اقبال اور عشقِ مصطفٰے ﷺ
اردو ادب اور عشق کے عنوان کا دیرینہ تعلق ہے۔ اردو شاعری میں ولی دکنی سے ہی عشق، باقاعدہ عنوان بن چکا تھا۔ میر ، غالب اور اقبال وہ تین ہستیاں ہیں جن کی شاعری میں عشق جھلکتا ہے۔ جذبہ عشق احساس محرومی کا تدارک کرتا ہے۔ عشق کا تصور صرف دو مراکزکے گرد گھومتا ہے یعنی عالَمِ فراق ہوتا ہے یا پھر وصال ہوجاتا ہے۔ فراق میں بچھڑ جاتے ہیں اور وصال میں ایک دوسرے کو پالیتے ہیں۔ غالب کہتے ہیں کہ فراق ،وصال سے بہتر ہے۔ اس کی دلیل یوں پیش کی کہ جب تک چھن جانے کا خطرہ رہتا ہے اس وقت تک پالینے کی جستجو رہتی ہے۔ لاحاصل کا غم ،حاصل کے سکون پر حاوی رہتا ہے۔ شمع اور پروانے کا عشق کا استعارہ برسوں پرانا اہے۔ پروانا شمع کی حفاظت کرتے کرتے مرجاتا ہے کیونکہ اسے شمع کے بجھنے کا خوف رہتا ہے۔ اگر اس کے دل میں یہ خوف نہ ہوتا تو وہ اپنی پرواز روک لیتا اور اپنی جان بچالیتا۔اقبال کی شاعری میں عشق کی روح نظر آتی ہے۔ یہ عشق عام نہیں ہے بلکہ یہ عشق حضرت محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد گھومتا ہے۔ اقبال نے شاعری میں روایتی عشق یا عشقِ مجازی(رومانویت) کی داستان کو نہیں چھیڑا۔ اقبال کہتے ہیں کہ میری قرآن سے وابستگی کی بنیاد ہی عشقِ رسول ﷺ ہے۔ اقبال نے باقاعدہ نعت نہیں لکھی مگر ان کی شاعری میں عشق رسول ﷺ نظر آتا ہے۔ عشق رسول ﷺکی انتہا تو یہ ہے کہ جب حضرت اقبال کی عمر تریسٹھ برس کی ہوئی تو رونے لگے کہ اس عمر میں تو رسول اکرم ﷺاس دار فانی سے پردہ فرماگئے تھے میری عمر کیوں زیادہ ہورہی ہے ؟ تاریخ لکھتی ہے کہ اسی سال اقبال کی روح داعی اجل کو لبیک کہہ گئی۔ اقبال نے پوری دنیا گھومی ،مغربی ممالک گئے اور سپین قرطبہ مگر مدینہ منورہ نہیں گئے۔ کسی نے اقبال سے پوچھا کہ آپ مدینہ کیوں نہیں جاتے ؟ اقبال کہتے ہیں کہ میں کس چہرے کے ساتھ مدینہ جاؤں۔ میرے تو اعمال ایسے نہیں ہیں کہ میں کیسے رسول اکرم کے شہر میں جاؤں جب میرے اعمال اس قابل نہیں۔
بقول اقبال
خِیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہءدانشِ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
اقبال کہتے ہیں حضرت محمد و آل محمد ﷺکی محبت وہ ہے جس سے انسان کو لوح و قلم کی دولت مل جاتی ہے۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی زندگی بھی عشق رسولﷺ کے گرد گھومتی تھی جس کا تذکرہ اقبال نے اپنی شاعری میں کیا ہے۔اقبال نے یہ عقیدہ قرآن پاک سے لیا ہے۔ قرآن ہی تو حضرت محمد ﷺ سے محبت سکھاتا ہے۔ بقول اقبال قرآن ایک مسلمان کا مسیحا کامل ہے۔ علی بخش ،جو اقبال کے ساتھ آخری ایام تک رہے ،کہا کرتے تھے کہ جب حضرت اقبال قرآن کی تلاوت کرتے تھے تو اقبال کے خوف الٰہی سے نکلنے والے آنسوؤں سے قرآن کے ورق بھیگ جاتے تھے۔ علامہ اقبال کی نظمیں چاہے وہ شکوہ ہو یا جواب شکوہ، خضر راہ ہو یا پیام مشرق سب کے موضوعات قرآن سے ماخوذ ہیں۔اقبال کی مئے کشی کے بارے جب علی بخش سے پوچھا گیا وہ کہتے ہیں اقبال کا میخانہ عام نہیں ہے۔ اقبال نے حضرت محمد و آل محمد ﷺکی محبت کی مئے نوشی کی ہے۔ ہر انسان کی زندگی کا ماحصل عشق الٰہی و عشق رسولﷺ ہونا چاہیے۔
بقول اقبال
عشق دم جبرائیل ، عشق دل مصطفٰے
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ جذبہ عشق بغیر طلب ناممکن ہے۔ اقبال کی شاعری قرآن پاک کے مفاہیم کا سمندر ہے۔اقبال نے اپنی شاعری میں بندہ مومن کو مخاطب کیا ہے۔ اقبال نے کہا کہ میرا تصور مومن اس دنیا کے مومن تک محدود نہیں ہے۔ یہ مومن وہ مرد ہے جو Super Natural Forces کا حامل ہوتا ہے ۔ جس کی زبان نقارہ خدا ہونی چاہیے۔ انسان اس وقت تک مرد مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اتباع حضرت محمد و آل محمد ﷺنہ کرے۔ اقبال کے بقول کائنات کا کامل ترین مومن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ مومن کا دل عشق سرور کونین کی آماجگاہ ہے۔
بقول اقبال
در دل مُسلم مقام مُصطفےٰ است
آبروئے ماز نام مصطفےٰ است
یہاں یہ بتانا لازم ہے کہ اقبال نے بھی میر کی طرح کبھی شریعت کا مذاق نہیں کیا۔ عام شاعری میں بعض شعراء شریعت کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ داڑھی کا ہونا یا نہ ہونا ، اس پر دلیلیں دیتے ہیں کہ دین میں داڑھی ہے داڑھی میں دین نہیں۔ مگراقبال نے کبھی ایسے موضوعات زیرِ بحث نہیں لائے۔ بقول علی بخش ،علامہ محمد اقبال کی تہجد کی نماز کبھی قضاء نہیں کی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ عموماً بوقت تہجد اقبال مجھے بلاتے اور لکھنے کو کہتے ۔ شاعری اقبال پر نازل ہوتی تھی، وہ بغیر توقف کے شعر بولتے رہتے تھے اور علی بخش لکھتے رہتے تھے۔ اقبال کی شاعری میں اصلاح کی ضرورت پیش نہ آتی تھی۔ اقبال نے جب داغ کو اپنی غزلیں بھجوائیں، ایک طرح کا انہیں استاد تسلیم کیا تو واپسی پر داغ نے ایک خط لکھا جس میں تحریر تھا کہ اس شاعری کو اصلاح کی ضرورت نہیں ہے، یہ کامل ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ شاعری میں کاملیت کا عنصر صرف عشق رسولﷺ سے میسر ہوا ہے ورنہ مجھ بندہ ناچیز کی کیا اوقات کہ جس پر شاعری فریفتہ ہو۔ عشقِ رسول ﷺ کا حاصل کیا ہے اسے اقبال کے اس شعر میں بیان کرکے سمندر کو کوزے میں سمویا جاسکتا ہے:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اللہ پاک ہمیں سیرت حضرت محمد و آل محمد ﷺپر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین