اقبال اور نئی مشرقیت
اقبالؔ نے اپنے متعلق کہا ہے،
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
میں ابلۂ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
ابلۂ مسجد اس پرانی مشرقیت کی علامت ہے جو ایک جامد مذہبی تصور رکھتی ہے اور صرف عقائد و عبادات سے سروکار رکھتی ہے۔ معاملات کی اہمیت کو نظر انداز کرتی ہے اور عقائد اور عبادات میں روح پر نہیں لفظ پر اصرار کرتی ہے۔ تہذیب کا فرزند اس مزاج کی نمائندگی کرتا ہے جو مغرب، اس کے افکار و اقدار، اس کی تہذیب، اس کے نظام حیات اور اس کے اداروں کو نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ اس کی تقلید میں ہی اپنی نجات سمجھتا ہے۔
ایک قدامت کا علمبردار ہے دوسرا جدت کا۔ ایک کے لئے ماضی سب کچھ ہے اور دوسرے کے لئے افسانہ و افسوں۔ ایک کے لئے اس کی تاریخ، تہذیب، قانون، سماجی نظام، خاندان، قبیلہ، مذہبی برادری قابل تقلید ہے تو دوسرے کے لئے یہ دفتر بے معنی ہے اورانسان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ۔ ایک کے لئے پرانی لکیر زندگی کی سب سے اعلیٰ قدر ہے، دوسرے کے لئے زمانے کے دھارے پر چلنا سب سے بڑی مسرت۔ اقبال نے جہاں مغربیت پر طنز کی ہے وہاں یہ طنز در اصل تہذیب کے فرزندوں پر ہے لیکن انہوں نے ابلۂ مسجد کے علاوہ صوفی، ملا، فقیہہ حرم، پیر حرم کو بھی نہیں بخشا ہے۔ مشرقیت اور مغربیت کے خلاف ان کے یہ اعتراضات ملحوظ رہیں۔
ضمیر مغرب ہے تاجرانہ، ضمیر مشرق ہے راہبانہ
وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ یہاں بدلتا نہیں زمانہ
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستیں
طبع مشرق کے لئے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ قوالی سے کچھ کم تر نہیں علم کلام
اس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک
ہے جس کے تصور میں فقط بزم شبانہ
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ
یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید
وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہوری
نہ مشرق اس سے بری ہے نہ مغرب اس سے بری
جہاں میں عام ہے قلب و نظر کی رنجوری
پھرا میں مشرق و مغرب کے لالہ زاروں میں
کسی چمن میں گریبان لالہ چاک نہیں
مشرق کے نیستاں میں ہے محتاج نفس نے
شاعر ترے سینے میں نفس ہے کہ نہیں ہے
خودی کی موت سے مشرق کی سرزمینوں میں
ہوا نہ کوئی خدائی کا رازداں پیدا
مردہ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق
عقل بے ربطی افکار سے مشرق میں غلام
خودی کی موت سے مغرب کا اندروں بے نور
خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذام
نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور
زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر
یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لب گور
مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فلزات
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق صہبا ہے
جہان مغرب کے بت کدوں میں کلیساؤں میں مدرسوں میں
ہوس کی خونریزیاں چھپاتی ہے عقل عیار کی نمائش
نہ ایشیا میں نہ یورپ میں سوز و ساز حیات
خودی کی موت ہے یہ اور وہ ضمیر کی موت
وہ حکمت ناز تھا جس پر خردمندان مغرب کو
ہوس کے پنجۂ خونیں میں تیغ کارزاری ہے
اک شور ہے مغرب میں اجالا نہیں ممکن
افرنگ مشینوں کے دھویں سے ہے سیہ پوش
مشرق نہیں گو لذت نظارہ سے محروم
لیکن صفت عالم لاہوت ہے خاموش
غرض یہ بات واضح ہے کہ اقبال مثلاً اکبر کی طرح مشرقیت کے علمبردار نہیں ہیں اور مشرق کے جمود، مریض روحانیت، مزاج خانقاہی، تقدیر پرستی، بے عملی پر برابر وار کرتے ہیں۔ وہ مغربی علم وحکمت کی قدر کرتے ہیں، ارضیت کے علمبردار ہیں اور اگر زمین کے ہنگامے سہل نہ ہوں تو مستی اندیشہ ہائے افلاکی کو برا سمجھتے ہیں۔ وہ تصوف کے معنی اخلاص فی العمل کے لیتے ہیں اور ترک آب و گل سے مہجوری نہیں، تسخیر خاکی و نوری سمجھتے ہیں وہ بقول اینی میری شمل جرمنی کے Vitalist اسکول سے متاثر ہیں اوران کی خودی کے تصور میں فشتے کا پرتو صاف جھلکتا ہے۔
انہوں نے فشتے کے فلسفے سے اپنی خودی کے نظریے میں مدد لی ہے اور برگساں کے وقت کے تصور سے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ مشہور فرانسیسی مستشرق مے سی نوں نے حلاج پر جو تحقیق کی تھی اس کی وجہ سے حلاج کے متعلق ان کا ابتدائی نظریہ بدلا اور جاوید نامے میں حلاج کی شان اور ہی ہے۔ ان کے ابلیس کے تصور میں مغربی شعرا خصوصاً گوئٹے اور ملٹن کا عکس واضح ہے۔ مشہور کتاب Romantic Agony میں ابلیس پر خاصی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ہیگل کے فلسفے کو انہوں نے اپنی ڈائری میں رزمیہ شعر منشور کہا ہے۔ نتشے کا فلسفہ ان کے نزدیک کم سے کم اخلاقیات کی دنیا میں یورپی کردار کے عقلی جواز کی ایک کوشش ہے۔ گوئٹے کے فاؤسٹ کو وہ انیسویں صدی کے پورے تجربے سے ہی نہیں بلکہ نسل انسانی کے تمام تر تجربے سے معمور سمجھتے ہیں۔ اور شیکسپیئر اور گوئٹے کے متعلق ان کا ارشاد کہ ’’حقیقت پسند انگریز فرد پر اور مثالیت پسند المانوی کائنات پر فکر نو کرتا ہے۔ اس کا فاوسٹ بظاہر صرف ایک فرد ہے، حقیقت میں اس کی شخصیت بنی نوع انسان کا مظہر ہے۔‘‘ ان دو عظیم شعرا کے اثرات کی بڑی اچھی مثال ہے اور شیکسپیئر اور گوئٹے کے متعلق اشعار اس حقیقت کو اور روشن کرتے ہیں۔
اقبال نے اسرار خودی میں کہا ہے،
جستجو را محکم از تدبیر کن
انفس و آفاق را تسخیر کن
علم اشیاء اعتبار آدم است
حکمت اشعار حصار آدم است
وہ عقل کے دشمن نہیں، محض عقل پرستی کے، جو آرزو سے محروم ہو، قائل نہیں۔ وہ عقل کو ادب خوردہ دل بنانا چاہتے ہیں۔ ان کے پیر طریقت روم نے کہا تھا، ’’زیر کی بفروش و حیرانی بجز، لیکن ان کا ارشاد یہ ہے،
زیر کی از عشق گردد حق شناس
کار عشق از زیر کی محکم اساس
ادبیات و فنون لطیفہ کے عنوان سے ضرب کلیم میں فرماتے ہیں،
عشق اب پیروی عقل خدا داد کرے
آبرو کوچۂ جاناں میں نہ برباد کرے
کہنہ پیکر کو نئی روح سے آباد کرے
یا کہن روح کو تقلید سے آزاد کرے
مغرب کی عظمت کا راز وہ علم و حکمت کے میدان میں، اس کی ترقی میں دیکھتے ہیں، نہ کہ مغربی تہذیب کے بعض ظاہری پہلو میں،
قوت مغرب نہ از چنگ در باب
نے ز رقص دختران بے حجاب
نے ز سحر ساحران لالہ روست
نے نہ عریاں ساق و نے از قطع موست
محکمی او را نہ لادینی است
نے فروغش از خط لادینی است
قوت افرنگ از علم و فن است
از ہمیں آتش چراغش روشن است
اقبال کے شعر میں یہ اشارے، ان کی نثر میں واضح اور مربوط خیال اور منطقی استدلال کے آئینے بن جاتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ بعض نثری اقتباسات سے اس پہلو کو اور مکمل کیا جائے۔ یوں بھی ان کے شعر اور ان کے فلسفے میں گہرا ربط ہے۔ ان کے اشعار کو ان کے مضامین اور ان کے مضامین کو ان کے اشعار کی مددسے سمجھنا ضروری ہے۔ شعر کی زبان تمثیل کی زبان ہوتی ہے۔ مگر اقبال کے فکری میلان کی وجہ سے شعر کی لطیف چاندنی میں فکر کی روشن لکیر نظر آتی ہے بہرحال ان کے یہ بیانات ہماری پوری توجہ چاہتے ہیں،
(۱) مغربی اقوام اپنی قوت عمل کی وجہ سے تمام اقوام عالم میں ممتاز ہیں اور اس وجہ سے اسرار زندگی کو سمجھنے کے لئے ان کے ادبیات و تخیلات اہل مشرق کے واسطے بہترین رہ نما ہیں۔ (دیباچہ ’’اسرار خودی‘‘ پہلا ایڈیشن)
(۲) انگریزی قوم کی عملی نکتہ رسی کا احسان تمام دنیا کی قوموں پر ہے۔ اس قوم میں حس واقعات اور اقوام عالم کی نسبت زیادہ بہتر اور ترقی یافتہ ہے۔
(۳) تاریخ حاضرہ کا سب سے توجہ طلب مظہر یہ ہے کہ ذہنی اعتبار سے عالم اسلام نہایت تیزی کے ساتھ مغرب کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس تحریک میں بجائے خود کوئی خرابی نہیں کیوں کہ جہاں تک علم و حکمت کا تعلق ہے، مغربی تہذیب در اصل اسلامی تہذیب ہی کے بعض پہلوؤں کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے لیکن اندیشہ یہ ہے کہ اس تہذیب کی ظاہری آب و تاب کہیں اس تحریک میں حارج نہ ہو جائے اور ہم اس کے حقیقی جوہر ضمیر اور باطن تک پہنچنے سے قاصر رہیں (دیباچہ خطبات)
(۴) ہمارا فرض بہرحال یہ ہے کہ فکر انسانی کے نشوونما پر بہ احتیاط نظر رکھیں اور اس باب میں آزادی کے ساتھ نقد و تنقید سے کام لیتے رہیں۔ (دیباچہ خطبات)
(۵) یہ مطالبہ کیا غلط ہے کہ مذہب کے متعلق ہمیں جس قسم کا علم حاصل ہوتا ہے اسے سائنس کی زبان میں سمجھا جائے۔ (دیباچہ خطبات)
(۶) ہم اس تحریک کو جو حریت اور آزادی کے نام پر عالم اسلام میں پھیل رہی ہے، دل سے خیر مقدم کرتے ہیں لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ آزاد خیالی کی یہی تحریک اسلام کا نازک ترین لمحہ بھی ہے۔ اسلام کی جائز حدود سے تجاوز نہ ہونا چاہئے۔ (خطبات)
(۷) چونکہ ذات الٰہیہ فی الحقیقت روحانی اساس ہے زندگی کی، لہٰذا اللہ کی اطاعت فطرت صحیحہ کی اطاعت ہے۔ اسلام کے نزدیک حیات کی یہ روحانی اساس ایک قائم و دائم وجود ہے جسے ہم اختلاف اور تغیر میں جلوہ گر دیکھ سکتے ہیں۔ اب اگر کوئی معاشرہ حقیقت مطلقہ کے اس تصور پر مبنی ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ثبات اور تغیر دونوں خصوصیات کا لحاظ رکھے۔ اس کے پاس کچھ تو اس قسم کے دوامی اصول ہونے چاہئیں جو حیات اجتماعیہ میں نظم و انضباط قائم رکھیں کیونکہ مسلسل تغیر کی اس بدلتی ہوئی دنیا میں ہم اپنا قدم مضبوطی سے جما سکتے ہیں تو دوامی اصول کی ہی بدولت، لیکن دوامی اصولوں کا یہ مطلب تو ہے نہیں کہ اس سے تغیر اور تبدیلی کے ممکنہ امکانات کی نفی ہو جائے کیونکہ تغیر وہ حقیقت ہے جسے قرآن پاک نے اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی آیت قرار دیا ہے۔ اس صورت میں تو ہم اس شے کو جس کی فطرت میں حرکت ہے حرکت سے عاری کر دیں گے۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ گزشتہ پانچ سو سال سے عالم اسلام پر جمود طاری ہے۔ (خطبات)
(۸) میری فارسی نظموں کا مقصود اسلام کی وکالت نہیں بلکہ میری طلب و جستجو تو صرف اس چیز پر مرکوز ہے کہ ایک جدید معاشرتی نظام تلاش کیا جائے۔ (فلسفہ سخت کوشی)
(۹) ہندوستان میں عام طور پر ادبا کو زمانہ حال کے فن تنقید کے اصولوں سے واقفیت نہیں ہے۔ اس واسطے یہ بھی مفید ہوگا کہ آپ انگریزی میں چند مشہور اور مستند تنقیدی کتابیں پڑھیں۔ ان کے طرز بیان اور انداز تنقید سے آگاہی حاصل کریں۔ اگر آپ ان کے اصولو ں اور ان کے اسلوب بیان کو اختیار کر سکیں تو یہ بجائے خود اردو زبان کی بڑی خدمت ہوگی۔ (وجدؔ کے نام خط ۱۹۳۷)
ان اقتباسات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال تغیر، ارتقا، قوت عمل، حس واقعات، علم اشیا، تغیر کائنات، علم و حکمت، آزادانہ نقد و تنقید، علوم کو سائنس کی زبان میں بیان کرنے کی سعی اور ایک جدید معاشرتی نظام کی تلاش کو ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ مذہبی مسائل میں اجتہاد کی ضرورت کو صرف مانتے ہی نہیں، اس کے لئے مضطرب بھی ہیں۔ یہی نہیں وہ جدت طرازی کے اس حد تک قائل ہیں کہ کار نادر ان کے نزدیک گناہ بھی ہو تو ثواب ہے۔ ادب میں وہ مغربی اصول تنقید اور اسالیب بیان سے واقفیت ضروری اور مفید سمجھتے ہیں۔
ان حقائق کی روشنی میں یہ بات غور طلب ہے کہ پھر اقبال کو کچھ حلقوں میں ماضی پرست، مذہب کے نام پر رجعت پسند، طاقت پر زور دینے کی وجہ سے اور نپولین اورمسولینی کی تعریف کرنے کی وجہ سے یا شاہین کی علامت کو برتنے کی وجہ سے نیم فاشسٹ، سائنس کا قائل ہونے کے باوجود، علم کو سراہنے کے باوجود، ظلمت پسند، سماجی مساوات اور عدل کی علمبرداری کے باوجود، مغربی جمہوریتوں پر اعتراض کرنے کی وجہ سے جمہوریت دشمن، سرمایہ داروں کا سخت محالف ہونے اور اشتراکیت کے تجربے سے ہمدردی کے باوجود اس کی مادہ پرستی پر نکتہ چینی کرنے کی وجہ سے سماجی معنویت سے محروم، آفاقیت پر زور دینے کے باوجود ایک مخصوص اخلاقی نظام یعنی اسلام کی نئی تفسیر و تغیر کی وجہ سے محدود اور سائنس اور ٹیکنالوجی کی برکتوں کے ساتھ اس کی لعنتوں پر بھی نظر کی وجہ سے ترقی سے منحرف کیوں سمجھا جاتا ہے۔
اس کی ایک وجہ ان کے سارے اردو اور فارسی کلام اور نثر سے ناواقفیت بھی ہو سکتی ہے۔ مگر میرے نزدیک اس کی اصل وجہ وہ مغرب زدگی اور نو آبادیاتی دور کی مسلط کی ہوئی وہ ذہنیت ہے جو مادے کی پرستش کی وجہ سے مذہب اور روحانیت کے نام سے بھڑکتی ہے، جو سائنس اور ٹیکنالوجی کی اندھی پرستش کرتی ہے، جو مغرب کے سماجی اداروں خصوصاً جمہوریت کے مغربی روپ میں ذرا بھی شک کو کفر سمجھتی ہے یا جو تاریخ کو صرف طبقاتی کشمکش کی عینک سے دیکھتی ہے اور مذہب کو مارکس کے الفاظ میں افیون سمجھتی ہے۔ جو تہذیبوں کے ارتقا کا ایک خطی Linear تصور رکھتی ہے اور جو ترقی پذیر ممالک کی نجات صرف ترقی یافتہ ممالک کے ماڈل اختیار کرنے میں سمجھتی ہے۔
میرے نزدیک جدید کاری اور مغربیت میں فرق ہے۔ مغربیت کے معنی یہ ہیں کہ مغرب کے ذہن کی تقلید کریں اور ترقی کا جوراستہ مغرب نے اختیار کیا ہے اس پر آنکھ بند کرکے چلتے رہیں۔ مغربیت جدیدیت کے عمل کا اک بڑا جزو ہے مگریہ نکتہ نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ مغربیت میں مغربی ماڈل کو بجنسہ اختیار کرنے کا معاملہ ہے۔ بیرونی اداروں کو اپنے گھر میں حکمراں بنانے کا معاملہ ہے۔ گویا ایک ادارے کو جو ایک خاص تحریک، تہذیب اور فضا رکھتا ہے اور ایک خاص دھرتی اور آسمان سے آگاہ ہے، ایک اجنبی فضا اور ماحول میں سامان کی طرح منتقل کرنے کا معاملہ ہے مگر جدید کاری میں مسئلہ تبادلے کا نہیں قلب ماہیت کا ہے۔ ٹرانسفر کا نہیں Transformation کا ہے یعنی اس کو اپنانے کا۔ دوسروں کے ادارے بجنسہٖ نہیں لئے جا سکتے۔ احمد کی ٹوپی زبردستی محمود کے سرپر نہیں منڈھی جا سکتی۔
سماجی ادارے ماحول کے مطابق ہی ڈھالے جا سکتے ہیں۔ اس ماحول کو پیدا کرنے کے لئے افراد کے قلب کو بدلنا ہوگا۔ اداروں کی قلب ماہیت، افراد کی قلب ماہیت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اقبال نے پیام مشرق کے دیباچہ میں غلط نہیں کہا تھا کہ ’’زندگی اپنے موالی میں کسی قسم کا انقلاب پیدا نہیں کرسکتی جب تک کہ اس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب نہ ہو اور کوئی دنیا خارجی وجود اختیار نہیں کر سکتی ہے جب تک کہ اس کا وجود پہلے انسانوں کے ضمیر میں متشکل نہ ہو۔‘‘ آڈن نے اس کو ’’دلوں کا بدلنا‘‘ Change of Heart کہا تھا۔ ترقی کا وہ تصور جو صرف اقتصادی ترقی اور خوش حالی کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے، نہ صرف ناکافی ثابت ہو چکا ہے بلکہ اس نے دنیا کے لئے اور انسانیت کے لئے جو مسائل پیدا کئے ہیں ان کا احساس خود مغرب میں اب خاصا عام ہے۔
ترقی اقتصادی وسائل سے یقیناً گہرا تعلق رکھتی ہے مگر اس کے لئے سماج اور معاشرہ کے سارے وسائل کو کام میں لانا ہوتا ہے اور ان وسائل میں انسانی وسائل کو جو اہمیت حاصل ہے اس کا احساس ضروری ہے۔ اقبال نے افلاطون کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور یونانی تہذیب میں فکر روشن کے ان عناصر کو جو آگے چل کر مغربی فکر و فن میں چراغاں کرتے ہیں بڑی حد تک نظر انداز کر گئے۔ مگر وہ مغرب میں علم و حکمت کی ترقی، انفرادیت پر زور، آزادی کے تصور، ارضیت اور انسان دوستی کے عناصرکے قائل ہیں۔ ہاں وہ مغرب کو بجنسہٖ ماڈل بنانے کے خلاف ہیں۔ وہ مانگے کے اجالے سے اپنا گھر روشن کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ اپنی فطرت کے تجلی زار اور اپنے ماحول کے لالہ زار سے تب و تاب لینا چاہتے ہیں۔
جدید کاری سے مفر نہیں۔ یہ ایک عالمی میلان ہے۔ ساری دنیا میں پرانے سماج یا روایتی سماج بہت کم رہ گئے ہیں مگر بشریات کا علم گئے گزرے سماج یا بہترین سماج کے چکر سے ہمیں نکالتا ہے، یعنی روایتی سماجوں کو بعض اچھے پہلوؤں اور نئے سماج کے بعض مضر پہلوؤں کو تسلیم کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ روایت، عبوری دور اور جدیدیت کا سلسلہ ایک خظ مستقیم میں ہو۔ روایتی معاشروں میں جدید پہلو ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح جدید معاشروں میں روایتی عناصر مل سکتے ہیں۔ اقبال کی تاریخ کے مطالعے نے اور تقدیر امم پر غور و فکر نے ان پر یہ نکتہ روشن کر دیا تھا کہ جدید ہونے کے لئے قدیم سے واقفیت بھی ضروری ہے کیونکہ ماضی حال میں زندہ رہتا ہے اور اسے متاثر کرتا ہے۔ انہوں نے ضرب کلیم میں کہا ہے،
میں ہوں نومید تیرے ساقیان سامری فن سے
کہ بزم خاوراں میں لے کے آئے ساتگین خالی
نئی بجلی کہاں ان بادلوں کے جیب و دامن میں
پرانی بجلیوں سے بھی ہے جن کی آستیں خالی
اقبال نئے جنوں کے لئے نیا ویرانہ ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اہل نظر تازہ بستیاں آباد کریں گے۔ ان کی نظر کوفہ و بغداد کی طرف نہیں ہے۔ وہ قدیم یا جدید میں اسیر ہونے کو دلیل کم نظری سمجھتے ہیں مگر تسلسل اور تغیر دونوں کے قائل ہیں۔ یہ یا وہ کے نہیں۔
جدیدکاری میں صنعت کاری کی اہمیت یقینا بہت ہے۔ اقبال مشین کے خلاف نہیں، مشین کی حکومت کے خلاف ہیں جو انسان سے اس کی انسانیت چھین لیتا ہے اور اسے Dehumanize کر دیتا ہے۔ وہ زندگی کی نئی تعبیر و تفسیر کے قائل ہیں۔ ان کے خطبات کے نام میں تشکیل جدید کے حصے کو مناسب اہمیت دینی چاہئے۔
اقبال مادی خوش حالی سے بھی منہ نہیں موڑتے۔ ان کے فقر میں بے دولتی ورنجوری نہیں ہے۔ یہ آب و گل سے مہجوری کا نام نہیں۔ ہاں دولت کی ہوس نے جس طرح آدمی کو ہوا و ہوس کا بندہ بنا دیا ہے اور اسے نفسانی خواہشات کا اسیر کر دیا ہے، اس پر وہ کڑی تنقید کرتے ہیں۔ سرمایہ داری کے وہ دشمن ہیں اور مغربی تمدن پر ان کی سخت ترین تنقید زیادہ تر سرمایہ دارانہ تمدن پر ہے۔ مگر وہ سرمایہ داری کو ختم کرنے کے بجائے اسے محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ آج کل کی اصطلاح میں وہ مخلوط اقتصادیات Mixed Economy کے قائل ہیں۔ ان کی دولت کا نظریہ گاندھی جی کے امانت کے نظریے سے ملتا ہے۔ ارمغان حجاز میں ابلیس کی مجلس شوریٰ کے یہ اشعار توجہ طلب ہیں،
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و نظر کا انقلاب
بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں
گویا مغربیت جب علمیت ہے، عقلیت ہے، حریت فکر ہے، نقد وتنقید ہے، جب فرد کی اہمیت اور انسان کی عظمت کو مانتی ہے، تسخیر فطرت ہے، خدمت خلق ہے، سماجی مساوات کے لئے جدوجہد کرتی ہے، تخلیقی قوتوں کو جب پیدا کرتی ہے تو وہ خیر ہے مگر وہ جب مادے ہی کی بات کرتی ہے اور روح کو نظر انداز کرتی ہے، سرمایہ داری، اجارہ داری اور مشین کی حکومت یا دفترشاہی بن کر انسانوں کے استحصال پر اتر آتی ہے، جب اپنے تہذیبی اداروں کو دوسروں پر لادنا چاہتی ہے، جب ہوس زر بن کر انسانی شخصیت کو یک رخا کر دیتی ہے تو اقبال اس پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ اقبال کا ذہن انتخابی ہے۔ وہ اس نکتے سے واقف ہیں کہ ترقی خط مستقیم میں نہیں ہوتی اور بعض پہلوؤں سے ترقی بعض دوسرے پہلوؤں سے تنزلی بھی ہو سکتی ہے۔ اقبال اسپنگر کی Cyclic تھیوری کو Linear تھیوری کے مقابلے میں ترجیح دیتے ہیں۔ ٹوائن بی نے اسے بہتر طور پر پیش کیا ہے مگر کارل اے وٹ فوگل نے ایک اور تھیوری بھی پیش کی ہے جو متوازی خطوط کی تھیوری ہے اور جس میں ہر تہذیب ایک متوازن سمت میں چلتی ہے مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک لکیر مثلاً یورپی لکیر سے دوسری لکیریں قریب ہو جاتی ہیں۔ جن کا نتیجہ بالآخر مختلف تہذیبوں کے سنجوگ سے ایک نئی لکیر کا وجود میں آنا ہو سکتا ہے۔
بہرحال یہ بات اب عام طور پر تسلیم کی جانے لگی ہے کہ ہر تہذیب مخصوص جغرافیائی، تاریخی، تہذیبی حالات میں وجود میں آتی ہے اور سماج کو اپنا وجود برابر دریافت کرنا ہوتا ہے۔ اپنے باطن میں جھانکنا ہوتا ہے، اپنی انفرادیت اور اپنی شناخت Identity کو پانا ہوتا ہے۔ اسی بنیا پر وہ عالمی میلانات کے مطابق تعمیر کر سکتی ہے۔ اسی خصوصیت کے ذریعہ سے وہ آفاقیت کا جزو بن سکتی ہے۔ اقبال نے بہت سے سماجی مفکروں سے پہلے اس نکتے کو سمجھ لیا تھا کہ ترقی کی دوڑ میں ہر پسماندہ ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی تاریخ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ کسی مرحلے کو کم کیا جا سکتا ہے کسی کو حذف بھی کیا جا سکتا ہے اور کسی پر زیادہ زور بھی دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح آزادی افکار اور جمہوریت کے تصورات یقیناً قابل قدر ہیں۔ مگر فکرخام ہو اور جمہوریت کے معنی اکثریت کی آمریت کے ہو جائیں تو خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ اگر مغربی جمہوریت حقیقی جمہوریت ہوتی تو عوامی جمہوریت یا سوشلسٹ جمہوریت کی بات ہی کیوں ہوتی۔
اقبال جدید کاری کے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جسے ایک مفکر نے بڑھتی ہوئی توقعات کا انقلاب کہا The Revolution of Rising Expectation کہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہم بڑھتے ہوئے احساس شکست کے انقلاب The Revolution of Rising Expectation سے دوچار ہیں۔ چند سال ہوئے Heil Broner نے انسان کے امکانات The Human Prospect کے نام سے نیویارک ریویو آف بکس میں انسان کے مستقبل کو خاصا تاریک بتایا تھا۔ اقبال نے انسان کے اس بحران کی تصویر اس سے بہت پہلے ایک نظم میں اس طرح کھینچی ہے،
عشق ناپید و خرومی گرزدش صورت مار
عقل کو تابع فرمان نظر کر نہ سکا
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی فطرت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
اقبال کی نئی مشرقیت سوشلزم کے انسانی چہرے کی Socialism with a human face علمبردار ہے۔ اب یہ بات مان لی گئی ہے کہ سوشلزم کے کئی راستے ہو سکتے ہیں۔ مارکس سے بے جا مرعوبیت اور فیشن پرستی سے قطع نظر اقبال کا یہ کہنا کہ اسلام خود ایک قسم کا سوشلزم ہے جس پر ابھی پوری توجہ نہیں ہوئی، اپنے اندر ایک ایسی معنویت رکھتا ہے جس پر آج کے آشوب آگہی میں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
جدید کاری کی روح زمانے کی ضروریات کے مطابق تبدیلیوں میں ہے۔ اس کے پہلے دور میں بہت سے بڑے کام ظہور میں آئے جن کی وجہ سے انسان نے بڑی ترقی کی اور انسانیت کی فلاح کے لے بہت کام کئے گئے۔ انسان نے ستاروں پر کمندیں ڈالیں اور سمندروں کا سینہ چیرا مگر مغرب کے مخصوص حالات کی وجہ سے تبدیلی اور ترقی کا یہ سارا جوش یک رخا ہو گیا۔ اقبال اس عدم توازن کو دور کر کے ایک نیا توازن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ جس میں اخلاقی پہلو پر مناسب توجہ ہے۔ مارشل ہاجن نے اپنی کتاب The Venture of Islam میں کہا ہے کہ اسلام کا اخلاقی مشن آج کی دنیا کے لئے بھی معنویت رکھتا ہے۔
’’اگر اسلامی میراث کے حقائق کا کھلے دل سے سامنا کیا جائے، اس کی تاریخی اصلیت، اچھی یا بری جو مسائل اس سے پیدا ہوتے ہیں نیز جو روحانی مواقع یہ فراہم کرتی ہے تو یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اسلام ایک میراث کی حیثیت سے جدید دور کے بحرانوں میں ایک لچکدار طریقے سے کارگر ہونے کا اہل ثابت ہو سکتا ہے۔ اپنی تاریخ کا اس طرح سامنا کرنے سے مسلمانوں کو اور ممکنہ طور پر دوسروں کو بھی شاید ہمارے دور کے تاریخی اتھل پتھل پر قابو پانے میں مدد ملے اور خواندہ عوام کی تہذیب کے باوجود ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کی ایک بنیاد فراہم ہو سکے۔ یہ بنیاد جمہوری خیر کے مطابق ہوگی مگر اس سے ماورا ہونے کی صلاحیت رکھے گی۔ پس مجموعی طور پر یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اسلام ایک صنعتی دنیا میں جدید دور کے لئے ایک اخلاقی بصیرت اور انسانی ضمیر کے لئے ایک تخلیقی چراغاں بہم پہنچانے کی ضرورت کو پوری کر سکتا ہے۔‘‘
پرانی مشرقیت میں فرد کی آزادی کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔ وہ اپنے خاندان، کنبے، برادری کے رشتوں میں بندھا ہوا تھا۔ ازمنہ وسطیٰ کا علم کے متعلق فرمان یہ تھا۔ جانو، مانو اور دہراؤ۔ فرد کی آزادی، حریت فکر اور انسان دوستی کا تصور مغرب کے نشاۃ ثانیہ کی دین ہے۔ یہ بات قابل لحاظ ہے کہ ہندوستان میں انیسویں صدی میں مغربی اثر سے جو نشاۃ الثانیہ ہوئی وہ نامکمل رہی، اور ذہنی آزادی، تشکیک اور سائنسی ذہن کی رو بہت جلد ملازمتوں اور حقوق کے چکر میں پڑ گئی۔ سرسید کی وہ تحریک جو تہذیب الاخلاق اور تفسیر قرآن سے چلی تھی، ایم اے او کالج کے گنبد میں محصور ہوگئی۔ یہ اس نسل کا جو سرسید کے اثر سے مغربی تعلیم سے بہرہ ور ہوئی تھی اور جس پر مغرب کی رومانی تحریک کا جادو بھی چلا تھا اور جس میں مخزن گروپ عموماً اور اقبال خصوصاً قابل ذکر ہیں، احسان ہے کہ اس نے حریت فکر، تشکیک اور انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو پوری چھوٹ دینے کی طرف سے مشرقی ذہن کو مائل کیا۔
اقبال کا یہ نظریہ خودی اسی وجہ سے مغربی فکر کے گہرے اثرات کو ظاہر کرتا ہے اور ان کی نئی مشرقیت کو جو مغرب کے اثر سے پیدا ہوئی، واضح کرتا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں کہ اقبال نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ ورڈز ورتھ نے مجھے دہریت سے بچا لیا۔ مولانا آزاد کو سر سید نے بچایا تھا۔ اپنے خطوط میں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا۔ ان کی شاعری میں انسان کی عظمت کا جو رجز ملتا ہے، اس میں ہمارے تصوف کی انسان دوستی کے عناصر سے مدد ضرور ملی ہے مگر در اصل یہ مغرب کی دین ہے۔
انسان کی تخلیقی صلاحیتوں پر اس زور کی وجہ سے ہی ایک مشہور روسی اسکالر نے انہیں تخلیقی نراج Creative Anarchism کا علمبردار کہا ہے۔ سقراط نے کہا تھا کہ وہ زندگی جس میں غور و فکر نہ ہو جینے کے لائق نہیں ہے۔ The Unexamined Life is not Worth Living مارکس حقیقت کے سمجھنے کو کافی نہیں سمجھتا وہ اسے بدلنے پر بھی زور دیتا ہے۔ ان خیالات کا پر تو اقبال کے یہاں دیکھئے۔ اپنے خطبات کے خاتمے پر لکھتے ہیں،
’’خودی کی جستجو کی منزل فرد کے درد سے آزادی نہیں۔ اس کے برخلاف یہ اس کی اور قطعی تعریف (وضاحت) ہے۔ آخری عمل ایک ذہنی عمل نہیں ہے۔ ایک حیات آفریں Vital عمل ہے۔ جو خودی کے سارے وجود میں گیرائی پیدا کرتا ہے اور اس کے ارادے کو مضبوط کرتا ہے۔ اس تخلیقی یقین دہانی کے ساتھ کہ دنیا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو صرف دیکھی جائے یا نظریات کے ذریعے سے سمجھا جائے بلکہ مسلسل عمل سے بنائی اور دوبارہ بنائی جائے۔‘‘
بنانے اور دوبارہ بنانے کی آرزو، یہ احساس کہ کار جہاں دراز ہے اور تخلیقی عمل کی کوئی حد نہیں۔ اقبال کو شعاع امید میں یہ کہنے پر اکساتا ہے،
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
کارٹ وٹ فوگل اپنے مضمون ’’انکار اور طاقت کا ڈھانچہ‘‘ میں کہتا ہے،
’’مغرب میں صنعتی انقلاب نے انسان کی پوزیشن کو بہت مضبوط کیا ہے۔ فطرت پر اس کا اقتدار بڑھا ہے مگر ان انقلاب کے ساتھ ایک Nihlist Revolt بھی ہوئی ہے جو ان اہم عناصر کو رد کرتی ہے۔ جن کا رشتہ انسان کے اخلاقی اور ماورائی وجود سے ہے اور اسی وجہ سے انسان کو یہ خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ وہ اپنے وجود کی اساس میں ایک کھوکھلا آدمی ہو جاتا ہے۔‘‘
’’صرف مغرب کی عظیم روایت کا سیاسی دائرے میں اور مشرق اور مغرب کی عظیم روایات کا روحانی دائرے میں امتزاج کر کے ہی ہم مشرق و مغرب میں سنجوگ کرسکتے ہیں۔ یہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ موجودہ تاریخی حالات میں ضروری بھی ہے۔‘‘ (ص ۹۷)
میں اکرام کے اس قول کی صحت کو تسلیم کرتا ہوں کہ اقبال کو اقبال مغرب نے بنایا۔ اقبال پر مغربیت کے اثر نے ان کی نئی مشرقیت کو جنم دیا۔ یہ نئی مشرقیت ماضی کے صالح عناصر اور اخلاقی اور روحانی بصیرت کے ساتھ جمہوری خیر کے تقاضوں کو قبول کرتی ہے جس کی مغرب میں شاندار داستان ہے، جو سائنس اور ٹیکنالوجی کی برکتوں اور لعنتوں دونوں کو پہچانتی ہے۔ جو چراغ رہ گزر سے بھی کام لیتی ہے اور درون خانہ ہنگاموں سے بھی واقف ہے مگر جو اپنی تاریخ، اپنی تہذیب اور اپنے اجتماعی لاشعور کے وسیلے سے ہی انسانیت کے کارواں میں اپنا رول متعین کرتی ہے۔
وٹ فوگل نے جس مشرقی مطلق العنانیت کا ذکر کیا ہے وہ آج کے Totalitarianism سے مختلف ہے کیونکہ اس میں فن کی نسبتاً آزاد نشوونما کی زیادہ گنجائش تھی۔ اسی طرح مغرب میں جمہوری اداروں کے فروغ کے باوجود خیر کے تصور پر مناسب توجہ نہیں ہوئی اور انفرادیت اور آزادی پر زور کے باوجود آزاد انسانوں کے سماج کو Totalitarianism کے شکنجے کا خطرہ باقی ہے۔ نئی مشرقیت شاید اخلاقی قدروں کی مدد سے اس میں توازن پیدا کر سکے۔