انتظار

ایک ناکام سی امید لئے
روز کرتا ہوں انتظار ترا
اور اک لفظ ناامیدی کا
تھام لیتا ہے آ کے ہاتھ مرا
اور کہتا ہے مجھ سے چپکے سے
اب نہ آئے گا کوئی کس کے لئے
کیوں سجائے ہوئے ہے یہ محفل