اقبال اور تصوف
رابرٹ فراسٹ کا زندگی سے جھگڑا ایک پریمی کا تھا۔ کچھ ایسا ہی جھگڑا اقبالؔ کا تصوف سے ہے۔ شاید عالم خوند میری نے جب اقبالؔ کے یہاں تصوف کی کشش اور اس سے گریز کا ذکرکیا تھا تو ان کے ذہن میں بھی یہی نکتہ تھا۔ بہر حال یہ طے ہے کہ اقبال کو تصوف سے دلچسپی ورثے میں ملی تھی۔ یعنی صوفیوں سے ان کی عقیدت شروع سے آخر تک رہی۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ کے متعلق ان کی دو اردو نظمیں ہیں۔ وہ صوفیوں اور درویشوں سے ملنے کے برابر متمنی رہتے تھے۔ ان کی ابتدائی شاعری میں وحدۃ الوجود کا اثر واضح ہے۔ اسرار خودی اور رموز بے خودی کے دور میں وحدت الوجود کے مخالف ہو گئے لیکن زبور عجم، جاویدنامہ اور ارمغان حجاز میں پھر وحدت الوجود کی جھلک مل جاتی ہے۔
اس کے ساتھ یہ بھی واقعہ ہے کہ انہوں نے اردو اور فارسی شعر میں عجمی تصوف کی پرزور مخالفت کی۔ مزاج خانقاہی پر طنز کی، مسلمان کو سلطانی و ملائی کے ساتھ پیری کا کشتہ بھی کہا، صوفی کی طریقت میں انہیں فقط مستی احوال نظر آئی۔ اپنے خطوں میں وہ اسرار خودی کے دیباچے اور حافظ کے متعلق اشعار پر جو ہنگامہ ہوا، اس کے جواب پر انہوں نے تصوف کے فلسفہ بننے پر، اس کے ترک دنیا کے فلسفے پر، اس کے افکار و اشغال پر، تصوف کے ادارے کے انحطاط پر، پیر پرستی اور قبر پرستی پر سخت اعتراضات کئے۔ اس سلسلے میں ان کے یہ الفاظ ذہن میں رکھنے چاہئیں،
(۱) ہندو حکمانے مسئلہ وحدت الوجود کے اسباب میں دماغ کو مخاطب کیا مگر ایرانی شعراء نے اس مسئلے کی تفسیر میں زیادہ خطرناک طریقہ اختیار کیا یعنی انہوں نے دل کو اپنا آماجگاہ بنایا اور ان کی حسین و جمیل نکتہ آفرینیوں کا آخر کار یہ نتیجہ ہوا کہ اس مسئلہ نے عوام تک پہنچ کر اسلامی اقوام کو ذوق عمل سے محروم کردیا۔ (دیباچہ اسرار خودی)
(۲) میرا فطری اور آبائی میلان تصوف کی طرف ہے اور یورپ کا فلسفہ پڑھنے سے یہ میلان اور قوی ہوگیا تھا کیوں کہ فلسفہ میں یورپ بحیثیت مجموعی وحدت الوجود کی طرف رخ کرتا ہے۔ مگر قرآن پر تدبر کرنے اور تاریخ اسلام کا بغور مطالعہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے اپنی غلطی معلوم ہوئی۔ (اسرار خودی پر اعتراض کا جواب)
(۳) تصوف سے مراد ایرانی تصوف ہے۔
(۴) توحید اور وحدت الوجود مترادف نہیں۔ مقدم الذکر خالص مذہبی ہے اور مؤخرالذکر کا مفہوم خالص فلسفیانہ ہے۔ (اسرار خودی پر اعتراض کا جواب)
(۵) خدا نے علوم کو ہدایت کی کہ دنیا میں اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ پھر اس حصے کو حاصل کرنے کا طریقہ بھی بتایا اور اسی کا نام شریعت اسلامیہ کا وہ حصہ ہے جو معاملات سے تعلق رکھتا ہے۔ (اسرار خودی)
(۶) عجمی تصوف جزو اسلام نہیں۔ یہ ایک قسم کی رہبانیت ہے جس سے اسلام کو قطعاً تعلق نہیں اور جس کے اثر سے اسلامی اقوام میں قوت عمل مفقود ہوگئی ہے۔ (اسرار خودی)
(۷) اس میں شک نہیں کہ تصوف کا وجود ہی سرزمین اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے، آپ کو خیرالقرون والی حدیث یاد ہوگی اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں، ’’میری امت میں تین فرقوں کے بعد سمن کا ظہور ہوگا۔‘‘ سمن سے مراد رہبانیت ہے۔ وسط ایشیائی اقوام میں مسلمانوں میں پہلے سے رائج تھی۔ (سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط)
(۸) مجدد الف ثانیؒ کے قول کے مطابق تصوف شعار فقہ اسلامیہ میں خلوص پیدا کرنے کا نام ہے۔ یہ عین اسلام ہے۔ مگر صوفیائے اسلام میں ایک گروہ وہ بھی ہے جو شریعت اسلامیہ کو علم ظاہر کے حقارت آمیز خطاب سے یاد کرتا ہے اور تصوف سے وہ باطنی دستور العمل مراد لیتا ہے، جس کی پابندی سے سالک کو خوف الادراک حقائق کا عرفان یا مشاہدہ ہو جاتا ہے۔ (علم ظاہر و باطن)
(۹) معرفت کو علم پر ترجیح دینا مذہبی اعتبار سے ہر قسم کی رہبانیت کی جڑ ہے اور علمی اعتبار سے ان تمام علوم حسیہ عقلیہ کی ناسخ ہے جن کی وساطت سے انسان نظام عالم کے قوی کو مسخر کرکے اس زمان و مکان کی دنیا پر حکومت کرنا سیکھتا ہے۔ (علم ظاہر و باطن)
گویا اقبالؔ کے نزدیک اخلاص فی العمل احسان اور ولایت کے طور پر تصوف عین اسلام ہے۔ انہیں یہ بھی تسلیم ہے کہ جب علما نے قوانین اسلام کی ترجمانی میں تنگ نظری سے کام لیا تو بعض صوفیوں نے جو مسلمانوں کے اعلیٰ ترین ذہنی معیار کی نمائندگی کرتے ہیں، اس کی مخالفت کرکے ایک اچھا قدم اٹھایا لیکن تصوف میں جب رہبانیت در آئی، دنیا اور کار دنیا کو نظرانداز کیا جانے لگا، جب اس نے جبراور انفعالیت کے فلسفے کی ترجمانی کی، جب حرکت اور عمل سے دور ہوگیا، جب شاعری کے ذریعہ سے کشتۂ دوست اور کشتۂ دشمن کا امتیاز اٹھ گیا، جب طریقت کو شریعت کے مقابلے پر رکھا گیا، جب پیر پرستی اور قبر پرستی کی بنیاد پڑی، جب نومحلاطونی، مسیحی، بدھ اور زرتشتی اثرات تصوف میں داخل ہوگئے اور انہوں نے قوائے عمل کو شل کر دیا تو وہ اس تصوف کے مضر اثرات کے نشان دہی کرنے لگے۔
پیوستن کے مقابلے میں گستن، وصال کے مقابلے میں فراق، فنا کے مقابلے میں بقا، وحدت الوجود کے مقابلہ میں وحدت الشہود، جبر کے مقابلہ میں اختیار پر انہوں نے زور دینا شروع کیا۔ کمال ترک آب و گل سے مہجوری کے بجائے تسخیر خاکی و نوری ٹھہرا۔ فقر کے معجزات میں تاج و سریر سپاہ نظر آئے اور اس طرح فقرمیروں کا میر اور شاہوں کا شاہ نظر آیا۔
بظاہر اس میں تضاد ہے مگر یہاں یہ بات ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اقبال تاریخی اسلام کے مقابلے میں حقیقی اسلام کو ملحوظ رکھتے ہیں، وہ جہاں عرب شہنشاہیت کے خلاف ہیں، وہاں آریائی فکر، ایرانی قومیت، نوفلاطونی اثرات، مسیحی رہبانیت اور بدھ مت کے ان اثرات کے بھی خلاف ہیں جو اسلامی فکر میں داخل ہوگئے تھے۔ مارشل ہاجن نے اپنی کتاب The Venture of Islam میں بیسویں صدی میں اسلام کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شاید اسلام کی جمہوریت کسی نہ کسی شکل میں جدید دور کو متاثر کرتی رہے گی لیکن یہ نہ بھی ہو تو فارسی شاعری اور اس میں تصوف کے اثر سے انسان دوستی کے نقوش بہر حال فکرانسانی کو برابر تب و تاب دیتے رہیں گے، گویا ہاجن تاریخی اسلام کو اہمیت دیتا ہے جبکہ اقبالؔ حقیقی اسلام کو۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جس طرح اقبالؔ در اصل حافظ کی شاعرانہ عظمت کے قائل ہیں مگر چونکہ ان کے خیال میں حافظ کے یہاں محو کے مقابلے میں سکر پر زور زیادہ ہے اس لئے اس کے اثرات اسلامی ذہن کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ شاعری تمام تر سکر کی نمائندہ نہیں ہے، ان کے جلوہ صدرنگ کا یہ ایک پہلو ہے گو اس کی اہمیت مسلم ہے، مگر اقبالؔ اپنے فلسفۂ خودی کے زیراثر ہر اس چیز کو مضر سمجھتے تھے جو خودی کو ضعیف کرے، صبر کی طرف لے جائے یا ترک دنیا یا بے عملی کی طرف مائل کرے، اس لئے حافظ اور بعض صوفی شعرا کے حسین و جمیل افکار کے منفی اثرات کو کیسے نظر انداز کر سکتے تھے۔
اقبالؔ دنیا کو فریب نہیں جانتے تھے، وہ اسے آخرت کی کھیتی سمجھتے تھے، ان کو جمال کے مقابلے میں جلال، محبت کے مقابلے میں طاقت عزیز تھی، بلکہ وہ جلال میں جمال اور طاقت میں حسن دیکھتے تھے۔ اس لئے جس طرح وحدت الوجود کے اثر سے ان کے نزدیک مسلمانوں کی واقعاتی حس کم ہو گئی۔ اس طرح حافظ اور بعض صوفی شعرا کے اثر سے ان میں جبریت اور میلانیت کا میلان بڑھ گیا اور اسلام کے ارضی حر کی، فعال اور علمی پہلو سے غفلت عام ہوگئی۔ بہر حال اقبالؔ رومی جیسے عظیم شاعر کو اپنا قافلہ سالار مانتے اور اگرچہ بقول پروفیسر وحید الدین، ’’اقبال رومی کے ساتھ اپنے عوالم خیال میں پرواز کر سکتے ہیں لیکن ان کے ساتھ ان کی اپنی دنیا میں رقص نہیں کر سکتے۔‘‘ پھر بھی رومی سے اقبالؔ کا شغف ظاہر کرتا ہے کہ وہ صوفیانہ تجربے کو اہمیت دیتے ہیں۔
وہ تصوف پر بحیثیت تصوف کے معترض نہیں ہیں بلکہ اس کے مخصوص تاریخی تعصبات و اعتقادات کے ناقد ہیں۔ عالم ظاہر اور عالم باطن کے امتیاز اور شریعت اور طریقت کی الگ الگ راہوں کے خلاف ہیں۔ ان کے نزدیک چونکہ رومانیت کی منتہا انفرادیت کے حصول سے آزادی حاصل کرنے میں نہیں بلکہ اس کے اور زیادہ قطعی تعین میں ہے یعنی جتنی زیادہ روحانیت میں ترقی ہوگی اتنا ہی فرد کی فردیت میں اضافہ ہوگا۔ اس لئے وہ تمام مسلک اور نظریے جو انفرادیت کو فنا کرنے کی طرف لے جاتے ہیں، جو انسان کو یزداں صفات بنانے میں حارج ہوتے ہیں، جو صرف دیکھنے کو کافی سمجھتے ہیں بدلنے کی فکر نہیں کرتے، اقبالؔ کے نزدیک مستحسن نہیں۔
یہاں یہ بات بھی واضح کر دینا چاہئے کہ اقبالؔ اس خطرے کے پیش نظر جو عالم اسلام خصوصاً ہندوستان میں اسلام کو لاحق تھا، حقیقی اسلام اور حقیقی تصوف کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرتے رہے مگر انہوں نے اپنے فلسفہ خودی اور اس کے مضمرات کی روشنی میں اسلام کی تاریخ میں تصوف کے مجموعی رول کو مناسب اہمیت نہ دی۔ اقبالؔ داراشکوہ پر اورنگ زیب کو ترجیح دیتے ہیں، وہ مجدد الف ثانیؒ اور ان کے وحدت الشہود کے نظریے کے بہت قائل ہیں۔ مگر شاہ ولی اللہ ؒ نے دونوں کے فرق کو جزوی قرار دیا تھا اور دارا شکوہ اور اورنگ زیب کی جنگ قطعی سیاسی نوعیت کی تھی اور داراشکوہ قادریہ سلسلہ میں بیعت تھا اور جو ملحدانہ خیالات اس سے کچھ حلقوں میں منسوب کئے جاتے ہیں، ان کی صحت مشتبہ ہے۔
اقبالؔ نے اپنے ایک خط میں فوق کو لکھا تھا کہ اورنگ زیب کو حافظ کے ایک شعر نے گانے والیوں کو دریابرد کرنے سے باز رکھا اور وہ اس موسیقی اور شاعری کے مضر اثرات ثابت کرتے ہیں، حالانکہ اس سے بہت زیادہ مثالیں موسیقی اور شاعری کے جذبات کو ترفع اور تزکیہ نفس عطا کرنے کی دی جا سکتی ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ صوفیائے کرام نے اسلام کے فروغ میں جو عظیم الشان رول ادا کیا ہے اس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ خود ہندوستان میں حضرت معین الدین چشتیؒ، حضرت بختیار کاکیؒ، حضرت نظام الدین اولیاؒ، بندہ نواز گیسو درازؒ، شاہ شرف الدینؒ جیسے صوفیائے کرام کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ علما شہروں میں ہوتے تھے اور ان کا رابطہ عوام سے کم تھا۔ صوفیائے کرام خدا کی سرزمین میں ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے، ان کا تعلق عوام سے گہرا تھا۔ ان کے حلقے میں اکثر لوگ روحانیت سے آشنا بھی ہوتے تھے اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار بھی۔
مولانا ابو الحسن علی نے لکھا ہے کہ چنگیز خان کے حملوں کے بعد وسط ایشیا کے حکمرانوں کو اسلام کی طرف لانے میں صوفیائے کرام کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ خود کشمیر کی تاریخ میں شاہ ہمدانؒ اور دوسرے بزرگوں کی اسلام کوپھیلانے میں گراں قدر خدمات کا سب کو اعتراف ہے۔ ہندوستان میں نقش بندی، سہروردی، چشتی اور قادری سلسلوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ان بزرگوں کی انسان دوستی، اخوت و مساوات، خدمت خلق، عوام سے گہرا رابطہ سب کا نقش گہرا ہو جاتا ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاؒ کہا کرتے تھے کہ میرے گھر کے دو دروازے ہیں، بادشاہ ایک سے داخل ہوتا ہے تو میں دوسرے سے چلا جاتا ہوں۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے انحطاط کی ذمہ داری تمام تر صوفیا پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ہاں جب تصوف، پیر پرستی اور قبر پرستی اور افکار و اشغال کے سہارے ایک ایسا مسلک بن گیا جس کی آڑ میں ہر قید سے آزادی مل گئی، اور جب اس نے ایک منفعت بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کر لی تواس پر اعتراضات قدرتی تھے۔
اس لئے اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ تصوف چونکہ زیادہ تر عجمی ہے اس لئے اس کے مضر اثرات سے آگاہ رہنا چاہئے بلکہ یہ ہے کہ کیا ہم اسلامی تاریخ کو اور تصوف کے اس میں رول کو نظرانداز کردیں۔ اقبالؔ عجمیت کے قائل نہیں، ساری عمر نبردآزما رہے مگر انہوں نے بکھرے خیالات میں یہ تسلیم کیا تھا کہ فتح ایران نے اسلام کو جو کچھ دیا اسے کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ضرب کلیم کی ایک نظم مدنیت اسلام میں عرب کے سوز دروں کے ساتھ عجم کے حسن طبیعت کو بھی تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے خطبات میں صوفیائے کرامؒ کی خدمت کو سراہا ہے جو انہوں نے اسلامی فکر کے فروغ میں انجام دی۔ اس لئے اقبالؔ کو تصوف کا مخالف سمجھنا صحیح نہ ہوگا بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ بعض صوفیوں کی تاویلوں اور بعض غیرذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے چونکہ اسلامی طرز زندگی میں ضعف آیا اور بعض احکام کی تاویل میں تساہل ہوا اس لئے اقبالؔ نےا ن کی نکتہ چینی ضروری سمجھی۔
ڈاکٹر فضل الرحمن نے اپنی کتاب ’’اسلام‘‘ میں اس بات پر زور دیا ہے کہ تصوف رفتہ رفتہ مذہب کے اندر ایک اور مذہب بن گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ اسلامی حدود سے تجاوز ہے، لیکن اسلامی تاریخ میں اس کا جوکارنامہ ہے اورعالم انسانیت کے لئے اس میں جو اپیل ہے اسے بہرحال ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ جس طرح اسلام صرف علما کی جاگیر نہیں ہے اسی طرح وہ صوفیوں کی جاگیر بھی نہیں۔ اقبالؔ نے اپنے خطبات میں نبوت اور ولایت کے فرق کو واضح کرتے ہوئے بڑے پتے کی بات کہی ہے۔ انہوں نے مولانا عبدالقدوس گنگوہیؒ کا قول نقل کیا ہے، ’’محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم عرش تک پہنچے اور واپس آگئے۔ بخدا اگر مجھے یہ موقع ملتا تو میں کبھی واپس نہ آتا۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ صوفی واپس نہیں آنا چاہتا اور اگر آتا بھی ہے تو اس کی واپسی عام انسانیت کے لئے زیادہ معنی خیز نہیں ہوتی۔ مگر نبی کی واپسی تخلیقی ہوتی ہے۔ وہ اس لئے واپس آتا ہے کہ وقت کے بہاؤ پر اثرانداز ہو، تاریخ کی طاقتوں پر اقتدار حاصل کرے اور انکار کی ایک نئی دنیا تخلیق کرے۔ یعنی اقبالؔ کوولایت سے انس کے باوجود نبوت کے مشن سے غرض ہے اور اس کو انسانیت کے لئے باعث نجات سمجھتے ہیں مگر جیسا کہ پروفیسر وحید الدین نے کہا ہے،
’’وہ جہت جو اقبالؔ کے نزدیک نبی کے شعور کے ساتھ مخصوص ہے یعنی خلوت کی بصیرت کو جلوت میں مؤثر بنانا تمام تر برگزیدہ اولیا کا شعار رہا ہے۔ ان مقدس ہستیوں کا بڑا گروہ صرف استغراق اور محویت کو اپنی زندگی کا منشا نہیں بناتا بلکہ تہذیب نفس اور عالمگیر محبت کی ترویج بھی پیش نظر رکھتا ہے اور بظاہر دنیا سے منقطع خانقاہوں اور زاویوں سے ایسی شمع روشن ہوئی ہے جس کی روشنی آج تک دلوں کو منور کرتی ہے اور ہر زمانے میں ایسی پراسرار شخصیتیں بھی رہی ہیں جو کسی تاریخ میں مذکور نہیں لیکن ہمیشہ کے لئے اپنے پیچھے ایک خوشبو چھوڑ جاتی ہیں۔ یہی وہ مرد خدا ہیں جن کو دنیا کا گرد وغبار چھپا تو دے سکتا ہے لیکن جن کے نقوش کو وہ مٹا نہیں سکتا۔‘‘
(فکر اقبال، ص ۱۷۲۔ ۱۷۱)
اور کیا اردو اور فارسی کی ساری صوفیانہ شاعری گمراہی اور چند رندوں کی مستی کی ترنگ ہے۔ ایک مغربی نقاد نے کہا ہے کہ ہر زبان میں بڑی شاعری ایک منزل پر صوفیانہ ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے۔ شاعری پورے انسان کی روح کا نغمہ ہے۔ یہ الفاظ کا رقص ہے، شاعر کا وجدان اسے وہ چشم بصیرت عطا کرتا ہے جس کے ذریعہ وہ ہر ظاہر کے باطن اور ہر حقیقت کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے۔ شاعر کی پرواز اپنی بلندی میں صوفی کی پرواز سے مشابہ ہوتی ہے۔ شاعرانہ تجربے تک پہنچنے کے لئے شاعر کی زبان کے سارے سرمائے، اس کے انسلاکات، اس کے سخن اور اس کے ماورائے سخن سے آشنا ہونا ضروری ہے۔
صوفیانہ تجربے تک پہنچنے میں شاعری مدد کرتی ہے، بشرطیکہ انسان اپنے وقتی، مادی، آنی اور فانی ماحول سے بلند ہو سکے، پھر صوفیانہ تجربہ بھی اپنی زبان اپنی اصطلاحات اور اپنے اسرار و رموز رکھتا ہے۔ آج کا انسان جسے مغربی تہذیب نے، سائنس اور عقلیت نے اسیر کر رکھا ہے اپنی جڑوں اور بنیادوں سے کٹ گیا ہے۔ اس کی شخصیت کو جو استواری، جو توانائی جو راست سمت کلاسیکی شاعری عطا کرتی ہے اس سے وہ اپنے ماحول کی مجبوریوں، غلط تعلیم، سستی سیاست اور آج کی زندگی کی دیوانی دوڑ کی وجہ سے محروم ہے۔
اردو اور فارسی کی کلاسیکی شاعری میں سب سے بڑا، سب سے سنہرا اور سب سے زیادہ ہمہ گیر وہ اخلاقی نظریہ ہے جو تصوف کی دین ہے۔ اس میں جو رواداری، جو وسیع المشربی، جو دل دہی اور دل داری، جو عشق، جو ادب ہے اس سے لوگ سرسری گزر جاتے ہیں۔ حالانکہ اس میں جینے کا ایک سلیقہ چھپا ہوا ہے جو شاعری کے رمز و ایما میں بیان ہوا ہے۔ مثلاً عشق کا تصور، جو میرؔ یا دردؔ یا غالبؔ یا اقبالؔ کے یہاں ملتا ہے۔ جنسی تجربہ نہیں ہے اس سے بہت مختلف ہے۔ اقبالؔ کے یہاں تواس کا تصور اتنا بلند ہے کہ وہ پکار اٹھتے ہیں،
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بت کدۂ تصورات
یعنی یہ عشق محض سستے معنی میں عقل کی ضد نہیں بلکہ باطنی نظر ہے، حقیقت تک پہنچنے کا ایک وسیلہ ہے اور ایک اور رہنما زیر کی ابلیں تک لے جاتی ہے۔ آدم کی فضیلت عشق ہے۔ بقول خلیفہ عبد الحکیم اقبالؔ ایک قسم کے تصوف کے مخالف تھے اور دوسرے قسم کا تصوف ان کی شاعری کا بہترین سرمایہ ہے۔ بال جبریل کی ایک غزل کے چند شعر ملاحظہ ہوں،
علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے خفت قلب و نگاہ
علم فقیہہ و حکیم فقر مسیح و کلیم
علم ہے جویائے راہ فقر ہے دانائے راہ
فقر مقام نظر، علم مقام خبر
فقر میں مستی ثواب علم میں مستی گناہ
علم کا موجود اور فقر کا موجود اور
اشہد ان لا الہ اشہدان لا الہ
چڑھتی ہے جب فقر پر سان پہ تیغ خودی
ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کار سپاہ
دل اگر اس خاک میں زندہ و بیدار ہو
تیری نگاہ توڑ دے، آئینہ مہر و ما
اور جاوید نامہ میں منصور حلاج کی زبان سے کہتے ہیں،
نقش حق اول بجاں انداختن
باز اوراد جہاں انداختن
نقش جاں تا در جہاں گرد و تمام
می شود دیدار حق دیدار عام
اس لئے تصوف کے ساتھ اقبالؔ کے رویے کو سمجھنے کے لئے صرف اسرار و رموز اور اس دور کے مضامین اور خطوط کی بنیاد پر رائے قائم کرنا درست نہ ہوگا بلکہ خطبات کے اقبال اور جاویدنامہ اور ارمغان کے اقبال کو بھی مناسب اہمیت دینی ہوگی۔ شروع میں ان کو کتاب الطواسین میں الحاد، زندقہ نظر آیا تھا لیکن مسینوں (Masignon) کی تحقیق سے بہرہ مند ہونے کے بعد جاوید نامہ میں منصور عشق نبوی سے منور ایک شمع نظر آتے ہیں۔ محی الدین ابن عربی کے متعلق انہوں نے کیا کچھ نہیں کہا تھا مگر خطبات میں ان کے استدلال سے مدد لی ہے۔ عشق نبوی جو تصوف کی روح ہے، ارمغان میں ان کے منہ سے یوں کہلواتا ہے۔
تو باش ایں جا و با خاصاں بیاں میز
کہ سن دارم ہوائے منزل دوست
جیسا کہ پروفیسر شمل نے اپنے ایک مضمون Iqbal is the context of Indo Muslim Mystical Reform Movement میں کہا ہے۔ اقبالؔ تصوف کے رمز شناس تھے۔ اور انہوں نے تمام اکابر صوفیا کی تصانیف اور صوفیانہ شاعری کا بڑا گہرا مطالعہ کیا تھا اور بعض کے متعلق ان کی رائے میں تبدیلی بھی ہوئی۔ عراقی کی خطبات میں تحسین جوئی کی، سنائی کو مسافر میں خراج عقیدت پیش کیا۔ منصور کے متعلق پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے۔ داتا گنج بخش سے ان کی عقیدت کا جابجا اظہار ہوا ہے۔ وہ قادری سلسلہ میں بیعت ہونے کے باوجود ذہنی طور پر نقش بندی سلسلے سے زیادہ قریب ہیں اور دہلی کے اس سلسلے میں فیض یاب جو شاہ ولی اللہ، مظہر جان جاناں اور خواجہ میر درد کے یہاں ملتا ہے۔ ان کے اعتراضات مسلم ہیں۔ منصور کے یہاں عبدہ کی اصطلاح کے ذریعہ سے انسان کامل پر توجہ اور ابلیسیت کا المیہ ان سب سے اقبالؔ نے کام لیا ہے۔ رومی نے کہا تھا کہ قرآن سے مغز لیتا ہوں اور ہڈیاں کتوں کے آگے ڈال دیتا ہوں۔ اس تلازمہ میں اقبالؔ نے تصوف کے مغز کو لے لیا ہے اور اس کی ہڈیوں کو علاحدہ کر دیا ہے۔