اقبال، فیض اور ہم
میں اردو مرکز لندن کے عہدہ داروں اور اراکین کا ممنون ہوں کہ انہوں نے فیض کی پہلی برسی کے موقع پر مجھے لندن آنے اور پہلا فیض میموریل لیکچر دینے کی دعوت دی۔ فیضؔ کی یاد میں لیکچروں کے سلسلے کا یہ آغاز ایک قابل قدر اقدام ہے اور امید ہے کہ ان لیکچروں کے ذریعہ سے اردو دنیا میں فکر و نظر کی روایت پھلے پھولے گی۔ شعر و ادب کی قدر شناسی عام ہوگی اور ادب اور زندگی کے مختلف گوشوں کے متعلق بصیرت اور عرفان بڑھے گا۔ اردو دنیا اب برصغیر تک محدود نہیں رہی۔ یہ ایک عالمی برادری ہوتی جا رہی ہے۔ اس لئے اردو کے مصنفین اور دانشوروں کی ذمہ داری اور بڑھ گئی ہے۔ انہیں اپنی بنیادوں، ماحول، تاریخ، تہذیب کے احساس کے ساتھ عالمی حصارات پر بھی نظر رکھنی ہے اور اس پر آشوب دور میں تغیراور تسلسل دونوں کے مطالبات سے عہدہ بر آ ہونا ہے۔ آج کے لیکچر کے ذریعہ سے میں اقبالؔ اور فیضؔ کی معنویت اور دونوں کے رشتے کو واضح کرنے کے ساتھ چند ہم عصر معلومات کا بھی جائزہ لینا چاہتا ہوں۔ اس قسم کی ہر کوشش ادھوری ہوتی ہے مگر ایسی ادھوری کوششوں سے ہی بالآخر پوری تصویر بنتی ہے۔ تنقید حرف آخر نہیں ہوتی، حرف روشن ہوتی ہے۔ یہاں میں یہ کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے نزدیک تنقید کا اصل کام فن کا مطالعہ ہے، فنکار کا نہیں۔ فنکار کا مطالعہ فن کے مطالعہ میں مدد کرتا ہے مگر فن بہرحال فنکار سے بڑا ہوتا ہے۔ فنکار کی زندگی، ماحول، نفسیات اور شخصیت کا علم نقاد کے لئے اس وجہ سے اہم ہوتا ہے کہ اس سے فن کے اسرار و رموز اور پیچ و خم کے سمجھنے میں مدد ضرور ملتی ہے کیونکہ فن خلا میں وجود میں نہیں آتا۔ یہ ایک تاریخی لمحے کی روشن لکیر ہے، یعنی اس روشنی کی ہی مرکزی اہمیت ہے جس میں تخیل نے پرچھائیوں کو روپ دیا ہے۔ فکر روشن نے تب و تاب عطا کی ہے۔ لفظ نے کائنات کی پہنائی اختیار کرلی ہے۔ زبان تہہ دار اور پہلودار ہو گئی ہے اور اسلوب نے ادبی روایات کے سمندر سے انفرادیت کے موتی نکالے ہیں۔ یہ مسرت سے شروع ہوتی ہے اور جیسا کہ رابرٹ فراسٹ نے کہا ہے بصیرت تک لے جاتی ہے۔ اقبال ؔ اور فیضؔ دونوں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اقبالؔ پر تو ایک دفتر جمع ہو گیا ہے مگر فیضؔ پر بھی کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ اقبالؔ کی فکر پر زیادہ توجہ ہوئی ہے، ان کے معجزۂ فن پر کم۔ اقبالؔ کی فکر کے سلسلے میں بھی سخن فہمی سے زیادہ جانب داری، پرکھ سے زیادہ پرستش، بحث و نظر سے زیادہ بازآفرینی، تنقید سے زیادہ تفسیر ملتی ہے۔ اقبالؔ کی فکر میں اتنی گہرائی ہے کہ وہ تنقید اور تجزیے کی تاب لا سکتی ہے، مگر ہمارے تقلیدی ذہن نے اس طرف توجہ نہیں کی مثلاً Herman Hess کے اس نکتے پر کماحقہ غور نہیں کیا گیا کہ اقبالؔ فکر کی تین اقلیموں کا حکمراں ہے۔ ہندی، مغربی اور اسلامی۔ بلاشبہ اسلامی فکر کی مرکزی اہمیت ہے مگر فکر کے اس مینار میں ہندی اور مغربی افکار جس طرح گھل مل گئے ہیں ان کا اعتراف عام نہیں ہے۔ پھر اقبالؔ کے فن میں اتنی ہمہ گیری ہے، اس میں اتنے آداب فن برتے گئے ہیں اور اتنے اسالیب سے کام لیا گیا ہے، اس کی شریعت میں اتنی حکمت ہے اور یہ شعری سرمایہ اتنا برگزیدہ ہے کہ اپنی ادبی روایت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اورعالمی معیاروں کی روشنی میں ابھی اس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً شاعری میں خطابت کو اب بے سوچے سمجھے نظرانداز کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ North Rope Frye نے کہا ہے۔ یہ صرف جذبے کی پرواز نہیں، فن کے آداب کا بھی نام ہے۔ شاعری کی جس دوسری آواز کی طرف ایلیٹ نے اشارہ کیا ہے اسے ہم شاعری کے سنگت سے خارج کیسے کر سکتے ہیں۔ جہاں تک فیض کا معاملہ ہے ان کے یہاں اقبالؔ کے مقابلے میں محدود مگر خاصی گہری اور مربوط فکر ملتی ہے اور ان کا فن ایک ادبی روایت کا نقطۂ عروج کہا جا سکتا ہے۔ مگر یہ بھی واقعہ ہے کہ اقبالؔ کے بعد سندھ اور گنگا میں بہت پانی بڑھ گیا ہے اور فیض کے علاوہ بھی فکر کے نئے پہلو، آدرش کے نئے رنگ محل سامنے آئے ہیں، اس لئے اقبالؔ اور فیضؔ اور ہم عصر ادب کے تناظر میں اگر روایت اور تجربے کی اس بساط پر جو گل کاریاں ہوئی ہیں ان کا سنجیدگی اور تامل کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو ذہن کو نئی روشنی ملے گی اور ایک جامع تنقیدی نظر نمایاں ہو سکے گی۔ میں ایک اہم نکتے کی طرف شروع ہی میں توجہ دلاتا چلوں۔ اقبالؔ کی فکر کی اہمیت اور اس کے سیاسی مضمرات کی کارفرمائی مسلم، مگراقبالؔ کی فکر کا مطالعہ اس سے بلند ہوکر کرنا چاہئے۔ اس طرح فیضؔ کے سیاسی مسلک کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے اور فیضؔ کی شخصیت کی محبوبیت کو بھی مگر فیضؔ کی شاعری کی قدروقیمت صرف ان چیزوں کی رہین منت نہیں ہے۔ پھر اقبالؔ ہوں یا فیضؔ یا ہم عصر شعراء ہمیں صفات کے استعمال میں بہت محتاط ہونا چاہئے۔ اردو تنقید میں عظیم جیسے الفاظ بے دریغ استعمال کئے جاتے ہیں۔ ایک زمانے میں افکار کراچی میں کرشن چندر کے متعلق یہ لکھا جاتا تھا کہ وہ ایشیا کے عظیم فن کار ہیں، صرف برصغیر ہی میں نہیں، ایشیا میں بہت سی بڑی زبانیں ہیں جن میں بڑا ادب ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایسا پیمانہ نہیں جس کی بنا پر ہم مختلف زبانوں کے ادیبوں اور شاعروں کو ناپ سکیں۔ کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ فیضؔ کا دورہے، راشدؔ، میرا جیؔ اور دوسرے شاعروں کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔ سجاد ظہیر کا ایک قول عزیز احمد نے نقل کیا تھا کہ اقبال فی الجملہ ترقی پسند ہیں۔ اقبالؔ نے اپنے متعلق کہا تھا وہ نہ ابلہ مسجد ہیں نہ تہذیب کے فرزند، اس لئے لیبل لگانے کی عادت ترک کرنا چاہئے اور مے کی تلخی و تندی کو دیکھنا چاہئے۔ جسے ہم ادبی روایت کہتے ہیں وہ اکہری نہیں ہوتی، نہ خط مستقیم میں ہوتی ہے اور اس میں ایک شاہراہ نہیں کئی شاہراہیں ہوتی ہیں اور سب کی پگڈنڈیاں۔ ادبی روایت اس دریا کی طرح ہے جس میں چھوٹے بڑے بہت سے ندی نالے آکر ملتے ہیں اور کچھ دریا نکلتے بھی ہیں۔ اردو کی ادبی روایت کے بھی کئی پڑاؤ اورموڑ ہیں۔ اردو کی ادبی روایت صرف غزل کی روایت نہیں ہے۔ نظم کی روایت بھی ہے، مثنوی، قصیدہ، قطعہ، رباعی، مرثیہ، پابند نظم کے ذیل میں آتے ہیں۔ حالیؔ اور آزادؔ سے نظم جدید منسوب کی جاتی ہے۔ یہ اس لحاظ سے جدید کہی جا سکتی ہے کہ اس میں نئے موضوعات ہیں مگر اس کی اصناف مثنوی، قطعہ، رباعی وہی جانی پہچانی اصناف ہیں اور اگر موضوعات کے لحاظ سے جدید نظم کہنا ضروری ہے تو نظیر اکبرآبادی کے سریہ سہرا ہونا چاہئے۔ بہر حال اصناف کے لحاظ سے قصیدے، مثنوی، مرثیے کی روایت نظم میں اورغزل کی روایت، ان سب سے مل کر ہماری ادبی روایت کا صحیح نقشہ سامنے آتا ہے۔ ایک اور زاویے سے دیکھیں تو میرؔ، سوداؔ، میر حسنؔ، نظیرؔ، انیسؔ اور غالبؔ ہماری کلاسیکی روایت کو ظاہر کرتے ہیں اور حالیؔ اور اکبرؔ، اس کے بعد کی روایت کو۔ اقبالؔ کا غالبؔ اور حالیؔ دونوں سے رشتہ ہے اور فیضؔ کا غالبؔ اور اقبالؔ سے۔ میرؔ کی روایت اقبال اور فیض کے یہاں جلوہ گر نہیں ہوئی، یہ حسرت اور فانیؔ سے ہوتی ہوئی ناصر کاظمی، خلیل الرحمن اعظمی اور ابن انشا کے یہاں ملتی ہے۔ سوداؔ کا اعتراف فیض نے جابجا کیا ہے۔ انیسؔ، جوشؔ اور جمیل مظہری کے یہاں اور نظیر اکبرآبادی بہت سے جدید شعرا میں جلوہ گر ہیں، یعنی اقبالؔ کو سمجھنا ہو تو غالبؔ اور حالیؔ کے پس منظر میں اور فیضؔ کو سمجھنا ہو تو غالبؔ اور اقبالؔ کے پس منظر میں دیکھنا ہوگا۔ آیئے پہلے اقبالؔ کی بات کریں۔ اقبال کی شروع کی نظموں میں مرزا غالبؔ پر ایک نظم ہے۔ اس میں غالبؔ کے پرمرغ تخیل کی رسائی کی طرف اشارہ ہے۔ پھر کہا ہے کہ غالبؔ کی کشت فکر سے عالم سبزہ وار اگتے ہیں اور آخر میں اسے گوئٹے کا ہم نوا کہا ہے۔ پھر جاویدنامہ میں اس کی اہمیت اور واضح ہوتی ہے۔ غالبؔ کے یہاں لفظ گنجینۂ معنی کا طلسم ہے۔ بڑا شاعر زبان کے سرمایے پر ہی اکتفا نہیں کرتا، وہ نئی زبان بھی بناتا ہے۔ ارسطو کے وقت سے یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ استعارے کا استعمال ہی شاعر کی پہچان ہے۔ ذوقؔ اور غالبؔ کے بہت سے معاصرین سوئے ہوئے استعاروں پر قانع رہتے تھے۔ غالبؔ جاندار اور طرح دار استعاروں کے خالق ہیں۔ وہ پہلودار اور کبھی کوئی مبہم اور جدلیاتی لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ان کی فکر میں شوخی ہے۔ وہ داغ فراق محبت شب کی جلی ہوئی شمع بھی ہیں اور عندلیب گلشن ناآفریدہ بھی۔ وہ صرف ماضی کی یادوں کے ہی نہیں حال کے کرب اور مستقبل کی پرچھائیوں کے بھی شاعر ہیں۔ اسی طرح بچپن کی حیرت، شباب کی حشر سامانی اور پیری کے دانائی کے بھی۔ یہ بات بھی نظرانداز نہیں کرنی چاہئے کہ ان کی فکر سرگشتہ خمار رسوم و قیود نہیں ہے، وہ مروجہ فکر سے انحراف بھی کرتے ہیں۔ وہ آدمیت کے علمبردار ہیں، گو انسانیت کا تصور بھی رکھتے ہیں۔ وہ خرد کے مغنی بھی ہیں اور ابر گہربار میں ارضیت کے علمبردار بھی، پھر شاعری میں فکر کے مینار بنانے کے بعد وہ خطوں کے ذریعہ سے نثر کے گلشن کی آبیاری بھی کرتے ہیں۔ وہ ہمارے ان بڑے شاعروں میں سے ہیں جنہیں دانشور بھی کہا جا سکتا ہے۔ اقبالؔ اس تحریک کے پس منظر میں سمجھے جا سکتے ہیں جو ہمارے ادب میں سر سید اور ان کے رفقاء سے شروع ہوئی۔ سر سید کی تحریک اس رو کی موج ہے جو بنگال میں راجہ رام موہن رائے اور ان کے ساتھیوں نے شروع کی۔ جدید اسکالر اسے ایک نامکمل تحریک کہتے ہیں کیونکہ یہ بہت جلد ملازمتوں اور حقوق کے چکر میں گرفتار ہوگئی مگراس کے دور رس اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ تہذیب الاخلاق اور تفسیر القرآن کا سرسید جلد ہی ایم اے او کالج کے گنبد میں محصور ہو گیا مگر یہ معمولی بات نہیں کہ ابو الکلام آزاد اور اقبالؔ دونوں پر سر سید کی عقلیت اور اصلاحی مشن کے اثرات پڑے، سر سید کی نسل مغرب سے خیرہ تھی مگران کی تحریک کے زیراثر جو نئی تعلیم یافتہ نسل نکلی وہ مغربی فکر اور مغربی ادب سے براہ راست واقف تھی۔ انیسویں صدی میں ہندوستان میں انگریزی تعلیم دینے والے انگریز استاد زیادہ تر نوکلاسیکی اقدار سے متاثر تھے گویا ان کے نزدیک مغرب میں رومانی تحریک کچھ معنی نہیں رکھتی تھی۔ حالانکہ مغرب میں اس نے فلسفہ اور ادب دونوں میں خاصا انقلاب برپا کر دیا تھا۔ اقبالؔ اگرچہ ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے اور تصوف کی فضا میں پلے، مگرایک طرف تو مولوی میر حسن کے اثر سے وہ فارسی ادب سے آشنا ہوئے اور دوسری طرف آرنلڈ کے ذریعہ سے مغربی فلسفہ سے اور کالج میں رومانی شعراء کے جادو سے، غالب کی شوخی اور اندیشہ سے اسے جلا ملی۔ حالیؔ نے اسے ایک سمت دی۔ قومیت کے تصور سے ایک گہری جذباتی وابستگی اور ایک مقصدی اور سیاسی لے اسی وجہ سے وجود میں آئی۔ آج مغربیت کی اس لہر کو نوآبادیاتی دور کی دین کہہ کر مطعون کیا جاتا ہے۔ خود فیضؔ نے بھی حالیؔ اور ان کے ہم عصروں کی شاعری کا ذکر خاصی حقارت سے کیا ہے مگر لوگ یہ نکتہ بھول جاتے ہیں کہ اس نوآبادیاتی دور کے ذریعہ سے مشرق مغرب سے آشنا ہوا۔ مارکس کی اس بات کو میں مانتا ہوں کہ اگرچہ برصغیر مغربی سامراج کے استحصال کا شکار ہوا مگر یہ اثر تاریخ کے ایک عمل کا بھی محرک بنا۔ مشرق جو بقول اقبالؔ عالم لاہوت کی طرح خاموش تھا زندگی کے ہنگاموں سے معمور ہوگیا۔ ان ہنگاموں میں مشینوں کے دھویں کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ کلاسیکی ادب میں حقائق بھی ہیں مگر مجموعی طور پر ادب کا آدرشی یا عینی تصور غالب ہے۔ ادب میں حقیقت نگاری کا میلان بڑا دور رس میلان ہے۔ گویہ ادب میں سب کچھ نہیں ہے۔ حالیؔ اور آزادؔ سے یہ حقیقت نگاری کا میلان شروع ہوا۔ اس میلان کو بڑا شاعر نہیں ملا مگر اہم شعراء کئی ملے۔ مقصدی اور سیاسی شاعری صرف مقصد یا پیام کی وجہ سے ادب میں اہم نہیں ہوتی مگر شعریت، پیام اور مقصد یا نظریے کے ساتھ بھی ممکن ہے اور اس کے بغیر بھی۔ اکبرؔ کی ساری شاعری مقصدی ہے، اسے اختر رائے پوری کی طرح طنزیہ تک بندی کہہ کر نظرانداز نہیں کر سکتے۔ خفی یا جلی ہر شاعری کا پیام ہوتا ہےاور مقصد بھی۔ اس لئے اقبال کی شاعری اگر مقصدی اور پیامی ہے تو اس کی وجہ سے اس کی اہمیت، عظمت، آفاقیت پر اثر نہیں پڑتا۔ مقصد اور پیام کے شعر میں ڈھلنے، شاعری بننے، اپنی ایک دنیا بنانے، ذاتی تجربے کے کائناتی واردات بننے کا سوال ہے۔ پھر آفاقیت بھی کسی مقامیت، کسی مخصوص وژن، کسی ہمہ گیر تجربے کی مرہون منت ہوتی ہے۔ اس سے اتفاق ضروری نہیں، اس کا اپنی جگہ جائز ہونا، مرتب اور منظم ہونا، اپنے جادوئی دریچوں تک قاری کو لے جانا کافی ہوتا ہے۔ دانتے یا ایلیٹ یا ییٹس کا وژن جس طرح ایک آفاقیت کا حامل ہے اسی طرح اقبال کا وژن۔ اقبالؔ کے پرستاروں اور اقبالؔ کے معترضین دونوں نے اقبال کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ اقبالؔ کے پرستار اقبالؔ کی عظمت کارزار ان کی اسلامی فکر میں تلاش کرتے ہیں۔ اقبالؔ کے معترضین اقبال کی مذہبی فکر کو محدود کہہ کر اسے ایک فرقے کا شاعر کہہ دیتے ہیں۔ اقبالؔ کی شاعری مذہبی نہیں، ہاں مذہبی، اخلاقی وژن کی شاعری ہے۔ اس کا موضوع انسان اور اس کی تقدیر ہے۔ انہیں مغربی ہیومنزم (Humanism) کی روشنی میں ہیومنسٹ (Humanist) کہا جائے یا نہیں، مگر ان کے یہاں وہ انسان دوستی یا ہیومنزم جلوہ گر ہے جو آدم کو آداب خداوندی سکھانا چاہتی ہے، جو تخلیق میں انسان کو خدا کا ہمسر سمجھتی ہے، جو دامن یزداں چاک کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے، جو طلسم زمان و مکان توڑ کر آگے بڑھنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ اس وژن کے لئے ایک چوکھٹے کی ضرورت ہے اور یہ چوکھٹا آئین اسلام نے مہیا کیا۔ اقبالؔ کی فکر میں بنیادی اہمیت ان کے فلسفۂ خودی کی ہے اور اس فلسفے کو آب و رنگ انہیں مغربی فکر کے مطالعہ، خصوصاً بقول، انامیری، شمل، جرمن (Vitalism) اسکول سے ملا۔ اقبال مابعد الطبعی انسان سے زیادہ شغف رکھتے تھے، سماجیاتی انسان (Sociological Man) سے کم۔ وہ مارکس کی طرح قومیت یا Nationalism کی طاقت کو سمجھ نہ سکے تھے۔ ہاں آخر میں انہیں اس کا احساس ضرور ہو گیا تھا۔ ’’اسرار خودی‘‘ میں شاعر کم ہے مگر ’’اسرار‘‘ کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں فلسفہ جابجا شاعری بن گیا ہے کیونکہ یہ فلسفہ ذہن کی بھٹی میں تپ کر واردات قلب بنا ہے۔ رموز میں جماعت کا تصور توحید کے عقیدہ کے گرد گھومتا ہے۔ نظریاتی طور پر عقیدہ مساوات انسانی کے لئے بنیاد کا کام کر سکتا ہے مگر عملی طور پر تاریخ کے تناظر میں یہ انسان کو ایک وحدت عطا نہیں کر سکا، کمزوری عقیدے میں نہیں انسان کی ہے جس کے اندر کا جانور، اس کی جبلتیں، اس کے درون خانہ ہنگامے حشر برپا کرتے رہتے ہیں۔ ’’بانگ درا‘‘ کے شاعر کی بساط وسیع ہے، اس میں تلاش اور جستجو ہے، روحانی کرب بھی، ماضی کی یاد بھی۔ حال کے آشوب کا احساس بھی، اور زندگی کی ایک نئی تنظیم کا عزم بھی۔ ’’پیام مشرق‘‘ اور ’’زبور عجم‘‘ میں وہ نغمہ ہے جو زندگی کے ہر پہلو پر نظر رکھتے ہوئے انسانیت کا رجز کہا جا سکتا ہے۔ یہ اپنے دور کی ہر کروٹ اور ہر موڑ اور اپنی تاریخ کے ہر ورق کے عرفان کے ساتھ دور جدید کی فکر سے Utopian پہلو کا امین بن جاتا ہے۔ اقبالؔ حکمت کی شعریت کے لحاظ سے ’’جاویدنامہ‘‘ میں اپنی بلندی پر نظر آتے ہیں اور پھر ’’بال جبریل‘‘ میں ’پیام‘ اور ’’رموز‘‘ کی ساری نغمگی اور ’’جاویدنامہ‘‘ کی ساری حکمت اردو شاعری کو ایک رفعت فکر اور جزالت اسلوب عطا کرتی ہے، جو انہیں نئی مشرقیت کا شارح اور مفسر، ترجمان اور پیام بر بناتی ہے۔ لیکن اقبالؔ کے ترکش میں ابھی اور بھی تیر ہیں۔ ضرب کلیم میں وہ Epigram یا خیال کی ندرت اور بھرپور نقش کا کمال دکھاتے ہیں اور ارمغان حجاز میں فنکار کی انجمن میں تنہائی اور اس کی سب کی رفیق ہوتے ہوئے سب سے جدا ہونے کی تقدیر کے امین بن جاتے ہیں۔ اردو شاعری کو ایک معنی میں ذہن اور شوخی فکر غالب نے عطا کی ہے، مگر اس ذہن کو رفعت اور برگزیدگی، جامعیت اور تہہ داری اقبالؔ کا عطیہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ Venture of Islam کے مصنف ہوں یا Modern History کے ڈبلیوسی اسمتھ، دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ بیسویں صدی کی اسلامی دنیا میں اقبالؔ فکر اور فن دونوں کے لحاظ سے بڑی بلندی رکھتے ہیں۔ اقبالؔ کی فکر در اصل ان کے خطبات اور بعض انگریزی مضامین میں ملتی ہے۔ شاعری میں یہ فکر اپنی سمت، منزل، فضا کے ساتھ اپنی پہلوداری اور تہہ داری کی وجہ سے اہم ہے۔ عابد حسین نے ’’ہندوستانی مسلمان آئینہ ایام میں‘‘ میں غلط نہیں کہا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں نے اقبالؔ کی شاعری کو فلسفہ سمجھ لیا اور ان کے فلسفے کو قریب قریب نظر انداز کر دیا۔ شاعری میں مجرد فکر کی اہمیت نہیں ہے، اس کے واردات میں ڈھل جانے، جذبے کو سمت دینے، محسوس خیال کو تب و تاب عطا کرنے، رنگوں سے نقش و نگار بنانے کی اہمیت ہے۔ فیضؔ نے اقبال کے سلسلے میں یہ پتے کی بات کہی تھی کہ ان کی فکر کو خطبات میں دیکھنا چاہئے اور شاعری میں ان کی غنائیت اور خطابت اور اس کے ساتھ تلاش اور جستجو اور تدبر اور فکر کو اکرام نے جب کہا تھا کہ اقبالؔ کو اقبالؔ مغرب نے بنایا۔ یا اقبال سنگھ نے جب اشارہ کیا تھا کہ اقبالؔ کو حال کا کرب کے ساتھ احساس تھا تو انہوں نے اقبالؔ کے حقیقی میلان اور سمت کو سمجھ لیا تھا۔ اقبالؔ کی نئی مغربیت اس مغرب کی ہی دین ہے اور حال کا کرب کے ساتھ احساس ہی انہیں جدید صف میں لاکر کھڑا کرتا ہے۔ اسرار خودی کے دیباچہ میں انہوں نے، ’’اسرار زندگی کو سمجھنے کے لئے مغربی اقوام کے ادبیات و تخیلات کو بہترین رہ نما قرار دیا ہے۔‘‘ فلسفہ سخت کوشی میں ایک جدید معاشرتی نظام کی تلاش کو اپنی تلاش و جستجو کا مرکز قرار دیا ہے۔ خطبات میں صاف کہا ہے کہ ذہنی اعتبار سے عالم اسلام نہایت تیزی سے مغرب کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ رائے بھی ظاہر کی ہے کہ اس تحریک میں بجائے خود کوئی خرابی نہیں کیونکہ جہاں تک علم و حکمت کا تعلق ہے مغربی تہذیب در اصل اسلامی تہذیب ہی کے بعض پہلوؤں کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ دیباچے میں وہ کہہ چکے تھے کہ فکرانسانی کے نشوونما پر بااحتیاط نظر رکھنا اور اس باب میں آزادی کے ساتھ نقد و نظر سے کام لینا ہمارا فرض ہے پھر پانچویں لیکچر میں تغیر اور تسلسل دونوں پراصرار کرتے ہوئے فرماتے ہیں،’’اگر کوئی معاشرہ حقیقت مطلقہ کے اس تصور پر مبنی ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ثبات اور تغیر دونوں خصوصیات کا لحاظ رکھے۔ اس کے پاس کچھ تو اس قسم کے دوامی اصول ہونے چاہیں جو حیات اجتماعیہ میں نظم و انضباط قائم رکھیں کیونکہ مسلسل تغیر کی اس بدلتی ہوئی دنیا میں ہم اپنا قدم مضبوطی سے جما سکتے ہیں تو دوامی اصول کی ہی بدولت، لیکن دوامی اصولوں کا یہ مطلب تو ہے نہیں کہ اس سے تغیر اور تبدیلی کے جملہ امکانات کی نفی ہو جائے کیونکہ تغیر وہ حقیقت ہے جسے قرآن پاک نے اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی آیت قرار دیا۔ اس صورت میں تو ہم اس شے کو جس کی فطرت میں حرکت ہے، حرکت سے عاری کردیں گے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ پانچ سو برس سے عالم اسلام پر جمود طاری ہے۔‘‘ جدیدیت میں دو میلان صاف دکھائی دیتے ہیں۔ پہلا انیسویں صدی کا ہے اور دوسرا بیسویں صدی میں پہلی جنگ عظیم کے بعد۔ Elman نے اپنی کتاب The Tradition of Modernity میں جدیدیت کے تمام پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے اور اس میں بڑھتی ہوئی امیدوں کے انقلاب کے اثرات کو ارضیت، انسان دوستی، سائنس اور ٹیکنالوجی پر اعتماد، ترقی، سماجی انصاف اور سماجی مساوات کے خوابوں، عقلیت اور سیکولر فکر کے واسطے سے واضح کیا ہے۔ یہ تمام رجحانات کسی نہ کسی حد تک اقبالؔ کے یہاں بھی ملتے ہیں۔ ہاں ان کی فراست اور دور اندیشی کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے مادی خوشحالی اور سائنس اور صنعت کاری کی اندھی پرستش اور عقلیت کو سب کچھ سمجھنے یا روحانیت کو سرے سے نظر انداز کرنے کے خطرے دیکھے اور دکھائے۔ جدید کاری کے معنی یہ ہیں کہ ہم اپنے سماجی اداروں میں تبدیلیاں لائیں۔ دوسروں کے سماجی ادارے بعینہٖ اپنائے نہیں جا سکتے۔ یہ ماحول کے مطابق ڈھالے جا سکتے ہیں۔ اسے صحیح خطوط پر چلانے کے لئے لوگوں کے ذہنی رویے، سوچ اور سبھاؤ میں تبدیلی پیدا کرنا ضروری ہے۔ پیام مشرق کے دیباچے میں اقبالؔ نے اس نکتے کی طرف زور دیا تھا۔ تعلیم پر توجہ اس میلان کی توسیع ہے۔ گویا اقبال ذہنی انقلاب پر زور دیتے ہیں اور مارکس کی طرح یہ نہیں کہتے کہ پیداواری رشتوں کے بدلنے سے انقلاب خود وجود میں آجائے گا۔ گویا مغربیت جدیدکاری کا لازمی جز ہے مگر ساری جدیدکاری نہیں ہے۔ مغربیت جب علم اور عقل پر زور دیتی ہے، تسخیر فطرت کی علمبردار ہے۔ یہ انسان دوستی کی طرف لے جاتی ہے۔ خدمت خلق اور سماجی مساوات کے لئے فضا ہموار کرتی ہے، تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرتی ہے تو خیر ہے۔ مگر جب وہ مادیت میں محصور ہو جاتی ہے، مشین کی حکومت اور سرمایہ داری بن کر انسانوں کے استحصال پر اتر آتی ہے، جب ایک طرح کے تہذیبی اورمعاشرتی ادارے سب پر لادنا چاہتی ہے، جب ہوس زر کی راہ پر لے جاتی ہے تو اقبالؔ اس پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ اقبالؔ کا ذہن دور رس ہے۔ وہ اس نکتے سے واقف ہیں کہ ترقی خط مستقیم میں نہیں ہوتی اور بعض پہلوؤں میں ترقی بعض دوسرے پہلوؤں میں زوال کا باعث بھی ہو سکتی ہے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہر تہذیب مخصوص تاریخی اور جغرافیائی حالات میں وجود میں آتی ہے اور اس کے ماڈل دوسرے سماجوں اور تہذیبوں پر ہمیشہ منطبق نہیں کئے جا سکتے، اس لئے ہر تہذیب اور سماج کو اپنا وجود دریافت کرنا ہوتا ہے، اس کے باطن کو پہچاننا ہوتا ہے، اپنی انفرادیت یا شناخت یا Identity کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے کیونکہ وہ اس بنیاد پر عالمی میلانات کے مطابق عمارت تعمیر کر سکتی ہے۔ اقبالؔ نے اس نکتے کو بہت سے سماجی مفکروں سے پہلے سمجھ لیا تھا کہ ترقی کی جد و جہد میں ہر پسماندہ ملک کو ترقی یافتہ قوموں کی تاریخ بجنسہٖ دہرانے کی ضرورت نہیں، کسی مرحلے کو حذف کیا جا سکتا ہے۔ آزادی افکار اور جمہوریت کے سلسلے میں اقبالؔ کے خیالات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اگر پختہ نہ ہو تو آزادی افکار نراج کی طرف لے جا سکتی ہے۔ اور جمہوریت کے معنی اکثریت کی آمریت کے نہیں، زیادہ سے زیادہ وسائل میں شرکت کے ہیں۔ اقبال کے فلسفے کی مقبولیت نے اقبال کی فکر میں تغیر پسندی کے گہرے مضمرات کو نہیں دیکھا۔ خود اقبالؔ نے یہ کہہ کر کہ میرا میلان قدیم کی طرف ہے، اپنے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اقبالؔ قدامت پرست نہیں ہیں، وہ تغیر چاہتے ہیں مگر تسلسل کے احساس کے ساتھ۔ بقول کینٹ ویل اسمتھ وہ ہیں تو لبرل مگر ان کی طنز کا نشانہ لبرل بھی ہوئے ہیں۔ وہ ایسے دانشور ہیں جو علم و دانش پر خندہ زن بھی ہوئے ہیں مگر عشق کا یہ علمبردار، عشق کو عقل خداداد کی پیروی بھی سکھانا چاہتا ہے، کارنادر کو ثواب سمجھتا ہے اور یہاں تک کہہ بیٹھتا ہے کہ اگر تقلید اچھی ہوتی تو پیمبر بھی راہ اجداد پر چلتے۔ شاید یہ غالب کے اس شعر کا اثر ہے،بامن میاویز اے پدرفرزند آذر را نگرہر کس کہ شد صاحب نظردین بزرگاں خوش نکردجدیدکاری کے پہلے دور میں رجائیت ہے، انسان کی عظمت کارجز ہے، سماجی انصاف کا خواب ہے اور دنیا کو جنت بنانے کی آرزو۔ یہ رومانیت کی ایک شکل بھی کہی جا سکتی ہے۔ Utopia یا مثالی دنیا کی تصویر خواہ اسلام کی مدد سے خواہ مارکس کے زیر اثر۔ دوسرے دور میں بے یقینی، انسانی نفسیات کا علم، کائنات کی لامعنویت اور Utopia کے بجائے Dystopia پر توجہ ہے۔ اقبالؔ کے الفاظ میں چراغ راہ گزر کے بجائے درون خانہ ہنگامے نظر میں ہیں۔ اقبالؔ اور فیضؔ پہلے دور کی نمائندگی کرتے ہیں۔ راشد دوسرے دور کی۔ ادبی نقاد کا کام دونوں کے ساتھ انصاف کرنا ہے۔ اوپر کہا گیا کہ اقبالؔ حالیؔ کے فکری میلان اور غالبؔ کے فنی طریقہ کار کو توسیع دیتے ہیں۔ حالیؔ کا فکری میلان انہیں نظم کی طرف لے گیا۔ اقبالؔ کے یہاں غزلوں کی خاصی تعداد اور اس کے ایک خاص اسلوب کی وجہ سے اور پھر ان کی نظموں پر غزل کے مزاج کے اثر کی وجہ سے ان کی غزلوں کو اتنی اہمیت دی گئی کہ یہ حقیقت ماند پڑنے لگی کہ ان کا اصل کارنامہ ان کی نظم ہے، ان کی کلیات میں ان کی چھوٹی بڑی تین سو چون نظمیں ہیں ۱۲۷ غزلیں۔ یعنی لگ بھگ تین گنی۔ اگرچہ اقبالؔ نے شروع میں مسدس سے زیادہ کام لیا مگر وہ سب ہیئتوں کے برتنے پر قادر ہیں۔ ہاں ان کی محبوب ہیئت ترکیب بند ہے۔ صاحب ’’بحرالفصاحت‘‘ تو مسدس کو بھی ترکیب بند کا ایک روپ مانتے ہیں۔ ترانہ ہندی میں انہوں نے غزل کی ہیئت سے کام لیا ہے جس میں مطلع بھی ہے اور مقطع بھی۔ ترکیب بند میں اقبالؔ نے ہر بند میں مساوی تعداد کے اشعار کی پابندی نہیں کی جس کی سب سے دلچسپ مثال ’’حضور رسالت مآبؐ‘‘ میں ہے۔ ’’شمع و شاعر‘‘ میں جو ترکیب بند ہے اس میں ہر بند قطعہ کی ہیئت میں ہے اور ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ مثنوی کی ہیئت میں۔ غرض اقبالؔ نے اپنی نظموں میں قید کے اندر خاصی آزادی برتی ہے اور یہ آزادی ان کے فنی شعور کا ثبوت ہے۔ بحروں کا تنوع بانگ درا میں زیادہ ہے۔ بال جبریل میں کم۔ اس سے گیان چند کو یہ دھوکا ہوا کہ اقبالؔ ہندی لے سے حجازی اور عجمی لے کی طرف مڑ گئے۔ بال جبریل میں مخصوص موضوعات فنکار کے ارتکاز کو ظاہر کرتے ہیں اوراسی لئے بحریں بھی مخصوص ہیں۔ کلیم الدین احمد نے ’’اقبال ایک مطالعہ‘‘میں اقبالؔ کی چند نظموں اور چند مختصر نظموں کے تجزیے کے بعد یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اقبالؔ کی نظموں میں اس طرح ربط و تسلسل اور ارتقائے خیال نہیں ملتا جس طرح بعض مغربی شعراء کی نظموں میں ملتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر بعض اشعار حذف کردیے جائیں یا ان کی ترتیب بدل دی جائے تو اس سے کوئی خاص فرق نہ پڑے گا بلکہ نظم بہتر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے بعض موضوعات مثلاً عشق کی تکرار اور ان کے خطیبانہ اسلوب پر بھی اعتراض کیا ہے۔ ’’طلوع اسلام‘‘ اور ’’مسجد قرطبہ‘‘ کی ساخت انہیں پسند نہیں اور ’’خضر راہ‘‘ کے شروع کے چند بندوں میں ہی انہیں شعریت نظر آئی اور اسلامیوں کے سوزوساز اور فریاد کی تاثیر دیکھ، والے بند بھی انہیں شعریت سے عاری نظر آئے، در اصل نظم کا ارتقا ہمارے یہاں مغرب میں نظم کے ارتقا سے مختلف ہے۔ اس میں غزل کا اثر بھی ہے، حیرت انگیز جلوے بھی اور جابجا خیال کی جست بھی۔ پھر ’’شکوہ‘‘ اور ’’طلوع اسلام‘‘ میں خطابت کے باوجود جو پرشکوہ اور جو مقدس آتش خانوں کی آنچ ملتی ہے اسے نظر انداز کرنا ادبی دیانت کے خلاف ہے۔ اقبالؔ کے یہاں مختصراور طویل نظموں کا معیار نہ صرف اپنے پیش روؤں سے بلند ہے بلکہ اس میں اقبالؔ کے الفاظ میں کامیاب اور معیاری دونوں قسم کی شاعری کے نمونے مل جاتے ہیں۔ مختصر نظموں میں ’ہمالہ‘، ’خفتگان خاک سے استفسار‘، ’مرزا غالب‘، ’عقل ودل‘، ’ایک آرزو‘، ’جگنو‘، ’نیاشوالہ‘، ’داغ‘، ’کنارراوی‘، ’محبت‘، ’حقیقت حسن‘، ’چاند اورتارے‘ ’کوشش ناتمام‘، ’انسان‘، ’ایک شام‘، ’ستارہ‘، ’گورستان شاہی‘، ’فلسفہ عجم‘، ’چاند‘، ’بزم انجم‘، ’سیرفلک‘، ’حضور رسالت مآبؐ میں‘ ’ارتقا‘، ’شیکسپیئر‘ اور طویل نظموں میں ’شکوہ‘، ’شمع و شاعر‘، ’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘، ’خضر راہ‘، اور ’طلوع اسلام‘ کی نمایاں شعریت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دوسری بات ہے کہ سب طویل نظمیں یکساں طور پر چست نہیں ہیں۔ ’بال جبریل‘ میں ’لینن‘، ’فرشتوں کا گیت‘، ’الارض للہ‘، ’لالہ صحرا‘، ’فرشتے آدم کو رخصت کرتے ہیں‘ اور ’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘، ’جبریل و ابلیس‘، ’اذان‘، ’شاہین‘، ’زمانہ ‘مختصر نظمیں ہیں۔ اور طویل نظموں میں ’مسجد قرطبہ‘، ’ساقی نامہ‘، ’ذوق وشوق‘، ’ضرب کلیم‘، میں ’لالہ الا اللہ‘، ’علم وعشق‘، مدنیت اسلام‘، ’مرد مسلمان‘، ’زمانہ حاضر کا انسان‘، ’پردہ‘، ’تخلیق‘، ’نگاہ‘، ’شعاع امید‘، ’اہرام مصر‘، ’فنون لطیفہ‘، ’شاعر‘، ’ہنروران ہند‘، ’ذوق نظر‘، ’او غافل افغاں‘، اور ’ارمغان ‘میں طویل نظم ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ کے علاوہ ’مسعود مرحوم‘ اور ’حضرت انسان‘ قابل ذکر ہیں۔ یہ بات توجہ طلب ہے کہ بانگ درا کی نظموں میں شاعری میں حکمت، ’بال جبریل‘ میں حکمت میں شاعری اور ’ضرب کلیم‘ میں نکتہ آفرینی میں شاعری ملتی ہے۔ تمثیلی حکایات کی روایت در اصل رومیؔ کی ہے اور اردو میں اس طرف حالیؔ، شبلیؔ، اور اکبرؔ نے توجہ کی۔ مگر اقبالؔ کی ’رہیلہ‘ اور ’جنگ یرموک کا ایک واقعہ‘ خاصا فنی دروبست رکھتی ہیں۔ اقبالؔ کے مرثیے خواہ وہ داغؔ کے ہوں یا ’والدہ محرومہ ‘ یا ’ر اس مسعود‘ کے، مغربی شعرا کے بعض مشہور مراثی کی طرح صحیفۂ غم ہی نہیں، حیات و کائنات کے متعلق ذہن کو روشنی بھی عطا کرتے ہیں۔ بانگ درا کے غنائی لہجے اور خطیبانہ شکوہ کے بعد بال جبریل میں ڈرامائیت اورعلامت کی طرف واضح میلان ہے۔ تشبیہ سے استعارے اور استعارے سے علامت تک یہ سفر بہت کچھ ہے اور اس طرح پہلی اور دوسری آوازوں کے بعدجبریل وابلیس کی تیسری آواز بھی، جس میں بڑی بلاغت ہے۔ جبریل وابلیس کے ایک مصرعہ درد وداغ وسوز و ساز آرزو وجستجو میں سب کچھ آگیا ہے جو خضر راہ کے بارے میں دوبندوں کا بیان ہوا ہے۔ نظم کے آخری حصے میں گوئٹے کے Mephisto کے اثرات محسوس ہوتے ہیں۔ مگرمیں یہاں اپنے استاذ خواجہ منظور حسین کا یہ قول دہرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ نظم گوئٹے کی بعض نظموں کے مقابلے میں رکھی جاسکتی ہے۔ ’’شعاع امید‘‘ بھی اپنی ساخت کے اعتبار سے اقبال کی فنی پختگی کو ظاہر کرتی ہے اور ہر شب کو سحر کرنے کے عزم اور مشرق سے بیزاری یا مغرب سے برہمی دونوں سے بلندی کی وجہ سے اقبال کی آفاقیت کی مظہر ہے۔ اسلوبیات اور ساختیات کے ماہرین نے اعداد و شمار کی مدد سے یہ واضح کیا ہے کہ اظہار کا بنیادی فارم نثر کا ہے۔ شاعری اس بنیادی فارم سے انحراف یا اس میں وقفوں (Gaps) یا ٹھہراؤ (Pauses) کانام ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق کلاسیکی شاعری میں نثر سے انحراف کا تناسب نسبتاً کم ہے۔ رومانی شاعری میں زیادہ ہے اور جدید شاعری میں اس سے زیادہ ۔ اقبال کی نظموں میں کلاسیکی معیار کے مطابق ہی انحراف ملے گا۔ گو بعض نظموں میں انحراف کی لے کچھ زیادہ بھی ہے۔ اس لئے وہ قدیم ہوتے ہوئے جدید اور جدید ہوتے ہوئے قدیم کہے جا سکتے ہیں۔ فیضؔ کا بھی یہی رنگ ہے۔ ہاں راشدؔ اور دوسرے جدید شعراء کے یہاں یہ انحراف زیادہ ہے۔ اقبالؔ نے نظم کو خاصی ابتدائی حالت میں پایا۔ مگراسے بالواسطہ الفاظ کے استعمال کے سلسلے میں خاصا باشعور اور مکالماتی، اور ڈرامائی پہلو کے لحاظ سے خاصا سرمایہ دار چھوڑا۔ انہوں نے تشبیہات کی آزمائش سے بھی کام لیا۔ استعارات کی معنی آفرینی اور حسن آفرینی سے بھی اور آخر میں علامتی اظہار کی پختگی اور Epigram کی دیدہ وری سے بھی۔ غزل کے اسلوب سے یہ متاثر ضرور ہیں مگر آخر میں آزادی کا ثبوت بھی فراہم کیا۔ اقبالؔ مغربی نظم سے متاثر ہیں مگران کی نظم مغربی نظم کی تقلید نہیں کرتی، اپنی ادبی روایت کی توسیع کرتی ہے۔ اقبال کے مقابلے میں فیضؔ کا نظم کا تصور زیادہ مغربی ہے مگر اس پہلو کی وضاحت آگے ہوگی۔ اردو غزل کو اقبالؔ نے کیا دیا۔ اقبال کی بانگ درا کی غزلیں غزل کی دنیا میں کوئی مقام نہیں رکھتیں، اردو غزل میں جو اضافہ انہوں نے کیا ہے وہ بال جبریل کی غزلوں میں نظرآتا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ داغؔ اور حالیؔ سے رشتہ رکھنے کے باوجود غالبؔ کی شوخی فکر اور رعنائی فن کو آگے بڑھاتے ہیں۔ زبور عجم کی طرح بال جبریل کی غزلوں کے پہلے حصے میں خدا سے خطاب ہے اور دوسرے میں انسان اور کائنات اور اس کے کاروبار شوق سے، پھر وہ رفتہ رفتہ غیرمردف غزلوں کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ بانگ درا کی 28 غزلوں میں کوئی غیرمردف غزل نہیں، بال جبریل کی غزلوں کے پہلے حصے میں ۱۶ میں سے ۸ غزلیں غیرمردف ہیں اور دوسرے میں ۶۱ میں سے ۴۲ غیرمردف۔ ضرب کلم کی ۵ غزلوں میں سب غیرمردف اورمحراب گل افغان کے افکار میں ۱۹ میں سے ۱۶ غیرمردف ہیں۔ ارمغان حجاز کے اردو حصے میں ۱۷ غزلیں ہیں اورسب کی سب غیرمردف۔ کئی غزلوں میں مطلع بھی نہیں۔ ایک عجب بات یہ ہے کہ بال جبریل کی ایک غزل اور ارمغان کی ایک غزل میں آخری شعر دوسرے ردیف قافیے میں ہے۔ یہ غزل کے آداب کے منافی ہے، ہاں ایک تجربہ کہا جاسکتا ہے۔ بال جبریل اور ضرب کلیم کی غزلیں طویل نہیں ہیں، کئی غزلیں مسلسل ہیں اور وحدت تاثر تواقبالؔ کی اکثر غزلوں میں ہے۔ یہ تو مسلم ہے کہ اقبالؔ کی نظم کی زبان غزل سے متاثر ہے اور غزل نظم کی زبان سے جیسے کمال ترک ہے تسخیر خاکی و نوری، ان کا یہ کہنا میرے نزدیک اہم ہے کہ غزل کی کوئی زبان نہیں بلکہ کوئی دلکشا صدا خواہ وہ عجمی ہو یا تازی، یہاں کام دے سکتی ہے۔ میرے نزدیک معنی خیز ہے۔ یہاں لفظ دلکشا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ غزل کی زبان صرف محبوب سے باتیں کرنے کی زبان نہیں، اپنی بات اور اپنے کاروبار شوق کی بات کی زبان اور یہ کاروبار شوق بڑی وسعت رکھتا ہے۔ انہوں نے چند غزلوں میں تحقیق اور عہد عتیق، صف بہ صف اور سر بکف جیسے قوافی استعمال کئے ہیں لیکن تغزل کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ یہاں عہد عتیق اس کی اچھی مثال ہے۔ مجموعی طور پر ان کی غزل میں سرگوشی کا لہجہ نہیں، ایک بیدار ذہن اور رچے ہوئے شعور کا جام جہاں نما ہے۔ یہ غزلیں اپنی موسیقی، اپنے خیال کی براقی اور اپنی زبان کے وقار کی وجہ سے ممتاز ہیں۔ ان میں زبان تہہ دار بھی ہے اور پہلودار بھی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ زندگی کے مختلف موقعوں پر یہ اشعار یاد آتے ہیں اور کیفیت یا وراثت، کسی حقیقت کی جھلک یا جلوے کی تابانی کو ذہن میں اس طرح محفوظ کر دیتے ہیں کہ ذہن مزے بھی لیتا ہے اور کشادہ بھی ہوتا ہے۔ میرؔ کا یہ ارشاد کہ انہیں شاعر نہ کہا جائے، یا اقبال کا یہ کہنا کہ وہ زبان سے باخبر نہیں، در اصل ایک رسمی اظہار نہیں عام معیاروں سے الگ ایک خاص معیار کی طرف رہنمائی بھی کرتا ہے۔ اس نفی میں ایک اور اثبات ہے۔ اقبالؔ کی غزل فکر روشن کا عکس ہے۔ جدید غزل کو اس نے بہت کچھ دیا ہے۔ اقبالؔ اور فیضؔفیضؔ اقبالؔ سے چونتیس سال بعد پیدا ہوئے۔ اقبالؔ کی تاریخ پیدائش ۹؍نومبر ۱۸۷۷ء مانی گئی ہے۔ فیضؔ کی تاریخ پیدائش ۱۱؍مارچ ۱۹۱۱ء ہے۔ دونوں سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ فرق یہ ہے کہ اقبال شہر میں پیدا ہوئے اور فیض سیالکوٹ کے ایک موضع کالاقادر میں، دونوں نے میر حسنؔ سے تعلیم پائی، دونوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا۔ اقبالؔ نے فلسفے میں اور فیضؔ نے پہلے انگریزی میں پھر عربی میں۔ دونوں کی فارسی تعلیم نہیں ہوئی، اپنی ذاتی کوششوں سے انہوں نے فارسی زبان و ادب پر دسترس حاصل کی۔ دونوں نے شاعری کے علاوہ نثر بھی لکھی، گو دونوں کی نثر کی خوبی شاعری کی شہرت اور عظمت کے مقابلے میں کم رہی۔ دونوں کو انگریزی زبان پر خاصا عبور تھا۔ اقبالؔ کی انگریزی نثر کی ایڈورڈ ٹامسن نے تعریف کی ہے۔ فیض کے پاکستان ٹائمس کے اداریے بھی زبان و بیان کی خوبیوں کی وجہ سے خاصے مقبول ہوئے۔ فیضؔ کے والد اقبالؔ کے دوستوں میں تھے۔ اقبالؔ کی سفارش پر ہی انہیں گورنمنٹ کالج میں داخلہ ملا۔ فیضؔ نے اقبالؔ پر دو مضمون لکھے جو ’’میزان‘‘ میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کئی مقامات پر اقبالؔ سے ملاقاتوں اور ان کے تاثرات کا ذکر کیا ہے۔ اقبالؔ کی فکر کا محور مذہب تھا، فیضؔ کی فکر کا محور تہذیب، بظاہر اقبالؔ اور فیضؔ کے راستے الگ الگ نظر آتے ہیں مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ اقبالؔ پر بعض حلقوں میں اعتراضات بھی ہوئے ہیں مگر فیضؔ نے کسی وقت اور کسی موقع پر اقبالؔ پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ وہ ان کی عظمت کے قائل تھے اور جابجا انہوں نے اقبالؔ کے فن کی بلندی کا اعتراف کیا ہے۔ اس کا ایک اچھا نمونہ اقبالؔ پر ان کی نظم میں اس طرح ملتا ہے جو اس طرح شروع ہوتی ہے،آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیرآیا اور اپنی دھن میں غزل خواں گزر گیاسنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیںویران میکدوں کا نصیبہ سنور گیااقبال نے گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے علاوہ انگریزی ادب بھی پڑھایا۔ فیضؔ ایم اے او کالج امرتسر میں انگریزی کے استاد تھے۔ بعد میں سہیل کالج لاہور میں بھی انگریزی پڑھاتے رہے۔ امرتسر ہی میں فیضؔ، محمود الظفر اور ڈاکٹر رشید جہاں کے زیر اثر آئے اور یہیں سے مارکسزم سے ان کی دلچسپی شروع ہوتی ہے۔ انہوں نے خود لکھا ہے کہ کمیونسٹ مینی فیسٹو پڑھ کر ان پر چودہ طبق روشن ہو گئے۔ اقبالؔ نے انجمن کشمیریاں، انجمن حمایت الاسلام اور پھر پنجاب اور ملک کی سیاست میں دلچسپی لی۔ فیض نے ٹریڈ یونین میں کام کیا، پاکستان ٹائمس کے ایڈیٹر رہے اور کچھ دن پاکستان کی آرٹ کونسل کے ڈائریکٹر بھی۔ مگر اقبالؔ اور فیضؔ دونوں در اصل عملی آدمی نہیں تھے، دونوں بنیادی حیثیت سے شاعر تھے۔ دونوں اپنے اپنے زمانے میں مقبول ہوئے اور پھر ایک Influence Visionary روایت بن گئے۔ ہمارے یہاں اقبالؔ کے بعد جو بلند قامت شعرا ہیں ان میں جوشؔ، فراقؔ اور فیضؔ کا نام یقیناً لیا جا سکتا ہے۔ ان میں مجموعی طور پر فیضؔ کی شہرت اور مقبولیت زیادہ ہے اور اقبالؔ کے بعد عالمی بساط پر جس کی عظمت کا سب سے زیادہ اعتراف کیا جاتا ہے، وہ فیض ہی کی شخصیت اور شاعری ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ فیضؔ کے یہاں ایک خاص بات جو انہیں ان کے معاصرین میں ممتاز کرتی ہے۔ ان کی معصومیت، کم آمیزی، معاصرانہ چشمکوں سے بلندی، اپنے موقف پر سختی سے قائم رہنے کے باوجود انداز بیان کی نرمی اور لہجے کی شیرینی ہے۔ فیضؔ میں صبر و برداشت کا مادہ غیرمعمولی تھا۔ انہیں کسی نے کم ہی برافروختہ دیکھا، گو وہ بعض اوقات بدحظ ضرور ہوئے۔ رشید احمد صدیقی کا یہ مشہور قول کہ اچھا شاعر اچھا انسان بھی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے درست نہیں۔ ہمیں کتنے ہی ایسے اچھے شاعر ملتے ہیں جو اچھے انسان نہیں کہے جا سکتے۔ مگر فیضؔ کے متعلق یہ قول صحیح ہے کیونکہ فیضؔ اچھے شاعر بھی تھے اور اچھے انسان بھی۔ اس لئے میرے نزدیک فیضؔ کی مقبولیت میں تمام تر ان کی شاعری کی اہمیت نہیں ہے۔ ان کی دلنواز شخصیت کا بھی یقیناً اس مقبولیت میں گراں قدر حصہ ہے۔ فیضؔ کی صحبت سے کوئی بیزار یا بدحظ ہوکر نہیں اٹھا۔ پروفیسر مجیب نے اپنے ایک مضمون میں اقبالؔ کی شخصیت کی تہہ داری اور پہلوداری کا ذکر کیا ہے۔ اقبالؔ علاوہ بڑے شاعر اور فلسفی ہونے کے گل افشانی گفتار کے لحاظ سے بھی ممتاز تھے۔ ہر صحبت میں ان کے قاموس علم، ان کی باغ و بہار طبیعت، ان کے فکر کی شوخی، ان کی برجستہ گوئی کے جوہر کھلتے رہتے تھے۔ فیضؔ، اقبالؔ کے مقابلے میں کم گو اور کم آمیز تھے۔ اقبالؔ کی شاعری اور کہیں کہیں خطوط میں شاعرانہ تعلی ہے جو ناگوار نہیں گزرتی۔ فیضؔ کے یہاں یہ لے بھی کہیں نہیں ملے گی۔ نہ شاعری میں نہ بے تکلف گفتگو میں۔ ایک بات میں نے ضرور محسوس کی۔ فیضؔ گفتگو میں اپنے لئے واحد متکلم، ’’میں‘‘ کے بجائے جمع متکلم ’’ہم‘‘ کا صیغہ استعمال کرتے تھے، اس کی کیا نفسیاتی توجیہہ کی جائے۔ جن لوگوں نے ڈبلیو سی اسمتھ کی کتاب جدید دنیا میں اسلام Islam in the modern world پڑھی ہے۔ انہوں نے یہ بات ضرور نوٹ کی ہوگی کہ اسمتھ نے اقبالؔ کے دو حصے کئے ہیں۔ ایک ترقی پسند اقبالؔ اور دوسرا رجعت پسند اقبالؔ۔ میرے نزدیک یہ تقسیم غلط ہے کیونکہ اقبالؔ کی ساری فکر کو سامنے رکھنا ضروری ہے اور اسے اس طرح دوخانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ میں اس بات کو اس طرح کہوں گا کہ اقبالؔ کے یہاں تغیر اور تسلسل دونوں پر توجہ ہے۔ وہ در اصل تغیر کے علمبردار ہونے کی وجہ سے اقبال بنے۔ ہاں ان کے یہاں تغیر کے ساتھ تسلسل پر بھی توجہ ہے۔ اقبال جدید کاری یا Modernization کے پیامبر ہیں۔ ہاں جدیدکاری کو وہ مغرب زدگی سے بچانا چاہتے ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ جدیدکاری اور مغرب زدگی مترادف نہیں ہیں۔ دونوں کا الگ الگ تصور کیا جا سکتا ہے۔ مغرب سے متاثر ہونا جدیدکاری کا آغاز ہے منزل نہیں۔ فیضؔ تغیر پسند اقبالؔ سے متاثر ہیں۔ اقبالؔ فرد کی خودی کو بیدار کرنا چاہتے ہیں اور فرد کی اس بیداری کو اجتماعی خیر کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔ اجتماعی خیر کے لئے وہ اصول قرآن سے لیتے ہیں۔ اقبالؔ کا خیال یہ تھا کہ سلطانی، ملائی اور پیری نے لوگوں کی توجہ قرآن کی حکیمانہ تعلیم سے ہٹا دی ہے۔ وہ ایسی انسانی برادری چاہتے تھے جو لذت تخلیق سے جوان رہے اور حرکت اور عمل کے ذریعہ سے خوب سے خوب تر کی جستجو کرتی رہے۔ جس طرح رومی کا انسان فرشتہ صید و پیمبر شکار ویزداں گیر ہے۔ اسی طرح اقبالؔ کے دشت جنوں میں جبریل صید زبوں ہے اور اس کی ہمت مردانہ یزداں کو زیر کمند لانا چاہتی ہے۔ اقبالؔ ملٹنؔ کی طرح خدائی طریق کی صحت انسان پر آشکار کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ وہ آدم کو آداب خداوندی سکھانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی بیشتر اصطلاحیں مذہب سے لی ہیں مگر مجموعی طور پر عظمت آدم کے فلسفے کی وجہ سے ہیومنسٹ کہے جا سکتے ہیں۔ گو یہ ہیومنزم یورپی ہیومنزم سے مختلف ہے اور تصوف کے ہیومنزم کی روشنی میں زیادہ سمجھ میں آتا ہے۔ اقبالؔ کی طرح فیضؔ بھی ہیومنسٹ ہیں۔ فرق یہ ہے کہ فیضؔ کے یہاں مذہب فکر کا مرکز نہیں، تہذیب انسانی ہے۔ تہذیب پر فیضؔ نے گراں قدر مضامین لکھے ہیں۔ وہ در اصل اس موضوع پر ایک کتاب لکھنا چاہتے تھے مگر لکھ نہ پائے۔ اقبالؔ گو، مسولینی کی شخصیت سے متاثر ہوئے تھے مگر وہ فاشزم کے خلاف تھے۔ شاہین خوں ریزی کا سمبل نہیں، خودی، بلند پروازی اور نشیمن سے آزادی کا سمبل ہے۔ اقبالؔ مارکس سے متاثر ضرور تھے مگر وہ مارکس کو ہضم نہیں کر سکتے تھے کیونکہ اس کی بنیاد لامذہبیت کے فلسفے پر ہے مگر وہ سوشلزم سے قریب اور سرمایہ داری سے نفور تھے۔ وہ شہنشاہیت کے دشمن تھے۔ ہر قسم کے استحصال کو وہ ناپسند کرتے تھے۔ خواجہ غلام السیدین کے نام ایک خط میں انہوں نے اسلام کو ایک قسم کا سوشلزم کہا ہے۔ فیض سوشلسٹ تھے، فاشزم کے خلاف ہونے کی وجہ سے ہی وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج میں بھی رہے۔ مزدوروں کی کئی انجمنوں میں انہوں نے کام کیا۔ ترقی پسند مصنفین کی تحریک پنجاب میں پھیلانے میں ان کا رول اہم ہے۔ لیکن فیض بھی ہر ملک میں وہاں کے حالات کے مطابق سوشلزم لانے کے قائل تھے۔ کیرنن نے فیضؔ کو کلچرل مسلمان کہا ہے۔ میں اس کا یہ مطلب لیتا ہوں کہ فیضؔ کے یہاں فکر کا محور تہذیب تھی، اقبالؔ کی فکر کا محور مذہب تھا مگر دونوں انسان دوستی، سرمایہ داری کی مذمت، مساوات اور عدل کی تلقین اور انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی سعی کی وجہ سے آفاقی شاعر ہیں۔ دونوں کے یہاں کہیں کہیں احساس تنہائی اور حزن و ملال کے باوجود ایک توانا رجائیت ملتی ہے۔ اس رجائیت کے متعلق چند باتیں کہنا ضروری ہے۔ شاعری تخیل کی مدد سے زندگی کی ترجمان ہی نہیں تخلیق نو بھی ہے۔ یہ جاندار الفاظ میں زندگی کے آڑے ترچھے نقوش میں تنظیم، ترتیب دیکھنے اور دکھانے کا نام ہے۔ کچھ شاعر شیکسپئر اور غالبؔ کی طرح زندگی کو اپنے تضادات، عجائبات اور طلسمات کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ کچھ اس رنگوں کی کثرت میں وحدت اور تضادات میں ربط اور تنظیم ڈھونڈ لیتے ہیں۔ دانتےؔ، اور اقبالؔ اور فیضؔ اس دوسرے قافلے میں ہیں۔ دونوں قافلوں میں عظمت اور بلندی صرف فکر کی تابانی سے نہیں آتی۔ فکر کے فن بننے، لفظ کے کائنات ہو جانے، محسوس خیال کے جمالیاتی اظہار بننے سے آتی ہے۔ رجائیت اور قنوطیت زندگی کو دیکھنے کے لئے دو زاویے ہیں، دونوں ایک رخے ہیں، مگر دونوں انسان کے دل کے تاروں کو چھوتے ہیں۔ رجائیت زندگی پر ایمان، کسی مسلک سے وفاداری، تاریکیوں میں روشنی، بادلوں میں چاند کی لکیر دیکھنے کا نام ہے۔ قنوطیت زندگی کے جبر، تاریکی کے بوجھ اور بدی کی نیکی پر اکثر فتح کے احساس سے پیدا ہوتی ہے۔ اقبالؔ اور فیضؔ دونوں رجائی نقطہ نظر کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ در اصل انیسویں صدی کا نقطہ نظر ہے جو پہلی جنگ عظیم تک زیادہ مقبول رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد سے شعر و ادب میں رومان مخالف لہر زیادہ ہے اور ادب میں چاہئے سے زیادہ ہے پر اصرار ہے۔ آرنلڈ کے خیال کے مطابق شاعری مذہب کی جگہ لے سکے گی یا نہیں مگر اچھی شاعری ایک قوت شفا ضرور رکھتی ہے، اور ایک بہتر زندگی بسر کرنے کا ولولہ بھی۔ اقبالؔ اور فیضؔ دونوں رجائی شاعر ہیں اور دونوں میں قوت شفا بھی ملتی ہے۔ اقبالؔ اور فیضؔ دونوں کے یہاں ایک رومانی مزاج بھی ہے مگر یہ کلاسیکل آداب فن میں ظاہر ہوتا ہے۔ دونوں کا مطالعہ وسیع ہے مگر اقبالؔ کا دائرہ فیضؔ سے زیادہ ہے۔ اردو کے علاوہ اقبالؔ نے فارسی میں بھی گراں قدر شاعری کی، فیضؔ نے فارسی کو ہاتھ نہیں لگایا۔ ہاں آخر زمانہ میں پنجابی کی طرف ضرور مائل ہوئے تھے۔ اقبالؔ نے خاصی بڑی تعداد میں طویل نظمیں لکھی ہیں۔ جبکہ فیضؔ مختصر نظموں کے شاعر ہیں۔ اقبالؔ کے یہاں غضب کی آمد تھی۔ ان کے بیشتر اشعار اسی آمد کے زیر اثر کہے گئے، گو وہ بعد میں ان اشعار میں ترمیم و اصلاح بھی کرتے تھے۔ فیضؔ بہت سوچ سوچ کر کہتے تھے، ان کی بہت سی نظمیں ہفتوں میں مکمل ہوئی ہیں اور کئی نظمیں تو نقش ناتمام ہیں۔ اقبالؔ وہ دریا ہیں جو اپنے جلال سے پہچانا جاتا ہے۔ فیضؔ ایک جوئے خوش خرام ہیں۔ اقبالؔ کا آہنگ بلند ہے اور ان کا لہجہ پرشکوہ۔ فیض کے لہے میں نرمی اور شیرینی ہے۔ دونوں نے غنائی شاعری بھی کی ہے اور خطابت کے جوہر بھی دکھائے ہیں۔ گویہ بھی واقعہ ہے کہ فیض کے یہاں خطابت اقبالؔ سے کم ہے۔ مناظر فطرت سے دونوں کو دلچسپی ہے مگر دونوں فطرت کو ایک پس منظر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ دونوں فطرت پرست نہیں کہے جا سکتے، فطرت نگار کہے جا سکتے ہیں۔ ان کی اصل توجہ انسان پر رہتی ہے۔ اقبالؔ کی زیادہ تر اصطلاحیں خودی، عقل، عشق، فقر، قلندر، مرد مومن، شاہین، لالہ، جنون وغیرہ ہیں۔ اقبالؔ کی اصطلاحات فلسفہ، مذہب، تصوف سے زیادہ لی گئی ہیں۔ کچھ کلاسیکل شاعری کے رموز و علائم ہیں جنہیں اقبالؔ نے نئے معنی میں استعمال کیا ہے۔ فیضؔ کے یہاں دریچہ، بام، زنداں، زنجیر، جنوں، دار، رند، چاند، علم، میکدہ جیسے الفاظ بھی کلاسیکی شاعری کے لئے گئے ہیں اور فیضؔ نے ان میں سے اپنے درد کی تحریکوں، میلانات اور واقعات کی گرمی سے گداز اور کیفیت پیدا کی ہے۔ آرنلڈ نے بڑی شاعری کی ایک پہچان یہ بتائی ہے کہ وہ ذہن پر ایک لازوال نقش چھوڑتی ہے اورمختلف موقعوں پر یاد آتی ہے۔ اس لحاظ سے اقبالؔ کے یہاں درجنوں شعر مل جائیں گے، جن کا تحریروں، مجلسوں اور مقالوں میں حوالہ دیا جاتا ہے۔ فیض کے یہاں بھی ایسے اشعار کی تعداد خاصی ہے۔ اقبالؔ کے کچھ شعر دیکھئے،بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشقعقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھیآگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہےکیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہےہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہےبڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدازمانہ ایک حیات ایک کائنات بھی ایکدلیل کم نظری قصہ جدید و قدیمستاروں کے آگے جہاں اور بھی ہیںابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیںترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیایہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندیسمندر سے ملے پیاسے کو شبنمبخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہےتیرے بھی صنم خانے میرے بھی صنم خانےدونوں کے صنم خاکی دونوں کے صنم فانیاپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگیتو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بنفیضؔ کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں،وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہیںوہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہےہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گےجو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گےنہ سوالِ وصل نہ عرض غم، نہ حکایتیں نہ شکایتیںترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئےکرو کج جبیں پہ سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہوکہ غرور عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیانہ تن میں خوں فراہم نہ اشک آنکھوں میںنمازِ عشق تو واجب ہے بے وضو ہی سہیدل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہےلمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہےہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبانِ چمن! تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نامضیائے بزم جہاں بار بار ماند ہوئیحدیث شعلہ رخاں بار بار کرتے رہےغم جہاں ہو، رخِ یار ہو کہ دست عدوسلوک جس سے کیا ہم نے عاشقانہ کیاتھک کر یوں ہی پل بھر کے لئے آنکھ لگی تھیسو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو نہیں تھااقبالؔ کی اہم نظموں میں شکوہ جواب شکوہ، شمع و شاعر، والدہ مرحومہ کی یاد میں، اقبالؔ کی طویل اور مختصر نظموں کا حوالہ دیا جا چکا ہے۔ ’خضر راہ‘، ’طلوع اسلام‘، ’ساقی نامہ‘، ’مسجد قرطبہ‘، ’ذوق و شوق‘، اور ’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘، طویل نظمیں ہیں۔ مختصر نظموں میں ’ہمالہ‘، ’ایک آرزو‘، ’نیا شوالہ‘، ’حقیقت حسن‘، ’انسان‘، ’عاشق ہرجائی‘، ’بزم انجم‘، ’ارتقا‘، ’لینن‘، ’زمانہ‘، ’علم وعشق‘، ’روح ارضی‘، ’شاہین‘، ’لالہ صحرا‘، شعاع امید‘، ’مسعود مرحوم‘، ’اے وادی لولاب‘ ہیں۔ فیضؔ کی اہم نظمیں ’تنہائی‘، ’بول‘، ’ہم لوگ‘، ’رقیب سے‘، ’شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں‘، ’یاد‘، ’زنداں کی ایک شام‘، ’صبح آزادی‘، ’اے روشنیوں کے شہر‘، ’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘، ’دریچہ‘، ’ملاقات‘، ’آج بازار میں پابجولاں چلو‘، ’منظر‘، ’دعا‘، ’سروادی سینا‘ ہیں۔ اقبالؔ کی طویل نظمیں بھی غزل کے اثر کی وجہ سے ربط اور تسلسل کے لحاظ سے مکمل نظمیں نہیں ہیں۔ ان میں جابجا خیال کی جست ادھر ادھر بھی ہوجاتی ہے۔ پھر بھی اقبالؔ نے اردو نظم خصوصاً طویل نظم کے سرمائے میں گراں قدراضافہ کیا ہے اور ساقی نامہ کو تو اقبالؔ کے نکتہ چیں بھی ایک مکمل نظم مانتے ہیں۔ اقبالؔ کی مختصر نظمیں، نظم کے سارے تقاضوں کو پورا کرتی ہیں اور ذہن پر ایک غیرفانی نقش چھوڑتی ہیں۔ ان نظموں کا دائرہ وسیع ہے اور ان میں حیات و کائنات، فرد اور سماج، تاریخ اور تہذیب سب کچھ آجاتا ہے۔ فیضؔ کا دائرہ اتنا وسیع نہیں مگر اس کی تاثیر اور گہرائی مسلم ہے۔ اقبالؔ اور فیضؔ میں ایک پوری نسل کا فرق ہے۔ اس لئے اقبالؔ کی حسیت اور فیضؔ کی حسیت میں بھی فرق ہے۔ اقبالؔ پر فارسی زبان کا اثر زیادہ ہے۔ اور فارسی میں بھی ان کی شاعری برصغیر کی فارسی شاعری میں ایک بلند پایہ رکھتی ہے۔ انگریزی ادب سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود اقبال کے یہاں انگریزی کا اثر صرف ان کے تراجم میں ظاہر ہوتا ہے۔ فیضؔ کے یہاں انگریزی ادب کا اثران کے اسلوب میں ظاہر ہوتا ہے جس میں فارسی کی تراکیب، کلاسیکی اردو ادب کی نوک پلک اور انگریزی طرز کے استعارے ملتے ہیں۔ جگرؔ صاحب نے اسی وجہ سے بھوک اگنے پر اعتراض کیا تھا۔ دونوں برہنہ حرف نگفتن سے چلے تھے اور دونوں نے تشبیہ او ر استعارے کے ذریعہ سے تخلیقی جوہر دکھائے مگر دونوں کے یہاں آخر میں برہنہ گوئی بھی ہے۔ اقبالؔ کے ’ضرب کلیم‘ میں اور فیض کے یہاں کچھ عشق کیا کچھ کام کیا، جیسی نظموں میں۔ اقبال وسیع بساط کے شاعر ہیں اور شوخ رنگوں سے تصویر بناتے ہیں۔ فیضؔ اس وسیع بساط کے چند معنی خیز گوشوں پر زیادہ توجہ کرتے ہیں اور ان میں بھی ہلکے رنگوں سے خواب آلود فضا اور کیفیت کی ایک جنت بناتے ہیں۔ اقبالؔ کی محبوب علامت آفتاب اور لالہ ہیں اور دونوں کے رنگ تیز ہیں۔ فیضؔ کے یہاں چاند، زنداں اور دریچہ ہیں جن میں درد بھی ہے اور لذت بھی اور ایک کسک بھی۔ غنائیت دونوں کے یہاں ہے۔ فیضؔ کے یہاں اقبالؔ سے زیادہ۔ خطابت اقبالؔ کے یہاں زیادہ ہے، فیضؔ کے یہاں کم۔ ڈرامائیت اقبال اور فیض دونوں کے یہاں ملتی ہے۔ مگر زیادہ نہیں۔ جبریل و ابلیس اور دو آوازیں ذہن میں رکھئے یہ کیا کم ہے کہ اقبالؔ کے اتنے گراں قدر سرمائے کے مقابلے میں اور ان کی ’آواز‘ کے اتنے پرسوز، پرکیف اور فلک سیر ہونے کے باوجود فیضؔ کی اپنی نرم، شیریں، دل دوز اور مدھم لے اپنا الگ نقش چھوڑتی ہے۔ فیضؔ کی دو نظموں کا یہاں خاص طور سے ذکر ضروری ہے۔ ’’صبح آزادی‘‘ اور ’’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔‘‘ پہلی نظم میں فیضؔ نے سب کچھ کہا مگر اس طرف اشارہ نہیں کیا کہ وہ کون سی منزل ہے جو ابھی نہیں آئی۔ یہی ابہام نظم کے حسن اور تاثیر کا ضامن ہے۔ اسی طرح ’’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘‘ جو لیس اور ایتھل برگ کے متعلق ہے۔ مگر نظم کسی شہید کا مرثیہ ہو سکتی ہے جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔ اس طرح کا ابہام صرف اقبالؔ کی نظم لالہ صحرا میں ملتا ہے۔ اقبالؔ اور فیضؔ دونوں کے یہاں ایسی بلیغ تراکیب ملتی ہیں جن میں ایک جہان معنی آباد ہے۔ فیضؔ کا عام اسلوب اقبالؔ کے عام اسلوب کے مقابلے میں سادہ ہے مگر پرکاری دونوں کے یہاں ہے۔ ہیئتی تجربے دونوں کے یہاں ہیں مگر بہت زیادہ نہیں۔ ’’پگھلا نیلم‘‘ دیکھ کر فیضؔ نے سجاد ظہیر سے پوچھا تھا کہ اس کا پرچہ ترکیب استعمال کیا ہے۔ فیضؔ قوافی کے مروجہ ترتیب بدلنے، کبھی اندرونی قوافی برتنے اور کبھی انگریزی نظم کی طرح RUN-ON یعنی جملہ دوسرے مصرعے میں مکمل کرنے کو کافی سمجھتے ہیں۔ ان کی چند آزاد نظمیں بھی زیادہ آزاد نہیں ہیں۔ اقبالؔ اور فیضؔ دونوں کے یہاں نظموں کے علاوہ غزلوں کی بھی اہمیت ہے۔ دونوں کی نظموں کی روح تغزل ہے۔ فیضؔ کے موضوعات اقبالؔ کے مقابلے میں محدود ہیں۔ اقبالؔ کے یہاں خودی کی تکرار ہے، فیضؔ کے یہاں رندی کی اور دونوں کے پیچھے ایک گہرا خیال ہے۔ فیضؔ کی کئی غزلیں اساتذہ کی مشہور زمینوں میں ہیں لیکن بیشتر ان کے اپنے خیال کی روکو ظاہر کرتی ہیں۔ اقبالؔ کی غزلوں میں حکمت کی شعریت ہے۔ فیضؔ کی غزلوں میں درد کی شعریت۔ اقبالؔ کی غزلیں ذوق یقیں کارجز ہیں۔ یقین فیضؔ کے یہاں بھی ہے مگر یہ غزلیں درد کی شعریت کی علمبردار ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جدید غزل پر اقبال کا اثر کم ہے اور فیضؔ کا اثر بھی بہت گہرا نہیں۔ جدید غزل اس دور کے آشوب میں زیادہ گرفتار ہے۔ شاید زمانے کا انداز بدل جانے سے ساز بھی بدل جاتا ہے۔ بیسویں صدی کی اردو شاعری کا ارتقا اقبالؔ، جوشؔ، فیضؔ کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ان میں اقبالؔ کے یہاں آفاقیت، حکیمانہ شاعری، سوزوساز، جستجو اور آرزو سب کی اہمیت مستقل ہے۔ جوشؔ کے کارنامے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ گو ان کی رومانیت میں تحکمانہ لہجہ زیادہ ہے۔ اس کے بعد فیضؔ کی اہمیت ہے جو اقبالؔ کی پیامی لے کو ایک نیا موڑ دیتے ہیں۔ فیضؔ اس بات کے قائل تھے کہ شاعری سیاسی بھی ہو سکتی ہے اور غیر سیاسی بھی۔ فیضؔ کی اہمیت یہی ہے کہ اردو میں سب سے اچھی سیاسی شاعری انہوں نے کی ہے۔ یہ سیاسی شاعری ان کی رومانی نظر اور ایک بہتر سماج پر یقین کی وجہ سے جاندار، طرح دار ہوگئی ہے۔ لفظوں کے نباض اقبالؔ اور فیض ؔ دونوں ہیں اور لفظوں کے استعمال میں دونوں کے یہاں وہ کفایت شعاری ملتی ہے جو بالآخر قطعیت اور بھرپور وار کی طرف لے جاتی ہے۔ جوشؔ لفظ کے بادشاہ ہیں مگر لفظ کے استعمال میں سلیقہ نہیں رکھتے، تنہائی کا احساس اور ایک ہلکی حزینہ لہر فیض کی پہچان ہے۔ اقبالؔ اور فیضؔ دونوں کے یہاں امیدوں کے چراغ روشن ہیں۔ اقبالؔ کا سورج اور فیض کا چاند دونوں روشنی سے محبت اور اس پر یقین محکم کو ظاہر کرتے ہیں۔ اقبالؔ کہتے ہیں،ایسا جنوں بھی دیکھا ہے میں نےجس نے سیے ہیں تقدیر کے چاکاور فیض کا کہنا ہے،حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یاروکچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہےفیضؔ کی شاعری غنائی شاعری ہے۔ یہ عشقیہ شاعری ہے اور اچھی عشقیہ شاعری صرف عشقیہ نہیں ہوتی ہے اور بہت کچھ بھی ہوتی ہے۔ فیضؔ کے اظہار کا اسلوب خاموش اظہار کا اسلوب ہے۔ مگر اس میں خون جگر، مطالعے، مشاہدے، تجربے اور احساس کے ارتکاز نے ایک نیا رنگ و آہنگ پیدا کر دیا ہے۔ فیضؔ مارکسزم سے متاثر ہونے کے باوجود بہت سے مارکسسٹوں کی طرح نہ ادعائی لہجہ رکھتے ہیں، نہ خیالات کی چٹانیں لڑھکاتے ہیں۔ انگریزی ادب کا ان کا مطالعہ ان کے معیار اور مزاج دونوں میں نظر آتا ہے اور یہ واقعہ ہے کہ فیضؔ کے بہت سے فقرے اور ان کے بہت سے الفاظ اس اثر کے خوشگوار پہلو کو ظاہر کرتے ہیں، گو ’مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو‘ کو میں اب تک ہضم نہیں کرسکا۔ بڑا آرٹسٹ اپنے کرافٹ پر عبور رکھتا ہے لیکن ہر کرافٹ کا ماہر اچھا آرٹسٹ نہیں ہوتا۔ فیض ایسے آرٹسٹ ہیں جو اپنے کرافٹ کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے ایک نظم ’زینہ زینہ اتر رہی ہے رات‘ کی شان نزول بیان کی ہے۔ یعنی وہ جو بات کہنا چاہتے ہیں اسے کلاسیکی اسلوب اور اس کے استعاراتی بیان کے تابع رکھتے ہیں۔ ’اے روشنیوں کے شہر‘ سترہ دن میں مکمل ہوئی۔ اوران کی ناتمام نظموں کی تعداد نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ ان کے اشعار صرف آمد نہیں آورد بھی ہیں۔ لفظوں کے استعمال میں وہ بڑی ہوش مندی اور چابکدستی کا ثبوت دیتے ہیں۔ ان کا خیال واضح، اسلوب، لطافت اور کیفیت کا حامل اور ان کی زبان نرم وشیریں اور نکھری اور ستھری ہے۔ مطلق الحکم جیسی تراکیب جو روانی نہیں رکھتیں، ان کے یہاں کم ہے۔ ان کے یہاں جن اغلاط کی طرف بعض لوگوں نے اشارہ کیا ہے خصوصاً نظیر صدیقی اور ماہرالقادری نے، ان میں ہر غلطی عیب نہیں ہے اوران کی تنقید اقبال کی تنقید کی طرح پر مغز ہے۔ مگر اقبال کی نثر علمی نثر ہے اور فیضؔ کی ادبی نثر، فیضؔ نے بخاری پر جو مضمون لکھا ہے یا پروفیسر محمد شفیع کا جو قلمی مرقع پیش کیا ہے اسے میں اس نوع کے بہترین مضامین میں جگہ دیتا ہوں۔ تہذیب پر ان کے مضامین جو میزان میں شامل ہیں ان کے مرتب ذہن کے آئینہ دار ہیں۔ غالبؔ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے ان کی اداسی پر زور اور اقبالؔ کی غزلوں کے ذکر میں ان کے تغزل کی طرف اشارہ، ان کی تنقیدی نظر کی گہرائی کا ثبوت ہیں۔ وہ ادب میں جمالیاتی پہلو پر ہمیشہ زور دیتے ہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ وہ اس جمالیاتی پہلو کی افادیت کو کبھی نظرانداز نہیں کرتے۔ فیضؔ کلاسیکی رکھ رکھاؤ اور نوک پلک کے آخری جدید شاعر ہیں۔ اس کے بعد یہ رسم گویا اٹھادی گئی۔ وہ بڑے پیمانے پر تصویریں نہیں بناتے مگر ان کی ہر تصویر پر روشن اور جذبے کی آنچ دیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ فیضؔ نے کوئی طویل نظم نہیں لکھی شاید وہ لکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ مگر نقاد کو ہر صنف اور ہر ہیئت کی خوبی دیکھنی چاہئے۔ اس سے کسی اور ہیئت یا صنف کی خوبی کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے۔ ادب میں عمدگی ایک قسم کی نہیں ہوتی کئی طرح کی عمدگی ہوتی ہے۔ فیضؔ کی عمدگی (Excellence) جوئے دل نشیں کی عمدگی اور خوبی ہے، جوئے کوہستان کے جلال کی نہیں۔ فیضؔ کو اپنی نظم ’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘ سب سے زیادہ پسند تھی، مجھے بھی پسند ہے۔ راہی معصوم رضا کے نزدیک اس میں بہت سے اشعار غیرضروری ہیں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ فیضؔ نئی نسل کے لئے معنویت کھو چکے ہیں۔ نئی نسل بقول Nowness Stephen Spender میں گرفتار ہے۔ حالانکہ اچھا ادب صرف حال کے میلان اور زبان کا اسیر نہیں ہوتا۔ وہ تہذیبی شعور کے ذریعہ پوری زندگی کا علم عطا کرتا ہے۔