انتظار باقی ہے
کانپتی ہیں ہونٹوں پر
کتنی ان کہی باتیں
گونجتے ہیں کانوں میں
کتنے ان سنے نغمے
جھانکتے ہیں پلکوں سے
انگلیوں کے پوروں تک
خواب کتنے ان دیکھے
لمس ان چھوئے کتنے
نام ہے طلب جس کا
مستقل حرارت ہے
حسرت و تمنا کے
آنسوؤں سے نم لیکن
ان بجھے شراروں کی
دائمی مسافت ہے
بے بس آرزوؤں سے
درد کی رسائی تک
قید سے رہائی تک
دھڑکنوں کی سرحد کے
اس طرف بھی امکاں ہے
جان و تن سے باہر بھی
زندگی فروزاں ہے
آنکھ جم بھی جائے تو
سانس تھم بھی جائے تو
دل کے تہہ نشیں جذبے
روح میں پنپتے ہیں
عمر صرف مہلت ہے
عشق لمحۂ دائم
اعتبار باقی ہے
میرا غم سلامت ہے
تیرا حسن ہے قائم
انتظار باقی ہے