپنوں سے بے پروا،اسی میں خیر ہے تیری
اگر منظور ہے دنیا میں او بیگاہ خو رہنا
7۔ جینا وہ کیا جو ہو نفس غیر پر مدار
شہرت کی زندگی کا بھروسہ بھی چھوڑ دے
8۔نہ ہو قناعت شعار گلچیں،اس سے قائم ہے شان تیری
وفور گل ہے اگر چمن میں تُواور دامن دراز ہو جا
9۔ہیں جذب باہمی سےقائم نظارے سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں
10۔تُو اگر خود دار ہے منت کش ساقی نہ ہو
عین دریا میں حباب آسا نگوں پیمانہ کر
11۔تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے
12۔نہیں ہے شان خود داری،چمن سے توڑ کر تجھ کو
کو دستار میں رکھ لے کوئی زیب گلو کرے
13۔ ہمت عالی تو دریا بھی نہیں کرتی قبول
غنچہ ساں غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک
14۔مومیائی کی گدائی سے تو بہتر ہے شکست
حور بے پر! حاجتے پیش سلیما نے مبر
15۔ پہلے خود دار تو مانند سکندر ہو لے
پھر جہاں میں ہوس شوکت دارائی کر
16۔خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں،غلامی میں
زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا
17۔ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق
18۔برہنہ سر تو عزم بلند پیدا کر
یہاں فقظ سر شاہیں کے واسطے ہے کلاہ
19۔اسیری میں، فقیری میں، شاہی میں،غلامی میں
کچھ کام نہیں بنتا ہے جرات رندانہ
20۔ غمیں نہ ہو کہ بہت دور ہیں ابھی باقی
نئے ستاروں سے خالی نہیں سپر کبود
21۔ مانند سحر صحن گلستاں میں قدم رکھ
آئے بہ پا گوہر شبنم ، تونہ ٹوٹے
ہو کوہ و بیابان سے ہم آغوش و لیکن
ہاتھوں سے ترے دامن افلاک نہ چھوٹے
22۔یہ نیلگوں فضا جسے کہتے ہیں آسماں
ہمت ہو پر کشا تو حقیقت میں کچھ نہیں
بالائے سر رہا ہے تو نام اس کا آسماں
زیر پا آگیا تو میں آسماں زمیں