اقبال اور فکر جدید
اقبال اس صدی کے پہلے شاعر ہیں جن کے یہاں نئے انسان کے ذہنی، سماجی، اخلاقی اور روحانی مسئلوں کا احساس ملتا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اقبال کا رشتہ اپنی شعری روایت سے بھی مضبوط اور مستحکم ہے۔ ایسا اس حقیقت کے باوجود ہے کہ اقبال نے اپنے بیش تر معاصرین کے برعکس، روایت کوصرف عادت کے طور پر قبول نہیں کیا اور اپنی شاعری کو زبان و بیان اور خیال کے امتناعات سے آزاد کرکے روایت سے مربوط رکھتے ہوئے ایک نئے تخلیقی اور ذہنی مظہر کی شکل دی۔ وزیر آغا نے نئی فنی اقدار اور تہذیبی مسائل سے اقبال کے اس ذہنی قرب کی بنا پر انہیں جدیدیت کا پیش رو کہا ہے۔
ان کے خیال میں اقبال اردو کے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے شاعری میں فرد کے داخلی ہیجانات اور اس کے انفرادی اور سماجی مسائل کی عکاسی کی ہے۔ وہ اقبال کی شاعری میں حالی کے تصورات کا سایہ بھی دیکھتے ہیں اور اکبر کے اثرات بھی اور کہتے ہیں کہ ’’اقبال نے اسلاف کی عظمت کا تصور حالی سے اور مغربی تہذیب کی نفی کا تصور اکبر سے مستعار لیا۔‘‘ اس کی توجیہ وہ یوں کرتے ہیں،
’’اقبال ان بڑے شعرا میں سے ہیں جوہمیشہ تعمیر اور تخریب کے سنگم پر نمودار ہوتے ہیں۔ جن کے ہاں ایک طرف تو نئے زمانے کی شکست و ریخت کا عرفان اور دوسری طرف ماضی کے نظم و ضبط کا احترام موجود ہوتا ہے اور جو آنے والے زمانے کی چاپ کو سننے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایسے شعرا کو نئے اور پرانے سبھی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر ان کی قدامت یا جدیدیت کے بارے میں گرمی گفتا ر کا مظاہرہ بھی ہوتا ہے۔‘‘
اس اقتباس کے آخری جملے سے یہ بات خود بہ خود واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال نئے انسان اور اس کی دنیا کے مسائل سے اپنی تمام تر آگہی اور شعریات کے ترقی یافتہ اصولوں سے باخبری کے باوجود قدیم و جدید دونوں کے لئے یکساں معنویت کا سامان رکھتے ہیں۔ اسی لئے نئے اور پرانے دونوں انہیں اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ شروع شروع میں جدیدیت پر عام اعتراض یہی کیا گیا کہ اس نے اپنی ادبی، تہذیبی اور فکری روایت سے منہ موڑ لیا ہے اور یہ کہ نئی شاعری ایسی بوالعجبیوں کا شکار ہے جواب سے پہلے کبھی دیکھنے اور سننے میں نہیں آئیں۔ نئی شاعری روایت کے بعض عناصر کا پاس رکھنے کے باوجود قدیم مذاق اور معیار رکھنے والوں کو آسودہ نہیں کرتی اور قدیم شعری روایت کی طرف نسبتاً دوستانہ رویہ رکھنے والے شعر ابھی اقبال کے برعکس، نئے اور پرانے دونوں کے لئے یکساں طور پر قابل قبول نہیں ہوتے۔
پرانے حلقوں میں انہیں کبھی کبھار داد سخن وری مل جائے، جب بھی وہ حلقے انہیں تمام و کمال اپنانے پر مائل نہ ہوں گے۔ دونوں کے یہاں تخلیقی عمل کی طرف رویے کا فرق بہت واضح ہے۔ اس سلسلے میں وزیر آغا کی نظر اس تضاد پر نہیں جا سکی کہ اقبال نے اگر داخلی ہیجان و اضطراب کو (جسے وزیر آغا جدید نظم کا بنیادی وصف کہتے ہیں) اپنا راہ نما بنایا تو اسلاف کی عظمت کا تصور یا مغرب کی نفی کا رویہ حالی اور اکبر سے مستعار لینے کے کیا معنی ہیں؟ داخلی ہیجان کی پہلی شرط مسائل کی بہ راہ راست آگہی اور ذاتی سطح پر ان کا ادراک ہے۔ پھر اقبال کے یہاں ماضی سے جس ذہنی اور جذباتی قرب یا مغربی تمدن کے نقائص کا جو احساس ملتا ہے وہ حالی اور اکبر کی توسیع محض نہیں ہے۔ بلاشبہ اکبر کی صاحب نظری نے مغربی تہذیب کے عدم توازن اور اس کی نارسائیوں سے انہیں آگاہ کر دیا تھا، لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد مغربی سیاست، سماج اور تمدن نے جو موڑ اختیار کئے یا انیسویں صدی کے اواخر میں روحانی سطح پر اس تمدن سے ناآسودگی کی ایک زیریں لہر جو خود مغربی فکر و فلسفہ کے رجحانات سے نمودار ہوئی، ان پر اقبال کی نظر کسی مستعار تجربے کی رہین منت نہیں ہے۔
اسی طرح اسلاف کی عظمت کے احساس نے حالی کو جس سماجی اخلاقیات کی اشاعت پر آمادہ کیا، اس کی نوعیت اقبال کے تصو رماضی یا شعور تاریخ سے بہت مختلف ہے۔ حالی نے اس مسئلے کو صرف سماجی حقائق کے تناظر میں دیکھا تھا۔ اقبال نے اسے فلسفیانہ اور جذباتی سطح پر برتا۔ حالی اپنے ماضی کو اپنے ’’حال‘‘ سے ہم آہنگ کرنا چاہتے تھے۔ اقبال نے اپنے ’’حال‘‘ کے ادھورےپن یاعدم توازن کو دور کرنے کا وسیلہ جانا۔ حالی تاریخ کو تعقل کے آئینے میں دیکھ رہے تھے۔ اقبال نے تعقل کی نارسائیوں کو بھی سمجھا اور انسانی عروج و زوال کے معمے کو جذباتی، روحانی اور نفسیاتی سطح پر بھی حل کرنے کی سعی کی۔ حالی حقیقت کے مادی اور مشہود معیاروں کے حصارسے نہیں نکل سکے۔ اقبال نے انہی معیاروں پر سب سے کاری ضرب لگائی۔
حالی نے قدیم اور جدید کی آویزش کی دوضدوں کے تصادم کی شکل کوایک ’’ابدی حال‘‘ کی حیثیت دی۔ حالی حقیقت پرست تھے۔ اقبال خواب پرست۔ حالی نے سماجی ضرورتوں کے جبر کے باعث ساری توجہ فوری مسائل کے حل پر مرکوز کی۔ اقبال نے سامنے کی حقیقتوں کو نظر انداز نہیں کیا تاہم ان کی نگاہ وسیع تر تہذیبی اور روحانی مقاصد کامحاصرہ کرتی رہی۔ حالی نے مغرب کی ایک ترقی یافتہ قوم کو ذہن اور عمل کی توانائیوں کے واحد پیکر کی شکل میں دیکھا۔ اقبال اس بھید کو بھی پا گئے کہ بزم جاناناں کی رنگینی میں فریب نگاہ بھی شامل ہے۔ حالی نے انگریزوں کی سرپرستی کو ہندوستانی قوم کی نجات اور فلاح کا سبب سمجھا۔ اقبال ارض مشرق کی آزادی کا خواب دیکھتے رہے۔
غرض کہ چند سطحی مماثلتوں کے باوجود حالی کی تجدد پرستی اور اقبال کی ’’جدیدیت‘‘ میں امتیاز کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔ اپنے اپنے طور پر دونوں نے اپنے زمانے کے شعور کی بلند ترین منزلوں تک پہنچنا چاہا۔ اس سلسلے میں دونوں کو اس منطقے کی جستجو بھی رہی جو تاریخ کے شعور اور افراد کے شعور میں ہم آہنگی کے بغیر ہاتھ نہیں آتا۔ دونوں اپنی تاریخی صورت حال کو سمجھتے تھے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ دونوں نے ملت اسلامیہ کی پوری تاریخ اور اپنے قارئین کے حوالے سے شعر کہے۔ لیکن دونوں کی بصیرت، طرز احساس اور فکر میں وقت کی کئی دہائیوں کا فاصلہ اور دو مختلف نسلوں کے مزاج کا فرق حائل ہے۔ اقبال نے جس ذہنی آزادی اور اعتمادکے ساتھ مغرب کے نظریات کو سمجھنے کی کوشش کی، وہ حالی اور ان کے معاصرین کے لئے بعید از قیاس تھا۔ اس لئے نئی شاعری اور جدیدیت کی ذہنی روایت کا رشتہ حالی اور آزاد کی جدید شاعری کے تصور سے جوڑنا یا اقبال کو حالی کی توسیع سمجھنا ناقص اور بےبنیاد نتائج کو راہ دینا ہے۔
حالی نے مقدمہ شعر و شاعری لکھ کر اپنے عہد کی سائنس، اس عہد کی حقیقت پسندانہ اور ترقی پذیر فکر کا ایک منشور مرتب کر دیا تھا۔ اسے اپنے مجموعہ کلام کے حرف آغاز کی حیثیت دےکر بالواسطہ طور پر یہ وضاحت بھی کرنی چاہی تھی کہ اس منشور کی رہبری میں جذبے اور فکر کی تخلیقی جہتوں کا رنگ کیا ہو سکتا ہے۔ اقبال نے نثر میں اپنے عقائد و افکار کا بہت کم حصہ پیش کیا ہے۔ وہ اپنی اس مجبوری سے آگاہ تھے کہ ان کی فکرچوں کہ بنیادی طور پر تخلیقی ہے، اس لئے نثری استدلال کے پیرائے میں شاید اس کی کما حقہ ترجمانی ممکن بھی نہیں۔ حالی کی فکر کا مرکز و محور تاریخ کی بدلتی ہوئی حقیقتوں کی روشنی میں ان کا مخصوص سماجی ماحول تھا۔ اقبال کی فکر کا حصار اور اس کا سرچشمہ ان کے بسیط سماجی اور تہذیبی شعور کے باوصف مذہب ہے۔
ہمیں یہ بات بھولنی نہیں چاہئے کہ مذہب کا فلسفیانہ مطالعہ تو ممکن ہے لیکن وہ پوری طرح استدلال کے زیر نگیں نہیں آ سکتا۔ اسی لئے اقبال نے نثر پر شعری اظہار کو ترحیح دی۔ مذہبی عقائد اور افکار شعر میں ڈھلنے کے بعد، بہ قول رابرٹ لاول، شعر کے تکنیکی اور تخیلی مسائل میں اتنے گھل مل جاتے ہیں کہ انہیں عقیدے کے طور پر قبول کرنا ان لوگوں کے لئے دشوار ہو جاتا ہے جو مذہب کا رسمی تصور رکھتے ہیں۔ مانوس افکار بھی ان کے لئے شعر میں داخل ہونے کے بعد اجنبی بن جاتے ہیں۔ اس لئے اقبال کی فکر کو حالی کی فکر کے معروضی اور غیرجذباتی آہنگ کے ایک مماثل میلان کے طور پر دیکھنا بھی غلط ہوگا۔ اقبال کے سلسلے میں پید ا ہونے والی الجھنوں کااصل سبب یہی غلط بینی ہے۔ اسی کی بنیاد پر اقبال کے فلسفیانہ مذہبی، ثقافتی، تعلیمی اور سیاسی تصورات میں تضادات ڈھونڈے جاتے رہے اور ان کی غیر ادبی حیثیتوں پر اس حد تک زور دیا جاتا رہا ہے کہ ان کی تخلیقی حیثیت ثانو ی ہوکر رہ گئی۔
اقبال کی فکر کے تخلیقی ہونے کی ایک بین شہادت اس امر سے بھی ملتی ہے کہ وہ جن فلسفیوں یا افکار سے متاثر ہوئے، ان کی نوعیت عام طور سے ادبی اور تخلیقی ہے۔ نئے انسان کے ذہنی اور جذباتی رویوں، نیز جدیدیت سے فکری انسلاکات سے اقبال کی فکر میں اشتراک کے عناصر اسی لئے دکھائی دیتے ہیں۔ جدیدیت بھی استدلالی فلسفوں سے زیادہ ان مکاتب فکر سے علاقہ رکھتی ہے جو اپنے تجزیے اور طریق کار میں وجدان کی مداخلت کو شرک نہیں سمجھتے۔ اقبال نے اپنے حکیمانہ شعوری تربیت اور تحفظ کے باوجود اپنے عقلی وجود کو اپنی ہستی کی وحدت پرغالب نہیں آنے دیا۔ بیک وقت وہ ایک شاعر، ایک مفکر اور مذہبی انسان کے حقوق ادا کرتے رہے۔ ان کی مذہبیت، تصوف، ایرانی فلسفے سے شغف اور ان کی ماورائیت نے انہیں مغرب کے مقامات عقل سے اسی لئے آسان گزار دیا۔
نطشے اور برگساں سے اقبال نے ذہنی اور تخلیقی دونوں سطحوں پر اثرات قبول کئے۔ نطشے کوجب اقبال مجذوب فرنگی کہتے ہیں تو اس سے بالواسطہ طور پر اس حقیقت کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ نطشے ان کے لئے ایک مفکر نہیں تھا۔ بڑی حد تک اقبال سے اس کا رشتہ دو شاعروں کا ذہنی رشتہ ہے۔ اقبال نطشے اور برگساں سے ہوتے ہوئے مارکس تک پہنچے تھے۔ اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں ان کی عینیت پرستی ان کے ذہنی سفر کی پہلی اور بنیاد ی منزل تھی۔ ارضیت تک وہ فکر کے کئی پر پیچ مرحلوں سے گزرنے کے بعد پہنچے، اس لئے مارکس سے متاثر ہونے کے بعد بھی روح کی حقیقت پر ان کا ایمان اور ان کے جذباتی تحفظات برقرار رہے۔ نطشے کی طرح اقبال نے بھی ہر فلسفیانہ فکر کے انجام کو اپنی ہی ذات کے تجربے سے تعبیر کیا اور فنا کے تناظر میں بقا کی معنویت کا سراغ لگایا۔
نطشے کے طرح اقبال بھی انفرادیت (انا) کے عاشق ہیں، گرچہ علم کو خیر سے مشروط کرکے انہوں نے نطشے کی طاقت پرستی سے خود کو الگ رکھا۔ نطشے ہی طرح کی اقبال بھی یہ سمجھتے رہے کہ انسان اپنی ذات میں خیر بھی ہے اور شر بھی اور اس کے انفرادی عمل ہی کی روشنی میں اس کی زندگی کا بنیادی خاکہ مرتب ہوتا ہے۔ نطشے اور اقبال دونوں کے یہاں قوت حیات کا راز تعقل کے بجائے جذبے کی شدت اور وفور میں مضمر ہے۔ دونوں زندگی کو اندیشہ سود و زیاں سے برتر حقیقت تسلیم کرتے ہیں۔ دونوں کے یہاں حقیقت صرف مشہود نہیں۔ دونوں عشق کے امتحان سے گزرنے کے لئے ان منزلوں کی فتح کو ناکافی سمجھتے ہیں جو پہلے ہی پامال ہو چکی ہوں۔ نطشے ہر مسئلے کے تجزیے میں ذاتی رشتے کے تناظر کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اور اقبال بھی زمین و آسمان مستعار کو پھونک کر اپنے خاکستر سے اپنا جہاں تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
مغرب کی صنعتی کا مرانیوں کی ناداری کا احساس دونوں کو ہے اور دونوں عقلیت کی خوبیوں کے ساتھ اس کے نقائص اور ناتمامی کا بھی احساس رکھتے ہیں۔ نطشے نے اپنی تحریروں میں اپنے پورے وجود کو سمو دینے کا دعوی کیا تھا اور کہتا تھا کہ خالص ذہنی مسائل کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتا۔ اقبال نے بھی معجزہ فن کی نمود کے لئے خون جگر کی لالہ کاری ضروری بتائی۔ زندگی کی ہرحقیقت تک وہ عقل کے ساتھ ساتھ اپنے حواس کے حوالے سے پہنچے ہیں۔ دونوں کے یہاں جذب کی ایک مستقل کیفیت چھائی ہوئی ہے جو ان کی آگہی کو ایک نئے مفہوم تک لے جاتی ہے۔ دونوں کے احساسات شدید اور غیر میکانکی ہیں۔ اس طرح دونوں کے مابین مکالمے کی اک لمبی راہ نکلتی ہے۔ لیکن نطشے اور اقبال کی فکر میں اختلاف کے بھی کئی پہلو ملتے ہیں۔ مثلاً اقبال نطشے کے برعکس طاقت کو مقصد کی پاکیزگی سے الگ کرکے پرستش کے لائق نہیں سمجھتے، گرچہ نطشے کی طرح اسے حسن کا مظہر مانتے ہیں۔ اسی طرح نطشے نسلی امتیازات پر یقین رکھتا ہے اور اخلاقی اقدار کا مخالف ہے۔ اقبال کی فکر ارتقا کی کسی بھی منزل پر اخلاقی تصورات سے بیگانگی نہیں برتتی، نہ ہی وہ نسلی عصبیتوں کو مطبوع سمجھتے ہیں۔ نطشے جمہور کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔ اقبال جمہور کے ثناخواں ہیں۔
غرض یہ کہ اقبال اور نطشے کے معتقدات اور ذہنی رویوں میں کچھ دوریاں بھی ہیں۔ تاہم اقبال اس کے قلب کو مومن اسی لئے سمجھتے ہیں کہ قوت و حیات کی مدح سرائی کے ذریعے وہ انسان کی وجودی انفرادیت کوسب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ زندگی سے اس دوری کا مرتکب بھی نہیں ہوتا جو خالص تعقل کا نتیجہ کہی جا سکتی ہے۔ (ہے فلسفہ زندگی سے دوری۔ اقبال) بلکہ وہ ایک رومانی زاویہ نظر کے ساتھ زندگی کے امکانات پر نظر ڈالتا ہے۔ اس طرح اقبال کی فکر میں وجودیت کے اولین نشانات کی شمولیت، جس نے نئی شاعری میں فرد کی ذات اور کائنات سے، اس کے انفرادی رشتوں کے احساس اور اظہار کو ایک فکری بنیاد فراہم کی ہے، انہیں نئی حسیت سے قریب لاتی ہے۔
برگساں کی فکر بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے متصوفانہ ہے اور ذات یا زندگی کی جانب اس کامیلان بڑی حد تک ایک عقل پرست فلسفی سے زیادہ ایک صوفی کا ہے۔ وہ زندگی کی صرف مادی تعبیر کا اور صرف عقل پر بھروسے کا قائل نہیں ہے۔ انسانی وجود کے سلسلے میں جسم اور روح کی ثنویت کو بھی وہ قبول نہیں کرتا۔ انسان کو اس نے مادی ارتقا کے بجائے اس کے تخلیقی ارتقا کے آئینے میں دیکھا تھا۔ چنانچہ عقل کی رعونت پر اس نے ہمیشہ شک کی نظر ڈالی، جس پر صنعتی ترقیوں کے نتیجے میں مشینی اور سائنسی کلچر کا نشہ طاری تھا۔ برگساں شعور کی عمیق تر سطحوں (تحت الشعور) کی زرخیزی کا عارف ہی نہیں، ان کا شارح بھی تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ زندگی صرف منطقی فکر کی تدریجی تعمیر کا اظہار نہیں بلکہ روح اور وجدان کے حوالوں سے جلوہ نما ہوتی ہے۔
برگساں سے ولیم جیمس کی عقیدت کا سبب اس کی فکر کے اسی پہلو میں مضمر ہے (ولیم جیمس نے داخلیت ہی کو اصل شعور کہا تھا) تاہم اقبال اور برگساں کے اس فرق کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ برگساں وجدان کی قوتوں کے مقابلے میں عقل پر ہمیشہ تمسخر کی نظر ڈالتا ہے، جبکہ اقبال عقل اور عشق دونوں کی اہمیت کے معترف ہیں اور دل کے ساتھ پاسبان عقل کی رفاقت کو مستحسن جانتے ہیں، اگرچہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عقل حقیقت اولی کے قریب پہنچ کر رک جاتی ہے اور اس سے متصل نہیں ہونے پاتی (عقل گو آستاں سے دور نہیں۔ اس کی تقدیر میں حضورنہیں۔) برگساں وقت کو دوران اور دوران ہی کو زمان حقیقی سمجھتا ہے۔ اقبال بھی صدائے کن فیکون کو دائم مرتعش محسوس کرتے ہیں۔
برگساں وجود کی فضیلت اور خودمختاری یا ارادے کی آزادی کا نقیب ہے۔ اقبال بھی تقدیر سے پہلے انسانی رضا پرمشیت کو مائل دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس فرق کے ساتھ کہ برگساں ارادے اور اختیار کوجبلت کے نیک لڑکے سے تعبیر کرتا ہے اور اقبال اسے روح اور عقل کے ارفع تر مقاصد کے تابع سمجھتے ہیں، جبکہ برگساں عقل کو شریر کہہ کر اس کی لغزشوں سے مکمل احتیاط ضروری قرار دیتا ہے۔ برگساں نے لکھا تھا کہ ’’میں مختلف احوال سے گزرتا ہوں۔ گرمی اور سردی کا مزہ چکھتا ہوں۔ گاہ خوش و خرم ہوتا ہوں، گاہے رنجور۔ کبھی کام میں مصروف ہوتا ہوں، کبھی بے کاری سے دل بہلاتا ہوں۔ تاثرات حسی اور احساسات، ارادہ اور تصورات، یہ ہیں وہ تغیرات جن میں میرا وجود منقسم ہوتا ہے اور جو اسے اپنے رنگ دیتے ہیں۔ اس طرح میں مسلسل تغیرات کا نشانہ بنتا رہتا ہوں۔‘‘
اقبال بھی کاروان وجود کو ہمیشہ متحرک اور سکون و ثبات کو صرف فریب نظر کہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انسان ہر لمحہ اپنی تخلیق کرتا رہتا ہے اور اس طرح وہ مادی دنیا کے جبر کا پابند نہیں ہے۔ اس تخلیقی اختیار کی توجیہ صرف عقل کی تابع اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ عقل سماجی فیصلوں کے جبر کو کسی نہ کی شکل میں تسلیم کر لیتی ہے۔ اقبال اسی لئے اس جہاں میں زندہ رہنے کی حمایت کرتے ہیں، جس میں فردا و دوش کا تفرقہ نہیں اور جو اپنی روح یا باطن میں زندہ رہنے کے مترادف ہے (کھونہ جااس سحر و شام میں اے صاحب ہوش، اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے اور نہ دوش)
باطنی زندگی میکانکی قوانین کو تسلیم نہیں کرتی اور ان اعمال پر انحصار کرتی ہے جو آزاد و خودمختار ہوتے ہیں لیکن نابینا نہیں ہوتے اور خیروشر میں تفریق کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ برگساں نے جوش حیات (Elan Vital) کو فطرت کے اسرار کی وضاحت کاسلیقہ سمجھا تھا۔ اقبال عشق کو قوت حیات بناکر اسے ایک معینہ نقطے پر مرتکز کر دیتے ہیں۔ اس مقام پر ان کا راستہ برگساں سے الگ ہو جاتا ہے۔ یہاں اقبال کی شاعری کے پورے فکری پس منظر کو سمیٹنا مقصود نہیں ہے، نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اقبال کی فکر کے تمام مآخذ پر نظر ڈالی جائے۔
یہ تو اقبال کے نظام افکار کے صرف ان گوشوں کی طرف چند اشارے ہیں جن کا تعلق نئے انسان کے ذہنی اور جذباتی منظرنامے سے ہے۔ ان کے واسطے یہ کہا جا سکتا ہے کہ نئی حسیت کے عناصر اور اقبال کی حسیت میں مماثلتوں کے کئی پہلو بھی نکلتے ہیں۔ اسی طرح وجودیت کو ’’آج کے فلسفے‘‘ کی حثییت حاصل ہے، خواہ تحلیلی فلسفے کے معیار پر اسے ایک باقاعدہ اور منظم مکتب فکر کی حیثیت نہ دی جائے۔ تخلیقی فکر سے وجودیت کی ہم آہنگی، اسے بہرنوع نئی حسیت کے ادبی اور فکری میلانات سے مربوط کر دیتی ہے۔ یہاں اس بات سے بھی بحث نہیں کہ اقبال نے وجودی مفکروں کا بالاستیعاب مطالعہ کیا تھا یا نہیں۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ اقبال کی فکر میں ارادی یا غیر ارادی سطح پر وجودی فکر کے ان عناصر کی بازگشت ضرور سنائی دیتی ہے جن سے نئی حسیت اور جدیدیت کا فکری خاکہ بھرا ہوا ہے۔
نطشے، کرکے گار، یاس پرس، ہائیڈیگر، مارسل، بوبر، سارتر اور کامیو کے افکار کی روشنی میں ہم اقبال کے تخلیقی سرمائے کو دیکھتے ہیں تو قدم قدم پر ہمیں اقبال کی انفرادی خصوصیتوں کے باوجود اقبال میں اور ان مفکروں میں مماثلت کے نشان ملتے ہیں۔ لیکن ا س سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہوگا کہ اقبال بھی انہی کی طرح کے وجودی مفکر تھے یایہ کہ وجود کے مسائل پر انہوں نے من وعن وہی باتیں کہی ہیں جو وجودی مفکر کہتے آئے ہیں۔ فی الحقیقت یہ روح عصر کی کارفرمائی ہے جو وجودی مفکروں کے یہاں سوچنے کا ایک مخصوص میلان بن جاتی ہے اور اقبال کے یہاں ایک تخلیقی لہر۔
مثال کے طور پر ہائیڈیگر کا خیال تھا کہ انسان کائنات ارضی میں پھینک دیا گیا ہے، گرچہ اس کا پھینکنے والا کوئی نہیں اور اپنے جوہر کا تعین بھی وہ اپنی مرضی کے مطابق کرتا ہے۔ سارتر بھی اس حقیقت کا قائل تھا کہ انسان اپنی تعریف کا تعین بعد میں کرتا ہے۔ اقبال انسان کو ایک معینہ مقصد سے مشروط کرتے ہیں مگر یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’انسان زمانے کی حرکت کا خط ابھی کھینچ رہا ہے۔‘‘ جس سے مراد اس کے مخفی امکانات اور قوتیں ہیں۔ اس طرح ’’موجود‘‘، ’’وجود پذیر‘‘ بھی ہے اور کرکے گار کی اصطلاح میں ’’امکان‘‘ سے واقعیت کی طرف رواں۔ یہ امکانات ہی اسے لزوم یعنی پابندیوں سے آزاد کرتے ہیں۔ وہ جوہر (کی جبریت) کے خول سے باہر نکلتا ہے اور اپنے وجود کی بے کرانی کا اظہار کرتا ہے۔
’’امکان کی خاموش قوت‘‘ انسان کو برابر ممکنات کی طرف بلاتی رہتی ہے۔ اس قوت کا مخرج انسان کا وجود ہے۔ اس کا اظہار جوہر کا تعین ہے۔ یہ قوت اتنی لامحدود ہے کہ ستاروں سے آگے بھی کئی نادیدہ جہانوں کی سیر کا تقاضا انسان سے کرتی رہےگی اور بہ قول اقبال ’’اس کے عشق کا امتحان جار ی رہےگا۔‘‘ وجودی مفکر اس نتیجے تک اپنے ذاتی عقائد یا شخصی اور سماجی تجربوں کی وساطت سے پہنچے تھے۔ اقبال کے لئے اس بصیرت کا مخزن کلام الہی ہے۔ کہتے ہیں،
’’ہمارے نزدیک قرآن مجید کے مطمح نظر سے کائنات کا کوئی تصور اتنا بعید نہیں تھا جتنایہ کہ وہ کسی پہلے سے سوچے سمجھے ہوئے منصوبے کی زمانی نقل ہے۔۔۔ قرآن مجید کی روح سے کائنات میں اضافہ ممکن ہے۔ گویا وہ اضافہ پذیر کائنات ہے۔ کوئی بنا بنایا موضوع نہیں جس کو اس کے صانع نے مدت ہوئی تیار کیا تھا، مگر جواب مادے کے ڈھیر کی طرح مکان مطلق میں پڑا ہے، جس میں زمانے کا کوئی دخل نہیں۔ اس لئے اس کا عدم و وجود برابر ہے۔‘‘
یہاں اقبال، برگساں کے جبلی اختیار کے بجائے یاس پرس کے اس خیال سے زیادہ قریب دکھائی دیتے ہیں کہ انسان اتمام یافتہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسی ہستی ہے جو اپنی انا کی خودصورت گر ہے۔ اس انا کا عمل ایک نیا موقف پیدا کر دیتا ہے اور اپنی ندرت سے سنگ خارا کو لعل ناب نیز زندگی کو معجزہ کار بناتا ہے۔ (ندرت فکر و عمل سے معجزات زندگی، ندرت فکرو عمل سے سنگ خارالعل ناب) سارتر کے نزدیک بھی کائنات میں انسان کی فضیلت کا سبب اس کے اعمال اور مقاصد ہیں۔ زندگی صرف ہونا نہیں بلکہ خود کو بنانا ہے۔ ہائیڈیگر بھی اس معاملے میں سارتر کا ہم خیال ہے کہ انسان اگر وجود کے امکانات سے کام نہیں لیتا اور اپنی قوتوں کو مہمیز نہیں کرتا تو اس کی روح پتھر بن جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اس کا وجود، وجود نہیں بلکہ وجود کا فریب ہوتا ہے، حس و خبر سے عاری اور ارادہ و اختیار سے یکسر بے نیاز۔
اقبال نے بھی اپنی شاعری میں جابجا اس حقیقت پر زور دیا ہے کہ مٹی کے ایک انبار کی صورت، جب تک انسان ارادہ وعمل کی قوت سے محروم رہتا ہے، اس کی ہستی خام ہوتی ہے اور شوق کی حرارت میں تپنے اور پختہ ہونے کے بعدہی وہ شمشیر بے زنہار بنتا ہے۔ زندگی ذوق پرواز کا نام ہے اور پرواز اسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنی حالت سے غیر مطمئن ہوا ور اس کی نگاہ نئے جہانوں کی متلاشی ہو۔ مجموعی طور پر اقبال کی فکر اس اعتبار سے وجودیت کے بنیادی موقف کی حامی ہے کہ وہ بھی وجود کو ہر شئے پر مقدم سمجھتے ہیں۔ البتہ اپنی انسان دوستی، اپنی مذہبیت اور اجتماعی صورتحال سے اپنی گہری وابستگی کے سبب اقبال وجودیت کے ان ہی میلانات سے طبعاً قریب دکھائی دیتے ہیں جن کی بنیادیں سماجی اور دینی ہیں۔
مغرب کے صنعتی معاشرے اورمشینوں کی حکومت سے بیزاری کے اظہار میں بھی اقبال کی فکر کے ڈانڈے وجودی مفکروں سے مل جاتے ہیں۔ وجودیت ایک فلسفیانہ میلان کے طور پر صنعتی تہذیب کے انتشار اور تضادات کے نتیجے میں سامنے آئی۔ وہ علم جس نے اس معاشرے اور نظام کی بنیاد ڈالی، اقبال کے خیال میں بھی ناقص اور توازن سے عاری ہے۔ اس علم نے شعور کو تعقل کی دولت عطا کی تو انسان سے اس کی بصیرت چھین بھی لی۔ وہ انسانی سوز اور دوسروں سے سروکار کا وہ جذبہ جو کسی بھی معاشرتی تنظیم کے تحفظ کا ذریعہ بنتا ہے، اس کے بغیر ہماری ہستی ادھوری رہ جاتی ہے اور معاشرہ غیر متناسب۔
اقبال کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ بہت سے جدید افکار کو اساس فراہم کرنے والی عقلیت نے انسان کو اتنا مغرور کر دیاکہ زندگی کے بنیادی مطالبات سے بے اعتنائی، اس کا شعار بن گئی اور وہ یہ سمجھتا رہا کہ زندگی کی طرف اس نے اپنے تمام فرائض انجام دے دیے ہیں۔ اقبال نے مشینوں کے دھویں میں سیاہ پوش تہذیب کو انسانیت کے کفن سے تعبیر کیا اور صنعتی انقلاب کے ساتھ ساتھ ایک اخلاقی اور روحانی انقلاب کے بھی نقیب بن گئے۔ اہم بات یہ ہے کہ سائنسی تہذیب پر اقبال کی تنقید کسی سری یا ما بعدالطبیعاتی زاویہ نظر کے بجائے فی الواقع ایک نئی حقیقت پسندی کی مرہون منت بھی ہے۔ انہو ں نے مغرب سے روشنی حاصل کرنے کے بعد ہی مغربیت کو اپنا ہدف بنایا اور اس نتیجے تک پہنچے کہ سائنسی تہذیب کے ترقی یافتہ انسان نے ستاروں کی گزرگاہیں تو دیکھ لیں، لیکن اپنے افکار کی دنیا سے بےخبر رہا۔ حکمت کے خم وپیچ میں وہ اس قدرالجھ گیا کہ نفع و ضرر کے فیصلے کی صلاحیت اس میں باقی نہ رہی۔ سورج کی شعاعوں کو اس نے اسیر تو کیا لیکن زندگی کی شب تاریک اس کی قوتوں سے سحر نہ ہو سکی۔
اس کا دماغ روشن ہے لیکن دل تیرہ رنگ۔ وہ ظاہر میں آزاد ہے لیکن باطن میں گرفتار۔ اس کی جمہوریت دیو استبداد کی قبا ہے اور تجارت جوا۔ یہی وہ اسباب ہیں جن کی بنا پر یہ تہذیب جواں مرگی کے المیے سے دوچار ہے اور اس المناک حقیقت کی مظہر کہ وجود اور اس کے گردوپیش کی دنیا کے مسائل صرف مادی وسائل کی فراوانی سے حل نہیں کئے جا سکتے۔ نئی حسیت میں شامل وجودی تصورات سے اقبال کے اختلافات کاسلسلہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ اقبال کی مقصدیت یا زندگی کی غایتیت کے تصور نے اقبال کو سماجی اور سیاسی اور تہذیبی بحران کی طرف تو متوجہ کیا لیکن شخصی اور انفرادی بحران کے تجربے سے وہ لا تعلق رہے۔
یہ اقبال کی اپنی دینی روایت کا جبر ہے، عشق یا عرفان ذات کی انتہائی منزل انہیں امام حسینؓ کی قربانی میں دکھائی دی۔ اسماعیل علیہ السلام جس عشق کی ابتدا تھے حسینؓ اس کی نہایت تھے۔ کامیو نے مسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے کو معصومیت کے قتل سے تعبیر کرتے ہوئے کہا تھا کہ عیسائیت کا جو ہر نا انصافی کے نظریے پر مبنی ہے کیونکہ عیسائی جب ان کی قربانی کو ضروری قرار دیتے ہیں تو اس نکتے کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ ایک معصوم انسان کو غلط اسباب کی بنا پر قتل نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔ اس اعتبار سے امام حسینؓ کی شہادت بھی اصلاً ان کے ماحول کے بحران سے مربوط ہو جاتی ہے جہاں وسیع تر مقاصد کی حفاظت کے لئے وہ اپنی ذات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں یا ذات اور غیر ذات کے درمیانی خط کو مٹا دیتے ہیں۔ سماجی وجودیت اور دینی وجودیت دونوں کی حدیں اس زاویہ نظر سے ایک معینہ بیرونی نقطے پر ختم ہو جاتی ہیں اوریہ معماحل ہونے سے رہ جاتاہے کہ اگرسماجی اور مذہبی قدروں کا بحران ذاتی بحران کا حصہ نہ بن سکے تو اس وقت اس کا حل کیا ہوگا؟ اور اگر ذات اس بحران سے کلیۃً ہم آہنگ ہو جاتی ہے اور اسے شخصی تجربہ بنا لیتی ہے، یا دوسرے لفظوں میں محدود دانا لامحدود انا بن جاتی ہے تو اس کی انفرادیت کے معنی کا تعین کیوں کر ہوگا؟
جو لوگ وجودیت کا، مختلف نظریوں کی جہت اور ان کے درمیان امتیازات کو نظرانداز کرکے نئی حسیت کا بنیادی فلسفہ وجودیت میں ڈھونڈتے ہیں، ان کی الجھن کا اصل سبب یہی ہے کہ وہ ایک ساتھ تمام وجودی مفکروں کے نظریات کا اطلاق نئے میلانات پر کرتے ہیں۔ چنانچہ جدیدیت کی بنیادی حقیقتیں افکار کی اس بوقلمونی میں گم ہو جاتی ہیں۔ جدیدیت وجودیت کے فلسفیانہ تصورات کو کلی طور پر تسلیم نہیں کرتی، چنانچہ اقبال کی وجودی فکر سے بھی اس کی کلیت کے ساتھ جدیدیت کا تعلق اس امر کے پیش نظر قائم کرنا غلط ہوگا کہ اقبال نے انسانی وجود کی فضیلت کے لئے اظہار وعمل کا جو خاکہ ترتیب دیا ہے، وہ اپنی رنگ آمیزی کی خاطر ایک فوق البشر کی توانائیوں کا طالب ہے۔
جدیدیت بشریت کے حدود کو سمجھتی ہے، اس لئے اس کے پاس کسی فوق البشر کا تصورنہیں۔ آدرش پرستی کے رجحان سے فکری بعد جدیدیت کو ترقی پسندی کے ردعمل کی شکل بھی دیتا ہے اور روایت سے اس کے انحراف کو وسیع تر منطقوں تک بھی لے جاتاہے۔ ہمیں یہاں یہ امر ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اقبال ایک شاعر ہی نہیں ایک مصلح، معمار قوم اور فلسفی بھی تھے اور ان کے احساسات کی اپنی منطق بھی تھی۔ مزید برآں یہ کہ انسانی صورت حال سے وابستہ مسئلے ان کے لئے صرف ذہنی مسئلے نہیں تھے۔ وہ اس صورت حال کو محض اپنی خاطر ہی نہیں، دوسروں کی خاطر بھی تبدیل کرنا چاہتے تھے اور اپنے عقائد، ایقانات اور اپنی جذباتی ترجیحات کے مطابق انہوں نے بہتر دنیا کی ایک امکانی تصویر پر بھی چھپا رکھی تھی۔
لیکن اقبال ایک ترقی یافتہ فنی بصیرت سے بہرہ ور ہونے کے باوجود فن کے جس تصور کو مستحسن سمجھتے تھے، اس کی سطح انیسویں صدی کی اصلاحی شاعری اور بیسویں صدی کی ترقی پسند شاعری سے بلند تر نہیں ہے۔ شاعری کا مقصد وہ اپنی قوم تک ’’مفید مطلب خیالات پہنچانا‘‘ اور ایک جدید معاشرے کی تعمیر میں مدد دینا، تصور کرتے تھے اور جس تصور کے تحت خود کو ’’شاعر محض‘‘ سمجھے جانے کے خلاف تھے۔
اسی طرح اپنے لسانی موقف کی تائید کے لئے اقبال نے لسانی ارتقا کے فطری قانون سے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ نئی شاعری جس طرح لسانی پیرائے کی تشکیل میں مصروف ہے، اس کا مقصد نئے ذہنی عمل اور اسلوب سے مطابقت پیدا کرنا ہے۔ اس مطابقت کے لئے ضروری ہے کہ زبان کے ڈھانچے کو لوچ دار اور وسیع کیا جائے۔
اقبال کے افکار اور فنی تصورات پر اس بحث کا ماحصل یہ ہے کہ بیسویں صدی کی اردو شاعری کے پس منظر میں ان کی آواز ہر چند کہ جذبہ وخیال کے نئے جہانوں کو دریافت کرنا چاہتی تھی اور لسانی مذاق و معیار کے مروجہ حدود کو بھی انہوں نے بساط بھر عبور کرنے کی کوشش کی مگر فن کی مقصدیت کا واضح شعور اور کائنات ارضی کو ہم دوش ثریا بنانے کی غرض سے ایک مثالی وجود کا تصور نئی حسیت کے بعض بنیادی عناصر سے انہیں محروم کر دیتا ہے۔ اقبال ایک ارض خواب (یوٹپیا) کے جویا تھے۔ جدیدیت خوابوں کے انتشار اور بےچارگی کا مرقع ہے۔ اقبال آدم کی عظمت کے نغمہ خواں ہیں۔ جدیدیت زوال آدم کی کہانی۔ اقبال خودی اور خودشناسی کے جوہر کی پرورش کرکے فرد کو معاشرتی کل سے ایک بے جان مادے کی طرح چمٹے رہنے کے بجائے اس کی تسخیر کا درس دیتے ہیں۔ جدیدیت کا ارتکاز بھی فرد ہے لیکن وہ فرد کی ہزیمتوں اور پسپائی کے مظاہر میں بھی اس کے وجود کی حقیقت کا سراغ لگاتی ہے۔
اقبال نے داخلی تحرک کی اہمیت جتا کر غیرمادی سطحوں پر گزاری جانے والی زندگی اوراس کے تجربوں کی معنویت پر زور دیا لیکن اونچے آدرشوں اور بے نہایت مقاصد کے بلند بام سے نیچے نہیں اترے۔ جدیدیت اور آدرشوں کے فریب اور اعلی مقاصد کی بےحرمتی کے سبب تڑی مڑی شخصیتوں اور مجروح حقیقتوں کی سطح اور اس میں مخفی المیوں سے صرف نظر کرکے کسی بلندی کو صدا دینے پر مائل نہیں ہوتی۔ اقبال آنکھوں میں آتش رفتہ کی چمک لئے کھوئے ہوئے جہانوں کی جستجو میں منہمک تھے۔ جدیدیت حرارتوں سے عاری اور بےنور نگاہوں کی تلاش ذات کا منظر نامہ بھی ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر، اقبال کی شاعری میں نئے انسان اور عہد کے مسائل کی آگہی اور نئی شعریات کے اصولوں سے مطابقت کے چند نشانات کے باوجود، اقبال کی شاعری اور فکر نئی حسیت اور نئی شاعری سے مختلف مراکز اور منزلوں کی جستجو بھی کرتی ہے۔