اقبال اور صنعتی تمدن

صنعتی تمدن ایک نیا ذہنی استعارہ بھی ہے، جس سے انسان کی جذباتی زندگی میں الجھے ہوئے سوالوں کا طویل سلسلہ جڑا ہوا ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں صنعتی ترقی کی مجنونانہ دوڑ کے خلاف دانشوروں کے ایک حلقے سے احتجاج کی صدا بلند ہوئی تو ایک دوسرے حلقے نے اسے دل و نظر کی بے بصری اور سائنس کے لئے جارحیت سے تعبیر کیا۔ یعنی اس معاملے میں اثبات و نفی کی لہریں ایک ساتھ نمودار ہوئیں۔ اس سے پہلے دو صدیوں نے سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کے جو خواب ترتیب دیے تھے، اب ان کی تعبیروں پر غور و فکر کی ایک نئی جہت سامنے آئی۔ یہ جہت ترقی یافتہ ممالک کے لئے اتنی ہی نئی تھی جتنی کہ ان پس ماندہ معاشروں کے لئے جو مادی ترقی کو سامان نجات سمجھتے تھے۔


اسی لئے مادی اعتبار سے خوش حال معاشروں نے ہی سب سے پہلے صنعتی تمدن کے عطیات پر شک و شبہے کی نظر ڈالی اور اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ نئی تمدنی اقدار کے ایک ترجمان نے کہاکہ یہ احتجاج دہشت کی ایک چیخ ہے جسے واہموں اور بےجا وسوسوں سے غذا ملتی ہے۔ انہوں نے یہ حقیقت نظرانداز کر دی کہ بیسویں صدی کے مسائل گزشتہ ادوار کی بہ نسبت کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔ اب سے پہلے عام طور پر یہ ہوتا رہا کہ کسی انقلاب آفریں سیاسی واردات نے زندگی کے کچھ اسالیب کو صدمے پہنچائے اور نتیجے میں ذہنی یاجذباتی ردعمل کی چندنئی صورتیں سامنے آ گئیں۔ لیکن بیسویں صدی کے سوالات کی بنیاد محض کوئی سیاسی واردات نہ تھی بلکہ زندگی کا نیا رویہ، ایک نیا جذباتی، تمدنی، نفسیاتی اور ذہنی ماحول تھا جس کی جڑیں صنعتی فتوحات کے علاقوں میں پھیلی ہوئی تھیں۔


اقبال نے تمدنی زندگی کے کمال کو شرافت کے زوال سے تعبیر کیا۔ ادھر ترقی یافتہ ملکوں میں یہ خیال تیزی سے عام ہونے لگا کہ نئی تعمیر میں تخریب کی صورتیں ایک ناگزیر جبر کی صورت میں موجود ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صنعتی ترقی کا ارتقا جیسے جیسے تیزتر اور اس کا افق وسیع تر ہوتا گیا، اس میں گندھے ہوئے انحطاط کی پرچھائیں اسی تناسب سے طویل ہوتی گئی۔ اس احساس میں شدت پیدا ہوتی گئی کہ مغرب کا صنعتی معاشرہ آسودگی کا ایک پرفریب منظرنامہ ہے۔ روزمرہ زندگی کے معیار بلند تر دکھائی دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کا عام شہری صنعتی پیداوار کی کھپت اور اس طرح ایک سرمایہ پرست تمدنی قدر کی توسیع کا ذریعہ بن گیا ہے۔ فطری زندگی اور مظاہر کی شکلیں بگڑتی جا رہی ہیں۔ اجتماعی موت کا آسیب، ایٹمی ہتھیاروں کی ہلاکت اور فراوانی کا نتیجہ ہے اورانسان اس اندوہناک احساس تفاخر میں مبتلا ہے کہ اب وہ خود کو تباہ کرنے پر قادر ہے۔ اس معاشرے کے ایک ممتاز دانشور نے صورت حال کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ نتائج اخذ کئے کہ،


(۱) صنعتی ترقی کی تنظیم کے لئے مسلسل وسیع ہوتی ہوئی وحدتوں کا قیام ناگزیر ہے اور ان کی کارکردگی میں اضافہ فرد کے مفادات پر قوم یا معاشرے کے مفادات کو فوقیت دینے کا تقاضا کرتا ہے۔


(۲) مشینوں کی حکومت انسانی طرز عمل کی ایک ایسی تصویر پیش کرتی ہے جس میں خو دانسان کی حیثیت ایک حساس مشین سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ انسانی عظمت کے دوسرے سر چشمے نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔


(۳) تکنیکی ترقی نے تباہی کے طریقوں کوبہت کارگر بنا دیا ہے اور یہ اندیشہ قوی ہوتا جا رہا ہے کہ انسان اپنے تکنیکی وسائل کو کہیں اپنی ہی ہلاکت کے لئے استعمال نہ کر بیٹھے۔


اقبال اردو کے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے اس مسئلے کے مادی اور مابعد طبیعی پہلوؤں پر ایک ساتھ نظر ڈالی ہے۔ چنانچہ وہ مادی انقلاب کے نتیجے میں کسی روحانی اور اخلاقی انقلاب کی توقع کے بجائے مادی انقلاب کو ایک پہلے سے طے کئے ہوئے اخلاقی ضابطے کا پابند بنانے پر زور دیتے ہیں۔ چونکہ یہ مسئلہ ایک اجتماعی تناظر رکھتا ہے، اس لئے صنعتی تمدن کے بحران کا تجزیہ کرتے وقت اقبال نے شخصی یا انفرادی بحران سے زیادہ قومی اور معاشرتی بحران یا دوسرے لفظوں میں ایک ہمہ گیر تہذیبی المیے کو سمجھنے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ انسانی تاریخ کو وہ انسانی استعداد کی ٹکنالوجیکل توسیع کے عمل سے زیادہ ایک اضافہ پذیر کائنات، ایک آزمائے ہوئے نظام اخلاق اور اسلوب زیست کی توسیع کا عمل سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ا ن کی شاعری میں صنعتی تمدن کے مسائل کے ساتھ ساتھ ان کے حل کی طرف اشارے بھی بہت واضح ہیں۔


دہشت کی وہ چیخ جو مغربی دانشوروں کے ایک حلقے سے بلند ہوئی تھی، اقبال کی شاعری میں ایک نئی کوشش تعمیر کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ وہ صنعتی تمدن پر سایہ فگن قدروں اور اسالیب فکر کی تنقید چاہے سخت لہجے میں کرتے ہوں لیکن کہیں بھی اس نفسیاتی خوف کے شکار دکھائی نہیں دیتے جس نے صنعتی تمدن کی ہر حقیقت کو سماجی مفکروں کے ایک بڑے حلقے کی فکر کا آسیب بنا دیا تھا۔ چہار طرف پھیلے ہوئے جذباتی اور ذہنی انتشار کے ماحول میں بھی وہ اپنے اندرونی نظم و ضبط کو برقرار رکھتے ہیں۔ اس تمدن کی پروردہ قدروں سے بے اطمینانی کے اظہار کا سلسلہ ’’بانگ درا‘‘ کی نظم ’’عقل و دل‘‘ سے شروع ہوا ہے جس میں اقبال زندگی کے تمام و کمال مادی تصور کو اساس فراہم کرنے والے علم کی حیثیت پر طنز کرتے ہیں۔ اسے ایک مستقل بے تابی کا سر چشمہ اور زمان و مکاں کے حدود میں پابہ زنجیر حقیقت قرار دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ صرف مادی دنیا اور اس کے مناسبات اقبال کے مثالی انسان کی سرگرمیوں کے حدود کا تعین نہیں کرتے۔ مذہب کے امکان پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یہ بات بھی کہی تھی کہ،


’’جس مایوسی اور دل گرفتگی میں آج کل کی دنیا گرفتار ہے اور جس کے زیر اثر انسانی تہذیب کو ایک زبردست خطرہ لاحق ہے، اس کا علاج نہ تو عہد وسطی کی صوفیانہ تحریک سے ہو سکتا ہے اور نہ جدید زمانے کی وطنی قومیت اور لادینی اشراکیت کی تحریکوں سے۔ اس وقت دنیا کو حیات نو کی ضرورت ہے۔ اگر عصر حاضر کا انسان دوبارہ وہ اخلاقی ذمہ داری اٹھا سکےگا جو جدید سائنس نے اس پر ڈال رکھی ہے تو صرف مذہب کی بدولت۔‘‘ (خطبہ، کیا مذہب کا امکان ہے؟)


اسی خطبے میں آگے چل کر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ، ’’جب تک انسان کو اپنے آغاز و انجام یا دوسرے لفظوں میں اپنی ابتدا اور انتہا کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی، وہ کبھی ا س معاشرے پرغالب نہیں آ سکتا جس میں باہم دگر مقابلے اور مسابقت نے ایک نہایت غیرانسانی شکل اختیار کر رکھی ہے اور نہ اس تہذیب وتمدن پر غالب آ سکتا ہے جس کی روحانی وحدت اس کی مذہبی اور سیاسی قدروں کے اندرونی تصادم سے پارہ پارہ ہو چکی ہے۔‘‘


یعنی اقبال کا بنیادی مسئلہ معاشرے کی روحانی وحدت کے قیام اور استحکام کا ہے۔ برق و بخارات ان کے نزدیک صرف اس قوم کے کمال کی حد بن سکتے ہیں جو فیضان سماوی سے یکسر محروم ہو چکی ہو۔ اقبال کو پریشانی اس بات سے ہے کہ صنعتی ترقی کے حصول کی خاطر اہل مغرب نے جو قیمت ادا کی ہے، اس کے بعد ان کے پاس جو کچھ بھی رہ گیا ہے وہ سچائی نہیں بلکہ سچائی کا فریب ہے۔ نظر کے اس زاویے کا عکس اقبال کے ابتدائی کلام میں بہت واضح نہیں ہے، سوائے ایک نظم (مارچ ۱۹۰۷ء) کے جس میں مغربیوں کو وہ قدرے معلمانہ انداز میں یہ بتاتے ہیں کہ خدا کی بستی دکان نہیں ہے اور انہیں اس آنے والی گھڑی کے خطرے سے آگاہ بھی کرتے ہیں کہ تہذیب کایہ نگارخانہ کوئی دم میں آپ اپنے ہاتھوں اجڑ جائےگا۔


’’بانگ درا‘‘ میں اس نوع کے اشعار بڑ ی حد تک اکبرالہ آبادی کی تنقید مغرب کی توسیع ہیں۔ بعد کی شاعری میں اختلاف کی یہ لے ایک مفکرانہ آہنگ میں ڈھل گئی ہے اور اس میں نفرت، حقارت، تمسخر یا سراسیمگی کی بجائے ایک پر جلال اعتماد اور ایک پیغمبرانہ آگہی کا نقش بہت روشن ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو اس بات میں اقبال کی بصیرت زیادہ سے زیادہ ایک ہاری ہوئی شخصیت کے تعصبات کی جذباتی تاویل بن کر رہ جاتی اور جس مہیب درد کے ساتھ اپنے پورے وجود کے حوالے سے انہوں نے اس تجربے کا ادراک کیا تھا، اس کا سارا تاثر ایک ہسٹریائی چیخ پکار یا گریہ وبکا کے شور میں گم ہو جاتا۔ پھر تہذیبی واردات پر شعر کہنے کے بجائے وہ ایک مخصوص تہذیبی فکر کو بس نظم کرتے رہتے۔ لیکن اقبال بہ یک وقت ایک شاعر، ایک مفکر اور ایک مذہبی انسان کے فرائض ادا کرتے ہیں اور ایک سی کامیابی کے ساتھ اپنی ان تینوں حیثیتوں کا تحفظ کرتے ہیں۔


صنعتی تمدن کے تضادات اور تعینات پر اقبال نے اپنے اشعار میں جو اشارے کئے ہیں، ان کا خلاصہ کم وبیش انہی کے الفاظ میں یوں ہے کہ ’’شیشہ تہذیب حاضر، مئے لا، سے لبریز ہے اور ساقی کا ہاتھ پیمانہ الاسے خالی۔‘‘ اس تہذیب کے سُر سنگیت کا سارا جادو صرف ’’زخمہ در کی تیز دستی‘‘ کا مرہون منت ہے۔ اس تہذیب کی جنت ’’ان جلوؤں سے آراستہ ہے جو پابہ رکاب ہیں۔‘‘ ایوان فرنگ ’’سست بنیاد‘‘ ہے اور یہ بنیاد ایک سیل بے پناہ کی ’’ زدپر‘‘ ہے۔ یہ ’’بے حرم‘‘ تہذیب اس پھل کی مثال ہے جو کسی آن خود بہ خود گر پڑےگا۔ ’’بےکاری، عریانی، مے خواری، افلاس‘‘ سب اسی پھل کے ذائقے ہیں۔ وہ تہذیب جس کا ضمیر تاجرانہ ہے، جس کا کمال شرافت کے زوال کا مترادف ہے، جس کی رنگینی فقط انتہائے راہ نہیں ہیں۔‘‘ اس تہذیب کی عطا کردہ آزادی کا باطن گرفتاری ہے۔ اس کے مے خانوں میں ’سرور شراب پر مقدم‘‘ ہے۔ یہ تہذیب ازسر تا کمر زرہ میں صرف اس لئے ڈوبی ہوئی ہے کہ ’’باطل‘‘ کی حفاظت کر سکے۔ یہ تہذیب قلب و نظر کا فساد ہے اور اس کے بت کدوں، مدرسوں اور کلیساؤں میں عقل عیار کی نمائش ہوس کی خوں ریزیوں پر پردے ڈالتی ہے۔ یہ وادی ایمن شایان تجلی نہیں کہ عیش فراواں کے باوجود اس کے مکینوں کے دل سینہ بے نور میں محروم تسلی ہیں۔


مختصر یہ کہ اقبال کبھی کھلے بندو ں اور کبھی ڈھکے چھپے لفظوں میں جس تمدن کو اپنی تنقید کا ہدف بناتے ہیں، بادی النظر میں اس کا کوئی بھی گوشہ منور دکھائی نہیں دیتا۔ گویا کہ یہ تمدن اس سیاہ آندھی کی مثال ہے جس کی حیات مختصر سہی لیکن جس نے روشنی کے تمام جزیروں کو نگاہ سے اوجھل کر دیا ہے۔ صنعتی کمالات کا ترتیب دیا ہوا منظرنامہ اول تا آخر تاریک ہے اور تاریخ و تہذیب کے سفر میں اجالے کی ایک بھی لکیر مہیا کرنے سے قاصر ہے، لیکن متذکرہ اشاروں سے قطع نظر، اگر اقبال کے بعض دوسرے ارشادات پر نظر ڈالی جائے تو ایک یکسر بدلا ہوا رخ سامنے آتاہے۔ مثال کے طور پر اپنے ایک ابتدائی مضمون (مطبوعہ ’’مخزن‘‘ ماہ اکتوبر ۱۹۰۴ء) میں اقبال قومی زندگی کا تجزیہ کرتے ہوئے سائنسی فتوحات کی مدح سرائی بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ،


’’نظام قدرت کے وہ تمام قویٰ جن کے ناقابل تشریح عمل سے مرعوب ہوکر قدیم قومیں انہیں ربوبیت کے لبا س سے مزین کرکے ان کے لئے عظیم الشان معابد تعمیر کیا کرتی تھیں، موجودہ علوم کی وساطت سے انسان کے دست بستہ غلام ہیں اور یہ ظلوم و جہول اس عظیم الشان امانت کا بار اٹھائے، جس کے اٹھانے سے پہاڑوں نے بھی انکار کر دیا تھا، اپنے اشرف المخلوقات ہونے پر بجا ناز کر رہا ہے۔ اس کی مستفسرانہ نگاہیں قدرت کے سر بستہ رازوں کو کھول رہی ہیں اور اس کا دماغ ان ہی علمی فتوحات کے سہارے پہاڑوں، سمندروں، دریاؤں حتی کہ چاند سورج اور ستاروں پر بھی حکومت کر رہا ہے۔ یہ ہے وہ تغیر جو زمانہ حال کو زمانہ ماضی سے ممیز کرتا ہے اور جس کی حقیقت اس امر کی متقاضی ہے کہ تمام قومیں جدید روحانی اور جسمانی ضروریات کے پیدا ہو جانے کی وجہ سے انہیں اپنی زندگی کے لئے نئے سامان پہنچائیں۔‘‘


اقبال اس مضمون میں یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ’’نوع انسان کی موجودہ ترقی۔۔۔ کوئی سستے داموں کی چیز نہیں ہے اور اس کی خاطر سیکڑوں قوموں نے زبردست قربانیاں دی ہیں۔ یہ ترقی جو ایک مسلسل جہد کا ثمر ہے، نئے انسان کے روحانی اور مادی تقاضوں کے سبب وجود میں آئی ہے۔‘‘ پس اقبال ان معاشروں کو جن کے ہاتھ میں اس ترقی ک باگ ڈور ہے پسماندہ قوموں کا آئیڈیل بھی کہتے ہیں۔


’’حال کی قوموں کی طرف نظر دوڑاؤ تو معلوم ہوگا کہ امریکہ اور آسٹریلیا کی اصلی قومیں ایک اعلیٰ ترتمدن و تہذیب کے سیل رواں کے آگے قریبا ًقریباً نیست و نابود ہو گئی ہیں اور ممالک ایشیا میں چینی، ایرانی اور وسط ایشیا کی قومیں اس قانون کے عمل سے روزبہ روز متاثر ہو رہی ہیں۔ حال کی قوموں میں سے دیگر مغربی اقوام کے علاوہ ایشیا میں جاپانی اور فرنگستانی میں اہل اطالیہ دو قومیں ایسی ہیں جنہوں نے موجودہ تغیر کے مفہوم کو سمجھ کر اپنے تمدنی، اخلاقی اور سیاسی حالات کو اس کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘


اقبال نے اس مضمون میں جاپانیوں کونہ صرف یہ کہ صنعتی ترقی کی بنیاد پر ایشیا کی تمام قوموں میں سب سے ممتاز حیثیت دی ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ ’’اس قوم نے جو مذہبی لحاظ سے ہندوستان کی شاگرد تھی، دنیوی اعتبار سے ممالک مغرب کی تقلید کرکے ترقی کے وہ جوہر دکھائے کہ آج دنیا کی سب سے مہذب اقوام میں شمار ہوتی ہے۔‘‘ اور چونکہ ایشیا کی قوموں میں جاپان نے رموز حیات کو سب سے زیادہ سمجھا ہے، اس واسطے یہ ملک دنیوی اعتبار سے ہمارے لئے سب سے اچھا نمونہ ہے۔‘‘ ہندوستان کے سلسلے میں وہ یہ سوچتے ہیں کہ ’’جب تک یہ ملک صنعتی نہ ہوگا اور اس کے باشندے جاپانیوں کی طرح اپنے پاؤں پرنہ کھڑے ہوں گے اس وقت تک جسمانی اور اخلاقی لحاظ سے ضعیف و ناتواں رہیں گے۔‘‘


ایشیا کی تجارتی عظمت کا خواب اقبال کے لئے اس کی اخلاقی عظمت کے خواب سے مماثل تھا۔ یورپ جاتے ہوئے بمبئی میں ایک ہوٹل کے دوران قیام اقبال کی ملاقات ایک یونانی سے ہوئی جو چین سے آ رہا تھا اور پیشے کے لحاظ سے سوداگر تھا۔ اقبال کے ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ ’’چینی اب ہماری چیز نہیں خریدتے۔‘‘ اقبال نے اپنے ایک خط (بہ نام مولوی انشاء اللہ خاں مورخہ ۱۲ ستمبر ۱۹۰۵ء) میں اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ،


’’ہندیوں سے تویہ افیمی ہی عقل مند نکلے کہ اپنے ملک کی صنعت کا خیال رکھتے ہیں۔ شاباش افیمیو شاباش۔ نیند سے بیدار ہو جاؤ۔ ابھی تم آنکھیں مل رہے ہو کہ اس سے دیگر قوموں کو اپنی اپنی فکر پڑ گئی۔ ہاں ہم ہندوستانیوں سے یہ توقع نہ رکھو کہ ایشیا کی تجارتی عظمت از سر نو قائم کرنے میں تمہاری مدد کر سکیں گے۔‘‘


کسی قوم کی تجارتی عظمت اور اقتصادی آزادی کا قیام اقبال کے نزدیک اس کی انفرادیت، عزت اور قومی وقار کی سب سے بڑی ضمانت تھا۔ سرمایہ دارانہ استحصال سے نجات بلکہ اس جبر کے خاتمے کی امید بھی اسی حقیقت میں مضمر تھی۔ دنیا کی مہذب اقوام میں جاپانیوں کے امتیاز کا ذکر کرتے ہوئے اقبال نے یہ معنی خیز جملہ بھی لکھا ہے کہ ’’اس امتیاز کی وجہ یہ نہیں کہ جاپانیوں میں بڑے بڑے فلسفی یا شاعر یا ادیب پیدا ہوئے ہیں بلکہ جاپانی عظمت کا تمام دارومدار جاپانی صنعت پرہے۔‘‘ کسی قوم کی قوت کے اندازے کے لئے اقبا ل اس کے کارخانوں کو میزان بناتے ہیں اور یہ تک کہتے ہیں کہ ’’بڑھئی کے ہاتھ جو محنت اور مشقت کے سبب کھردرے ہوئے ہوں، ان نرم نرم ہاتھوں کی بہ نسبت بدرجہا خوبصورت اور مفید ہیں جنہوں نے قلم کے سوا کسی اور چیز کا بوجھ کبھی محسوس نہیں کیا۔‘‘


ذہنی سطح پر اس ترقی کی راہ ہموا رکرنے کے لئے اقبال فقہا کے استدلال حتی کہ شریعت اسلامی کو بھی ایک نظرثانی کا محتاج قرار دیتے ہیں اور اس ضمن میں حقو ق نسواں اور تعدد ازدواج (جسے مروجہ صورت میں وہ زنا کا شرعی بہانہ کہتے ہیں) کے سلسلے میں ایک ایسے انقلاب آفریں موقف کا اظہار کرتے ہیں جس کی بنیادیں ان کی قوم کے عام رویوں سے کوئی علاقہ نہیں رکھتیں اور ایک ایسے حقیقت پسندانہ شعور کا پتا دیتی ہیں جس کی تشکیل ان کے عہد کے تمدنی حقائق کے ہاتھوں ہوئی ہے۔


اپنے ایک اور مضمون (ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر۔ مترجم مولوی ظفر علی خاں) میں صنعتی تعلیم کو اقبال ایک تہذیبی اور اخلاقی نصب العین تک رسائی کا ذریعہ کہتے ہیں۔ ایک عام غلط فہمی اس سلسلے میں یہ ہے کہ اقبال کے تہذیبی تصورات، ان کے ذہنی اور شعوری ارتقا کے ساتھ بہ تدریج تبدیل ہوتے گئے۔ چنانچہ بعض اہل نظر اس غلط فہمی کا شکارہیں کہ اقبال نے اپنے کئی جذباتی مسئلے متضاد ایقانات کی مدد سے حل کئے اور یہ بھی کہ اپنی زندگی کے آخری ادوار میں فکر کے جن منطقوں سے اقبال چمٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ان کی تردید اقبال ہی کے ابتدائی افکار سے ہوتی ہے۔ چنانچہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے شنا س نامے بھی بدلتے گئے۔


جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جا چکا ہے، ’’بانگ درا‘‘ میں صنعتی تمدن کے مسائل کا عکس بہت دھندلا ہے اوربس اکادکا اشعار میں بار پا سکا ہے۔ جبکہ بعد کے مجموعوں میں فرنگی مدنیت یا صنعتی فتوحات پر طنز و تعریض میں شدت بھی ہے اور تواتر بھی۔ اقبال بعض مقامات پر جس مظہر کو ترقی کا نام دیتے ہیں، اس کو دوسرے موقعوں پر معکوس بھی کہتے ہیں۔ یہ بھی صحیح ہے کہ خالص ذہنی اور جذباتی سطح پر اقبال کی بعد کی شاعری اپنے عہد کے حصاروں کو توڑتی ہوئی انسانی تجربے کے ان اسرار اور ارتعاشات کی خبر لاتی ہے جو صرف مادی یا ارضی نہیں ہوں۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ فی نفسہ ترقی یا تعلیم یا ایک ہمہ جہت کامرانی کے حصول کی خاطر طرز عمل یا رویے کا وہ بُعد جوایک صنعت آفریدہ سائنسی شعور سے منسلک ہے، ان سب کی بابت اقبال کا موقف کم وبیش ہمیشہ ایک سا رہا اور تخیل کے جہانوں کی سیر سے وہ جب بھی اپنی زمین پر واپس آئے، ان کا زاویہ نظر صنعتی معاشرے کے ایک عام حقیقت پسند انسان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں رہا۔چنانچہ علی گڑھ میں جامعہ کے قیام (۲۹ اکتوبر ۱۹۲۰ء) کے بعد جب گاندھی جی نے اقبال کواس قومی ادارے کی سربراہی قبول کرنے کی دعوت دی تو جواباً اقبال نے لکھا کہ، ’’ہم جن حالات سے دوچار ہیں، ان میں سیاسی آزادی سے قبل معاشی آزادی ضروری ہے اور اقتصادی لحاظ سے ہندوستانی مسلمان دوسرے فرقوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں۔ بنیادی طور پر انہیں ادب اور فلسفے کی نہیں، بلکہ ٹکنیکل تعلیم کی ضرورت ہے جس کی بنا پر انہیں معاشی آزادی حاصل ہوگی۔ اس لئے فی الحال انہیں اپنی صلاحیتیں اور توجہ اسی موخرالذکر طریقہ تعلیم پر مرکوز کرنی چاہئے۔ جن معزز حضرات نے علی گڑھ میں نئی یونیورسٹی قائم کی ہے انہیں چاہئے کہ اس نئے ادارے میں خصوصی طور پر طبعی علوم کے ٹکنیکل پہلو پر زور دیں اور اسی کے ساتھ ساتھ حسب ضرورت مذہبی تعلیم کا بھی انتظام کریں۔‘‘ (خط مورخہ ۲۹ نومبر ۱۹۲۰ء)


تو کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ صنعتی ترقی کے ساتھ رونما ہونے والے مسائل کے باب میں اقبال عمر بھر ایک تضاد کا شکار رہے؟ یہاں آگے بڑھنے سے پہلے یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ کسی ا رتقا پذیر ذہن کے لئے ہر سچائی مطلق نہیں ہوتی۔ نہ تمام سچائیوں میں اصلاً زمین وآسمان کا وہ فرق ہوتاہے جو عام لوگوں کو نظر آتا ہے۔ اقبال ایک تخلیقی ذہن رکھتے تھے، سوکسی واقعے کی حقیقت کو پہچاننے کے عمل میں یا بہ ظاہر ایک دوسرے سے مختلف اور دور افتادہ حقیقتوں کے ادراک میں ان کے رویے کا عام انسانوں سے کچھ الگ ہونا فطری تھا۔ ہمارے عہد کی بیش تر سچائیوں کی طرح صنعتی تمدن اور اس کی ترقی کی حقیقت بھی باہم متصادم عناصر کی آمیزش سے وجود میں آئی ہے۔ یوں بھی افکار کا تضاد کبھی کبھی اتنا بڑا عیب نہیں ہوتا جتنا کہ ہم سمجھتے ہیں۔ وہ پرپیچ اور خود کو کاٹتی ہوئی سچائی جو ایک ہی انسانی تجربے یا زندگی کے ایک ہی دائرے کی تہ میں مخفی ہوتی ہے، صنعتی تمدن کے تئیں اقبال کے بنیادی رویے کی اساس بھی ہے۔


یہاں اس واقعے پر دھیان دینابھی ضروری ہے کہ اقبال مغربی تمدن کے تمام ’’عمدہ اصولوں‘‘ میں اسی اسلامی روح کو جلوہ گر دیکھتے ہیں جوان کی بصیرت کا نقطہ ارتکاز یا دین و دنیا کے تمام معاملات میں ان کے حواس کا عناں گیر ہے۔ کئی جگہوں پر اقبال نے اپنے اس یقین کا اعادہ کیا ہے کہ ’’وہ تمام اصولوں، جن پر علوم جدید کی بنیاد ہے مسلمانوں کے فیض کا نتیجہ ہیں۔‘‘ ترقی یافتہ قوموں نے مظاہر اور آثار کائنات کو مسخر ا س لئے کیا کہ انہوں نے اشیا کی حقیقت کا سراغ لگا لیا تھا۔ اقبال اسی جستجو کو روح اسلامی کی غایت سمجھتے ہیں کہ اس جستجو کو ہمیشہ فعال اور متحرک اور سرگرم رکھنے کی ضامن یہی روح ہے۔ ہر تصور کی طرح صنعتی ترقی کا تصور بھی مشروط ہے۔ اس طرح اقبال نے ایک طرف تو اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی جو کہ منظم اخلاقی ضابطے سے دوری کے سبب ترقی یافتہ اقوام کا مقصد بنا۔ دوسری طرف وہ توازن سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے معاشر ے کو بحالی کا ایک نسخہ بھی بتاتے ہیں۔


مذہب اقبال کے یہاں ایک ایسی ڈھال بن گیا ہے جو مادی ترقی کے سیل بے پناہ کی زد میں مدافعت کی ایک صورت بھی مہیا کرتا ہے اور دنیوی معاملات میں پیچھے رہ جانے والی قوموں (بالخصوص مسلمانوں) کے لئے کھوئی ہوئی توانائی کی بازیافت اور خرد افروزی کا مؤثر ترین وسیلہ بھی ہے اور اگر تقدیر پرستی اور تن آسانی ہی کو شعار بنا لیا جائے تو محرومیوں کی تلافی بھی اس سے ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں صنعتی معاشرے کی وہ مذمت و تنقید جو اقبال کی شاعری میں جابجا ملتی ہے اور بہ ظاہر جس کی تردید افکار کے نسبتاً زیادہ منظم اور مدلل پیرائے یعنی ان کی نثری تحریروں میں ہوئی ہے، دونوں ایک دو سرے کا تتمہ بن جاتے ہیں اور دونوں کی یک جائی سے حقیقت کے ایک پیچیدہ مظہر کی نمود ہوتی ہے۔


ڈاکٹر عابد حسین نے اپنے ایک مضمون (عقل و عشق اقبال کی شاعری میں، مطبوعہ اقبال نمبر رسالہ ’’جوہر‘‘ ۱۹۳۸ء) میں خاتمہ کلام کے طور پر یہ بلیغ اشارہ کیا تھاکہ اقبال کے یہاں عقل اور عشق میں ارتقا کے درجات کا فرق ہے۔ ان میں مابہ الامتیاز آرزوئے معرفت کی وہ خاص کیفیت ہے جسے شاعر نے سوز کہا ہے۔ اگر عقل میں یہ سوز پیدا ہو جائے تو وہ عشق بن جاتی ہے۔ دراصل یہی تمنائے ناتمام صنعتی تمدن کے سلسلے میں اقبال کے مرکزی تصور کی بنیاد یا اس تمدن کی تنقید کا کلیدی رمز اور صنعتی ترقی کے ایک برگزیدہ معیار کے متلاشیوں کو اقبال کا پیغام ہے۔


اس پیغام کو سرسری نظر سے دیکھنے والوں کا اعتراض یہ ہے کہ اقبال رجعت پسند ہیں کہ تغیر کے رمز سے بے خبر رہے، احیا پرست ہیں کہ کھوئے ہوئے جہانوں اور زمانوں کی جستجو کرتے ہیں، عینیت پسند ہیں کہ مادی اور طبیعی صداقتوں سے انحراف کر جاتے ہیں، مثال پرست ہیں کہ ایسی صورت حال کا خواب دیکھتے ہیں جو محض قیاسی ہے، تضادات میں گرفتار ہیں کہ دنیوی ترقی اور صنعتی ترقی کے فروغ کی حمایت بھی کرتے ہیں، (عام طور پر نثری تحریروں میں) اور اس کے مخالف بھی ہیں، (شاعری میں) ا س نوع کی تنقید ایک پیچیدہ مسئلے کو سیاہ وسفید کے خانوں میں بٹی ہوئی سیدھی سادی بات سمجھنے کے باعث سامنے آئی تھی۔ پس لکڑی کی تلوار ثابت ہوئی۔ تصدیق کے لئے ترقی پسند تنقید کا ماضی اور حال سامنے ہے۔


یہاں مقصد اقبال کی مدافعت نہیں ہے۔ ان کی شاعری بہ حیثیت شاعری آپ اپنا دفاع کرنے کی قوت رکھتی ہے اور اس تمام سازوسامان سے لیس ہے جس کی دریافت نقطہ نظر، اعتقاد، رویے یا زمان و مکان کے کسی معینہ دائرے میں تابہ گردن غرق مسئلوں کی حد سے آگے، تخلیقی استعداد، لسانی مہارت اور فنی کمال کی زمینوں میں ہوتی ہے۔ انہوں نے ایک ملت کی پوری تاریخ اور ایک آتش فشاں عہد کے کم وبیش تمام مناسبات کو اپنے تناظر کا حصہ بنایا، یہ ان کے عا م مزاج، مطالعے، آگہی اور معاشرے کے ہر مسئلے سے دلچسپی کا جبر تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ اپنی تخلیقی جست سے زمان کی معینہ سرحدوں کو عبور کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ یہ ان کی فنی مہارت اور شخصیت کی زرخیزی کا ثمرہ تھا۔


اقبال نے اپنا ذہنی سفر کچھ ایسے سوالوں کی رفاقت میں طے کیا جن میں شدت اور پیچیدگی بیسویں صدی کے ساتھ پیدا ہوئی لیکن جو اس سے آگے بھی انسان کا مسئلہ بنے رہے۔ یہ مادی کائنات جوہری توانائیوں کے کسی اتفاقیہ اجتماع یا واحد المرکز تنظیم کا نتیجہ ہے یا کسی ارفع تر، وسیع تر اور پیچیدہ تر منصوبے کا اشاریہ؟ یہ طبیعی دنیا حادث ہے یا کسی جانی بوجھی سعی تعمیر کا حاصل؟ عالم بشریت کی موجودہ صورت حال تاریخ کے فیصلوں یا ا س کی سرگرمی کانقطہ عروج اور اس کی سب سے بڑی دریافت ہے یا اس کی تشکیل میں کام آنے والی توانائیوں کی تھکن کے ساتھ آئندہ فیصلوں کی کسی ساعت بے نام میں اسے کھو جانا ہے؟ ہم اپنی زندگیوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے پر قادرہیں یا ہمارے منصوبوں کا تعین محض ہمارے طبیعی انعکاسات اور ایک جنون آثار ہوش مندی سے مربوط تشویقات کا مرہون منت ہے؟ انسانی ذہن ایک خودمختار قوت کا محور و مخزن ہے یا ہمارے عام جسمانی عمل اور ردعمل کے جبر کی زائیدہ تصویروں کا آئینہ خانہ؟


اقبال ان چکرا دینے والے سوالوں کی پیچ درپیچ گرفت سے نہ تو گھبراتے ہیں، نہ ان کی یورش سے خوف زدہ ہوتے ہیں۔ جس کے نزدیک دنیا صرف وہ ہے جو جسمانی آنکھ سے دکھائی دیتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ انسانی تجربات صرف اسی دنیا کے معاملات کا حصہ ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کچھ جوروح کے آئینے میں منعکس ہوتا ہے اتنا ہی بے ثبات اور بےحقیقت ہے جتنا کہ یہ آئینہ اور سچائی وہی ہے جو حقیقت کے صرف خارجی منطقوں سے سروکار رکھتی ہو۔


لیکن ایک ذرا دیر کے لئے اقبال سے صرف نظر کرکے اس عہد کے تہذیبی رویوں کی ایک روزبہ روز نمایاں ہوتی ہوئی جہت پر نگاہ ڈالئے تو اندازہ ہوگا کہ صنعتی معاشرے کے اسلوب کی وہ بنیادیں جو مجسم تھیں، معروضی تھیں اور متعین تھیں، رفتہ رفتہ دھندلی اور کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔ اسی لئے طبعیات کے ماہرین طبیعی دنیا کے معموں کو حل کرنے کی جستجو میں اب ان دنیاؤں کے سفری ہوتے ہیں جو طبعیات کی حدود سے آگے ہیں اور اس گماں آثار یقین تک جا پہنچتے ہیں کہ اس دنیا سے باہر بھی ایک دنیا ہے۔ زندگی اور وجود کے ارتقا کی نوعیت صرف مادی نہیں تخلیقی بھی ہے۔ ایک حیاتیاتی عضویت کے ڈھب اور ڈھنگ اور رویے محض مشینی نہیں ہوتے، سو انہیں مشینی اور غیر انسانی اصطلاحات میں محصور کرنا بھی ممکن نہیں۔ زندگی کچھ ایسے امکانات کی تلاش سے عبارت ہے جو مسلسل انسان پر روشن ہوتے جاتے ہیں اور مادی ترقی کی کوئی بھی حد ان کی آخری حد نہیں ہے۔


آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ ہمارے تجربے کی ارفع ترین جہت وہ ہے جو اسرار سے معمور ہو۔ یہی اسرار سچے فن اور سچی سائنس دونوں کا بنیادی جذبہ ہے اور مغرب کے ایک صوفی منش ادیب (لارنس) نے یہ پیشین گوئی کی تھی کہ اب انسان کے اس دور کا آغاز ہوگا جس میں مشرق کو مغرب کی قیادت کا بار اٹھانا ہوگا۔ یہاں مغرب و مشرق دو جغرافیائی وحدتیں نہیں بلکہ زندگی، اشیا اور مظاہر سے بھری ہوئی کائنات کی جانب سے دو مختلف رویوں کے نشانات ہیں۔ اقبال نے بھی اس حقیقت کو اسی سطح پر برتنے اور پرکھنے کی جستجو کی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی صنعتی دوڑ پر ان کے اعتراضات کا سبب یہ ہے کہ ان کی دوڑ کسی بلند تر اخلاقی اور روحانی غایت سے عاری ہوکر اپنے حقیقی جوہر سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔ پس ماندہ ملکوں کو صنعتی تعلیم اور ترقی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کا مشورہ وہ صرف اس لئے دیتے ہیں کہ ا س طرح زوال آزمودہ معاشرے اقتصادی آزادی کی حصولیابی کے ساتھ روحانی اور اخلاقی آزادی کے گم ہوتے ہوئے نشانات کی بازیافت بھی کر سکیں گے۔


پھر جیسا کہ خود اقبال نے بار بار کہا ہے، جدید سائنس یا اس سے اپنے وجود کی توانائیاں کشید کرنے والی ٹکنالوجی فی نفسہ مجرم نہیں ہے۔ سائنس اپنے طور پر غیر جانب دار ہے اور انسان کی ذہنی سرگرمی کا ایک مؤثر اظہار۔ اسی طرح ٹکنالوجی جہد تعمیر کا ایک زندہ و تابندہ نقش ہے۔ خرابی کی صورتیں ان میں اس رویے کی خرابی سے پیدا ہوئی ہیں جو تحرک اور تفاعل کے کسی بڑے نصب العین کا حامل نہیں رہ گیا اور مادی ترقی سیاست اقوام کے ہاتھوں ایک ایسا مجنونانہ مشغلہ بن گئی ہے جو اپنے ثبات کی خاطر انسانوں کے ایک وسیع تر حلقے کے اندوہ واذیت سے آنکھیں چرانے پر مجبور ہے۔ دل کے لئے موت مشین نہیں، مشینوں کی حکومت ہے۔ اقتدار کی ہوس بے جان آلات کو احساس مروت کی پامالی کا وسیلہ بناتی ہے۔


پس یہ بحران جو بہ ظاہر آسودہ حال معاشروں کو بھی ایک غم آلود طربیے کی تصویر بناتا ہے، اپنے حل کے لئے اقتصادی ترقی کے علاوہ انسانی ترقی کا بھی طالب ہے۔ ترقی کی اس مطلوبہ لہر کے بغیر انسان اور مشین میں بیگانگی کی دوری قائم رہے گی اور مارکس کے لفظوں میں صنعتی معاشرے کے انسان کی سرگرمی، اس سرگرمی کے ماحصل اور خود اس انسان کے مابین جواس تمام سرگرمی کا سرچشمہ ہے، کوئی تعلق پیدا نہ ہو سکےگا۔ نتیجتاً صنعتی پیداوار کی کوششوں میں مصروف افراد اور قومیں ان کوششوں میں اپنی ذات اور وجود کا اظہار کرنے کے بجائے اس کا اخفا کرتی رہیں گی۔ یہ عمل بہ قول شخصے معروض سے موضوع کی لاتعلقی کے مترادف ہوگا، پس اس کے نتائج بھی ناقص اور ادھورے رہیں گے۔


زمانہ حاضر کے انسان کی عکاسی میں اقبال نے حقیقت کے اس رخ سے نقاب اٹھائی ہے کہ صنعتی تمدن کی برکتوں سے مالامال انسان نے ستاروں کی گزرگاہیں توڈھونڈ نکالیں لیکن اپنے افکار کی دنیا میں سفر کی صلاحیت بھی اس میں نہ رہی۔ اس نے سورج کی شعاعوں کو اسیر کر لیا مگر زندگی کی شب تاریک اس کوششوں سے سحر نہ ہو سکی۔ وہ ظاہر میں آزاد ہے، باطن میں گرفتار۔ اس کی جمہوریت دیواستبداد کی قبا ہے اور تجارت جوا۔ اسی لئے یہ تہذیب جواں مرگی کے المیے سے دوچار ہے اورجسے ہم تہذیب سمجھتے ہیں، بہ قول اقبال وہ تہذیب کا کفن ہے کہ اس کی بساط پر انسان کا اپنے عمل سے، ان اشیا سے جنہیں وہ روزمرہ زندگی میں ایک عادت کے تحت استعمال کرتا ہے، اپنے معاشرے سے، بلکہ خود اپنے آپ سے ربط ٹوٹ گیا ہے۔


اس کی ساری ذہانت و ذکاوت اقبال کے نزدیک چراغ رہ گزر کی مثال ہے جسے درون خانہ (باطن) ہنگاموں کی خبر نہیں۔ خلیفۃ اللہ فی الارض ہونے کا حوصلہ تو دور رہا، آپ اپنے عمل کا محاسبہ کرنے سے بھی قاصر ہے اور ایسی قوتوں کا غلام جو اس کی ذات سے باہر ہیں۔ اقبال عصر حاضر کے انسان کو جس منصب پر متمکن دیکھنا چاہتے تھے ا س کی پہلی شرط یہ تھی کہ انسان اپنی تاریخ کا بے ارادہ و اختیار کردار بن کر رہ نہ جائے۔ اس کا خالق اور مؤلف بھی ہو۔ ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب اس کا عمل اس کے اپنے اختیار اور منشا کا تابع ہو۔ اس کا وجود، وجودکی حقیقی عظمت کے مفہوم سے عاری نہ ہو، اس کے مشاغل فطری زندگی کے جوہر سے خالی نہ ہوں۔ اس کی سرگرمی، اس کی توانائی اور اس کے امکانات کا اظہار ہو اور آفاق کے ساتھ ساتھ وہ اپنی ذات سے بھی ہم آہنگ ہو جائے۔


جس سمفنی کی اقبال کو تلاش تھی وہ ایک بے روح اور بے ہنگم شور میں گم ہو چکی ہے۔ اسی عذاب کو اقبال دانش حاضر کے عذاب سے تعبیر کرتے ہیں کہ یہ اس سماجی ڈھانچے سے بہ راہ راست مربوط ہے جسے صنعتی اقدار نے پروان چڑھایا ہے اور ایک ترقی معکوس نے جسے غذابہم پہنچائی ہے۔ اپنے ہی پیدا کردہ المیے کے بھاری بوجھ کو وہ ایک روحانی اور اخلاقی نصب العین کی مدد سے اٹھانے پر دوبارہ قادر ہو سکتا ہے۔ اقبال اس بات کو جدید سائنس کی عائد کی ہوئی اخلاق ذمہ داری کہتے ہیں اور سائنس کو مذہب سے، ٹکنالوجی کو ایک اخلاقی ضابطے سے اور معروض کوموضوع سے قریب لانے، بلکہ انہیں ایک دوسرے کا حصہ بنانے پر زور دیتے ہیں۔ تو کیا واقعی وہ خرد دشمن اور فرنگی مدنیت کے ایک سرے سے مخالف تھے؟


اب رہا اس انسان کا حشر جس کی ’انا‘ کی پرورش میں کوئی معینہ اخلاقی قدر یا عقیدہ بھی اپنی بے اثر ی یا اس کی بد توفیقی کے سبب حصہ نہ لے سکا اور جومذہب کی ڈھال کے بغیر اپنے دفاع اور صنعتی تمدن کے نگارخانے میں اپنی پارہ پارہ وحدت کے اجتماع کی جستجو کرنا چاہتا ہے، تو یہ مسئلہ اقبال سے آگے کاہے اور اس کی روداد ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ اقبال کی شاعری، بہ طور شاعری، ان کی زمین اور زمانے کی سطح سے ارتفاع میں یا وقت اور مقام کے حصار کو توڑنے میں جس کامیابی سے ہم کنار نظر آتی ہے، وہ ان کی فکر کے بعض پہلوؤں کا مقدر نہ بن سکی۔ چنانچہ تاریخ و تہذیب کا سفر ان کی فکر کے دائروں سے آگے بھی جاری ہے۔