اقبال بہ حیثیت شاعر اور فلسفی
اگر فلسفہ کی ابتدا حیرت سے ہوتی ہے، تو اقبالؔ دنیائے فلسفہ کے ایک محقق سیاح تھے۔ اگر شاعری روح کی بلند پروازی کے لمحات میں گایا ہوا گیت ہے تو اقبال حسین اور نایاب، پر اثر اور پر جوش گیتوں کے شاعر تھے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی فکری زندگی کے اس موقع پر اقبالؔ منظر عام پر نمودار ہوئے جب باتیں واضح نہ تھیں۔ اس لیے مسلمانوں کو ان کی شاعری اور ان کے فلسفہ دونوں میں نئی قدروں کی جھلک اورنئے مواد کا بھاری پن نظر آیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اقبالؔ میں خلاقانہ قوت کی کمی تھی۔ ان کا فلسفہ یا تو پرانے مسلمان حکما کے یہاں سے مستعار تھا یا یورپ کے فلسفیوں کے یہاں سے۔ ان کی شاعری بھی نئی نہ تھی، بلکہ غالبؔ، حالیؔ اور اکبرؔ کی پیدا کردہ روایات کا تسلسل تھی۔
بحث مباحثہ کے لئے ان خیالات میں بڑی جان ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فارسی اور اردو شاعری میں اس لحاظ سے ان کا کوئی مماثل نہیں ہے کہ انہوں نے ایک جاندار مفکرانہ نقطۂ نظر پیدا کیا، شاعری کو نیا مواد دیا، نئی وسعتیں بخشیں، مادّی، اخلاقی اور روحانی مسائل پر غور کرنے کے نئے راستے دکھائے، شاعری میں نئی طاقت اور گہرائی، نیا نصب العین اور زور پیدا کیا اور انہیں اسالیب کے نئے سانچوں میں ڈھالا۔ اقبالؔ کے یہاں حقیقت پسند ی اور عینیت کا عجیب امتزاج ہے۔ اور جب تک ان کے افکار و خیالات کا مکمل تجزیہ نہ کیا جائے کوئی بات واضح نہیں ہوتی۔
اقبالؔ جس گھر میں پیدا ہوئے اس میں مذہبیت کا اچھا خاصا زور تھا۔ ان کے والد تصوف پسند تھے اور صوفیانہ شاعری سے گہری دلچسپی لیتے تھے۔ مثنوی مولانا روم کا اولین نقش جو اقبالؔ کے دل پر گہرا بیٹھا، ان کے والدہی کی مثنوی سے گہری عقیدت کا نتیجہ تھا۔ جب انہوں نے مشرق و مغرب کے فلسفہ کا مطالعہ کیا، اس وقت مولانا روم ہی ان کو سنبھالے ہوئے تھے۔ اور زندگی کی پر پیچ راہوں میں ان کی رہبری کر رہے تھے۔
اگر صوفیانہ رجحان کا کوئی تحفہ انسان اس لحاظ سے قبول کر سکتا ہے کہ اس سے زندگی کی گتھیوں کو حل کرنے میں فائدہ اٹھائے تو وہ ایک طرح کی وسیع النظری اور وسیع المشربی ہے اور اقبالؔ کو یہ باتیں غالباً تصوف ہی کے مطالعہ سے حاصل ہوئی تھیں۔ قومیت کی وہ لہر جو غدر کے طوفان کے پیچھے پیچھے اٹھی، جس نے ایک نئے متوسط طبقہ کی ذہنی تشکیل کی اور بعد میں اس کا سہارا بھی لیا، اسی قومی بیداری کی تحریک نے اقبالؔ کی بلند نگاہی سے مل کر ان میں وہ احساس پیدا کر دیا جو ہندو مسلم اتحاد کے ذریعے سے ملکی ترقی کی پرجوش خواہش کا مظہر تھا اور جو ہندوستان کی قدیم عظمت اور کامران و کامیاب مستقبل پر ایمان رکھتا تھا۔
اگر اقبالؔ کے کلام کا مطالعہ تاریخی ادوار کے لحاظ سے کیا جائے تو یہ بات بہت جلد واضح ہو جائےگی کہ بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں تک اسلامی دنیا کے واقعات یا بین الاقوامی حالات انہیں پریشان نہ کرتے تھے، ان کا خاص موضوع حسنِ فطرت کی عکاسی، انسان اور فطرت کا تعلق اور نہایت داخلی اور جذباتی انداز میں اس تمنا کا اظہار تھا کہ فطرت کی حسن کاریاں شاعر کو بھی اپنے آغوش میں بھینچ لیں اور وہ بھی جمال فطرت کا ایک عنصر بن جائے۔ سب سے بڑی بات جو اس وقت کی شاعری میں نمایاں ہوتی ہے وہ تحیر کا وہ جذبہ ہے جو ہر لحظہ بدلتی ہوئی کائنات کا راز جان لینا چاہتا ہے اور شب وروز کا مفہوم سمجھنے کا آرزو مند ہے۔ یہ خیالات ان کی ابتدائی نظموں میں بار بار اتنی دفعہ دہرائے گئے ہیں کہ ایک زندگی کی رہنمائی کرنے والی طاقت کی جستجو کی اہمیت پر نگاہ پڑے بغیر نہیں رہ سکتی۔ وہ سورج، چاند، ستاروں اور دوسرے مظاہر فطرت سے زندگی کا مقصد پوچھ لینا چاہتے ہیں۔ ان خیالات پر زور دینے کی ضرورت اس لئے بہت زیادہ ہے کہ اسی حیرت، تشنگی اور راز جوئی نے دن رات ان پر مسلط ہوکر انہیں زندگی کے چھپے ہوئے بھیدوں کے سمجھنے پر مجبور کیا۔
اقبالؔ کی ساری ابتدائی شاعری میں فلسفیانہ انداز نظر کی کمی نظر آتی ہے۔ ان کی غزلوں میں صوفیانہ روایت پرستی اور داخلی تصوریت سے پیدا ہونے والے مثالی اخلاقی تصورات کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں میں وہ یکایک جیسے ایک نئی دنیا میں داخل ہو گئے جوان کی منتظر تھی۔ ان کا فلسفہ او ر تاریخ کا مطالعہ، اسلام کے عروج وزوال کے متعلق ان کی واقفیت پختہ ہو چکی تھی جب انہوں نے ساحل ہند سے یورپ کی طرف رخ کیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہاں جاتے ہی ان کو اپنے سوالات کاجواب مل گیا۔ اور جذبۂ تحیر کا محور بدل گیا۔ انہوں نے اپنے لئے وہ راستہ منتخب کر لیا، جس پر انہیں مستقبل میں چلنا تھا۔
انہوں نے پہلی دفعہ یوروپین سیاست کی بازیگری دیکھی، وہاں کی تمدنی زندگی کی گہرائی اور کھوکھلے پن کا مشاہدہ کیا، فرنگیوں کے اصول زندگی کی ظاہری اور باطنی کیفیات پر نگاہ ڈالی، مختلف قوموں کی وہ آویزش دیکھی جو ایک دوسرے پر قابو پانے کے لئے ان کے درمیان جاری تھی، وطنیت اور نسل پرستی کا وہ بڑھتا ہوا طوفان نگاہوں کے سامنے آیا، جو دوسروں پر عرصۂ زندگی تنگ کر دینا چاہتا تھا، جمہوری نظام کی نیلم پری کے پردے میں دیو استبداد کی پائے کو بی کی آواز سنی، سفید فام قوموں کی نفرت دوسری قوموں سے دیکھی، دول یورپ کی وہ مخالفانہ روش اقبالؔ پرعیاں ہو گئی جو ایشیائی طاقتوں کو مٹانے پر تلی ہوئی تھی اور انہوں نے طے کر لیا کہ اسلامی ممالک کی اس زبوں حالی اور بےچارگی میں ان کا ساتھ دیں گے اور انہیں یورپ کے قدموں کے نیچے کچل جانے سے بچائیں گے۔
اپنی شاعری میں اقبالؔ نے مظلوم قوموں کے ساتھ عموماً اور مسلمانوں کے ساتھ خصوصاً ہمدردی کا نعرہ بلند کیا، اور انہیں مغرب کے خلاف منظم ہونے پر اکسایا۔ اتحاد اور تنظیم کا یہ پرچم اس سے پہلے بھی بعض مفکرین، خاص کر جمال الدین افغانی نے بلند کیا تھا۔ لیکن اس خیال کوہر دل عزیز اور عام بنانے اور مسلمانوں کے ایک حلقے کے لئے ایک زندہ اور متحرک نصب العین بنا دینے کا سہرا اقبال ؔہی کے سر ہے۔
اقبالؔ افکار اسلامی کی تاریخ سے اچھی طرح واقف تھے اور اسلام کے زوال کے اسباب اور صورت حال کو ظاہر کرنے والے واقعات اور خیالات کے متعلق نتیجے نکالنے میں تامل نہ کرتے تھے۔ اقبالؔ خود اسلام کے اس عہد زوال کی پیداوار تھے۔ اسی وجہ سے اپنی غیر معمولی ذہانت اور فطانت کے باوجود عہد گزشتہ کے اسلام کی شان و شوکت کی مرعوبیت سے باہر نہ نکل سکے اور مستقبل کو کامیاب بنانے کے لئے قریب قریب بالکل ماضی کی طرف ہٹ جانے ہی میں راہ مفر دیکھنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ انحطاط کے وجوہ، اسلام کے عملی اور سیدھے سادے اصولوں میں افلاطون کے تصور پرست فلسفے کے جراثیم کے داخل ہوجانے، رہبانی طرز زندگی کے خلاف اسلام کے کھلے کھلے احکام کی موجودگی میں رہبانیت کے زور پکڑ لینے اور روحانی طاقت کے زائل ہو جانے کی وجہ سے دنیوی طاقت کے زائل ہو جانے کا نتیجہ ہیں۔
انہوں نے تصوف کے اس بے عمل اور رہبانیت پسند رویہ کی شدید مخالفت کی کیونکہ اسی نے نفی خودی کے تصور کو جنم دیا تھا۔ خودی کا استیصال تصوف کا اصل اصول بن گیا تھا۔ اقبالؔ نے ایک پرجوش بت شکن کی طرح اس کے خلاف آواز اٹھائی اور اس کا مخالف نظر یہ استحکام خودی کی شکل میں پیش کیا جو قدیم عظمت کو واپس لانے اور نیا بت الٰہی کے درجے تک پہنچانے کا ذریعہ تھا۔
اقبالؔ کے فلسفہ فکر میں خودی وہ محور ہے جس کے گرد زندگی۔۔۔ اپنے وسیع ترین مفہوم میں۔۔۔ چکر لگا رہی ہے۔ مسلمانوں نے خودی کھو دی اس لئے سب کچھ کھو دیا، اگر ان کی خودی انہیں پھر واپس مل جائے تو یقین ہے کہ سب کچھ مل جائےگا۔ ہر لفظ جو اقبالؔ کے قلم سے نکلا، اسی عقیدے کی تشریح اور توضیح کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ آئیے اسے آسان ترین الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کریں۔
اقبالؔ کا خیال ہے کہ جذبۂ خودی زندگی میں جاری و ساری ہے۔ اسی سے زندگی میں حرکت اور تڑپ ہے، انسان کا سب سے بڑا نصب العین یہی ہونا چاہیے کہ اس کی ترقی اور استحکام میں لگ جائے۔ خودی کو مکمل طور پر حاصل کرنے کے سلسلے میں انسان کو تین مراحل سے گزر نا پڑےگا۔ جن کے نام وہ اطاعت، ضبط نفس اور نیا بت الٰہی رکھتے ہیں۔ اطاعت اصل روح اسلام سے آشنا کرتی ہے جو عقیدہ توحید، رسالت اور قرآن پر ایمان رکھنے پر مشتمل ہے۔ یہ باتیں منطق اور استدلال سے زیادہ ان کے غیر معمولی وجدان سے ہم فطرت تھیں۔ اس لئے ان کے بیان میں اقبالؔ نے نہ صرف زور علم بلکہ زوربیان بھی صرف کیا ہے۔
تشریحی تفصیلات بہت دلچسپ ہیں، لیکن ان کا بیان طوالت سے خالی نہیں۔ پھر بھی اتنی بات ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اقبال توحید خداوندی کے عقیدے سے وحدت انسانی کے عقیدے تک پہنچتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ ایک خدا پر ایمان انسان کو بہت سے چھوٹے چھوٹے خداؤں کے سامنے سر جھکانے سے بچاتا ہے۔ اس کی وجہ سے انسان مایوسی، خوف اور غم کا شکار ہونے سے بچ جاتا ہے، جو خود بہت سی خرابیوں کی جڑ ہیں۔ اسے صرف ایک رسمی عقیدے کی حیثیت سے نہ دیکھنا چاہیے، بلکہ اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے اس کی روح کو اپنے اندر جذب کر لینا چاہیے۔
ایک سچّے انسان (اور اقبالؔ کے نزدیک ایسا ہی انسان مسلمان ہے ) کا فرض ہے کہ وہ حرص اور خوف پر قابو پالے اور یہ بات اسی وقت پورے طور پر ممکن ہے جب انسان ایک خدا پر عقیدہ رکھتا ہو۔ اسی طرح اقبالؔ نے رسالت اور قرآن پر ایمان رکھنے کے عقیدوں کو واضح طور پر بیان کرکے اپنے نظام فکر کو مکمل طور پر پیش کیا۔
اطاعت کی منزل طے کرنے کے سلسلے میں ایسے مقامات بھی آتے ہیں، جہاں ضبط نفس کی ضرورت پیش آتی ہے۔ کیونکہ اگر اسے بے روک ٹوک چھوڑ دیا گیا تو اس سے بھی خطرناک امکانات پیدا ہو سکتے ہیں اور خودی کا جذبہ برے نتائج تک پہنچا تا ہے، یا کم سے کم پہنچا سکتا ہے۔ اس لئے ضبط نفس ضروری ہے۔ جب کوئی شخص ان دو مراحل۔۔۔ اطاعت اور ضبط نفس۔۔۔ سے گزر لیتا ہے تو وہ مرد کامل بن جاتا ہے، اور اس کا شمار خدا کے برگزیدہ بندوں میں ہونے لگتا ہے۔ خدا اس کے ذریعے سے اپنے مقاصد کو پورا کرتا ہے اور اس کی مدد کرتا ہے کہ وہ اپنی پسند کی دنیا بنالے۔
اگر اطاعت پر ضبط نفس کا احتساب جاری نہ رہے تو خودی کا متلاشی خطرناک راستوں پر جا سکتا ہے۔ اس خیال کو واضح کرنے کے لئے اقبالؔ ابلیس کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں جو اطاعت میں پختہ ہونے کے باوجود ضبط نفس کی منزل میں لغزش کھا گیا اور خودی کی اصل بلندی حاصل نہ کر سکا اس کے برعکس پیمبروں نے یہ مراحل طے کر لئے، کسی مقام پر لغزش نہ کی۔ یہاں تک کہ وہ زمین پر نائب الٰہی قرار پائے۔ کہا جاتا ہے کہ اقبالؔ نے مرد کامل کا یہ خیال نٹیشے ؔکے یہاں سے لیا، جو فوق البشر کا قائل ہے اور یہیں سے فاشزم اور اقتدار پرستی کی راہیں کھلتی ہیں۔ اقبال نے اسے بار بار صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ان کا مرد کامل نیٹشے کے فوق البشر سے بالکل مختلف ہے۔
اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ اقبالؔ کے یہاں مظہر قوت کی پرستش کا تصور سرمایہ دارا نہ نظام کے تضاد کو اصلاحی روک تھام کے ذریعے سنبھال لینے کی کوشش میں نہیں پیدا ہوتا بلکہ ایک ایسی طاقت کی جستجو میں حاصل ہوتا ہے جو ساری دنیا کے مسلمانوں کو از سر نو زندہ اور طاقتور بنادے۔ فاشزم کی پیدائش سے بہت پہلے اقبالؔ نے اپنا خودی کا تصور اور مرد کامل کا نظریہ مکمل کر لیا تھا۔ اقبالؔ کے بعض خیالات اور فاشزم میں جو ایک قسم کی یکسانیت پائی جاتی ہے، اس کا سبب دونوں کے پیش کردہ سماجی نظام کے سیاسی اور اقتصادی ڈھانچے میں نہ ڈھونڈنا چاہیے، بلکہ وہ چیز انحطاط پذیر نظام زندگی میں روح پھونک کر زندہ و برقرار رکھنے کی کوشش میں ملےگی۔ انہیں قوت اس لیے پسند نہ تھی کہ وہ فاشسٹ تھے بلکہ اس لئے کہ وہ مسلم اقوام میں اتنی طاقت دیکھنا چاہتے تھے کہ انہیں آزادی کے ساتھ اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اپنی زندگی اور اپنے تمدن کی تشکیل کرنے پر قدرت حاصل ہو۔
اقبالؔ اسلام کے عروج و اقتدار کے لئے (اور اسلام ان کے خیال میں تمام دنیا کے انسانوں کے لئے مناسب ترین تصور زندگی ہے) بے قرار رہتے تھے اور اس کے زوال کا تجزیہ کرتے ہوئے یا اس کی ترقی کے عناصر ترکیبی پر غور کرتے ہوئے ان تمام مقامات سے مدد حاصل کرنا چاہتے تھے جو قوت کی مظہر ہوں یا جو طاقت پیدا کرنے میں معین ہو سکیں اس طرح وہ نیٹشے کے ہمنوابھی ہیں اور مخالف بھی، مارکس کو پسند بھی کرتے ہیں اور اس پر معترض بھی ہیں، مسولینیؔ سے متاثر بھی ہیں اور اس کے افعال کے ناقد بھی۔ برگساں کے جوش حیات میں کوئی چیز تھی جسے اقبالؔ پسند کرتے ہیں، ہیگل، گوئٹے، بھرتری ہری کے بہت سے خیالات سے انہیں اتفاق ہے۔ جزوی حیثیت سے وہ سبھوں کے ساتھ ہیں، مکمل طور پر کسی کے ساتھ نہیں۔ انہیں کامل اتفاق صرف قرآن سے ہے یا پھر مولانا روم سے۔
اس طرح اس ظاہری تضاد کی تشریح کی جا سکتی ہے جو مطالعہ کرنے والے کو ان کے وہاں نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبالؔ نے ہر شعبۂ حیات میں اسلام کی سچائی کا مطالعہ کیا تھا اور اس کے قابل عمل ہونے کا یقین صرف جذبہ اور خواہش پرستی کی مدد سے نہیں بلکہ غور و فکر اور دوسرے نظام زندگی کے تقابلی مطالعہ کے بعد کیا تھا۔ اقبالؔ نے جس طرح اسلام کو سمجھا تھا وہ ان کے خیال میں ایک مقدس نصب العین اور منتہائے نظر تھا۔ اور دوسرے مکاتب فلسفہ صرف اس حد تک صحیح اور درست تھے، جس حد تک وہ خیال اور عمل میں اسلام سے متفق اور متحد تھے، فلسفہ کا جو حصہ اس کے علاوہ بچ رہتا تھا، اقبالؔ اسے قبول نہیں کرتے تھے۔
یہ خیال اس بات سے زیادہ واضح ہو جاتا ہے کہ مولانا روم ابتداسے لے کر آخر وقت تک اقبالؔ کے رہنما اور فلسفی رہے۔ دوسرے لوگ اس وقت تک کے لئے ذہن پر مسلط رہتے تھے، جب تک ان سے ترقی اور طاقت حاصل کرنے کے ذرائع میں مدد ملتی تھی۔ گویا ان کا نصب العین ان کے ذہن میں مقرر ہو چکا تھا، لیکن اس کے حاصل کرنے کے ذرائع ان کے علم اور مسائل حیات کے مطالعے کے ساتھ ساتھ نئے اثرات قبول کرتے رہتے تھے۔
اقبالؔ زندگی کے امکانات پر مسلسل غور کرتے رہتے تھے۔ اپنی شاعری میں انہوں نے خود کو ایک حقیقت پسند ظاہر کیا ہے، لیکن اگر فلسفیانہ حقیقت سے دیکھا جائے تو وہ خیال کو پہلی جگہ دیتے ہیں اور یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ضمیر اور روح کا انقلاب مادّی زندگی میں انقلاب لاتا ہے۔ ’’پیام مشرق‘‘ کے دیباچے میں اقبالؔ نے اس کو بالکل غیر مشتبہ الفاظ میں لکھ دیا ہے کہ پہلے اندرونی انقلاب ہونا چاہیے پھر باہر کی دنیا بھی بدل جائےگی۔ یہ وہ بنیادی خیال ہے جو انہیں حقیقت پسندوں کی صف سے نکال کر تصور پرستوں کے حلقے میں لاڈالتا ہے۔ گو ان کی عینیت داخلی ہونے کے بجائے زیادہ تر خارجی ہوتی ہے۔ حقیقتوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اقبالؔ بار بار خیال کی دنیا میں پہنچ گئے ہیں اور ان کا شعور داخلیت کی گرفت میں آ گیا ہے۔ انہوں نے حقائق کا ادراک سماج کے واقعی عناصر کی تحلیل سے نہیں بلکہ قوت متخیلہ کی مدد سے کیا ہے، نتیجہ نظر یہ اور عمل کے افتراق کی شکل میں ظاہر ہوا اور ’’گفتار کا غازی‘‘ کردار کا غازی نہ بن سکا۔
اقبالؔ ایک فلفسی کی حیثیت سے ثنویت کے سخت دشمن ہیں۔ لیکن ان کی شاعری احساس، داخلیت، نظر اور جذبہ کے مقابلے میں علم، سائنس، مادّی حقائق اور خبر کے خلاف ہلاکت آفرین تیر برساتی ہے۔ اقبالؔ کو سامراج شاہی اور سرمایہ داری سے نفرت ہے لیکن وہ ان طاقتوں کے ساتھ کبھی اتحاد عمل نہ کر سکے جو ان کے مٹانے کے درپے تھیں۔ وہ ہندوستان کی تحریک آزادی کے متعلق کبھی بہت واضح خیالات کا اظہار نہ کر سکے۔ انہوں نے آزادیٔ خیال اور آزادیٔ نسواں کو بعض ایسے اخلاقی قیود کے ساتھ مشروط کر دیا تھاجو موجود ہ طبقاتی سماج کی اقتصادی اور معاشرتی زندگی سے تعلق نہ رکھتے تھے۔ وہ تازیانے لگا لگاکر لوگوں کو گندے اور پست مقاصد سے جنگ کرنے پر اکساتے تھے اور ان میں جوش عمل پیدا کرتے تھے، لیکن کوئی منضبط عملی خاکہ پیش نہ کرتے تھے۔
کوئی شخص آزادی کے علم بردار کی حیثیت سے ان کے خلوص میں شک نہیں کر سکتا، ان کی سچی جمہوریت پسندی پر حرف نہیں لا سکتا، ترقی کی خواہش اور انسانی عظمت کے اظہار کے خلاف زبان نہیں ہلا سکتا، لیکن انہوں نے ان نظریاتی حقیقتوں کے لئے عمل کی کسوٹی نہیں تیار کی۔ وہ اپنے خیالات کو ان کے منطقی نتائج تک نہیں پہنچاتے تھے، ورنہ ان کا تضاد ان پر خود روشن ہوتا۔ اپنی بعض نظموں میں اقبال اشتراکی نظریۂ حیات کے بہت قریب پہنچ جاتے ہیں لیکن انہوں نے سرمایہ داری کی مختلف شکلوں اور طبقاتی سماج سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں پر گہری نظر نہیں ڈالی۔ جذباتی حیثیت سے وہ آزادی، مساوات اور اخوت کے پرجوش حامی تھے لیکن یورپ کی نام نہاد جمہوریتوں کی ناکامیابی دیکھ کر اقبالؔ نے یہ نتیجہ نکالا کہ کسی قسم کی جمہوریت میں ان مقاصدکے حاصل کرنے کی طاقت نہیں ہے جو صالح ہیں۔
اقبالؔ میں غیرمعمولی جوش حیات کی نمود تھی اور خوب سے خوب ترکی جستجو میں ہر لمحہ نئی تمنائیں پیدا کرنے کے قائل تھے۔ وہ مخلوق ہوتے ہوئے بھی خالق کے ساتھ تخلیق کے عمل میں شریک ہونا چاہتے اور زندگی کو عمل کا مظہر دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ حوادث سے بے خطرہوکر فطرت کی تسخیر کو انسانی عظمت کے لئے ضروری سمجھتے تھے۔ اقبالؔ وہ طریقے نہیں بتاتے جن کی مدد سے یہ اعلیٰ مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ صرف ایک طریقہ جس کا ذکر بار بار آتا ہے، وہ ایک مخصوص طریقے پر خودی کی ترقی اور استحکام کا ہے۔ اقبالؔ کے یہاں یہ بات صاف نہیں ہے کہ خودی کی یہ ترقی کیا ان سماجی قوانین کو، جو مخصوص حالات میں انسان کو جکڑے رہتے ہیں نظر انداز کرکے بھی ممکن ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو انسانوں کا پہلا فرض یہی ہونا چاہیے کہ وہ ایک ایسی دنیا تعمیر کریں جہاں افراد کو اپنی خودی کے ترقی دینے او ر روحانی حیثیت سے بلند کرنے کی آزادی حاصل ہو۔
جہاں تک فطرت کے خلاف انسان کی جدوجہد کا تعلق ہے، اقبالؔ کے خیالات اور خواہشات واضح ہیں۔ ان کا خْیال ہے کہ انسان کبھی نہ کبھی کائنات کو تسخیر کرکے اپنے کام میں لائےگا، لیکن سماج کی متصادم اور متضاد طاقتوں کا جائزہ اقبالؔ نے نہیں لیا۔ فرد کا تعلق جماعت سے اور عوام کا تعلق حکومت سے، یہ ایسے مسائل ہیں جن کی خاطر خواہ وضاحت اقبالؔ کے یہاں نہیں پائی جاتی۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کے متعلق مختلف رائیں قائم کی جا سکتی ہیں۔ وہ ایک حکومت اور ایک ملّت کے قائل تھے، جس کے متعلق ان کا خیال تھا کہ وہ ٹھیک طور پر ایک مرد کامل ہی کی رہنمائی میں قائم رہ سکتی ہیں اور زمانہ اس مرد کامل کے لئے چشم براہ ہے۔ اقبالؔ کے نظام حکومت میں حاکم بھی ہے محکوم بھی۔ محکوم آواز نہیں بلند کر سکتا اور حاکم صرف اس قانون کے نافذ کرنے اور برقرار رکھنے کے لئے ہے جو خدا نے اس کے لئے نازل کیا ہے۔
اقبالؔ اگرچہ صوفی نہ تھے بلکہ رسمی تصوف کے سخت مخالف تھے لیکن صوفیانہ رجحان ضرور رکھتے تھے۔ اگر وجدان کو عقل پر ترجیح دینا تصوف کا کام ہے تو اقبالؔ کے یہاں یہ بات قدم قدم پر ملتی ہے اور اقبالؔ نے اس پر پردہ بھی نہیں ڈالا ہے۔ اقبالؔ کی عینیت پسندی نے خود ان کو ان کے خلاف کر دیا تھا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ حال سے بے نیاز ہوکر مستقبل کوماضی کے ذریعے سے سنوارنا چاہتے تھے۔ وہ مغربی طرز زندگی کی تقلید سے متنفر تھے، وہ عصر حاضر کی مادہ پرستی کے خلاف اعلان جنگ کرتے تھے، لیکن مغربی اقوام کے ذوق عمل کے ثناخواں بھی تھے۔ اقبالؔ جب مادیت کا خیال کرتے تھے توان کے ذہن میں مادیت کا وہ تصور نہ ہوتا تھا جو نظریہ اور عمل کے اشتراک سے سماجی ارتقاء کا فلسفہ قرار پاتا ہے، بلکہ وہ اس سے محض دہریت اور لامذہبیت کا فلسفہ مراد لیتے تھے جو انسان کے ارتقاء کا منکر ہے۔
انہوں نے اٹھارہویں صدی کی مادہ پرستی اور انیسویں صدی کی اس مادیت میں جو سائنس کی پیدا کردہ تھی، فرق نہ کیا۔ اقبال کے دل میں متوسط طبقے کی ایک ایسی پاسداری تھی جسے وہ غیر معمولی انسان دوستی کے باوجود دبا نہ سکے اور یہ چیز ان کے یہاں نظریہ اور عمل کے افتراق کی شکل میں باربار رونما ہوتی ہے۔
اس طرح کا متنازعہ فیہ فلسفہ رکھنے کے باوجود اقبالؔ ایک بڑے مفکر اور شاعر ہیں اور جب ان کے متعلق یہ سب کچھ کہا جا چکا ہے، وہ ایک عظیم الشان شخصیت کی حیثیت سے نموادر ہوتے ہیں جو اپنی نسل کے دماغ کو اپنے جوش کی شدت، اپنے انسان دوستی کے نقطۂ نظر اور انسان کے شاندار مستقبل کی امید سے متحرک کرتی ہے۔ اگر ان کے فلسفے کی تفصیلات سے الگ ہوکر دنیا کی ترقی پسند طاقتوں کے مخصوص رجحانات کے متعلق ان کے فیوض کا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہوگا کہ ان کے افکار انہیں ہر زمانے کے بڑے شعراء کے جھرمٹ میں جگہ دلائیں گے۔ فن برائے زندگی کے متعلق اقبالؔ کے جو اعتراضات اور خیالات ہیں، انہیں دیکھ کر کوئی ان کو لفظوں کا بازیگر نہیں کہہ سکتا، گو انہیں الفاظ پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔
ان کی فنی عظمت کا اظہار ان کے اس شاعرانہ مزاج سے ہوتا ہے جس میں روایت اور بغاوت کا امتزاج ہوتا ہے۔ انہوں نے اردو فارسی کے بہترین شعراء سے بہترین ورثہ پایا تھا اور اس میں اپنے طرز اظہار کے نئے پن اور احساس کی تازگی سے، اپنی قوت متخیلہ اور اپنی شخصیت کے زور سے رنگا رنگی اور وسعت پیدا کرتے تھے۔ اقبالؔ کا جذبۂ عمل، ان کا عقیدہ عظمتِ انسانی اور انسان کی بے پناہ قوت میں یقین، جسم و روح کی غلامی سے ان کی نفرت اور ان کا رجائی انداز نظر سب مل کر موجودہ زندگی کے لئے عمل پسندی کا نشان اور ایک بڑی طاقت بن جاتے ہیں۔
اقبالؔ صرف مسلمانوں کی بیداری اور حق خود ارادیت کی بنیاد پر ان کی آزادی کے مفکر اور فلسفی ہی کی حیثیت سے سرا ہے نہ جائیں گے بلکہ ایک ایسے قدر اول کے شاعر کی حیثیت سے بھی زندہ رہیں گے جو غیر معمولی حسن اور طاقت سے بھرے ہوئے گیت گاتا تھا اور جس کی شاعری سحر حلال تھی۔