اقبال کا طائر لاہوت
اے طائر لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
یہ علامہ اقبال کا معروف شعر ہے جو بال جبریل کی ایک غزل سے لیا گیا ہے۔ اقبال کا فلسفہ خودی کی بنیاد پر کھڑا ہے، خودی کے معنی ہیں کہ انسان اپنے آپ کو پہنچانتے ہوئے، اس دنیا میں اپنے بل بوتے پر آگے بڑھے۔ انسان سہاروں کا متلاشی نہ بنے بلکہ اپنے عزم اور محنت کے بل بوتے پر دنیا کو تسخیر کرے۔ اقبال کے بقول خودی انسان کے اندر شاہین کی صفات پیدا کرتی ہے۔ یہ انسان کو بلند پروازی سکھاتی ہے، اس کے کردار کی آبیاری کرتے ہوئے انسان کو اعلیٰ اوصاف کا مالک بناتی ہے۔ اخلاق حسنہ، محنت، ہمدردی، ایثار، قربانی، سچائی،جرات و حمیت یہ وہ اوصاف ہیں جو انسان کو بلند پرواز بناتے ہیں۔ جبکہ اخلاق رذیلہ یعنی، حسد، طمع، اور تکبرانسان کی پرواز میں کوتاہی کا سبب ہیں۔
اقبال کہتا چلا ہے
خودی ہے زندہ تو دریا ہے بے کرانہ ترا
تِرے فراق میں مُضطر ہے موجِ نیل و فرات
خودی ہے مردہ تو مانندِ کاہِ پیشِ نسیم
خودی ہے زندہ تو سُلطانِ جُملہ موجودات
(ارمغانِ حجاز)
رزق سے مراد ہر وہ چیز ہے جو انسان کی نشو و نما میں معاون ہے۔ عمومی طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ نشو و نما سے مراد انسان کی جسمانی ساخت میں بڑھوتری ہے، مگر یہ خیال ناقص ہے۔ انسان کی نشو و نما کے دو پہلو ہیں، جسمانی نشو و نما، اور روحانی نشو و نما۔ جسمانی نشو و نما کا رزق، حلال غذائیں ہیں، جو ہم نباتات اور مویشیوں سے حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ روحانی نشو و نما کا انحصار ہمارے اعمال و افکار پر ہے۔ اقبال کے اس شعر میں کوتاہی پرواز کا سبب بننے والا رزق، رزق حرام اور رزقِ ناقص ہے۔ رزقِ حرام صرف ناجائز ذرائع آمدن کا نام نہیں بلکہ ہمارے وہ اعمال و افکار جو ہمارے قلوب کو منفی سوچوں سے بھر دیتے ہیں، رزق حرام میں شامل ہیں۔ طمع، کینہ، تکبر یہ سب رزق حرام کی اقسام ہیں۔
یہ وہ حرام رزق ہے ، جس کے بارے میں ارشاد ہوا:
(ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ یُطِیْلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ یَمُدُّ یَدَیْہِ إِلَی السَّمَاءِ یَارَبِّ یَا رَبِّ وَمَطْعَمُہٗ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہٗ حَرَامٌ وَمَلْبَسُہٗ حَرَامٌ وَغُذِیَ بالْحَرَامِ فَأَنّٰی یُسْتَجَابُ لِذَلِکَ)
[ رواہ مسلم : کتاب الزکوٰۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتھا]
" پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کا تذکرہ کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال پراگندہ اور پاؤں خاک آلود ہیں، وہ آسمان کی طرف اپنے ہاتھ پھیلائے یارب! یارب! کی صدائیں بلند کرتا ہے۔ اس کی حالت یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور وہ حرام سے پرورش پایا ہے۔ ایسے آدمی کی دعا کیسے قبول کی جائے گی؟"
فرد کی نشو و نما کے لیے اس کے باطن کا اجلا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ پس ہر انسان کے لیے سوچ و بچار لازمی ہے کہ وہ اپنے ذہن کو کس سوچ میں غلطاں رکھتا ہے، اور اس کا قلب کن جذبات سے بھرا ہوا ہے۔ انسان کی سوچیں اس کی روح کی غذا ہیں۔ ایک فرد جو خود کو کینہ، طمع، حسد اور نفرت سے بھر لیتا ہے، وہ اپنی توانائی کا ایک کثیر حصہ فالتو مشاغل کی نظر کردیتا ہے۔ وہ کامیاب ہونے کے لیے سہاروں کا متلاشی رہتا ہے، اور دوسروں کے احسان تلے دب جاتا ہے۔ نتیجتاً اس کے اندر سے فیصلہ سازی کی قوت، بےباکی و جرات کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ فرد دوسروں کا دست نگر بن کر اپنی عزت نفس کھو دیتا ہے۔ ایسے شخص کی روح کثیف ہوجاتی ہے اور مقام لاہوت کی طرف پرواز نہیں کرسکتی۔
یعنی ،
تُو جُھکا جب غیر کے آگے ، نہ تن تیرا، نہ من
طمع کسی چیز کی حد سے بڑھی ہوئی طلب اور بھوک کا نام ہے۔ انسان اس چیز کےحصول میں اندھا ہوجائے، اور اس کا مطمع نظر صرف وہی شے بن جائے۔ طمع انسان کو لاحق بیماریوں میں سب سے شدید بیماری ہے۔ طمع انسان کے اندر سے وہ سب اوصاف کھینچ نکالتی ہے جو اسے اشرف المخلوقات بناتے ہیں۔ طمع کی کئی جہتیں ہیں، مال و دولت، رتبہ، شہرت، عزت، طاقت کی حرص ہونا۔ طمع کا مارا ہوا انسان، اپنی خواہش سے آگے کچھ نہیں سوچ سکتا۔ اس کا دماغ خواہش کے ہاتھوں مغلوب ہوکر، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ طمع کا مارا ہوا شخص، دھوکہ دیتا ہے، رشوت لیتا ہے، ناجائز ذرائع سے مال و دولت اکھٹا کرنے کی کاوش کرتا ہے۔ عہدے کا لالچی شخص سفارش اور جی حضوری میں مبتلا ہوکر اپنی عزت نفس کھو دیتا ہے۔ حرص انسان کو بخیل بناتی ہے، وہ اپنی اور اپنے رشتے داروں کی جائز ضروریات پوری نہیں کرتا۔ رشتہ داروں سے ہاتھ روکنا انسان کو قطع رحمی کی طرف لے جاتا ہے۔ قطع رحمی و سنگدلی انسان کو روحانی طور پر تباہ کریتے ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"تم سے پہلی قومیں طمع کے سبب ہلاکت کا شکار ہوگئی تھیں۔"
طمع کا شکار انسان لمبی امیدیں باندھتا ہے۔ وہ خود حرکت نہیں کرتا، محنت سے جی چراتا ہے، اور چاہتا ہے کہ تمام نعائم اسے گھر بیٹھے حاصل ہوجائیں۔ نتیجتاً طمع کا شکار شخص اپنی زندگی کا مقصد کھو بیٹھتا ہے۔ افتخار عارف نے کہا تھا
راس آنے لگی دنیا ، تو کہا دل نے ، کہ جا
اب تجھے درد کی دولت نہیں ملنے والی
انسان کو اس دنیا میں بھیجا گیا تھا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔ حرص انسان کو لوگون سے لا پروا کرتے ہوئے ان سے ان کی زندگی کا مقصد چھین لیتا ہے۔ حرص کا مارا شخص بصیرت و بصارت سے محروم ہوتا ہے۔ جب کہ سورۃ حشر کی آیت نمبر 9 میں ارشاد ہے کہ ، وہ نفس فلاح پاگیا، جو طمع سے آزاد رہا۔
اسی سبب اقبال نے فقر کی تین اقسام بیان کی ہیں
اک فقر سکھاتا ہے، صیّاد کو نخچیری
اک فقر سے کھلتے ہیں ، اسرارِ جہانگیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اک فقر سے مَٹّی میں خاصِیّتِ اِکسیری
پس طمع وہ رزق ہے جو انسان کی کوتاہ پروازی کا سبب ہے۔
کینہ، یعنی اپنے دل میں کسی کے لیے بغض و نفرت پالنا، اس کی کامیابیوں پر جلنا اور ناکامیوں پر خوش ہونا، اخلاقی کینسر ہے۔ یہ ایک ایسی آگ ہے جو انسان کے اچھے اوصاف کو خشک لکڑی کی طرح جلا دیتی ہے۔ کینہ پرور شخص بدگمانی کے عذاب کا شکار ہوجاتا ہے، وہ دوسروں کی کامیابیوں پر بدگمان ہوتا ہے، اور انھیں کسی ہیر پھیر کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ ایسا شخص خود محنت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے کیوں کہ اس کے گمان میں کامیابی محنت نہیں بلکہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی جاتی ہے۔ کینہ پرور شخص سراہنے اور تعریف کرنے کے معاملے میں بخل کا شکار ہوتا ہے۔ چناں چہ کینہ انسان کو قطع رحمی سکھاتا ہے۔ کینہ پرورانسان محنت میں اپنی توانائیاں صرف کرنے کی بجائے، اپنا سارا زور دوسروں کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرنے میں صرف کرتا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ: "کینہ پرور انسان کے لیے تادم مرگ سکون نہیں ہے۔"
کینہ پرور شخص نفرت کی آگ میں جلتا ہے، وہ کسی محنت کرنے والے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے، اس کے کامیاب ہونے پر مزید کڑھتا ہے اور اپنی مزید توانائیاں اس شخص کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ پس وہ اپنی اس خواہش میں ہلکان ہوجاتا ہے، اور شخصی محنت نہ کرنے کے باعث دنیا میں ہلاکت کا شکار ہوجاتا ہے۔ کینہ اور ہدایت اک دل میں جگہ نہیں پا سکتے۔ صوفیاء کی تعلیمات میں دل کی تطہیر کے لیے اسے دل کو پاک کرنا بنیادی شرط ہے۔ کینہ پروری اور اس کے نتیجے میں حسد کا معاملہ یہ ہے کہ یہ سب خوبیوں کو کھا جاتا ہے۔ کینہ پروری نفرت سے شروع ہوتی ہے، اور آہستہ آہستہ یہ ظلم اور پھر فتنہ و فساد کی موجب بنتی ہے۔
بے شک یہ بھی وہ پھل ہے کہ جنّت سے نکلواتا ہے آدم کو
تکبر سے مراد تفاخر جتانا، اپنی بڑائی کا قائل ہوکر دوسروں کو حقیر سمجھنا ہے۔ تکبر ایک دھوکہ ہے انسان جس کا شار ہے۔ یہ دنیا فانی ہے اور اس میں انسان کی مثال ایک بلبلہ سے زیادہ کی نہیں ہے۔ انسان اس دنیا میں خالی ہاتھ آیا ہے اور اسے خالی ہاتھ ہی لوٹ جانا ہے۔ اس لیے دنیا میں ملنے والی آسائشوں پر تفاخر کا شکار ہوجانا ایک واہمہ ہے۔ اور یہ صفت شیطانی ہے۔ ابلیس اپنی بڑائی پر نازاں ہوا، اور آدم کو سجدے سے ان کاری ہوا، نتیجتاً وہ بارگاہ خداوندی میں لعین ٹھہرا۔ تکبر کا مرتکب انسان، بھی خدا کی بارگاہ میں مغضوب ہے۔
انسان اپنے حسب و نسب، مال و دولت، خاندان، نسل اور عہدے پر تفاخر کرتا ہے۔ انسان یہ بھول جاتا ہے کہ یہ سب چیزیں عارضی ہیں اور ان کا مقصد انسان کا امتحان ہے۔ جیسے اللہ قرآن میں فرماتا ہے:
خبردار! تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے فتنہ ہے۔"
تکبر کا شکار انسان صلح رحمی سے محروم ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی ذات میں گم رہتا ہے اور انکساری و عاجزی جیسے اوصاف کھو بیٹھتا ہے۔ دنیا کی آسائشوں پر زعم کرنا ایک اندھا پن ہے، کیوں کہ دنیا کی یہ زندگی بہت مختصر ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
"دنیا کی زندگی دھوکے کا سرمایہ ہے۔" (الحدید20)
تکبر میں مبتلا شخص خود کو کچھ اور سمجھ لیتا ہے ، نمرود اور فرعون تو خدائی کا دعویٰ کر بیٹھے مگر آج کے جابر و قاہربھی اپنے زعم میں صرف خدائی کا دعوی نہیں کرتے ، باقی سب کچھ کرتے ہیں۔
بقول حبیب جالب
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے کا اتنا ہی یقیں تھا
رزق حرام، اور اخلاق رذیلہ وہ جیزیں ہے جو انسان کو دنیاوی و روحانی طور پر ذلیل و خوار کرتی ہیں۔ انسان سے حریت و بے باکی چھین کر اسے کسی کا دست نگر بنا دیتی ہیں۔ کینہ، طمع اور تکبر میں مبتلا انسان اپنی روحانی روشنی کو گم کر بیٹھتا ہے۔
غالب نے کہا تھا
فروغِ شعلۂ خس ، یک نفَس ہے
ہوَس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا؟
اور
نفَس موجِ محیطِ بے خودی ہے
تغافل ہائے ساقی کا گِلہ کیا؟؟
اقبال کے مطابق یہی وہ رزق ہیں جو انسان کی کوتاہ پروازی کا سبب ہیں۔ کیوں کہ اقبال کے نزدیک بلند پروازی کا مقصد انسان کا عظیم ہونا ہے۔ اقبال کی نظر میں عظمت انسانی یہ ہے کہ انسان خود شناس ہو، اسے عرفان ذات حاصل ہو، اور وہ اپنی توانائیوں کو مثبت کاموں میں خرچ کرتے ہوئے ذاتی اور قومی فلاح کا ضامن بنے۔ جبکہ تکبر، کینہ اور طمع انسان کی شخصی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ انسان دنیا اور دوسرے انسانوں میں گم ہوکر، عرفان ذات حاصل کرنے سے محروم ہوجاتا ہے۔ پس انسان کی پرواز میں کوتاہی انہی جذبات سے پیدا ہوتی ہے۔ یہی جذبات جب ایک معاشرے کا حصہ بن جائیں تو وہ قومی پستی کا سبب بنتے ہیں۔ ہماری قوم، وافر ذخائر کے باوجودن آج اقوام عالم کی دست نگر ہے، تو اس کے اسباب یہی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں کینہ، حسد، کاہلی، تکبر، غرور، اور اس جیسے دوسرے اخلاق رذیلہ موجود ہیں۔ ہم اپنی ذاتی و قومی زندگی میں پستی کا شکار ہیں۔ شخصی و قومی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر خود شناسی، خود نگری کے اخلاق حمیدہ پیدا کریں جو ہمیں اقوام عالم کا امام بنا دے۔
کہ اقبال پکارتا چلا ہے
مقام بندۂ مومن کا ہے ورائے سپہر
زمیں سے تا بہ ثُریّا ، تمام لات و منات
حریمِ ذات ہے اس کا نشیمنِ ابدی
نہ تِیرہ خاکِ لحد ہے نہ جلوہ گاہِ صفات
انسان نفس امارہ کی قائم کردہ تمام حدود کو جب توڑ لیتا ہے تو فقر کی تیسری قسم جلوہ افروز ہوتی ہے ، جسے اقبال ، شبّیری کہتا ہے
اک فقر ہے شبیری ، اس فقر میں ہے مِیری
میراثِ مسلمانی ، سرمایۂ شبّیری
وگرنہ وہی ماجرہ ہو گا جو شکوہ میں حکیم الامت نے فرمایا تھا کہ
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے ، اور نکالے بھی گئے
یا
بقول افتخار عارف
حال یہ ہی جو رہا اُمّتِ مسلم تیرا
تجھ کو دنیا کی امامت نہیں ملنے والی
کہ شاد عظیم آبادی نے بہت پہلے بتایا تھا
یہ بزمِ مے ہے ، یاں کوتاہ دستی میں محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں ، مِینا اسی کا ہے