(حصہ اول)اقبال کا کارنامہ اردو نظم میں
نظم کی اصطلاح پہلے تو شاعری کے لئے استعمال ہوتی تھی اور اس کے مقابلے میں نثر کو رکھا جاتا تھا۔ پھر یہ غزل کے علاوہ شاعری کی دوسرے اقسام کے لئے استعمال ہونے لگی مگر جدید تناظر میں نظم وہ صنف سخن ہے جو نہ قصیدہ ہے نہ مثنوی، نہ مرثیہ، نہ شہر آشوب، نہ واسوخت، نہ رباعی۔ ایک صنف سخن کی حیثیت سے یہ نظیر اکبرآبادی کے یہاں نمایاں ہے اور آزاد اور حالیؔ کے زمانے سے اس کی روایت کا استحکام ہوتا ہے۔ یہ مخصوص صنف نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی مخصوص ہیئت ہے۔ چنانچہ ترکیب بند، ترجیع بند، مستزاد، قطعہ، مسمط (جس میں مثلث، مربع، مخمس، مسدس، مسبع، مثمن، متسع، معسر کی ہئیت شامل ہیں) اور اس کے علاوہ مثنوی یا غزل کی ہیئت میں نظمیں اور انگریزی ادب کے اثر سے نظم معریٰ اور آزاد نظم، سانیٹ، ترایلے، ہائیکو اور اب نثری نظم بھی اس ذیل میں آتی ہیں۔
نظم کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں غزل کے مقابلے میں ایک موضوع اور ایک مسلسل بیان ہوتا ہے۔ مسلسل بیان کی وجہ سے اشعار میں ربط اور تسلسل آجاتا ہے۔ کلیم الدین احمد نے نظم کے لئے ناگزیر ربط اور ناگزیر ترتیب کی شرط لگائی ہے مگر میرے نزدیک یہ نظم کا میکانکی تصور ہے۔ شاعری میں مسلسل پرواز بھی ہوتی ہے اور جستوں یا پروازوں کا ایک سلسلہ بھی۔ پھر انیسؔ کی طرح ایک پھول کے مضمون کو سورنگوں میں بھی باندھا جاتا ہے۔
کلیم الدین احمد نے ارتقائے خیال کا بھی ذکر کیا ہے۔ لیکن یہاں بھی شاعر کبھی پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے، کبھی دائیں بائیں، پھر خیال کو واضح کرنے کے لئے کبھی کبھی تکرار اور پھیلاؤ دونوں کی گنجائش ہوتی ہے۔ پو (ایگر ایلن پو)نے تو ہر طویل نظم کو مختصر نظموں کا ایک مجموعہ کہا ہے۔ مغرب میں جس طرح نظم کا ارتقا ہوا ہے اس طرح ہمارے یہاں نہیں ہوا۔ اور اگرچہ قصیدہ، مثنوی، مرثیہ کا رواج ہمارے یہاں شروع سے رہا ہے مگر غزل زیادہ مقبول رہی ہے۔ اس لئے غزل کی ہیئت اور غزل کے اسلوب دونوں کا ہماری نظم کے ارتقا پر اثر ہوا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارے یہاں نظم میں خاصی آزادی اور خاصا تنوع ہے اور اس کو ملحوظ رکھے بغیر ہم اس صنف کے سرمائے سے پورا انصاف نہیں کر سکتے۔
اقبالؔ کو نظم کی جو روایت ملی تھی اس کے سرمائے میں نظیرؔ کی نظموں، حالیؔ، آزادؔ، اسماعیل ؔ میرٹھی اور اکبرؔ کے فن کی روایت تھی۔ پھر یہ پیامی، مقصدی، اصلاحی اور اخلاقی شاعری کا دور تھا اور براہ راست بات کہنی ضروری سمجھی جاتی تھی۔ اقبالؔ نے اگرچہ شاعری کی شروعات رواج کے مطابق غزل سے کی مگر بہت جلد نظموں کی طرف متوجہ ہوئے کیونکہ پیامی نقطہ نظر سے یہ صنف اظہار خیال کے لئے زیادہ کارآمد تھی۔ انہوں نے فارسی کی طرح اردو میں طویل نظمیں نہیں لکھیں مگر اردو میں ان کی مختصر اور نسبتاً طویل نظموں کی تعداد کیفیت اور کمیت دونوں کے لحاظ سے اتنی ہے کہ وہ اب تک نظم کے سب سے بڑے شاعر کہے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اردو نظم کو جو وسعت، گہرائی، بعد اور فکری رفعت عطا کی ہے اس سے انکار کفر ہوگا۔
انہوں نے اگرچہ غزل کو بھی صحیفہ کائنات بنایا مگر در اصل وہ نظم کے شاعر ہیں اور ان کے یہاں غزلوں کے مقابلے میں نظموں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اگر مطبوعہ اردو کلیات کا جائزہ لیا جائے تو بانگ درا میں پہلے دور میں ۴۹ نظمیں اور ۱۳ غزلیں ہیں۔ دوسرے حصے میں ۲۴ نظمیں اور ۷ غزلیں اور تیسرے حصے میں ۷۱ نظمیں اور ۸ غزلیں ہیں۔ گویا بانگ درا میں نظموں کی تعداد ۱۴۴ اور غزلوں کی تعداد ۲۸ ہے۔ یعنی پانچ گنی سے کچھ زیادہ۔ بال جبریل ۷۶ غزلیں دو حصوں میں اور ۶۲ چھوٹی بڑی نظمیں ہیں۔ ضرب کلیم بیشتر چھوٹی نظموں پر مشتمل ہے اور یہاں غزلوں کی تعداد بہت کم ہے۔ صرف ۵ غزلیں ہیں اور ۱۳۹ نظمیں۔ محراب گل افغاں کے افکار میں غزلوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے مگر اس میں ایک گیت کا تجربہ بھی ملتا ہے۔ ظریفانہ کلام کا تجزیہ میں نے نہیں کیا ہے اس میں غزلیں زیادہ ہیں مگر قطعات بھی ملتے ہیں۔
ارمغان حجاز میں اردو حصہ مختصر ہے اس میں ۹ نظمیں ہیں اور ملازادہ ضیغم لولابی کی بیاض کے عنوان سے ۱۸ غزلیں اور ایک ترجیعی مستزاد۔ غرض اردو کلیات میں ۳۵۴ چھوٹی بڑی نظمیں اور ۱۲۷ غزلیں ہیں یعنی تگنی سے کچھ کم۔ شروع میں اقبالؔ نے مسدس کو بہت زیادہ برتا۔ بانگ درا کی پہلی پانچ نظموں کے علاوہ آفتاب صبح، موج دریا، نالہ فراق، وطنیت، شکوہ اور جواب شکوہ مسدس کی ہیئت میں ہیں۔ متروک کلام میں بھی پہلی وہ نظم جس کی وجہ سے ان کی شہرت ہوئی یعنی ’نالہ یتیم‘ مسدس کی ہیئت میں ہے۔ اقبالؔ یوں تو غزل، مثنوی، مسدس، قطعہ، سب ہیئتوں کو برتتے ہیں لیکن شروع سے ان کی مرغوب ہیئت ترکیب بند رہی ہے۔
صاحب بحر الفصاحت تو مسدس کو بھی ترکیب بند کا ایک روپ مانتے ہیں۔ غزل کی ہیئت ان کے ترانہ ہندی میں ملتی ہے جس میں مطلع کے علاوہ مقطع بھی موجود ہے اور جس میں تخلص لایا گیا ہے۔ ترکیب بند میں اقبالؔ نے ہربند میں مساوی تعداد کی اشعار کی پابندی نہیں کی جس کی سب سے دلچسپ مثال حضور رسالت مآبؐ میں ہے جو جنگ طرابلس کی یادگار ہے۔ اس کے پہلے بند میں تین اور دوسرے تیسرے میں چار چار اشعار ہیں۔ شمع و شاعر میں جو ترکیب بند ہے، ہر بند ایک قطعہ کی ہیئت میں ہے اور والدہ مرحومہ کی یاد میں مثنوی کی ہیئت میں۔ یعنی قید کے اندر خاصی آزادی برتی گئی ہے، اوریہ آزادی اقبالؔ کے فنی شعور کا مزید ثبوت ہے۔
اگرچہ اقبالؔ کی زیادہ تر نظمیں مختصر ہیں مگر نسبتاً طویل نظموں کی تعداد بھی خاصی ہے۔ نالہ یتیم، یتیم کا خواب، ہلال عید سے، اشک خوں، اسلامیہ کالج کا خطاب، پنجاب کے مسلمانوں سے اور فریاد امت جس کا صرف ایک بند بانگ درا میں ملتا ہے، بانگ درا میں شامل نہیں کی گئیں۔ لیکن بانگ درا میں بھی تصویر درد، شکوہ و جواب شکوہ، شمع و شاعر، والدہ مرحومہ کی یاد میں، خضر راہ اور طلوع اسلام، بال جبریل میں مسجد قرطبہ، ساقی نامہ، ذوق و شوق، مکالمہ پیر رومی و مرید ہندی اور ارمغان حجاز میں ابلیس کی مجلس شوریٰ جیسی طویل نظموں کی قابل لحاظ تعداد ہے۔
ایک اور دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ جس طرح فارسی میں تسخیر فطرت کے ذیل میں پانچ نظمیں آتی ہیں جن میں سے ہر نظم اپنی جگہ مکمل ہے۔ مگر موضوع کو آگے بڑھاتی ہے۔ اسی طرح بال جبریل میں لینن، فرشتوں کا گیت اور فرمان خدا فرشتوں کے نام اگرچہ الگ الگ نظمیں ہیں، مگر ان میں ایک ربط مل جائے گا۔ دعا اور مسجد قرطبہ، قیدخانہ میں معتمد کی فریاد، عبدالرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا پہلا درخت، ہسپانیہ اور طار ق کی دعا میں بھی ایک رشتہ ہے۔ گویا نظموں میں ایک آزاد رشتے، ہستیوں کے تنوع اور موضوعات کی رنگا رنگی تینوں اقبالؔ کی امتیازی خصوصیات ہیں۔
کلیم الدین احمد نے اقبالؔ ایک مطالعہ میں اقبالؔ کی چند طویل نظموں اور چند مختصر نظموں کا تجزیہ کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اقبالؔ کی نظموں میں اس طرح ربط و تسلسل اور ارتقائے خیال نہیں ملتا جس طرح ہمیں مغربی شعرا کی نظموں میں ملتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر بعض اشعار حذف کر دیے جائیں یا ان کی ترتیب بدل دی جائے تو اس سے کوئی خاص فرق نہ پڑے گا بلکہ نظم بہتر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے بعض موضوعات یعنی خودی، عشق، فقر کی تکرار پر بھی اعتراض کیا ہے اوراس کے ساتھ اقبالؔ کے یہاں خطیبانہ اسلوب پر بھی۔ انہوں نے خاص طور پر طلوع اسلام اور مسجد قرطبہ کی ساخت پر اعتراض کیا ہے اور خضر راہ میں صرف شروع کے چند بندوں میں شعریت دیکھی ہے۔
اگر شاعر کے ادبی نقطہ نظر، نظموں کے موضوع اور اقبالؔ کے ادبی ماحول اور ابلاغ کی ضروریات کو ملحوظ رکھا جائے تو کلیم الدین احمد کے اکثر اعتراضات بے جا معلوم ہوتے ہیں۔ اقبالؔ کی شاعری مقصدی شاعری ہے، اسے موچی دروازے کی شاعری کہہ کر اس کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا، جیسا کہ فیضؔ نے کیا ہے۔ یا بیشتر منظوم کلام کہہ کر جیسے حامد کاشمیری نے کیا ہے۔ یہاں صرف یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ شاعری ہے یا نہیں، یہ شاعری خطیبانہ بھی ہو سکتی ہے۔ اچھی شاعری بھی اور اعلیٰ شاعری بھی یعنی یہا ں تجربہ ہے یا محض پیام۔ ایک اچھے نقاد کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ اس شاعر سے ذہنی ہمدردی کا ثبوت دے جس کا وہ مطالعہ کر رہا ہے۔ کلیم الدین احمد کے یہاں اسی ذہنی ہمدردی کا ثبوت نہیں ملتا۔
ذہنی ہمدردی کے بعد مسلمہ معیاروں کی روشنی میں تجزیے اور تبصرے کا مرحلہ آتا ہے۔ یہاں کسی عالمی روایت کی روشنی میں تجزیہ کافی نہیں۔ شاعر کی اپنی روایت اور ادبی ماحول کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے اور اس روایت کے ساتھ ہی عالمی روایت پر نظر معنی خیز اور مفید ہو سکتی ہے، اس کے بغیر نہیں۔ کلیم الدین احمد مشرقی اور ہندوستانی روایت کا سرے سے لحاظ نہیں رکھتے۔ ان دو مرحلوں کے بعد یعنی Appreciation یا ترجمانی یا تحسین کے بعد محاکمے کا مرحلہ آتا ہے اور یہاں نقاد کو اختیار ہے کہ وہ شاعر یا اس کے کارنامے کو اپنے تنقیدی شعور کے مطابق پرکھے۔
کلیم الدین احمد کے تنقیدی افکار کو میں اہمیت دیتا ہوں، اس لئے کہ ان میں ایک عالمی معیار کا احساس ملتا ہے مگر ان کے یہاں بڑی کمی یہ ہے کہ وہ اردو کے ادبی روایت اور اقبالؔ کے ادبی ماحول کو نظرانداز کر دیتے ہیں گویا اقبالؔ کو صرف مغربی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اردو شاعری کا ارتقا اس طرح نہیں ہوا جس طرح انگریزی شاعری کا ہوا ہے۔ مغرب میں نشاۃ الثانیہ کے بعدجدیدیت کا آغاز ہوا۔ ہمارے یہاں یہ اثرات اٹھارہویں صدی کے آخری نصف سے ملتے ہیں اور انیسویں صدی میں فروغ پاتے ہیں۔ آزادؔ، حالیؔ، اسماعیلؔ میرٹھی اور اکبرؔ کے یہاں براہ راست شاعری زیادہ ہے، کیونکہ ان کے یہاں ایک مقصد، ایک پیام سے گہرا شغف ہے۔
اقبالؔ بہر حال سرسید کی اصلاحی تحریک کے پیداوار ہیں۔ اس نکتے کو ملحوظ رکھے بغیر ان کی شاعری کے ساتھ انصاف نہیں ہو سکتا۔ پھراس زمانے میں وقتی اور ہنگامی موضوعات پر نظمیں لکھنے کا رواج بہت تھا اور آج بھی اس کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ اقبالؔ کے یہاں بھی یہ رنگ ہے۔ مگر اس پراعتراض کرنے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ان نظموں میں شاعری دیکھی جائے اوریہ حقیقت ہے کہ ان کے یہاں شریعت ایک نمایاں پہلو کی حیثیت سے شروع سے ملتی ہے۔ ہاں کسی نظم میں پیام کی لے ضرور زیادہ بلند ہوگئی ہے مگر ہر جگہ ایسا نہیں ہے۔
خطیبانہ شاعری کے متعلق بھی یہاں چند باتیں کہنا ضروری ہے۔ آج اگر ہم بالواسطہ شاعری کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں توا ن کے یہ معنی نہیں کہ ہم براہ راست شاعری کو سرے سے نظرانداز کر دیں۔ اس رنگ کی شاعری دنیا کے ہر ادب میں ملتی ہے اور اس کا سرمایہ بھی خاصا ہے، ایک دور میں اس کی اہمیت بھی مسلم ہے۔ شاعری کی دوسری آواز کی اہمیت کو ایلیٹ نے بھی تسلیم کیا ہے۔ خطیبانہ شاعری صرف خطاب کی شاعری نہیں ہے اس میں ایک فنی دروبست بھی ہے جس کی ایک روایت ہے۔
شکوہ یا طلوع اسلام میں جو خطابت ہے اس کی شعریت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ شکوہ کے موضوع سے اختلاف یا تصویر درد کے موضوع سے اتفاق اور اقبالؔ کے نقطہ نظر کی آفاقیت یا محدودیت کا سوال نہیں ہے، اس کی شاعرانہ حیثیت کا سوال ہے۔ کوئی مسلک چاہے کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو اگر شاعرانہ اظہار نہیں رکھتا تو اس مسلک کی وجہ سے شاعری عظیم نہیں ہو سکتی۔ اس طرح نمایاں شعری اظہار کسی بھی مسلک کی خاطر ہو اپنی شاعری کی وجہ سے عظیم ہے۔ اس کی آفاقیت اس کے تجربے کی آفاقیت میں ہے، اس کے صحیح ہونے میں نہیں۔ قرین قیاس اور اپنی شعری صداقت کے مطابق ہونے میں ہے۔
اقبالؔ کے یہاں بانگ درا کی نظموں میں حیرت انگیز تنوع ملتا ہے۔ پہلی با ت تو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہاں مختصر نظموں اور طویل نظموں دونوں کا معیار نہ صرف اپنے پیش روؤں سے بلند ہے بلکہ ان میں اقبال کے الفاظ میں کامیاب شاعری اور معیاری شاعری دونوں کے نمونے مل جاتے ہیں۔ مختصر نظموں میں ہمالہ، مرزا غالبؔ، خفتگان خاک سے استفسار، عقل و دل، ایک آرزو، جگنو، نیا شوالہ، داغ، کنار راوی، محبت، حقیقت حسن، چاند اور تارے، کوشش ناتمام، انسان، ایک شام، ستارہ، گورستان شاہی، فلسفہ غم، چاند، بزم انجم، سیرفلک، حضور رسالت مآبؐ میں، ارتقا، شیکسپیئر اور طویل نظموں میں شکوہ جواب شکوہ، شمع و شاعر، والدہ مرحومہ کی یاد میں، خضر راہ، طلوع اسلام کی نمایاں شعریت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ بعض طویل نظموں کی ساخت یکساں طور پر چست نہیں ہے اور ان میں ڈھیلے پن کا احساس ہوتا ہے یا بہکنے کا۔
بال جبریل میں طارق کی دعا، لینن، فرشتوں کا گیت، فرمان خدا، الارض للہ، لالہ صحرا، فرشتے آدم کو رخصت کرتے ہیں، روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے، جبریل و ابلیس، اذاں، شاہیں، مختصر نظموں میں نمایاں اہمیت رکھتی ہیں اور طویل نظموں میں مسجد قرطبہ، ساقی نامہ، ذوق و شوق، پیر رومی و مرید ہندی، ضرب کلیم میں لا الہ الا اللہ، علم و عشق، مدنیت اسلام، مرد مسلماں، زمانہ حاضر کا انسان، پردہ تخلیق، نگاہ، شعاع امید، اہرام مصر، فنون لطیفہ، شاعر، ہنر و مردان ہند، ذوق نظر، ابی سینا، اوغافل افغان اور ارمغان حجاز میں طویل نظم ابلیس کی مجلس شوری کے علاوہ مسعودمرحوم اور حضرت انسان قابل قدر ہیں۔ گویہ حقیقت ہے کہ ابلیس کی مجلس شوریٰ ان کی بہترین نظموں میں شمار نہیں کی جا سکتی۔ اس میں اقبال ابلیس سے زیادہ نمایاں ہیں۔
اقبالؔ کی بعض طویل نظموں شکوہ، جواب شکوہ، شمع و شاعر، والدہ مرحومہ کی یاد میں، خضر راہ، طلوع اسلام، مسجد قرطبہ، ساقی نامہ، ذوق و شوق اور ابلیس کی مجلس شوریٰ کا تجزیاتی مطالعہ کئی اشخاص نے کیا ہے۔ اس سلسلے میں کلیم الدین احمد اور مسعود حسین خاں کے نام اہمیت رکھتے ہیں۔