اقبال اور جدید غزل
اقبال کی غزل اپنے داخلی نظام اور خارجی ہیئت کے اعتبار سے ایک نئی واردات کا علامیہ ہونے کے باوجود اپنے بعد کی غزلیہ شاعری پربراہ راست اثرانداز نہیں ہوئی۔ چنانچہ اس سوال کا جواب کہ کیا جدید غزل کے منظرنامے پر اقبال کے اثرات کی باضابطہ نشان دہی کی جا سکتی ہے؟ بالعموم نفی میں ہوگا۔ اقبال کی غزل ایک بہت بڑا واقعہ تھی لیکن یہ واقعہ روایت نہ بن سکا۔ یہ غزل نہ توفانی، یگانہ، حسرت، فراق، شادعارفی کا آئیڈیل تھی، نہ ہی جدید تر شعرا نے اسے اپنے تخلیقی ماخذ کے طور پر قبول کیا۔
اقبال کی غزل کے سلسلے میں ان کے معاصرین کا رویہ ایک طرح کی فکری بے اعتباری کا رہا۔ مثال کے طور پر فانی، یگانہ اور فراق کو اقبال کی غزل ہی نہیں ان کی پوری شعری کائنات سے اگر کوئی نسبت رہی تھی تو حریفانہ۔ اس معاملے میں فراق تو ایک دوسری انتہا پر کھڑے نظر آتے ہیں اور اقبال کی شاعری کے سیاق میں جب کبھی اپنی غزل کے محاسن کا بیان کرتے ہیں تو اس طرح کہ گویا دوضدوں کا حساب کر رہے ہیں۔ اقبال کی غزل اپنی لسانی ترتیب، آہنگ، تاثر اور اسالیب فکر کے لحاظ سے جس نئے چیلنج کی نقیب تھی، اس سے عہدہ برآ ہونے کا سب سے سہل نسخہ یہ تھا کہ اسے بہ طور ایک چیلنج کے تسلیم ہی نہ کیا جائے اور یہ فرض کر لیا جائے کہ اقبال کی غزل سے وابستہ مسائل بعد کے غزل گویوں کی زندگی اور شاعری کے مسائل بننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ اس سلسلے میں یہ بات سرے سے بھلا دی گئی کہ بہ قول ایلیٹ بڑا شاعر کچھ معلوم ومانوس علاقے ترک کر دینے کے بعد نئے علاقوں پر متصرف ہوتا ہے اور فکر کے نئے جہانوں کی خبر لاتا ہے۔ اس عمل کے بغیر نئی دریافتیں ممکن نہیں ہوتیں۔
ظاہر ہے کہ اقبال کی شخصیت میں کشادگی اور عظمت کے جو آثار دکھائی دیتے ہیں، ان کا سراغ بعد کے کسی شاعر کے یہاں نہیں ملتا۔ بیسویں صدی کے غزل گویوں میں اقبال پہلے شخص ہیں جن کے کلام میں ایک نئی داخلی تبدیلی، احساس و ادراک کے نئے نظام اور ایک نئی تخلیقی سرشت کے نشانات نظرآتے ہیں۔ گئے زمانوں کی وراثت اور روایات سے اقبال کی جو بھی وابستگی رہی ہو، ان کی حسیت بہرحال نئی تھی، اس حد تک نئی کہ پرانے اسالیب میں ردوبدل کے بغیر نہ تو اپنا اثبات کر سکتی تھی نہ ان اسالیب کو اپنے شعری مقاصد اور اپنے تاریخی پس منظر کے حوالے سے بامعنی بنا سکتی تھی۔ حسیت کی بڑی تبدیلی اپنی پیش رو روایت کے مروجہ آہنگ میں کبھی ایک انتشار بپا کرتی ہے کبھی ایک خاموش اور پر پیچ تغیر اور توسیع کی راہ اپناتی ہے۔
اقبال باغی نہیں، مجتہد تھے۔ چنانچہ اپنے بزرگوں کی طرف اقبال کا رویہ بھی توڑ پھوڑ کے بجائے ان کے قائم کردہ نظام شعر میں ایک آہستہ کار تبدیلی کا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال اپنی روایت کے سلسلے میں نہ تو کسی نومسلمانہ جوش وجذباتیت کا اظہار کرتے ہیں نہ اس روایت کی ہنسی اڑاتے ہیں۔ وہ اپنی روایت کو قبول بھی کرتے ہیں اور اس سے بے اطمینانی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ہرچند کہ داغ سے اقبال کا تلمذ ایک تاریخی واقعے کی حد سے آگے، اقبال کے فنی شعور میں کسی بامعنی اور دور رس جہت کے اضافے کا سبب نہیں بن سکا، تاہم اقبال داغ کی اہمیت کے منکر بھی نہیں ہوئے۔ وہ داغ کی غزل کو ایک مخصوص ذہنی اور معاشرتی تناظر میں رکھتے ہیں اور اس تناظر کے حدودمیں داغ کی غزل کا مرتبہ متعین کرتے ہیں۔
گویا کہ اقبال کی نظر میں اپنی انفرادی شرطوں سے زیادہ اہم شرطیں وہ تھیں جو رسمی اور روایتی غزل کو اپنی زمین فراہم کرتی ہیں۔ یہ نظر ماضی کو حال کے مطالبات سے آزاد سمجھتی ہے۔ گزشتہ کو موجود کا مطیع بنانے پر اصرار نہیں کرتی۔ زمانے کی وحدت اور تسلسل میں یقین کے باوجود روایت اور تاریخ میں فرق کرنا جانتی ہے اور ہردور کی تخلیقی ضرورتوں اور ترجیحات کا شعور رکھتی ہے۔ یہ نظر انفرادیت اور جدت کو روایت کی ضدنہیں تصور کرتی۔ اقبال کا یہ انتخابی رویہ اسی لئے روایت کے ضمن میں صریح انکار سے زیادہ ایک نیم مشروط ایجاب کاترجمان ہے۔ اپنے پیش روؤں کی بابت اقبال کیا اور کس طرح سوچتے تھے، ان کے معترف تھے یا منکر، اس سلسلے میں خود اقبال کا یہ بیان موجود ہے کہ،
’’مجھے اساتذہ کی ہمسری کا دعویٰ نہیں ہے۔ اگر اہل پنجاب مجھ کو یا حضرت ناظر کو بہمہ وجوہ کا مل خیال کرتے ہیں توان کی غلطی ہے۔ زبان کا معاملہ بڑا نازک ہوتا ہے اور یہ ایک ایسی دشوار گزار وادی ہے کہ بالخصوص ان لوگوں کو جو اہل زبان نہیں ہیں، یہاں قدم قدم پر ٹھوکر کھانے کا اندیشہ ہے۔ قسم بخدا ئے لایزال، میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ بسا اوقات میرے قلب کی کیفیت اس قسم کی ہوتی ہے کہ میں باوجود اپنی بے علمی اور کم مایگی کے شعر کہنے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔ ورنہ مجھے نہ زبان دانی کا دعویٰ ہے نہ شاعری کا۔ راقم مشہدی میرے دل کی بات کہتے ہیں،
نیم من در شمار بلبلاں اما بایں شادم
کہ من ہم درگلستان قفس مشتے پرے دارم۔‘‘
جس مضمون سے یہ اقتباس نقل کیا گیا ہے، اقبال نے ۱۹۰۲ء میں تنقید ہم درد کے جواب کی صورت ’’اردو زبان پنجاب میں‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا۔ (مطبوعہ ’’مخزن‘‘ اکتوبر ۱۹۰۲ء) اس مضمون میں اقبال نے اپنی اور حضرت ناظر کی بعض لسانی غلطیوں کا جواز بالترتیب مومن، آتش، ناسخ، جلال، مصحفی، سودا، میر، داغ، بہادر شاہ ظفر، تسلیم اور ممنون دہلوی کے اشعار سے ڈھونڈ نکالا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ فارسی اور مشرقی شعریات کے بعض علما (مثلا شمس الدین فقیر، شمس قیس رازی) کے حوالے بھی بہ طور سند استعمال کئے ہیں۔
لہذا اقبال کے کسی اجتہاد کو روایت ناشناسی یا روایت شکنی سے تعبیر کرنا غلط ہوگا۔ جیسا کہ اقبال کے محولہ بالامضمون کے اختتام پرراقم مشہدی کے شعر سے صاف ظاہر ہے، اقبال اپنے آپ کو گلستان قفس کے عام عندلیبوں میں شمار کرتے تھے اور اس بات کا احساس رکھتے تھے کہ ان کی آواز اپنے ماحول میں مختلف ہی نہیں تنہا بھی ہے۔ اس نوع کی تنہائی اور بیگانگی کے احساس سے جو اداسی جنم لیتی ہے، اقبال کی پوری شاعری اپنی اثباتیت اور نشاط آلودگی کے باوجود اس سے گراں بار ہے۔ ایک پرشکوہ اجتماعی نصب العین اور جلال آمیز تفکر کا اجالا بھی اداسی کے اس دھندلکے کو دور نہیں کرسکا۔ اقبال کی شاعری ایک تنہا اور اداس انسان کی شاعری ہے۔
دراصل یہی تاثر اقبال کے مجموعی کلام کو خیال کے ایک نئے موسم کی شکل عطا کرتا ہے۔ ہمارے زمانے کی غزل یا نظم پر اقبال کے اثرات کا جائزہ لیتے وقت یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ وہ خیال جو موسم کی مثال ہو یا ایک نئی ذہنی اور جذباتی فضا کی حیثیت اختیار کرلے، اس سے اخذ و استفادے کی صورتیں بہ راہ راست یا متعین نہیں ہوتیں۔ شاید ہو بھی نہیں سکتیں۔ انہیں ایک سیال اور مبہم سطح پر محسوس تو کیا جا سکتا ہے، ان کی باضابطہ نشان دہی ممکن نہیں ہوتی۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ایسی صورتیں ایک طرح کی رفاقت اور ہم رنگی کا ماحول پیدا کرتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ صورتیں رہبری سے زیادہ ہم سفری کا اور ہدایت و تلقین سے زیادہ ہم خیالی کا وسیلہ بنتی ہیں۔ جدید اردو غزل پر اقبال کے اثرات کا تجزیہ ہمیں مماثلتوں کی اسی سطح پر کسی نتیجہ خیز نقطے تک لے جا سکتا ہے۔
جیلانی کامران نے اپنے مضمون ’’نئے لکھنے والوں سے میری ملاقات‘‘ (مشمولہ ’’نئی شاعری‘‘ مرتبہ افتخار جالب) میں یہ شکایت کی تھی کہ، ’’نئے لکھنے والوں کی بستی ایک ایسی بستی ہے، جہاں سے شہروں کی وہ لمبی قطار دکھائی نہیں دیتی جو اشبیلیہ، قاہرہ، دمشق، بغداد، شیراز، دہلی، حیدرآباد، لاہور، سری نگر، پشاور اور ملتان تک پھیلی ہوئی ہے۔ نئے لکھنے والوں کے منظر نامے پر اقبال نظر نہیں آتا۔ آنکھ میراجی ہی کودیکھتی ہے۔ تقسیم ملک کا زمانہ نظر آتا ہے، مگر تحریک خلافت، جنگ بلقان اور مسدس حالی کا زمانہ دکھائی نہیں دیتا۔ نئے لکھنے والے شخصی یادداشت کا ذکر کرتے ہیں۔ تاریخی اور عمرانی یادداشت کا ذکر کرتے ہیں۔ تاریخی اور عمرانی یادداشت سے ان کا تعلق ٹوٹا ہوا نظر آتا ہے۔‘‘
’’تاریخی اور عمرانی یادداشت‘‘ کا مفہوم یہاں اپنی متعصبانہ تعبیر کے سبب محدود اور ناقص ہے۔ مزید برآں، جیلانی کامران نے اقبال کی روایت سے نئے لکھنے والوں کی وابستگی کے نشانات سطح کے اوپر تیرتی ہوئی حقیقتوں میں تلاش کرنے کی سعی کی ہے۔ تاریخی اور عمرانی یادداشت کی حدیں لازمی طورپر زمان ومکاں کے کسی ایک سلسلے کی پابند نہیں ہوتیں۔ بالفرض اس تعبیر کومان لیا جائے تو خود اقبال کی شاعری کا ایک حصہ ان کی شخصی وارات کے حصار میں گھرا ہوا نظر آئےگا۔ پھر میر ونظیر سے لے کر غالب اور داغ تک اقبال کے بہت سے پیش رو ان کی تاریخی اور عمرانی یادداشت سے الگ دکھائی دیں گے۔ اس کے علاوہ جدید شعر ا کے منظر نامے پراقبال تواقبال، میراجی کے اثرات کی وہ جستجو بھی، جسے جیلانی کامران ایک امر واقعہ کے طور پر دیکھتے ہیں، مشکل ہی سے کامیاب ہو سکےگی۔
اس مضمون کے ابتدائی صفحات میں جیلانی کامران نے یہ بھی لکھا تھا کہ، ’’اگر نئے لکھنے والوں کامسئلہ صرف فارم اور طرز اظہار ہی کا ہوتا تو ایک حد تک میرا جی، اقبال کے مقابلے میں ’جدید‘ دکھائی دیتا۔ کیوں کہ اقبال کا عجمی کلاسیکی طرز اظہار ہے اور میرا جی جس طرز اظہار کو پیش کرتا ہے، اس کو سند اسالیب میں نہیں ملتی لیکن مسئلہ طرز اظہار کا نہیں طرز فکر ہے۔‘‘
ادب میں اس نوع کی نظریاتی توسیع پسندی کے نتائج خطرناک ہوتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اس کے نتیجے میں حلقہ ہمسفراں سمٹتا جاتا ہے، یہ اندیشہ بھی پیدا ہوتاہے کہ کہیں اچھا بھلا آدمی سید دیدار علی شاہ نہ بن جائے جو اقبال تک کواپنے دائرے سے خارج کرنے کے درپے تھے۔ یہاں یہ سوالات بھی سر اٹھاتے ہیں کہ آیا شاعری میں طرز اظہار کی اساس محض قومیت کا ایک مطبوع تصور ہوتا ہے؟ دوسرے یہ کہ کیا اقبال کے تاریخی اور تہذیبی موقف سے اختلاف رکھنے والے شعر، بس ایک عجمی اسالیب کے واسطے سے اقبال کے ہم نو اقرار دیے جا سکتے ہیں؟ کیا طرز فکر کے اشتراک کے لئے کسی ایک اسلوب کی اطاعت کافی ہوتی ہے؟
طرز اظہار کی منطق شعری تجربے کی عمومی منطق کا ایک ناگزیر حصہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی شاعر ہمیشہ اظہار کے ایک ہی طریقے پر کاربند نہیں رہتا۔ میر، غالب، اقبال کوئی بھی اس کلیے سے آزاد نہیں۔ پھر جہاں تک نئی غزلیہ شاعری کا تعلق ہے، اس کے اسالیب اور آہنگ پر ’’عجمی کلاسیکی طرز اظہار کے اثرات‘‘ میراجی کے اس ہندی آمیز اسلوب کی نسبت کہیں زیادہ مستحکم ہیں جسے جیلانی کامران نے طرز فکر کے ایک متضاد مظہر کے طور پر دیکھا تھا۔ اس فارسی آمیزی کی بنیاد پر نہ تو یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ مثال کے طور پر ناصر کاظمی، ظفر اقبال، سلیم احمد، عزیز حامد مدنی، خلیل الرحمن اعظمی، کشور ناہید، شمس الرحمن فاروقی، حسن نعیم، شہرت بخاری کی غزلیں اقبال کی غزل سے بہ راہ راست تعلق رکھتی ہیں، نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ نئے لکھنے والے جنہوں نے بہ قول جیلانی کامران میراجی کو قبول اور اقبال کو مسترد کیا تھا، ان کی غزل کا بنیادی ماخذ میراجی ہیں۔
بادی النظر میں جس طرح اقبال کی غزل جدید تر غزل کا سرچشمہ فیض نہیں بن سکتی، اسی طرح میراجی کی غزل بھی ہمارے زمانے کی غزلیہ شاعری کا عقبی پردہ نہیں ہے۔ جدید تر غزل کے ہی تمام شعرا بھی جن کا ذکر اوپر کیا گیا، ایک جیسے نہیں ہیں۔ نہ ہی غزل کی حد تک نو کلاسکیت سے ان کے شغف کی بنیاد پر، ان کے مجموعی شعری رویے کی کوئی شناخت مقرر کی جا سکتی ہے۔ اس شغف کے اسباب و عناصر کا تجزیہ اگر کیا جا سکتا ہے تو غزل کی اپنی تہذیب کے حوالے سے یا پھر اس کی روایت کے غالب میلانات کے سیاق میں۔ اسی طرح ترقی پسندوں میں مجروح، جذبی، مجاز، مخدوم، فیض اور سردار جعفری کی غزل اپنی فکری کائنات اور تجربوں کے تفاوت یا اپنی مخصوص جذباتی فضا کے فرق کے باوجود غزل کے مانوس آہنگ اور روایتی غزل کے آداب کی تنسیخ نہیں کرتی۔ یہ دراصل غزل کے اپنے کلچر اور کمالات کا بالواسطہ اعتراف ہے۔
میراجی نے چند کامیاب غزلیں کہی تھیں۔ اپنے لب و لہجے، جمالیاتی ذائقے اور حسی ماحول کے اعتبار سے روایتی غزل کے مقابلے میں بہت نئی اور مختلف المزاج۔ مجید امجد، ناصر شہزاد، جمیل الدین عالی، وزیر آغا اور ابن انشا کی غزلوں میں جہاں تہاں میرا جی کی پرچھائیں دیکھی جا سکتی ہے، لیکن ان میں کوئی بھی غزل کو نئی راہ پر لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ میرا جی کی غزلوں میں جو سادگی، دھیما پن، ان کی بحروں میں کچھ جاگنے کچھ سونے کی جو کیفیت اور ان کی بصیرت میں زمینی رشتوں کا جو ادراک شامل ہے، وہ ان کی شخصیت اور مجموعی شعری کردار کے شور شرابے میں دب گیا۔ اس میدان میں میرا جی سے متاثر ہونے والے غزل گویوں کا ذہن میرا جی کی طرح زرخیز نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ان سب کے حسی تفاعل کی حدیں بہت سمٹی ہوئی تھیں۔ ان کی داخلیت کا مفہوم ان کے شعری مزاج کی وساطت سے متعین ہوتا ہے۔ زمانے کا مزاج یا تاریخ و تہذیب کا بدلتا ہوا منظر نامہ ان کی داخلیت میں کسی نئے بعد کی شمولیت کا وسیلہ نہیں بن سکا۔
انہوں نے غزل میں بالعموم جس طرح کے شعر کہے، وہ کسی بھی دور میں کہے جا سکتے تھے۔ ان کے اپنے عہد کی تاریخ کا رول یہاں واضح نہیں ہوتا۔ اس لئے جدید تر غزل کے حسب نسب کی روداد میں میرا جی یا ان سے مطابقت رکھنے والے غزل گویوں کا ذکر بس برائے بیت آ سکتا ہے۔ یہ لوگ اس عہد کی جمالیات سے اپنی غزل کے امکانات کا کوئی رشتہ قائم نہیں کر سکے۔ ان کی غزل ان کے تہذیبی اور اجتماعی سیاق سے الگ، محض ان کی اپنی ہستی کے حصار تک لے جاتی ہے۔ یہ اپنے معاصرین اور پیش روؤں سے مختلف تو ہیں، مگر محدود۔
ان کی غزل میں جو پر فریب نرمی نظر آتی ہے، وہ نئے تجربوں کو قبول کرنے سے کتراتی ہے۔ یہ نرمی ایک طرح کی ڈھٹائی ہے اور اس کا لوچ ایک طرح کی ضابطہ بندی، جس میں نئی غزل کے مسائل کی سمائی مشکل ہے۔ ہماری تنقید نے جدید تر غزل کے حوالے سے رنگ میر کو جو معنی پہنائے، وہ اسی لئے بہت تعمیمی اور بےبضاعت ٹھہرتے ہیں۔ اس رنگ کی تھوڑی بہت روشنی کہیں ملتی ہے تو فراق اور ناصر کاظمی کی غزلوں میں اور اس کا بنیادی وسیلہ فراق اور ناصر کاظمی کا شعری مزاج یا اپنی ہستی اور کائنات کی طرف ان کا رویہ ہے۔ لیکن فراق اور ناصر کاظمی کی غزل کو بھی نئی حسیت کی نمائندگی کا سامان محض رنگ میر کے واسطے سے میسر نہیں آیا۔
اس کے برعکس اقبال کی غزل نہ صرف یہ کہ میراجی کے مقابلے میں نئی غزل کوایک نسبتاً زیادہ وسیع اور زرخیز پس منظر فراہم کرتی ہے، اس کی صلابت اور محکمی میں جدید زندگی کے بدلے ہوئے آہنگ اور تقاضوں کو قبول کرنے کی صلاحیت بھی نئی غزل کے تمام پیش روؤں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔ چنانچہ کم از کم غزل کے حوالے سے جیلانی کامران کا یہ خیال کہ نئے لکھنے والوں کے منظرنامے پر اقبال نظر نہیں آتے اور آنکھ میراجی پر ٹھہرتی ہے، درست نہیں۔ یہاں میرا جی کے تاریخی رول اوران کی غزل کے امتیازات کو ایک دوسرے میں خلط ملط کرنے کی بجائے انہیں الگ الگ سمجھنا کارآمد ہوگا۔
جہاں تک اقبال کی غزل کا تعلق ہے، یہ بات پہلے ہی عرض کی جا چکی ہے کہ جدید غزل پر اقبال نے کوئی بہ راہ راست اثر نہیں چھوڑا۔ مماثلتوں کا بھی معاملہ یہ ہے کہ غزل کی صنف میں کبھی بھی دو شعرا کے یہاں خواہ وہ زمانی اعتبار سے کتنے ہی دور افتادہ کیو ں نہ ہو، یکساں رنگوں کی اکا دکا مثالیں نکالی جا سکتی ہیں۔ سبب صاف ہے۔ غزل کی صنف اظہار و افکار کی سطح پر بہر صورت، ایک بنیادی روایت کی پابند ہر دور میں رہی ہے۔ یہ روایت غزل کی زبان، آہنگ، عادات و اطوار سب پراثر انداز ہوئی۔ جوش اور میراجی کی نظم میں زمان ومکاں کے اشتراک نے بھی وہ قربت پیدا نہیں کی جو بیچ کی لمبی دوری کے باوجود میرا جی کی غزل میں بعض حقیقتوں کی بنیاد پر دریافت کی جا سکتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں غزل سخن کا ایک طور ہی نہیں، سوچنے اور محسوس کرنے کا ایک قرینہ بھی ہے۔ اس کی تہذیب میں ایک ساتھ کئی زمانے سانس لیتے ہیں اور طبیعی واقعات و واردات کی ضرب سے یہ منتشر نہیں ہوتی۔ یہ تہذیب ہمارے شخصی اور اجتماعی شعور سے یکساں ربط رکھتی ہے۔ چنانچہ ہمارے اپنے وجود اور ہماری کائنات خیال کی کلیت کا اشاریہ ہے۔ یہ ایک مستقل اور ناقابل تقسیم وحدت ہے، جسے مکتبی ضرورتوں کے تحت الگ الگ خانوں میں رکھا جا سکتا ہے، لیکن ان خانوں کے باطنی رشتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ادراک، احساس، تجربے، مشاہدے، بصیرت اور تفکر کے درجات یا نوعیتوں میں واضح فرق کے باوجود ہر عہد کے ممتاز غزل گویوں میں کسی نہ کسی سطح پر قربت کے آثار ملتے ہیں اور ہرغزل گوکے یہاں بہ یک وقت کئی رویوں کی آہٹ محسوس کی جا سکتی ہے۔
اسی لئے اقبال کی غزل کے سلسلے میں بھی یہ کہنا ہے کہ ابتدائی ادوار سے گزرنے کے بعد ان کی غزلیہ شاعری اپنی روایت سے آزاد ایک اچانک مظہر کے طور پر سامنے آئی، صحیح نہیں ہے۔ اقبال کی غزل کے حقیقی معنی ان کی روایت کے حوالے سے ہی متعین ہوتے ہیں۔ یہی صورت حال اقبال کی غزل کے پس منظر میں جدید ترغزل کی ہے۔ غزل ایک جاذب وسیال لیکن کٹر صنف ہے۔ اس کی روایت کے حدود میں اتھل پتھل کے بعد بھی ایک ایسی منزل سامنے آتی ہے جسے روایت کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ روایت سے تمام و کمال منقطع کرکے رسائی کے اس نقطے کو اس کی مختلف جہتوں کے ساتھ سجھنا مشکل ہے۔ ماضی کو ایک مستقل حوالے کے طور پر برتنے کا چلن جس طرح غزلیہ شاعری کی تفہیم و تجزیے میں عام رہا ہے، اس سے اسی امرکی تصدیق ہوتی ہے۔
کلاسکیت کچھ لوگوں کے نزدیک چاہے جتنابھاری پتھرہو، اس مجبوری کا علاج نہیں کہ غزل کی صنف اس پتھر سے بندھی ہوئی ہے۔ پیارے صاحب رشید سے لے کر فانی اورجگر تک اقبال کے حوالے سے اگرکلاسکیت کوایک متحرک زاویے سے نہ دیکھ سکے تو قصور اقبال کا نہیں، ان اصحاب کی نظر کا تھا۔ یہاں کچھ عذاب اس بے بصری کا بھی تھا، جس نے انہیں زمان ومکاں کے معاملات کی تبدیلی سے باخبر نہیں ہونے دیا۔ اقبال نے توبس یہ کیا تھا کہ روایت کے پتھر کو اپنی تخلیقی احتیاج کے مطابق تراش خراش کرایک نئی صورت دے دی تھی۔ بدلا ہوا حلیہ بہتوں کوبگڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اقبال کی غزل کے سلسلے میں روایت گزیدہ شاعروں کی عام بدگمانی کا سبب یہی ضعف نظر ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اقبال کی غزل نے حسی اور ذہنی واردات اور زبان وبیاں کی ایک ایسی فضا مرتب کی جس میں جدید غزل کو اس صنف کے امکانات کی دریافت کاایک نیا شعور ملا۔ اقبال کی غزل کے امتیازات بہ حیثیت شاعر اقبال کی شناخت قائم ہونے کے بہت بعد روشن ہوئے۔ یہ شناخت فرسودگی کے لئے ایک چیلنج تھی۔ اسی لئے اسے قبول کرنے میں بھی لوگوں کو تأمل ہوا۔ اقبال کی غزل نہ صرف یہ کہ ہمارے شعرا کی لسانی عادات کے خلاف ایک اجتہادی رویے کی حامل تھی، اقبال کی شاعری میں اس صنف کا ارتقا بھی بہ ظاہر کسی تدریجی تسلسل سے زیادہ ایک طرح کی غیر متوقع تبدیلی کا احساس دلاتا ہے۔ اقبال کی پوری شاعری اور ان کے ذہنی سفر کو دھیان میں رکھا جائے تو یہ تبدیلی اس درجے غیر متوقع اور حیران کن نظر نہیں آتی۔
’’بانگ درا‘‘ کے ابتدائی دور کی غزل کے مقابلے میں بعد کے ادوار کی کئی غزلیں ایک نئے لسانی اور صوتی مزاج و آہنگ اور ایک نئے ذہنی و تخلیقی میلان کی ہم رکاب ہیں مگر یہ میلان اقبال کی نظموں میں پہلے ہی جذب ہو چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی غزل کے بہت سے مسائل ان کی نظم کے مسائل کا عکس ہیں اور ان میں وہی گونج سنائی دیتی ہے جس سے اقبال کی پوری شاعری پہچانی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں جہاں تک اقبال کی غزل میں تبدیلی کے غیر متوقع اور اچانک عمل کا تعلق ہے، یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ یہ عمل نہ تو اَن ہوناہے نہ صرف اقبال تک محدود۔ یہی صورت حال جدید ترغزل کے کئی نمائندہ شاعروں کے یہاں بھی ملتی ہے۔
ظفر اقبال، عادل منصوری، شہریار کے ابتدائی کلام میں روایت تخلیقی توانائی کے کسی سرچشمے سے زیادہ ایک کمزوری کی صورت نمودار ہوئی، خاصی سمٹی، سکڑی اور فرسودہ سطح پر۔ انہوں نے شروع شروع میں جو غزلیں کہیں تھیں، وہ نہ تو اپنے دور کے مزاج سے کوئی مناسبت رکھتی ہیں نہ غزل کی روایت میں کسی توسیع کا پتا دیتی ہیں۔ اس نکتے کی وضاحت کے لئے صرف ایک مثال یعنی عادل منصوری کے یہ شعر دیکھئے،
خوشبوئے زلف یار کی مے پی کے آئی ہے
باد صبا یونہی تو نہیں لڑکھڑائی ہے
جس کی گلی میں جان بچانا محال ہے
اس کی گلی میں جانے کی پھر دھن سمائی ہے
عادل کسی کی چشم غزالیں میں اشک غم
یوں لگ رہا ہے جیسے قیامت ہی آئی ہے
یہ اشعار عادل منصوری کے ابتدائی دور کے ہیں۔ اب ان کے ساتھ ساتھ اگر بعد کے یہ شعر پڑھے جائیں کہ،
شاید کوئی چھپا ہوا سایہ نکل پڑے
اجڑے ہوئے بدن میں صدا تو لگائیے
دیکھا تو سب نے ڈوبنے والے کو دور دور
پانی کی انگلیوں نے کنارے کو چھو لیا
دیکھیں تو ہاتھ باندھے کھڑے تھے نماز میں
پوچھو تو دوسر ی ہی طرف اپنا دھیان تھا
مشرق سے میرا رستہ مغرب کی سمت تھا
اس کا سفر جنوب کی جانب شمال سے
تو ایسا لگتا ہے کہ اچانک سفر کی سمت ہی الٹ گئی ہے اور ہم ایک دنیا سے کنارہ کش ہوکر کسی دوسری دنیا میں آ گئے ہیں۔ اس دنیاکا نظام احساس، اس کا ماحول، اس کی جمالیات، اس کے آداب اور اس کے قصے سب کے سب پرانی دنیا کے نظام کی نفی کرتے ہیں اور اپنی رُوشنائی کے لئے قاری سے ایک نئی نظر کا مطالبہ۔ اقبال کے یہاں ’’بال جبریل‘‘ کی غزلوں کے اولین نشانات ’’بانگ درا‘‘ کی چندغزلوں میں موجود تھے۔ ان کے پیش نظریہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اقبال کی غزل کو احساس و ادراک کے نئے علاقوں کا سراغ ان کے مجموعی شعری کردار کے واسطے سے ملا۔ اس ضمن میں اقبال کی پہلی کوشش یہ تھی کہ غزل کی تعمیمیت پراختصاص کا رنگ چڑھایا جائے، علاوہ ازیں غزل کو خیال کے اس نئے موسم کا ترجمان بنایا جائے جو اقبال کے عہد اور اس عہد سے اقبال کے ذہنی رابطوں کا زائیدہ ہے۔
غزل کی مروجہ زبان اور صیغہ اظہار کے جبر سے بچنے کی جستجو اقبال کو اس ایقان تک لے گئی کہ دوسر ی زبانوں سے استفادے کا عمل شعری روایت کی توسیع کے عمل کا ناگزیرحصہ ہے۔ ہمارے دور میں ظفر اقبال کی طرح اقبال نے بھی اس ضمن میں خاص طور پر پنجابی الفاظ اور محاوروں کی مدد سے ایک نئے ایڈیم کی تشکیل پر زور دیا تھا۔ اقبال کے عہد کی وضع داریوں کو سامنے رکھا جائے تو ان کی یہ جسارت حیران کرتی ہے۔ گرچہ اقبال اپنے قائم کئے ہوئے اصولوں پرخودکار بند نہیں ہوئے لیکن اس رویے سے کم از کم یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اقبال غزل میں کلیشے کو معیوب سمجھتے تھے اور تجربے یا اظہار کی سطح پر اس جبر سے رہائی کے متمنی تھے جو ان کی بصیرت اور ان کے تغیر پذیر جمالیاتی و تاریخی ماحول میں ٹکراؤ کی صورتیں پیدا کرتا ہو۔ ان حالات میں شاعری کو جز و پیغمبری یا ایک منصوبہ بند اجتماعی نصب العین کے حصول کا ذریعہ تصور کرنے کے باوجود شعر میں ابہام پر اقبال کے اصرار کی وجہ آسانی سے سمجھ میں آتی ہے۔ ان کی ڈائری کے یہ جملے کہ،
’’مجھے شاعری میں ابہام اور اغلاق کا ایک پہلو بہرحال پسند ہے کیوں کہ ابہام واغلاق جذبات کا عمیق اظہار ہیں۔‘‘
اور۔۔۔
’’فلسفہ انسانی تعقل کی برفیلی رات میں کانپتا ہوا جوہر ہے۔ شاعر نمودار ہوتا ہے اور ان کو موضوعیت کی حرارت بخش دیتا ہے۔‘‘
یا یہ کہ، ’’فلسفہ بوڑھا بنا دیتا ہے۔ شاعری دوبارہ شباب لاتی ہے۔ سائنس، فلسفہ، مذہب، سب کے حدودہیں۔ صرف فن ہی لامحدود ہے۔‘‘
حالی کی مقصدیت نیز شاعری اور اخلاق کے تعلق کی بابت حالی کے تصورات کو اقبال کی مقصدیت اورشاعری کے اخلاقی رول کے سلسلے میں اقبال کے تصورات سے الگ کرتے ہیں۔ دونوں کے یہاں اپنے اپنے تصورات کی جو منطق ملتی ہے وہ تاریخ کو ایک یکساں حوالے کے طور برتتی ہے۔ تاہم اس کے مضمرات اگر ایک دوسرے کی ضدنہیں تو ایک دوسرے سے مختلف ضرور ہیں۔ شاید اسی لئے نئی حسیت جس سہولت کے ساتھ حالی کو رد کر دیتی ہے، اقبال سے دامن بچانا اس کے لئے اتنا سہل نہیں ہے۔ یہاں اقبال کی فکر کے بنیادی مراکز، ان کے پسندیدہ موضوعات اور ان کے فنی رویوں اور ضابطوں کے فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ حالی اور اقبال کے مقاصد میں اشتراک کے چند پہلو ملتے ہیں، لیکن ان مقاصد کی روح اور ان کی ترجمانی کے آداب میں بصیرت اور تاریخ کے عمل کا جو فاصلہ حائل تھا، وہ اشتراک کی ان سطحی صورتوں سے زیادہ اہم ہے۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ہماری زندگی کے باقاعدہ جدید ہونے سے بہت پہلے اقبال کا شعور جدید ہو چکاتھا۔ مغربی تہذیب اور صنعتی تمدن کے بحران کا شعور، ایسا شعور جسے ایک نئے ادراک کا عطیہ کہا جا سکے، اردو شاعری کی روایت میں سب سے پہلے ہمیں اقبال کے یہاں ملتاہے۔ اس ضمن میں اقبال اور اکبر کی روحانی واردات اور دونوں کے اضطراب کا تجزیہ ہم ایک ہی پیمانے پر نہیں کر سکتے۔ نہ صرف یہ کہ دونوں کے فکری انسلاکات میں مطابقت سے زیادہ اختلاف کے پہلو نکلتے ہیں۔ دونوں کے یہاں تاریخ و تہذیب کا سیاق اور ان سے وابستہ تصور کی نوعیتیں بھی مختلف ہیں۔
اقبال کی حقیقت پسندی کا ظہور ان کی رومانیت کے ساتھ ہوا تھا۔ یہی رومانیت زندگی اور زمانے کے تئیں ان کے حقیقت پسندانہ شعور اور اس شعور میں شامل المیاتی احساس کو سنبھالنے کا وسیلہ بھی بنی۔ اس رومانیت نے اقبال کی مذہبیت کو ایک انتشار آگیں دور کی بصیرت کے لئے بامعنی بھی بنایا۔ یہ دور اپنی نجات کے راستے، مذہب کے رسمی تصور سے الگ، فکر کی کسی اور وادی میں تلاش کر رہا تھا۔ اس سلسلے میں جو حقیقت اقبال کونئے شعرا سے ممیز کرتی ہے، یہ ہے کہ ہمارے بیش تر نئے شاعر اپنے تجربے کا کوئی تنظیمی اصول (Oraganising Principle) نہیں رکھتے۔ اس فرق نے اقبال کی رومانیت اور نئے شعرا کی رومانیت کے مابین ایک لکیر بھی کھینچی ہے اور جہات کا اختلاف بھی پیدا کیا ہے۔
باقی رہا نئے شعرا اور اقبال میں موضوعاتی اور فکری سطح پر مماثلتوں کا سوال تو اس بہانے اقبال کی فکر کے وجودی عناصر، ان کی شاعری میں روحانی اور وجدانی وجود کی مرکزیت کے احساس یا فرد کی ازلی تنہائی کے احساس یا انسانی مقدرات اور اس عہد کے اجتماعی زوال کے احساس۔۔۔ غرض کہ ان حوالوں سے بہت باتیں کہی جا سکتی ہیں۔ یہ قصہ ایک الگ تفصیل کا طالب ہے۔ اس سے قطع نظر، یہ سوالات دراصل اقبال کے مجموعی رول اور رویے نیز نئی حسیت کے کلیدی عناصر اور امتیازات سے علاقہ رکھتے ہیں۔ اقبال کی غزل اور اس کے واسطے سے جدید غزل کے جائزے میں ان سوالات کی اہمیت صرف عمومی ہے۔