اقبال کی غزل
اقبال کی غزل میں حافظ کی سرشاری، غالب کی بلندی فکر اور رومی کے دل کی بےتابی ہے اور اس کے سوا کچھ اوربھی جو صرف اقبال کی اپنی دین ہے۔ اس کچھ اور کے لئے الفاظ تلاش نہیں کئے جا سکتے۔ اس کا احاطہ نہ تو شاعر مشرق کی روح کا سوز و گداز کہہ کر کیا جا سکتا ہے نہ فکرکی مرعوب کن عظمت کہہ کر۔ یہ ایک الہامی کیفیت ہے جس کو بیا ن کرنے کے لئے اقبال ہی کا مصرع پڑھا جا سکتا ہے۔ ’’خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں۔۔۔‘‘ مدرسوں اور کالجوں میں اور عام تنقیدی مضامین میں غزل کی جو تعریف کی جاتی ہے اس پر اقبال کے یہ اشعار پورے نہیں اترتے،
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اگر نہ سہل ہوں تجھ پر زمیں کے ہنگامے
بڑی ہے مستی اندیشہ ہائے افلا کی
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
ان اشعار میں ایک طائر لاہوتی کے لفظ کے سوا کوئی تشبیہ، کوئی استعارہ نہیں ہے۔ شعر کو گوارہ بنانے کے لئے عاشقانہ انداز بیان بھی نہیں اختیار کیا گیا ہے جو غزل کا ایک مستند حربہ ہے۔ لہجے میں بھی کوئی نرمی، کوئی زیرلب کیفیت نہیں ہے، کوئی سوز و گداز نہیں ہے۔ بلند آہنگی ہے، براہ راست گفتگو ہے۔ بس نئی فکر ہے اور نیا آہنگ ہے جس کی مثال اردو اور فارسی شاعری کی ایک ہزار برس کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہی اقبال کی غزل کا اعجاز ہے۔ یہ تصورات کی شاعری ہے، ایسے تصورات جن کی گرمی لفظوں کو پگھلاتی ہے اوریہ الفاظ قاری کے دل ودماغ پر ایک عظیم فکری آبشاربن کر گرتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں شعر مقبول ہیں اور ضرب المثل کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ وہ لوگ بھی جنہیں معمولی اردو آتی ہے، ان اشعار کا استعمال بے تکلفی سے کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنی دقت پسندی کے باوجود ان لوگوں پر بھی ان الفاظ نے اپنے معنی بے نقاب کر دیے ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ اس قسم کی غزل پر اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے،
مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
اقبال کی دوسرے قسم کی غزل وہ ہے جس میں تشبیہ، استعارہ، تلمیح وغیرہ سے حسن معنی کی مزید آرائش کی گئی ہے جیسے،
مری اسیری پہ شاخ گل نے یہ کہہ کے صیاد کو رلایا
کہ ایسے پرسوز نظم خواں کا گراں نہ تھا تجھ پہ آشیانہ
قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ وفرات
مجھے آہ وفغان نیم شب کا پھر پیام آیا
تھم اے رہرو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا
چل اے میری غریبی کا تماشہ دیکھنے والے
وہ محفل اٹھ گئی جس دم تو مجھ تک دور جام آیا
یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محراب مسجد پر
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقت قیام آیا
دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا
یہ اک مرد تن آساں تھا تن آسانوں کے کام آیا
اقبال کی بعض غزلوں میں ایک ہی مرکزی خیال مختلف اشعار کے پیکر میں ظاہر ہوتا ہے، مثلاً اپنی ’’بال جبریل‘‘ کی ایک غزل میں انہوں نے اپنے فلسفہ خودی کو اس طرح پیش کیا ہے جس سے مرد کامل کے خط و خال ابھرتے ہیں۔ ان اشعار میں انداز بیان براہ راست ہے اور معنوی حسن کے علاوہ کسی اور آرائش سے کام نہیں لیا گیا ہے۔ لیکن ان اشعار سے پہلے اقبال نے قصیدے کی تشبیب کی طرح چار اشعار میں خودی کی بے داری کے لئے پھولوں کا استعارہ استعمال کیا ہے۔ جس طرح فطرت پھولوں کی شکل میں بیدار ہوتی ہے، اسی طرح انسان کے اندر خودی بیدار ہو سکتی ہے۔ اس معنوی اور فنی کیفیت کا لطف لینے کے لئے پوری غزل کا پڑھنا ضروری معلوم ہوتا ہے،
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن
برگ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی باد صبح
اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن
حسن بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لئے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن؟
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا توبن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے آتا ہے دھن جاتا ہے دھن
من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
اقبال کی غزل کی ایک قسم وہ ہے جسے دعائیہ غزل کہنا چاہئے۔ اس میں شاعر خدا سے ہم کلام ہوتا ہے۔ اقبال کے ایک شعر سے شاعر کے انداز تخاطب کا اندازہ ہوتا ہے۔
چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں میں بھی اقبال
کرتا کوئی اس بندہ گستاخ کا منہ بند
یہ گستاخی تہذیب بندگی کی کمی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خودی کی بے داری سے پیدا ہوتی ہے۔ خودی انسان کی تخلیقی قوتوں کی بے داری ہے جوخدا کی ناتمام دنیا کو تکمیل کی منزل کی طرف لے جاتی ہیں۔ اس لئے اقبال کی گستاخی میں ایک شان دلآویزی ہے۔ جب وہ خدا سے یہ کہتا ہے،
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا
تو اقبال کو انسان کی عظمت کا پورا احساس ہے۔ یہ دعائیہ غزلیں اردو شاعری میں ایک عظیم الشان اضافہ ہیں۔ فارسی میں اور خصوصیت کے ساتھ ’زبور عجم‘‘ میں اس طرح کی غزلوں کی تعداد زیادہ ہے، لیکن ’’بال جبریل‘‘ میں بھی اس انداز کی کچھ شاندار غزلیں ہیں۔ یہاں ایک ایسی غزل کے چند اشعار پیش کرنا مناسب ہوگا،
گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
ہوش و خرد شکار کر قلب و نظر شکار کر
حسن بھی ہے حجاب میں عشق بھی ہے حجاب میں
یاتو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
تو ہے محیط بیکراں میں ہوں ذرا سی آبجو
یا مجھے ہم کنار کر، یا مجھے بےکنار کر
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کارجہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار کر
ان غزلوں میں اور ’’بانگ درا‘‘ کی غزلوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ’’بانگ درا‘‘ کی غزلوں کا لہجہ زیادہ سے زیادہ شاعرانہ ہے۔ لیکن ’’بال جبریل‘‘ کی غزلوں کا لہجہ پیغمبرانہ ہے۔ دونوں کتابوں کی اشاعت میں تقریباً دس سال کا فرق ہے۔ ان دس سالوں میں اقبال نے اپنی غزل گوئی کی تربیت دراصل فارسی غزل گوئی کے ذریعے سے کی ہے۔ ان کا شاعرانہ ارتقا ’’زبورعجم‘‘ میں تلاش کیا جا سکتا ہے جس کی اشاعت جون ۱۹۲۷ میں ہوئی تھی۔ غزلوں کا یہ آہنگ جو ’’بانگ درا‘‘ میں تقریبا ًناپید ہے، سب سے پہلے ’’زبورعجم‘‘ کی غزلوں میں نمایاں ہوتا ہے۔
اقبال نے اپنی غزل سے عہدنو کی تنقید کا بھی کام لیا ہے اور نہایت بےتکلفی سے فرنگی، فرنگ اور یورپ کے الفاظ غزل کے سانچے میں ڈھال دیے ہیں۔ جس طرح قدیم غزل میں زاہد اور ملا اور محتسب کا نام لیا جاتا تھا، اقبال کی غزل میں فرنگ اور فرنگی کا نام آتا ہے۔ چند مثالیں،
گرچہ ہے دلکشا بہت حسن فرنگ کی بہار
طائرک بلند بال دانہ و دام سے گزر
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ ونجف
پیر میخانہ یہ کہتا ہے کہ ایوان فرنگ
سست بنیاد بھی ہے آئینہ دیوار بھی ہے
میخانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر
خبر ملی ہے خدایان بحر وبر سے مجھے
فرنگ رہگزر سیل بے پناہ میں ہے
اقبال نے علی گڑھ کے پروفیسر ضیا احمد بدایونی کے نام ایک خط میں مومن کی شاعری پر جو تنقید کی ہے اس سے اقبال کی غزل کا نیا مزاج سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں، ’’مجھے افسوس ہے کہ ان کی شاعری سے مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ شاذونادر ہی وہ تغزل کے کسی حقیقی جذبے تک پہنچ سکے ہیں۔ ان کے خیالات طفلانہ ہیں اور وہ اپنے جذبات کے سوقیانہ پن کو چھپانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ ان کے کلام میں وضاحت کی کمی سے نفسیاتی طور سے اس افسوسناک امر کی شہادت ملتی ہے کہ ہندوستانی مسلمان کا جذبہ حکمرانی انحطاط پذیر ہو چکا تھا۔۔۔ بیان کی وضاحت حکمراں قوم کا خاصہ اور لازمہ ہوتا ہے۔۔۔ اس مریض ذہنیت کی دیگر علامات یا نتائج میں قنوطیت اور تصوف بھی شامل ہے جو ابہام سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور عدم وضاحت سے گمراہ ہوکر اسے معنویت کا درجہ دیتے ہیں۔‘‘
اقبال کی غزل میں نہ قنوطیت ہے، نہ ابہام، نہ عدم وضاحت۔ یہ بلند آہنگ اور بے باک غزل ہے۔ اس میں مائیکل انجلو کے فن کی طاقت ہے۔
(’’گفتگو‘‘ بمبئی۔ ۱۹۷۷)