اقبال: جدید اردو نظم کا پیش رو

آج سے تیس پینتیس برس پہلے جدیداردونظم ایک شجرممنوعہ کا درجہ رکھتی تھی اور ہمارے ثقہ بزرگ اور شاعری کے قدیم رنگ کے رسیا حضرات اس سے پوری طرح بدکتے تھے۔ چنانچہ وہ راشدؔ، میراجی، فیض اور ان سے متاثر ہونے والوں کی شاعری کو بے راہ روی، تھوڑا تھوڑا الحاد اور مجہول انفرادیت کی شاعری کہہ کر مسترد کردیتے تھے لیکن تیس پینتیس برس گزرجانے کے بعداب صاف محسوس ہونے لگا ہے کہ جدید اردو نظم متوازی مغربی تحریکوں سے متاثر ہونے کے باوصف ایک بڑی حد تک اقبال کی اجتہادی روش اور رویے سے متاثر تھی۔ لہٰذا اس پر بے راہ روی اور الحاد کا الزام بالکل بے بنیاد ہے۔


دیکھنا چاہئے کہ یہ احساس کس حد تک حق بجانب ہے۔ جدید اردو نظم پر اقبال کے اثرات کا اندازہ کرنے کے لیے ان دو بنیادی نظریوں پر غورکرنا ضروری ہے جو اقبال کے زمانے میں عام ہوچکے تھے اورجن سے اقبال کا ذہنی نظام ایک بڑی حد تک مرتب ہوا تھا۔ ان میں سے ایک نظریہ حالی کا تھا۔ حالی نے قوم کی زبوں حالی کے پیش نظر اسلاف کے کارناموں کو بڑی اہمیت دی تھی اور ماضی کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرکے حال کو بہتر بنانے پر عوام کو اکسایا تھا۔ اقبال نے اسلاف کی بلنداخلاقی سطح کا یہ تصور حالی سے اخذ کیا اور آگے چل کر جب انہوں نے اسلامی نظریہ حیات کی ترویج میں حصہ لیا تو ان کے اس میلان میں مسدس حالی کی گونج برابر سنائی دیتی رہی۔


دوسرا نظریہ اکبر کا تھا۔ اکبر مغربی تہذیب کے خلاف تھے۔ ان کی اس انفرادیت کے پس پشت یہ احساس قوی تھا کہ کہیں ان کی قوم مغربی تہذیب کو اپناکر تنزل اور زوال کا شکار نہ ہوجائے۔ اپنی قوم کو مغربی تہذیب سے محفوظ رکھنے کے لیے انہوں نے طنز ومزاح کے حربوں کو عام طور سے استعمال کیا۔ اقبال نے سفر یورپ کے بعد ردعمل کے طورپراس طریق کو اپنایا لیکن ابتدا ہی میں اکبر کے تتبع میں نظمیں لکھنے کی روش صاف طورپر اس بات کی غماز ہے کہ اس ردعمل کی تعمیر میں اکبرکے اثرات نے بنیادی کام سرانجام دیا تھا۔


تاہم اقبال نے بہت جلداکبر کے طنزیہ طریق کار کو ترک کردیا اور ایک علمی اور نظریاتی سطح پر مغربی تہذیب کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ حالی اوراکبر مختلف الخیال ہونے کے باوجودایک ہی اعلیٰ مقصد کے لیے کوشاں تھے۔ یعنی اصلاح کے ذریعے قوم کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کا مقصد! یہ الگ بات ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے حالی نے مثبت اور اکبر نے منفی طریق اختیار کیا۔ جہاں تک اقبال کا تعلق ہے، انہوں نے اسلاف کی عظمت کا تصور توحالی سے اورمغربی تہذیب کی نفی کا تصور اکبر سے مستعار لیا اور یوں قطعاً غیرشعوری طورپر ایک بلند سطح پرآکھڑا ہوئے لیکن اقبال کے ہاں حالی اوراکبر کے میلانات سے مطابقت کا رجحان اس ایک نقطے پر ختم ہوجاتا ہے۔


مثلاً حالی قوم کو خارجی سطح پر خوشحال دیکھنے کے متمنی تھے اوراس کام کے لیے انہوں نے اہل وطن کو مغرب کی ترقی یافتہ قوموں سے قدم ملاکر چلنے کی ترغیب دی تھی۔ جبکہ اقبال مغربی تہذیب کوایک بندی خانہ تصور کرتے تھے اور ان کا یہ خیال تھا کہ یہ ’’تہذیب‘‘ اپنے ہاتھوں آپ ہی خودکشی کرے گی۔ غالباً مغربی تہذیب سے ایسی شدید نفرت کا باعث اقبال کا یہ احساس تھا کہ وہاں فرد روحانی طورپر متحرک نہیں رہا اور مشین کا ایک پرزہ سا بننے لگا ہے۔ پھر حالی اوراکبرکے ہاں ایک بلند اخلاقی سطح سے عوام کو مخاطب کرنے کی روش عام تھی اور ان دونوں کا موقف یہ تھا کہ قوم کو تنزل اور زوال سے بہرصورت بچانا نہایت ضروری ہے۔ گویا ان کے ہاں فرد کی آزادی اور بہبود کا تصور قوم کی آزادی اور بہبود کے مقصد تلے دم توڑ چکا تھا۔


یہودیوں کے ابتدائی ادوار میں ان کے پیغمبر قوم کو مخاطب کرتے اور قوم کی بحیثیت مجموعی نجات پانے کی تلقین کرتے تھے۔ حالی اور اکبر کے زمانے میں انداز گفتگو بالکل ویسا تو نہیں تھا، تاہم اس بات سے انکار مشکل ہے کہ یہاں بھی فرد کے مقابلے میں قوم اورجزو کے مقابلے میں کل کو زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ بے شک اقبال نے تخاطب کا انداز اور ایک اونچے سنگھاسن پر کھڑے ہونے کی روش تو حالی اوراکبر سے مستعار لی لیکن انہوں نے پہلی بار معاشرے میں فرداور کائنات میں انسان کو اس کا کھویا ہوا منصب واپس دلانے کی کوشش کی۔ انفرادیت کے اس رجحان ہی میں اقبال کی عظمت پنہاں ہے۔


اقبال کے ہاں فرداور سوسائٹی کے رشتے کے کئی مدارج ہیں اور بعض نقادوں کواس ضمن میں اقبال کے ہاں تضادات بھی نظرآئے ہیں۔ کسی شاعر کے ہاں فکری تضاد کی نمود کوئی عیب کی بات نہیں کیونکہ شاعر تو اپنے تاثرات کوپیش کرتا ہے، کسی مربوط اور منظم فلسفے کا داعی بن کر ظاہر نہیں ہوتا۔ اقبال کے سلسلہ میں المیہ یہ ہوا کہ یار لوگوں نے انہیں شاعر سے کہیں زیادہ ایک فلسفی کے روپ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے معترضین کوکھل کر بات کرنے کی تحریک ملی ہے کیونکہ اقبال کے ہاں بظاہر نہ صرف فکری تضاد ملتا ہے بلکہ ان کے کئی نظریات مختلف حکما کے نظریات سے متاثر بھی ہیں لیکن اقبال کی عظمت فی الاصل ان کے جمالیاتی رویے کے باعث ہے اوراس رویے کے تحت فکری تضادات محض احساسی ارتقا کی مختلف کڑیوں کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔


مثلاً اقبال کے ہاں فرداور سوسائٹی کے رشتے کو لیجئے۔ آغاز کار میں حب الوطنی کے جذبے کے تحت اقبال نے ہندوستان کی دھرتی سے گہری وابستگی کا ثبوت دیا تھا۔ پھر جب وہ آگے بڑھے تو انہیں وطن کے مقابلے میں ملت کا تصور زیادہ جاندار نظرآیا۔ پہلی صورت میں فردزمین کے ساتھ اس طور چمٹا ہوا تھا جیسے بچہ ماں کے ساتھ۔ مؤخرالذکر کیفیت کے تحت سماج اور فرد کا رشتہ، مشین اوراس کے پرزے کا رشتہ تھا۔ فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں۔۔۔ لیکن جلد ہی اقبال کے ہاں ایک متوازن نظریہ ابھر آیا اور وہ فرد اور سماج کے رشتے کو ’’صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گل بھی ہے۔۔۔‘‘ سے ظاہر کرنے لگے۔


احساسی ارتقاء کی یہ سطح بے حد خیال انگیز ہے کہ اس تک پہنچنے کے بعد اقبال نے فرد اورسماج کو ہم پلہ کردیا ہے۔ اب فرد محض مشین کا ایک پرزہ نہیں اورنہ وہ ایک ایسی ہستی ہے جسے سماجی قوانین اور بندشوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جکڑ دیا گیا ہو بلکہ اب اس کے ہاں حریت کے تصور نے واضح طورپر جنم لے لیا ہے اوروہ پابہ گل ہونے کے باوجود آزاد بھی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اقبال اورنظم گو شعرا کی قطار سے بالکل الگ ہوجاتے ہیں اور انفرادیت کے علم بردار بن کر نمودار ہوتے ہیں۔ اردونظم کو اس کے اصل مزاج سے قریب تر کرنے میں اقبال کے اس اقدام کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ بے شک اقبال نے فرد کو پوری طرح آزاد ہوجانے کی اجازت نہیں دی لیکن اسے جزوی طورپر آزاد کرکے مکمل آزادی کی طرف گامزن ضرور کیا ہے۔ آگے چل کر جدید اردو نظم میں انفرادیت کا جو بھرپور رجحان وجودمیں آیا وہ اقبال کے اس اقدام کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔


اقبال کے ہاں انفرادیت کی ضو کا دوسرا بڑا مظہر انسان اورکائنات کا وہ رشتہ ہے جس میں انہوں نے انسان کی عظمت کو اجاگر کرکے قدیم مابعد الطبیعات سے اپنا قدم باہر نکالا ہے۔ فرد اورملت کی کشمکش کے بیان میں تواقبال ایک حد تک اخفائے ذات کے عمل میں مبتلا تھے لیکن انسان اورکائنات کے رشتے کے بیان میں انہوں نے ان قدیم تصورات سے پوری طرح انحراف کیا جن کے تحت کائنات میں انسان بے بس، مجبور اور لاچار تھا اوراس کی ہستی ایک لازوال قوت کے مقابلے میں قطعاً بے معنی اور حقیر تھی۔ اقبال نے ’’زوال آدم خاکی‘‘ کے اس تصور کو قبول نہیں کیا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ ایک بے نام جزو کی طرح کائنات کے ’’کل‘‘ کے ساتھ چمٹے رہنے کو ناپسند کرتے تھے۔ چنانچہ جہاں اقبال کی یہ روش قابل تعریف ہے کہ انہوں نے فرد کو سوسائٹی کے تسلط سے آزاد کرانے کی کوشش کی، وہاں ان کا یہ اقدام بھی قابل ذکر ہے کہ انہوں نے کائنات میں انسان کو ایک اعلیٰ مقام دلانے کی سعی کی۔


اقبال کے نزدیک تحرک کا فقدان کوئی قابل فخر بات نہیں تھی۔ آدم کا آنکھیں میچ کر ایک منضبط اور منظم کائنات میں محض ایک بے جان پرزے کی طرح کام کیے جانا فخر کا نہیں رونے کا مقام تھا۔ چنانچہ اقبال کی نظم آدم کوکائنات کے بارگراں سے آزاد کرانے اوراس کی انفرادیت کواجاگرکرنے کی ایک دل آویز کوشش ہے۔ اس کے تحت اقبال کے آدم کی عظمت کو مردمومن، شاہین اور عقاب ایسی علامات سے ظاہر کیا ہے اوراس میں قوت، ہمت اور ذہنی اورجسمانی تفوق کے جملہ عناصر کویک جا دیکھنے کی آرزوکی ہے۔ خدا کے ساتھ اقبال کی مدمقابل کی سی باتیں دراصل آدم کی نئی نویلی انفرادیت کے منظرعام پر آنے ہی کے باعث ہیں۔


نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں


جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو


یہ اور اسی وضع کی دوسری مثالوں پر غورکریں تو جدید اردو نظم کے سلسلے میں اقبال کی عطا کافی الفور اندازہ ہوجاتا ہے۔ پہلی بات تویہ ہے کہ اقبال نے اس تصور کی نفی کی جس کے تحت آدمی کو پیدائشی گناہ گار کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔ اقبال کا موقف یہ تھا کہ آدم کی لغزش بھی اس کی عظمت کی دلیل ہے اوریہ آدم ہی توہے جس نے خاک کو افلاک کے مقام پر پہنچا دیا ہے۔ اس طور کہ فرشتوں کو بھی اس پر رشک آتا ہے۔ آدمی کو ایک شدید احساس کمتری سے نجات دلاکر اس میں خوداعتمادی اور خودشناسی کا جوہر پیدا کرنے کا یہ اقدام فرد کی انفرادیت کو منظر عام پر لانے ہی کی ایک کاوش تھی۔ چونکہ اقبال سے قبل اردو نظم نے عام طور سے فرد کی اس انفرادی حیثیت کواجاگر نہیں کیا تھا، اس لیے ظاہر ہے کہ اقبال کی یہ روش بالکل ایک نیا اور تازہ اقدام تھا اوراس کے باعث افراد کے اذہان میں ہیجان اورابھار وجود میں آیا، جس نے آگے چل کر اردو نظم کو ایک بھرپور انداز میں ظاہر ہونے میں مدد دی اور دوسری بات یہ ہے کہ اقبال سے قبل آدم کے علاوہ اس کے خاکی مسکین یعنی زمین کو بھی کثافت، زوال اور پستی کی آماجگاہ متصور کیا گیا تھا اوراس کے مقابلے میں آسمان کی عظمت، رفعت اور پاکیزگی کوعام طور سے سراہا گیا تھا۔


اقبال نے جب آدم کی عظمت کے گن گائے توقدرتی طورپر انہوں نے آدم کے مسکن کو بھی بڑی اہمیت دی۔ قیاس غالب یہ ہے کہ خاک سے اقبال کی اس وابستگی میں حب الوطنی کے اس میلان کا بھی ہاتھ تھا جو اقبال کے ابتدائی کلام میں بہت نمایاں ہوا تھا۔ نظریاتی سطح پر تو اقبال نے اس میلان کو عبور کرلیا تاہم نفسیاتی سطح پر اس کا استیصال ناممکن تھا۔ چنانچہ اب انہوں نے وطن سے محبت کے جذبے کو خاک سے محبت کے جذبے میں متبدل کردیا تھا۔ نظم کی ترویج کے سلسلے میں خاک سے اقبال کا یہ لگاؤ بے حد اہم تھا کیونکہ نظم، خارجی اور ارضی اشیا اورمظاہر سے اپنا رشتہ استوار کرنے کے بعدہی اندر کی دنیا کی طرف بڑھتی ہے۔


تیسری بات یہ ہے کہ اقبال نے خاک کے پتلے کو ایک جامد حالت میں دیکھنے کے بجائے اسے تغیر، حرکت اور حرارت کی علامت جانا اوراسے خودی کے حصول کے لیے ایک لمبا سفراختیار کرنے کی ترغیب دی۔ یہ سفر جو خارجی سطح پر ہی نہیں، داخلی سطح پر بھی اہم ہے، جدید نظم کے مزاج کی تشکیل میں پوری طرح صرف ہوا ہے۔ سفر کا تصور بجائے خود اس امر کا غماز ہے کہ فرد اب اپنے معاشرے کا محض ایک بے نام جزو نہیں بلکہ اب وہ رخت سفر باندھ کر ایک طویل آوارہ خرامی کے لیے گھر سے باہر نکل آیا ہے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ جب اقبال یورپ گئے تو انہیں وہاں ایک فکری پت جھڑ سے آشنا ہونے کا موقعہ ملا۔ پت جھڑ کی یہ رُت یورپی زندگی میں آنے والی ایک طویل بہار کے بعد اس طورنمودار ہوئی تھی کہ یورپی انسان سے اس کی صدیوں پرانی جملہ اخلاقی اور روحانی بنیادیں ہی چھن گئی تھیں اور وہ اب خودکوہوا میں معلق محسوس کر رہا تھا۔ ایک طرف سائنس نے اس کی محدود و محفوظ کائنات کوایک دھماکے سے اڑا دیا تھا تودوسری طرف ارتقا کے نظریات نے اسے حیوانوں کی صف میں لاکھڑا کردیا تھا۔


پھریکایک اس پر ایک عالمی جنگ نازل ہوئی اوریورپی انسان اپنے تہذیبی لبادے کو پھاڑ کر بالکل ننگا ہوگیا۔ یہ گویا اس بات کی توثیق تھی کہ انسان واقعتاً اپنے تہذیبی نقاب کے پیچھے محض ایک حیوان ہے جو جبلتوں کا مطیع ہے نہ کہ اخلاقی یا روحانی تقاضوں کا۔ چنانچہ مغرب کے بعض مفکرین نے زوال یورپ کے اس روپ کو دیکھتے ہوئے اس بات کا بار بار اظہار کیا کہ یورپ روحانی اور اخلاقی طورپر بالکل بانجھ ہوچکا ہے۔ سپنگلر، ٹائن بی، سوروکن ان تینوں نے زوال مغرب ہی کو موضوع بنایا۔ اسی طرح یورپی شعرا نے یورپ کو ایک پرانے یا ویسٹ لینڈ کے طورپر محسوس کیا اوراس ضرورت کا احساس عام طور سے ہونے لگا کہ ایک روحانی تشکیل نو کے بغیر مغرب کا انسان اس ویسٹ لینڈ کی دم روکنے والی کیفیت سے باہر نہیں آسکتا۔


اقبال جب یورپ گئے تو انہوں نے اپنی آنکھوں سے ویسٹ لینڈ کے نقوش کودیکھا اور محسوس کیا۔ لہٰذا یورپی تہذیب کے خلاف اقبال کا ردعمل ویسا ہرگز نہیں تھا جیسا مثلاً اکبر اوران کے معاصرین کا۔ یہ لوگ تومغربی تہذیب کی اجنبیت سے نالاں تھے اور اگراسے ہدف طنز بنانے پر مصر تھے، تومحض اس لیے کہ ایسا کرکے وہ اپنی دیسی تہذیب کا تحفظ کرسکتے تھے۔ مگراقبال مغربی تہذیب کے اصل المیہ سے واقف تھے اوراسے ایک روحانی قحط سالی سے تعبیر کر رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی نظم میں نہ صرف یورپی زندگی میں نمودار ہونے والے ویسٹ لینڈ کی نشاندہی کی، نہ صرف اس بات کا احساس دلایا کہ اس ویسٹ لینڈ کی سرحدیں خود ہماری سرزمین کے اندر بھی پھیل رہی ہیں بلکہ اس کی یلغار کو روکنے کے لیے ایک روحانی نشاۃ الثانیہ کی ضرورت پر بھی زوردیا کہ یہی پانی کا وہ قطعہ تھا جو آگے بڑھتے ہوئے صحرا کا راستہ روک سکتا تھا۔


بے شک جدید اردونظم نے مغربی ادبیات سے براہ راست بھی ویسٹ لینڈ کا تصور اخذ کیا مگراس ویسٹ لینڈ کی پھیلتی ہوئی سرحدوں کا احساس اقبال کی نظم کی وساطت ہی سے اس تک پہنچا۔ اس کے علاوہ روحانی تربیت کے ذریعہ عرفان اور آگہی کے مدارج طے کرنے کا میلان بھی اقبال کی نظم ہی کے ذریعہ جدید نظم میں داخل ہوا۔ لہٰذا آج اگرہمیں جدید اردونظم میں ایک صوفیانہ رو زیر سطح محسوس ہورہی ہے، جس کے باعث نظم نے موجود سے منقطع ہوئے بغیر اس کی حدود کو عبور کرکے کائنات کی بے کنار وسعتوں سے رشتہ قائم کیا ہے تویہ فی الحقیقت اقبال کی نظم ہی کا فیضان ہے۔


آخری بات یہ ہے کہ اقبال نے یورپی زندگی کے مشاہدہ اور اس کے فکری مکاتب کے مطالعہ سے ’’پیکار‘‘ کا تصور اخذ کیا تھا اورجب اسے ایک وسیع تناظر میں رکھ کر دیکھا تھا توانہیں اس کی صورت ’’دائیں‘‘ اور ’’بائیں‘‘ کی آویزش سے نہیں بلکہ خیراور شر کے تصادم میں نظرآئی تھی۔ علاوہ ازیں اقبال نے یورپی زندگی میں مشین کے بڑھتے ہوئے تسلط اور مشرق پر مغربی تہذیب کی بڑھتی ہوئی یلغار کے پیش نظر فرداورمعاشرے کی آویزش کا بھی ادراک کیا تھا اوراسے ایک وسیع تناظر میں رکھ کر جزو اورکل کی ’’پیکار‘‘ کو بھی محسوس کرلیا تھا۔ گویا انہوں نے بیسویں صدی کی فضا سے ’’پیکار‘‘ کی بو سونگھ لی تھی اور اب اس سے اوپر اٹھنے کے تمنائی تھے۔


چنانچہ اقبال کی نظم نے نہ صرف جدلیات کے مظاہر اور تصورات کو اپنے اندرجذب کیا بلکہ تصادم اور آویزش کے اندرسے خیر کی یکتائی کے تصور کو بھی ابھارا۔ اقبال کا خیال کہ جبراوراختیار متضاد نہیں بلکہ باہم مربوط ہیں اورانسان بیک وقت آزاد بھی ہے اورپابہ گل بھی، ایک ایسا نظریہ تھا جوپیکار اور آویزش کا منہ چڑا رہا تھا۔ ہرچند جدید اردونظم نے ویسٹ لینڈ کے تصور کی طرح پیکار کے مظاہر کو براہ راست بھی محسوس کیا اور ترقی پسند نظم توبالخصوص مادی سطح کی پیکار سے بری طرح متاثر ہوئی، تاہم اقبال کے معتدل اور متوازن رویے نے یہاں بھی جدید اردونظم پر اپنے اثرات کچھ یوں مرتسم کیے کہ نظم لکھنے والوں نے مادی جدلیات کو عبور کرکے کائناتی جدلیات کا ادراک کرلیااورپھر پیکار کی سطح سے ’’اکائی‘‘ کی سطح پر اٹھ آئے۔ یہ ایک خالص مشرقی انداز فکر تھا جو اقبال کی وساطت سے جدید اردو نظم کے پیکر میں شامل ہوا اوراسے ایک خاص لہجہ تفویض کرنے میں پوری طرح کامیاب ہوگیا۔