انٹرویو (۱)

(یہ انٹرویو مشاہیر ادب سے ادبی مسائل پر فکرانگیز مکالمات پر مشتمل مظہر جمیل صاحب کی کتاب ’’گفتگو‘‘ سے حاصل کیا گیا ہے۔ سبط حسن صاحب سے انٹرویو کرنے والے پینل میں’’گفتگو‘‘ کے مؤلف کے علاوہ مسلم شمیم اور شاہد نقوی صاحبان بھی شامل تھے۔)مظہر جمیل  سبط صاحب! آپ ابتدا ہی سے ترقی پسند ادبی تحریک سے منسلک رہے ہیں بلکہ اگریہ کہا جائے کہ آپ کا شمار تحریک کے ہر اول دستے میں ہوتا ہے تو بھی بے جا نہ ہوگا۔ آپ اس وقت کے معروضی حالات اور ذہنی رویوں سے بھی بخوبی آگاہ ہیں اوراس تحریک کے پیش روؤں سے بھی آپ کے بہت ذاتی مراسم رہے ہیں۔ تو آٖپ یہ فرمائیے کہ ادب کی یہ عظیم تحریک جس کا آغاز ۱۹۳۶ء میں ہوا تھا اورجس نے ہندوستان کی پوری فکری فضااور تہذیبی رویے کونہ تو صرف متاثر کیا تھا بلکہ ہندوستان کی تقریباً ساری زبانوں کے ادب کی صورتحال کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ کیا محض چند خوش فکر، تعلیم یافتہ مغرب پسند جوشیلے نوجوانوں کی اختراع تھی یا اس کا کوئی تعلق ہماری فکری و تہذیبی روایت سے بھی رہا ہے؟ سبط حسن  یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ ترقی پسند تحریک نہ توکسی حادثہ کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی تھی اور نہ کسی فرد یا چند افراد کی خوش فکری کا نتیجہ تھی۔ بلکہ اگرآپ اپنی پوری تہذیبی اور فکری تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہمارے ہاں شروع ہی سے دو فکری دھارے کار فرما رہے ہیں۔ خاص طور پر ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد ہی کے وقت سے آپ کو دو فکری رویے نظر آئیں گے۔ ان میں ایک گروہ کا اصرار ہندوستان میں فقہی مسائل پر رہا ہے اور جو حکمرانوں سے اس بات کا مطالبہ کرتے تھے کہ ریاست کے کاروبار میں اسلامی عقائد اور شرعی پابندیوں کو سختی سے نافذ کیا جائے۔ اس گروہ کے رویے میں کٹرپن کا عمل دخل تھا۔ جبکہ دوسر طرف صاحبان طریقت کا گروہ تھا یعنی صوفیائے کرام کا جن کا رویہ مذہبی فرقہ بندی سے بلندانسان دوستی اور صلح کل کا تھا۔ ایک طرف اپنے عقائد کو بلکہ اقلیت کے عقائد کو اکثریت پر شدت پسندی کے ساتھ نافذ کرنے کی خواہش تھی تو دوسری طرف تنگ نظر فرقہ واریت سے بلند ہوکر لوگوں کے ساتھ رواداری، پیار اور محبت سے سلوک کرنے کا انداز فکر تھا۔ اب آپ خود ہی دیکھ لیجئے کہ ہندوستان میں یہ صوفیائے کرام ہی تھے جنہوں نے انسان دوستی، پیار، رواداری اور اخلاص کے ذریعے کس قدر تبلیغ کا کام کیا ہے۔ اس گروہ کے مقابلے میں جو منافرت اور تفرقہ پسندی کے ذریعے اپنے عقائد کو دوسروں پر تھوپنا چاہتے تھے۔ مظہر جمیل  گویا دوسرا گروہ روشن خیال معاشرے کی تشکیل کا نقیب تھا؟ سبط حسن جی ہاں، اور آپ تاریخ سے واقف ہیں کہ جب سلطان بلبن شاہ ہوا تو مولوی صاحبان پہنچ گئے اور مطالبہ کیا کہ اب ہندوستان میں اسلام کا غلبہ ہوچکا ہے لہذا کافروں کا قتل واجب ہے۔ اس پربلبن نے جواب دیا کہ بھائی میرے پاس تو اتنی تلواریں بھی نہیں ہیں جو یہاں کے اکثریتی عوام کو قتل کرنے کے لئے کافی ہوسکیں اور اس نے سختی کے ساتھ اس غیر اخلاقی اور عاقبت نااندیشانہ مطالبے کو مسترد کر دیا۔ یہ ہی صورت حال دوسرے مسلمان حکمرانوں کی رہی ہے۔ ان میں بھی آپ کو دو قسم کے لوگ ملیں گے۔ کچھ حکمران تو وہ تھے جو اس راز کو پا گئے تھے کہ اس ملک میں جہاں مسلمان آٹے میں نمک سے بھی کم ہیں، اگر فراخدلی اور رواداری نہ برتی گئی اور شدت پسند مذہبی عصبیت سے کام لیا گیا تو وہ ایک دن حکومت نہیں کر سکتے۔  جس طرح بابر نے، جب وہ مرنے لگا تو ہمایوں کو نصیحت کی تھی کہ دیکھو اب یہ تمہارا ملک ہے اور اب تمہیں یہیں رہنا ہے اور یہاں کی اکثریت تمہارے مذہبی عقائد اور تمدن سے اختلاف رکھتی ہے۔ اس لئے انہیں خوش دلی، رواداری، محبت اور پیار ہی سے رام کرنا ہوگا۔ ان کے مذہبی جذبات، عقائد اور رسم و رواج کا پاس کرنا ہوگا۔ یہ توایک روایت رہی ہے مسلم حکمرانوں کے درمیان۔ اب آپ دیکھئے جن حکمرانوں نے ان اصولوں کو اپنایا، ان کے عہد حکومت میں کامیابی و کامرانی کی جھلک نطر آتی ہے اور جو لوگ مذہبی تشدد پسندی اور عصبیت کا شکار رہے ہیں، ان کے عہد حکومت انتشار اور ناکامی سے دو چار ملتے ہیں جیسے فیروز شاہ تغلق یا اورنگ زیب عالمگیر کے عہدحکومت، ان کے برعکس اکبر، شاہجہاں، جہانگیر، شیرشاہ سوری، شرقی سلاطین جونپور وغیرہ ان کے عہد حکمرانی میں آپ کو ایک روشن خیال معاشرے کی جھلک ملتی ہے، جس میں رودارای ہے، بھائی چارہ ہے۔ ایک دوسرے کے عقائد، خیالات کی پاسداری اور رسم و رواج، فکر و فلسفہ کو سمجھنے سمجھانے کی شعوری کوشش ہے۔ اورعام لوگوں کے لئے نسبتاً زیادہ فکری آسودگی نظر آتی ہے۔ فرقہ پرستی اور تنگ نظری کے مقابلےمیں۔ اصل میں یہ ہی وہ دور ہے جب ہندوستانی تہذیب اور مسلمانو ں کی لائی ہوئی تہذیب کے اختلاط سے ایک نئی تہذیبی فضا بنتی ہے اور یہی ہماری تہذیبی روایت کی بنیاد ہے۔ اسی طرح شاعری پر نظر ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ ہماری شعری روایت کی فکری بنیاد بھی وحدت الوجود ہی کے نظریے پر استوار رہی ہے۔ یعنی یہ خیال کہ ساری کائنات ایک وحدت ہے اور اس کے ذرے ذرے میں خدا کا نورجلوہ گر ہے اور اسی طرح پوری کائنات عالمگیر انسانی معاشرے کی میراث بن جاتی ہے جس میں کسی قسم کی نہ تو کوئی تفرقہ پرستی ہے اورنہ عصبی گروہ سازی، جہاں انسان انسان سے محبت کر کے ہی اپنے مقصد حیات کو پا سکتا ہے۔ صوفیا کرام کا یہ ہی فلسفہ ہمارے شعری رویے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ آپ پوری اردو شاعری سے شاید ہی کوئی ایسی مثال تلاش کرسکیں گے جس میں انسان کو انسان سے مذہبی عقائد یا فرقہ واریت کے سبب نفرت کرنا سکھایا گیا ہو بلکہ ہر جگہ محبت، خلوص، رواداری اور احسان ہی کے جذبات موجزن پائیں گے۔ نفرت، تحقیر، استہز اور تضحیک ملتی ہے تو کن کے لئے! ملا کے لئے، محتسب کے لئے، زاہد کے لئے، قاضی کے لئے، مفتی کے لئے۔ یعنی ان تمام عناصر کے ساتھ جو شدت پسندعصبیت کے نمائندہ اداروں کی حیثیت رکھتے تھے۔ یہی روایت فارسی شاعری کی بھی تھی۔ آپ کو کوئی ایک شعر بھی ایسا نہیں ملے گا جس میں ظلم کی، تشدد کی، ناانصافی کی حمایت کی گئی ہو۔ تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے چھے سو سالہ فکری و تہذیبی نظام میں روشن خیالی اور رواداری کی بڑی شاندار روایت ملتی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ کسی زمانے میں یہ روایت طاقتور بن کر ابھری ہے تو کبھی تنگ نظروں اور ظلم پرستوں کے ہاتھوں کمزور ہوئی ہے جس کی سیاسی وجوہ ہیں۔ لیکن عوام دوستی اور عوام دشمنی کے درمیان ایک کشمکش اور آویزش شروع ہی سے جاری ہے جسے آپ BATTLE OF IDEAS یعنی فکری آویزش کہتے ہیں جو ہر طبقاتی معاشرے میں لازمی طور پر جاری رہتی ہے۔ ایک طرف وہ خیالات اور فکری ادارے ہوتے ہیں جو صاحبان اقتدار کی پشت پناہی اور نمائندگی کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ خیالات اور فکری ادارے ہوں گے جو مظلوموں کے درمیان سے اٹھتے ہیں اوران کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آپ دیکھئے صوفیائے کرام میں کیسے نامی گرامی بزرگ گزرے ہیں۔ جیسے پنجاب میں داتاگنج ہجویری، بابا فرید شکر گنج، دلی میں نظام الدین اولیا، امیرخسرو، کبیر، دکن میں خواجہ گیسودراز، سندھ میں شاہ عنایت، شاہ لطیف وغیرہ جن میں سے اکثر صاحب علم اورصاحب قلم بھی تھے۔ ان سب کے یہاں پیار اور محبت، رواداری اور انسان دوستی کے سوا اور کیا تھا کہ لوگ بلا لحاظ مذہب اور فرقہ ان کے حلقہ ارادت میں کھنچے چلے آتے تھے۔ مظہر جمیل آپ کی اس گفتگو سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فکری سطح پر تصادم کی کیفیت چھ سو سالہ تاریخ میں جاری و ساری رہی ہے۔ ایک طرف وہ ادارے تھے جو حکمران وقت کے ادارے تھے یعنی Clergy ملائیت، قاضی اور محتسب وغیرہ کے ادارے جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں اور دوسری طرف ان ظلم پرست اداروں کے ردعمل کے طور پر صوفیا کرام، درویشوں اوربھگتوں کی صورت میں عوام دوست ادارے رواداری، محبت، اخلاص، پیار، وسیع المشربی، فکری آزادی اور انسان دوستی کے تبلیغ اور اشاعت میں مصروف تھے اور دانشور طبقہ عمومی طور پر اس فکری دھارے کے ساتھ آیا ہے جو صوفیوں اور بھگتوں سے قریب تر تھے۔ چنانچہ ہماری اردو شاعری شروع ہی سے روشن خیالی کی فکری نہج سے گہرے طور پر منسلک رہی ہے۔ یہاں تک تو بات صاف سمجھ میں آ رہی ہے لیکن گزشتہ ڈیڑھ سوسال کے دوران ہمیں اپنی تہذیبی فضا میں اچانک ایک نہایت تیز رفتار تبدیلی احساس ہوتا ہے اور خصوصا ًانگریزوں اور دوسری مغربی اقوام کے آجانے کے بعد ہمار ے تہذیبی و فکری ڈھانچے میں زبردست ٹوٹ پھوٹ ہوتی معلوم پڑتی ہے جس کے اثرات ظاہر ہے، شاعری پر بھی پڑتے ہیں۔ اس تبدیلی کا پہلا نمائندہ بڑا شاعر غالب کی صورت میں سامنے آتا ہے، توآپ اس تبدیلی کو کس طرح دیکھتے ہیں اور کیا آپ اسے بھی اپنی فکری روایت سے ہم آہنگ اور مربوط سمجھتے ہیں؟ سبط حسن  ہاں بھئی اس سلسلے میں کچھ عرض کرنے سے قبل میں اپنے ایک دوست کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ ہمارے ایک دوست ہیں پروفیسر حمزہ علوی صاحب، مانچسٹر میں ایک مدت سے سوشیالوجی پڑھاتے ہیں۔ تاریخ کے بہت اچھے استاد ہیں۔ اس موضوع پران سے گزشتہ دنوں بڑے تفصیلی مباحثے رہے۔ در اصل وہ میرے اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے کہ ہندوستان میں جو نئی فکری تبدیلیاں آئی ہیں وہ در اصل مغرب سے آئی ہیں اور یہ تبدیلی صرف ہمارے ہاں نہیں بلکہ پورے مشرق میں آئی ہے۔ کہیں اس تبدیلی کی رفتار تیز رہی ہے اور کہیں سست لیکن یہ تبدیلی آئی مغرب ہی کے زیر اثر ہے۔ ترکی، ایران، عراق، مصر وغیرہ کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ ان سب ملکوں میں آپ کو اٹھارہویں صدی کے آخر میں فکری فضا تبدیل ہوتی ہوئی نظر آئے گی اور روایتی تصور فکر کی جگہ نئے خیالات جنم لیتے ملیں گے۔ ترکی میں ابراہیم شناسی، نامق کمال، مصر میں تہوی، محمدعبدہ اور رشید رضا جیسے دانشوروں کے ہاں ایک فکری ہیجان ملتا ہے۔ جو در اصل مغربی امپریلزم (Imperialism) کے رد عمل کے طور پر پیدا ہوا تھا اور نتیجے میں ایک فکری رویہ سامنے آیا تھا کہ اسلام اور مغربی افکار و تہذیب میں کوئی متوازن مفاہمت قائم ہونی چاہئے اور مغربی معاشرے کے جمہوری، سائنسی، تحقیقی اور سماجی اداروں کے رشتے مسلم فکر کے دھاروں سے جوڑنا چاہئے۔ اس زمانے میں زور اس بات پر دیا جا رہا تھا کہ بنیادی طور پر مسلمانوں کے علوم اور تہذیب کا مغربی فکر و فلسفہ اور بود و باش سے کوئی بنیادی تصادم نہیں ہے۔ انیسویں صدی میں یہ ایک عمومی رویہ تھا مسلم مفکروں، دانشوروں اور پڑھے لکھے لوگوں کا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال بعد میں ہندوستان میں بھی پیدا ہوئی کلکتہ، بمبئی، مدراس یہ تین مراکز تھے جہاں پہلے پہل مغربی تعلیمی ادارے قائم ہوئے اور آہستہ آہستہ لوگوں پر علم و تحقیق کے نئے در وا ہونے لگے۔ اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ لوگوں میں پہلی مرتبہ یہ احساس پیدا ہونا شروع ہوا کہ ان کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ اب تک تو ہمارے ہاں جملہ حقوق حکمراں طبقوں کے لئے محفوظ تھے اور رعایا کے لئے محض فرائض باقی رہ جاتے تھے۔ فرد کا کوئی مقام نہ تھا۔ یہ چیزیں مغربی تصورات کے ساتھ آہستہ آہستہ آنے لگیں۔ جب مغربی علوم کو ہندوستان میں متعارف کروانے اور ہندوستانی تہذیب و علوم کو سمجھنے کی سنجیدہ کوششیں شروع ہوئیں۔ یہ تحریک بڑے پیمانے پر پہلے کلکتہ میں شروع ہوئی تھی جہاں انگریزوں نے تعلیمی ادارے قائم کئے۔ مظہر جمیل  آپ کا اشارہ فورٹ ولیم کالج کی طرف ہے؟ سبط حسن، جی فورٹ ولیم کالج بھی۔ دیکھئے بات در اصل یہ ہے کہ ایک تو ہندوستان اور ہندوستانی تہذیب اپنی رنگارنگی اور قدامت کی وجہ سے انگریزوں کے لئے انتہائی پرکشش رہی ہے۔ پھر یہاں کی دولت، خام مال کی فراوانی، سستی محنت کا حصول اور ہندوستان میں سیاسی عدم استحکام ایسی چیزیں تھیں جو برطانوی امپریلزم کی زندگی، بقا اور ترقی کے بنیادی لوازمات میں سے تھیں۔ مگر ہندوستانی تہذیب میں بڑی کشش بھی تھی۔ چنانچہ انگریز حاکم انگرکھے پہننے اور حقہ پینے اور پان کھانے لگے۔ اور تو اور اس زمانے میں بہت سے انگریزوں نے اردو اور ہندی میں باقاعدہ شاعری بھی شروع کر رکھی تھی۔ بہ ظاہر یہ سب کچھ ان کی سیاسی ضرورتوں اور حکمت عملی کا حصہ تھا لیکن ان میں بہت سے ایسے بھی تھے جو یہاں کی تہذیبی رنگا رنگی سے واقعی متاثر بھی ہوئے تھے اور انہوں نے مقامی زبانوں میں تہذیبوں، رسوم و رواج اورعلوم کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش بھی کی تھی جیسے وارن ہسٹنگز، ولیم جونز وغیرہ۔ ولیم جونز تو وہ شخص تھا جس نے فارسی عربی اور سنسکرت زبانوں کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی اور یہ دعوی کیا کہ یورپ اور ہندوستان کی بیشتر بڑی زبانیں ایک ہی مشترکہ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور اس کے اس دعوے نے بعد کی تحقیق کے لئے نئی راہیں کھولیں اور آج بڑی حد تک اس کے دعوے کی صداقت ثابت ہو چکی ہے۔ اسی طرح وارن ہیسٹنگز نے جو مدرسے قائم کئے سنسکرت اور عربی کے، ان کا بھی اس سلسلے میں اہم کردار ہے، چنانچہ اس کا قائم کردہ کلکتہ مدرسہ اب تک مشہور ہے۔ پھر بنارس میں ایک کالج قائم کیا سنسکرت کی تعلیم کے لئے۔ اسی زمانے میں ہمیں روشن خیال لوگوں کا ایک گروپ بنگال میں سرگرم عمل نظر آتا ہے، جس کا نمائندہ راجہ رام موہن رائے ہے جو ہماری جدید تہذیب کے پہلے نشان کی حیثیت رکھتا تھا۔ یہ ایک بنگالی نژاد پڑھا لکھا روشن خیال شخص تھا اور ’’راجہ رام‘‘ کا خطاب اسے مغل بادشاہ سے ملا تھا۔ وہ فارسی عربی کا عالم تھا اس نے تعلیم حاصل کی تھی پٹنہ میں اور اس کا اخبار ’’مرأت الاخبار‘‘ بھی فارسی ہی میں نکلتا تھا۔ تو جناب راجہ رام موہن رائے نے اس زمانے میں ایک عرضداشت انگریز گورنر جنرل کے نام لکھی تھی۔ میں نے اس کے اصل الفاظ بھی کہیں نقل کئے ہیں۔  اس عرضداشت میں اس نے لکھا کہ ہمارا تعلیمی نظام جو کم و بیش گزشتہ دو ہزار سال سے قائم ہے موجودہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔ خاص طور پر سنسکرت کالج کے قیام کی مخالفت کرتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ یہ ساری چیزیں توہم گوتم بدھ کے زمانے سے پڑھتے آرہے ہیں اور اب سرکار انگلشیہ کا یہ فرض ہے کہ وہ رعایا کو نئی تعلیم اور نئے خیالات حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرے جس کے لئے سنسکرت اور عربی کے مدرسے قائم کرنے کی بجائے انگریزی زبان اور مغربی علوم کے سکھانے کا بندوبست کیا جائے اور خاص طور پر سائنس کی تعلیم دی جائے۔ کیمسٹری، فزکس، میڈیسن وغیرہ پڑھانے کا بندوبست ہو۔ اب آپ دیکھئے کہ راجہ رام موہن وہ شخص ہے جو مغل بادشاہ شاہ عالم کی پنشن کا مقدمہ لڑنے کے لئے ان کے وکیل کی حیثیت سے لندن گیا تھا اور اس نے اپنی آنکھوں سے نئی تہذیب، نئے خیالات اور نئے فکری انقلاب کے اثرات برطانیہ میں دیکھے تھے۔ ہرچند راجہ رام موہن رائے کی اس اپیل کا کوئی فوری نتیجہ تو برآمد نہیں ہوا کیونکہ انگریزوں نے اپنی اسکیم کے مطابق سنسکرت اور عربی کے مدرسے قائم کرنے شروع کردیے تھے لیکن وہ اور اس کے رفقا اپنے طور پر نئی تعلیم کی مہم کو چلاتے رہے اور رفتہ رفتہ ان خیالات کو پڑھے لکھے روشن خیال لوگوں میں مقبولیت حاصل ہوتی گئی۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو مشنریوں کا بھی ایک اہم رول رہا ہے۔ مشنری اپنی مذہبی تعلیم کی ترویج کے لئے انگریزی کی تعلیم پر زور دیتے تھے۔ سسرام پور اور دیگر مقامات پر انگریزی اسکولز قائم کئےتھے۔ اس مسئلے پر ان کی بھی انگریز حکمرانوں سے ایک طرح کی آویزش رہتی تھی۔ جبکہ راجہ رام موہن رائے ان کے ہمنوا اور شریک تھے۔ دوسر طرف مسلمان زعما کا رویہ بالکل متضاد اور برعکس تھا اور اس سلسلے میں مولانا حالی نے حیات جاوید میں سر سید کے تعلق سے لکھا ہے کہ جب راجہ رام موہن رائے انگریزی زبان اور جدید علوم کی تعلیم کا مطالبہ کر رہے تھے تو عین اسی وقت مسلمان علمانے آٹھ ہزار دستخطوں سے گورنر جنرل کو درخواست گزاری تھی کہ ہمیں نئی کافرانہ تعلیم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں وہی قدیم فارسی اورعربی کی تعلیم کافی ہے اور اس طرح سے نئے علوم کی تعلیم کے خلاف مسلمانوں نے ایک اورمحاذ قائم کیا جس میں مولویوں نے خاص طور پر بڑے شد و مد سے حصہ لیا جس پر سر سید نے تاسف کا اظہار کیا تھا۔  اب جو یہ کہا جاتا ہے کہ ہندوؤں کی سازش کی وجہ سے مسلمان انگریزی تعلیم میں پیچھے رہ گئے، تو اس اعتراض اور بہتان کی اصل حقیقت تو صاف ظاہر ہے۔ اب آپ خود دیکھئے کہ اس میں ہندوؤں کا کیا قصور تھا بلکہ یہ تو ہمارا خود اپنا قصور تھا کہ ہم نے انگریزی زبان اور سائنسی تعلیم کے خلاف محاذ جنگ قائم کر لیا اور مولویوں نے فتوے جاری فرما دیے تھے کہ انگریزی زبان پڑھنا، مغربی علوم سیکھنا اور نئے خیالات کو اپنانا کفر ہے۔ اس طرح دیکھئے تو ہم اٹھارہویں صدی کے ان بزرگوں کی تنگ نظری کے شکار ہیں جنہوں نے نئے تعلیمی مواقع کو اپنے آپ پر اور اپنی آنے والی نسلوں پر بند کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ وقت کب کسی کے روکے رکا ہے۔ نئے خیالات اور افکار تو ہمیشہ اڑ کر لگتے ہیں، آدمی لاکھ اپنے آپ کو خول میں چھپانے کی کوشش کرے۔ لہذا ایسا ہی ہوا اور انیسویں صدی کے ابتدائی دنوں ہی میں مسلمانوں میں بھی ایک ایسا حلقہ پیدا ہو گیا تھا جو مولویوں کی فتوی سازی کے باوجود نئی تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کا معترف تھا۔ ہماری اردو شاعری میں پہلا شخص اسد اللہ خاں غالب ہے جس نے نئی روشنی پر اپنی آنکھیں بند کرنے کے بجائے اس کی نیرنگی کو قبول کیا۔ اس سلسلے میں کلکتہ کا سفر بھی انہیں خاصا راس آیا تھا۔ اس وقت تک انگریزوں کی حکومت دہلی تک پہنچ چکی تھی۔ لارڈ لیک نے آگرہ فتح کر لیا تھا، دہلی پر ان کی عمل داری قائم ہو چکی تھی۔ بادشاہ صرف لال قلعہ تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ بہت سے انگریز افسر تھے جن میں فریزر تھے، ایڈمونٹن تھے جن سے غالب کی ذاتی راہ و رسم تھی۔ اس زمانے میں ایک بڑا ادارہ دہلی کالج بھی تھا۔ جس کاذکر میں نے بڑی تفصیل سے کہیں کیا ہے۔ لیکن مولوی عبدالحق صاحب نے تو پوری کتاب ہی لکھ دی ’دہلی کالج مرحوم‘ پر۔ مرحوم دہلی کالج د راصل پہلے عربی کا مدرسہ تھا جسے صفدرجنگ نے بنوایا تھا۔ اس میں شروع شروع میں تو وہی روایتی تعلیم دی جاتی تھی لیکن بعد میں جب انگریزوں کی عملداری قائم ہوئی تو انہوں نے وہاں انگریزی زبان اور جدید علوم بھی پڑھانے شروع کئے اور انگریز اساتذہ بھی مقرر کئے گئے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ سائنس اور جدید علوم و فنون کی بہت سی کتابیں انگریزی اور دوسری مغربی زبانوں سے اردو میں ترجمہ کی گئیں جن کی طویل فہرست مولوی عبد الحق صاحب نے دی ہے۔ اس مدرسہ سے فارغ التحصیل لوگوں میں ہمارے بڑے بڑے ادیب شامل تھے۔ جیسے ڈپٹی نذیراحمد، محمد حسین آزاد، منشی پیارے لال وغیرہ۔ مظہر جمیل غالب کو بھی تو وہاں پڑھانے کی آسامی پیش کی گئی تھی لیکن وہ دروازہ ہی سے پلٹ آتے تھے کہ انگریز پرنسپل ان کے خیر مقدم کو باہر نہیں آیا تھا؟ سبط حسن  جی ہاں، غالب کو غصہ آیا کہ دیکھئے صاحب ملازمت تو انہیں عزت و وقار کی خاطر منظور ہوئی تھی لیکن اگر اس سے توقیر میں کمی آتی ہو تو انہیں ایسی ملازمت قبول نہیں، چنانچہ وہ پلٹ آئے کہ انگریز پرنسپل انہیں ڈولی سے اتارنے باہر نہیں آیا تھا۔ خیر اس سلسلے میں اہم واقعہ غالب کا کلکتے جانا بھی ہے، گئے تو تھے وہ اپنی جائداد واگزاشت کرانے، لیکن وہاں انہوں نے نئی تہذیب کی جلوہ سامانی بھی دیکھی۔ وہاں وہ تقریبا ًدو سال مقیم رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کلکتہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا دارالسلطنت تھا اور تجارت اور صنعت و حرفت کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ بازاروں کی رونق، نظم و نسق کی خوبی، خوش حالی اور گہما گہمی۔ غالب اس نئی زندگی اور نئے معاشرے سے بہت متاثر ہوئے۔ ان سب میں غالب کو بڑی دلکشی محسوس ہوئی اور انہوں نے کہا بھی کہ ، کلکتہ کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائےاور اس سے زیادہ انہوں نے اپنے خطوں میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہےاور کلکتہ کی چمک دمک کا دلی کی ویرانی سے مقابلہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر میرا بس چلے تو سدا اس شہر جنت نظیر میں گزار دوں۔ پھرغالب میں جو تنقیدی شعور تھا، اس نے بھی ان کی رہنمائی کی۔ انہو ں نے سرسید کو بھی، جب وہ آثار الصنادید لکھ رہے تھے، یہی کہا تھا کہ یہ کیا تم ماضی پرستی اور مردہ پروری میں لگے ہوئے ہو، ذرا نئی تبدیلیوں کو آنکھ کھول کر دیکھو جو انگریز اپنے ساتھ لائے ہیں۔ یہ لوگ جہاز لائے ہیں، تار برقی ہے، دیاسلائی ہے، بھاپ کی مشینیں ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ لوگ ایک ضابطہ، ایک قانون سسٹم لائے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے اثرات آپ کو خود ان کی شاعری میں بھی ملیں گے۔ مثلا ہماری شاعری میں عشق وعقل کے درمیان تصادم کی ایک روایت چلی آئی ہے۔ جس میں عشق کوعقل پر فوقیت دی جاتی رہی ہے۔ لیکن غالب کی مثنوی ’’ابر گوہر بار‘‘ دیکھئے تو اس میں انہوں نے عقل کا مقابلہ جہل سے کیا ہے، عشق سے نہیں اور خرد کی تعریف میں جو استدلال اختیار کیا ہے وہ ہماری اردو شاعری میں پہلی مرتبہ نظر آتی ہے۔ مظہرجمیل گویا خرد افروزی کی جھلک سامنے آتی ہے؟ سبط حسن  جی ہاں، جھلک کیا معنی بلکہ میں توغالب کو خرد افروزی کی تحریک کا بنیادی آدمی سمجھتا ہوں۔ اصل میں بڑے ذہن کا کمال ہی معروضی حالات سے صحیح نتائج اخذ کرنا ہوتا ہے جو کام غالب نے کیا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں جو سوال اٹھائے تھے، ان کا تعلق آس پاس ہونے والی تبدیلیوں کی ظاہری اور باطنی دونوں سطحوں سے تھا۔ لیکن ظاہر ہے غالب کے اثرات بہت زیادہ وسیع تو تھے نہیں۔ وہ تومحض ایک شاعرتھے۔ دلی میں رہتے تھے۔ ایک محدود حلقہ اثر بھی تھا۔ کچھ مخالفتوں کا سامنا بھی تھا۔ اپنے اشعار میں، اپنے خطوط میں احباب کو نئی تبدیلیوں کے بارے میں اپنے تاثرات لکھ بھیجتے تھے اور بس۔ لیکن اثر و نفوذ کے اعتبار سے اس عہد کے سب سے زیادہ مستحکم اورمؤثرآدمی سرسیداحمدخاں تھے۔ سر سید نے نئی فکری تبدیلیوں کوغالب کی سطح سے آگے جاکر دیکھا۔ وہ یہ سمجھ گئے کہ ان تبدیلیوں کو اپنائے بغیر اور نئے سائنسی علوم کو سیکھے بنا ہندوستان کے مسلمان ترقی کی دوڑ میں نہ صرف پیچھے رہ جائیں گے بلکہ ممکن ہے کہ وہ اپنا تشخص بھی برقرار نہ رکھ سکیں۔ لہٰذا انہوں نے مسلمانوں کی تہذیبی فکر کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے پر زور دینا شروع کیا اور اس مقصد کے لئے محمڈن سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی۔ اس تحریک کی اساس خرد افروزی پر تھی، یعنی عقل سے کام لو۔ مسلم شمیم  سرسید پر اعتراضات بھی تو بہت ہوئے تھے کہ وہ انگریز پرست تھے اور ان کا رویہ مغربی افکار کے مقابلے میں محض معذرت خواہانہ تھا؟ سبط حسن  جی ہاں وہ تو اب تک ہوتے آ رہے ہیں۔ یہ اعتراضات دو طرح کے تھے۔ اول تو بنیاد پرستوں کی طرف سے کفر اور نیچری کے فتوے لگے۔ دوسرے قومی سوچ رکھنے والوں نے انہیں انگریز کا پٹھو کہا کہ وہ نئے خیالات اور تصورات کو اپنانے کی دھن میں حکومت انگلشیہ کے زبردست حامی اور مبلغ بن گئے تھے اور انگریزوں کی حکمت عملی اور فیصلوں کے لئے راہ ہموار کرنے کی خاطر انتہا پسندانہ حد تک انگریز پرست نظر آنے لگے تھے۔ ان پر یہ اعتراض بڑی حد تک صحیح بھی تھا۔ اصل میں سرسید سیاسی طورپر رجعت پسند تھے۔ وہ انگریزوں کی حکمرانی ہی میں ہندوستان کی بقا سمجھ رہے تھے اورہندوستان کی قومی امنگوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کی بجائے مسلمانوں کو ایک علاحدہ قوم کے طورپر دیکھ رہے تھے۔ لیکن سماجی اعتبار سے ان کا رویہ ترقی پسندانہ تھا۔ انہو ں نے جدید تصورات کے حق میں اور اوہام پرستی کے خلاف خیالات کومنظم کرنے کی باقاعدہ مہم چلائی تھی۔  یوں دیکھئے تو ان کے ہاں بھی مسلسل تبدیلی آتی رہی تھی۔ شروع دور میں انہوں نے ایک مضمون ’’در ابطال حرکت زمیں‘‘ لکھا تھا جس میں زمین کی حرکت کے نظریہ کو باطل ٹھہرانے کی کوشش کی تھی لیکن آہستہ آہستہ ان کی فکر سائنسی رخ اختیار کرتی گئی۔ مذہب کے معاملے میں ان کا بنیادی استدلال یہ تھا کہ خدا کے کلام اور خدا کے کام میں تضاد نہیں ہو سکتا۔ یعنی یہ نیچر جو ہے وہ خدا کے کلام کے متضاد نہیں ہو سکتی اوراگرہمیں ایسا نظر آتا ہے تو یقیناً ہم خدا کے کلام کو سمجھنے میں کہیں نہ کہیں غلطی ضرور کر رہے ہیں۔ اس لئے ہمیں خدا کے کلام کی نئے سرے سے تشریح، تاویل اور تفسیر کرنی پڑے گی۔ مظہر جمیل  گویا نئے علم الکلام کی بنیاد ڈالی جا رہی تھی؟ سبط حسن  جی ہاں! انہوں نے نئے علم الکلام پر زور دیا اور توہمات اور اندھی روایت پرستی کے خلاف مہم شروع کی، نئے تعلیمی مراکز اور اسکول کھولے۔ اب یہ ان کی خامی تھی کہ انہوں نے اپنے سامنے کیمبرج اور آکسفورڈ کے تعلیمی اداروں کی مثال رکھی تھی اور انگریزوں کو اپنے تعلیمی اداروں کی سربراہی سونپی جس کی وجہ سے ان تعلیمی اداروں کی پالیسی کھلے طور پر انگریز نوازی کی پالیسی ہوکر رہ گئی جویقیناً ان کی اسکیم کا بہت بڑا نقص تھا۔ لیکن یہ سب کچھ ان کی سیاسی سوچ کا حصہ تھا۔ دوسری بڑی کوتاہی سرسید کی تعلیمی اسکیم کی یہ رہی ہے کہ انہوں نے صنعت و حرفت اور ٹیکنالوجی کی تعلیم و تدریس پر کوئی توجہ نہیں دی حالانکہ کسی قوم کی معاشی ترقی ٹیکنیکل ایجوکیشن کے بغیرہوہی نہیں سکتی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جس طبقے سے ان کا تعلق اور واسطہ تھا یعنی جاگیردار اور اشرافیہ کا طبقہ، اس کی سوچ اور رویے میں صنعت و حرفت کی گنجائش تھی ہی نہیں۔ چنانچہ علی گڑھ میں ہمارے زمانے تک ٹیکنالوجیٹ، انجینئرنگ اور میڈیسن تک تعلیم و تدریس کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ لیکن ہماری تہذیبی و فکری تاریخ میں ان کا کردار یقیناً بے مثال رہا ہے جس سے انکار ممکن ہی نہیں۔  اب رہی یہ بات کہ وہ انگریزوں کے وفادار تھے اور انہوں نے انگریزوں کی حکمت عملی کی حمایت کی تھی تو اب اس اعتراض کی کوئی خاص اہمیت باقی نہیں رہی کہ انہوں نے ہمارے فکری دھارے کو سائنسی سوچ کی طرف موڑا ہے اورہمارے ہاں جو روشن خیالی اور بالغ نظری آئی ہے اس میں سر سید کا بڑا حصہ ہے۔ انہوں نے ہمیں اوہام پرستی اور مذہبی عصبیت اور فرسودہ طرز زندگی کے چنگل سے آزاد کرایا ہے۔ یہ ان کی مضبوط شخصیت اور فکری ثابت قدمی ہی کا نتیجہ تھا کہ ان کے گرد روشن خیال اور جدید فکر رکھنے والے لوگوں کے مضبوط گروپ جمع ہوگئے تھے جنہیں ہم آج بھی سر سید اسکول کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ مسلم شمیم، غالب اور سر سید کے بعدعلامہ اقبال کی قدآور شخصیت نظر آتی ہے۔ تو آپ یہ فرمائیے کہ روشن خیالی، خرد افروزی اور ترقی پسندی کی جس فکری روایت پر ابھی آپ نے خیال فرمایا ہے۔ اقبال نے کس حد تک اس روایت کو متاثر کیا یا ان کی سوچ اس فکری روایت سے کچھ جداگانہ رہی ہے؟ سبط حسن  جیسا کہ میں نے عرض کیا، سرسید کی حیثیت اور اہمیت ایک فرد سے کہیں زیادہ تھی۔ وہ اپنی روایت میں ایک تحریک تھے جسے ہم یاد کرتے ہیں علی گڑھ تحریک کے نام سے۔ اس میں دواہم شخصیتیں مولانا حالی اور مولوی محمد حسین آزاد بھی شامل تھے۔ محمد حسین آزاد فکری طور پر سیکولر خیالات کے حامل تھے۔ انہوں نے سماجی تاریخ کا بھی اسی انداز سے جائزہ لیا تھا اور ہماری ادبی تاریخ کا بھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے ادب میں نئے موضوعات اور نئے خیالات کی گنجائش نکالنے کی باقاعدہ اور منظم کوششیں کیں۔ ان کی قائم کردہ انجمن پنجاب کے زیر اہتمام جو نیچرل شاعری لکھی گئی وہ اپنی طرز کی بالکل نئی کوشش تھی۔ جس نے ہماری شاعری کو نہ صرف تازگی، توانائی اور جدت طرازی دی بلکہ زندگی کی حقیقتوں سے قریب تر بھی کردیا۔ نئے خیالات کی ادائی کے لئے نئے استعارات اور نئے الفاظ تلاش کئے گئے۔ دوسری طرف حالی کا مقدمہ شعر و شاعری تھا جسے جدید تنقیدی نظام فکر کا سنگ بنیاد سمجھنا چاہئے۔ حالی نے اردو کی روایتی شاعری اور خصوصا ًغزل کی بوسیدگی کا سیر حاصل اور واشگاف انداز میں جائزہ لیا اور اس بات پر زور دیا کہ شاعری کو بندھے ٹکے مضامین اور سکہ بند موضوعات سے باہرنکل کر کھلی فضا میں آنا چاہئے اور شاعر کو اپنی ذات کے خول سے نکل کرآس پاس کی زندگی کی حقیقتوں کو دیکھنا چاہئے۔ یہی بات مولوی محمد حسین آزاد آب حیات کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ آخر کب تک جیحون اور سیحون کا نقشہ کھینچوگے۔ کب تک لیلی مجنوں کی داستان سناؤگے۔ کب تک ایران اور توران کی ہانکے جاؤگے۔ یہاں رہتے ہو تو یہاں کے پھولوں کی بات کرو۔ یہاں کے پرندوں کے نغمے سنو۔ ہمارے اپنے موسم سہی ان پر نظر ڈالو۔ ہماری اپنی فضا ہے اسے شعر میں ڈھالو۔ دیکھو بگلا کیسا خوبصورت پرندہ ہے۔ جامن کیسا خوش مزا پھل ہے جو ہندوستانی زمین سے پیدا ہوتا ہے۔ تو آپ دیکھئے کہ ان تمام باتوں سے ایک نیا منظر ابھرتا ہوا لگتا ہے اور جدید فکری تحریک اس خوبصورتی سے قدم بہ قدم آگے بڑھتی ہے کہ آپ بہ آسانی اس کی منزلیں متعین کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ابتدا ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد سے کریں تو راجہ رام موہن رائے اور ان کے ساتھیوں کا گروپ نظر آتا ہے۔ پھرغالب کی شاعری اور خطوط ہیں۔ اسی کے لگ بھگ سر سید احمد خان کی تحریک شروع ہوتی ہے اور پورا منظر یک لخت بدل جاتا ہے۔ نیچرل شاعری شروع ہوتی ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد ناول نگاری کی داغ بیل ڈالتے ہیں۔ حالی جدید تنقید کی ابتدا کرتے ہیں۔ شبلی جدید تاریخ نگاری اور مولانا ابوالکلام آزاد نئے علم کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اس پس منظر میں اقبال نظر آتے ہیں۔ یوں بھی بیسویں صدی متحرک اور تغیر کی صدی رہی ہے۔ اس زمانے میں تبدیلی اتنی برق رفتار رہی ہے کہ انسانی تہذیب کےکسی دور میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ۱۹۰۵ء کا روسی انقلاب آتا ہے، پھر روس اور جاپان کی پہلی جنگ ہے جس کی بڑی اہمیت ہے۔ سیاسی اعتبار سے بھی اور فکری اعتبار سے بھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مشرق نے ایک مغربی طاقت کو شکست کھاتے دیکھا تھا۔ اس طرح یہ جنگ مشرق کی فکری تبدیلی کے لئے ایک موڑ بن جاتی ہے اور اس بارے میں اقبال نے اپنے مقالات میں بہت کچھ لکھا بھی ہے۔  پھر ادھر خود ہندوستان کی فضا میں بنیادی تبدیلی رونما ہو رہی تھی۔ انگریزوں کی حکمت عملی اور برطانوی استعماریت کو مستحکم اور دیرپا کرنے کی شاطرانہ چالیں۔ تقسیم بنگال ہو کہ بندوبست دوامی کا نظام ان سب کے خلاف زبردست سیاسی ردعمل پیدا ہونا شروع ہو چکا تھا۔ قومی بیداری کی تحریکیں، انگریز سامراجیت کے خلاف دہشت گردی کی تحریکیں، سودیشی صنعت و حرفت کے فروغ کی تحریکیں، سول نافرمانی کی تحریکیں، بنگال کا خوفناک قحط، کسانوں کی جد و جہد، مزدور تنظیموں کا قیام۔ یہ سب واقعات ایک تسلسل کے ساتھ رونما ہو رہے تھے، اور نتیجہ میں ہندوستان کی فضا میں ایک زبردست ہل چل پیدا ہو چکی تھی ادھر ہندوستان سے باہر پیدا ہونے والا ہیجان بھی براہ راست بالواسطہ طور پر یہاں کے حالات پر اثر انداز ہو رہا تھا۔ جیسے جنگ بلقان، جنگ طرابلس، جن پر اقبال کی خوبصورت نظمیں سامنے آتی ہیں۔ فاطمہ تو آبروئے امت مرحوم ہےذرہ ذرہ تیری مشت خاک کا معصوم ہےیہ دور ایسا ہے کہ اگر آپ اس کا انیسویں صدی سے مقابلہ کریں تو آپ انیسویں صدی کو عرضداشتوں کا عہد کہیں گے جن میں لوگ رعایتیں طلب کر رہے تھے یا زیادہ سے زیادہ آپ اسے اصلاحی دور کہہ لیں۔ لیکن بیسویں صدی کے ساتھ مطالبے اور احتجاج کا دورشروع ہوتا ہے، جس میں سامراجی نظام کی برائیوں کو محسوس کر لیا جاتا ہے اور اس کے خلاف ایک زبردست ردعمل پیدا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ان حالات کا اثر ادب پر بھی ہوا۔ اس پرہیجان دوراہے پر اقبال نمودار ہوتے ہیں اور اس طرح کہ وہ بجائے خود ایک موڑ بن جاتے ہیں۔ ہرچند وہ اس میدان میں تنہا نہیں تھے بلکہ مولانا حسرت موہانی، مولانا ابو الکلام، مولانا محمد علی جوہر، منشی پریم چند وغیرہ بھی تھے جن کے ذریعے ادب میں احتجاج کی لہر پیدا ہو رہی تھی۔ لیکن ان سب میں اقبال کی شخصیت زیادہ قد آور اور بلند و بالا تھی بلکہ پورے اردو ادب کی تاریخ میں بے مثال بھی۔ مسلم شمیم اس موقع پر میں یہ جاننا چاہوں گا کہ قومی آزادی کی تحریکوں نے ادبی افق پر جو اثرات مرتسم کئے ان کا اظہار ایک طرف تو اقبال، پریم چند، حسرت اور جوہر وغیرہ کے ذریعے رونما ہوا، لیکن کیا ان قومی تحریکوں نے ۱۹۳۶ء کی ادبی تحریک کے لئے بھی فضا بنانے کا کام انجام دیا تھا یا نہیں؟ سبط حسن  جی ہاں، بے شک اب آپ دیکھئے نا، اس وقت کون کون سی تحریکیں اٹھتی ہیں، ایک تو خلافت تحریک تھی، دوسری سول نافرمانی کی تحریک تھی، کساد بازاری کے خلاف رد عمل تھا، سودیشی تحریک تھی، مزدوروں اور کسانوں کی تحریکیں تھیں۔ پھر بہت سے قومی نوعیت کے اہم تاریخی واقعات رونما ہو رہے تھے۔ جیسے جلیانوالہ باغ کا واقعہ، بھگت سنگھ کی پھانسی کا واقعہ۔ غرض کڑی سے کڑی ملتی چلی جاتی ہے اور پوری فضا گویا ترقی پسند ادبی تحریک کے لئے جواز بن جاتی ہے اور ترقی پسند ادب تحریک اپنی پیش رو تحریکوں کا لازمی اور منطقی نتیجہ بن کر سامنے آتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت جتنے بزرگ ادبا، شعرا اور دانشور تھے اور ان میں سے کسی نے اس کی نہ تو مخالفت کی اور نہ وہ اس پر چونکے تھے بلکہ ہمت افزائی ہی کی تھی جیسے رابندرناتھ ٹیگور، منشی پریم چند، اقبال، حسرت، جوش ملیح آبادی، مولوی عبد الحق، نیاز فتح پوری وغیرہ۔ مظہر جمیل  بلکہ رشید احمد صدیقی صاحب نے تو کہیں لکھا بھی ہے کہ اگر ترقی پسند تحریک شروع نہ بھی ہوتی تو ادب میں نئے خیالات آنا ہی تھے اور فکر جس دھار ے پر جا رہی تھی اس کے نتیجے میں جدید تصورات سے گریز ممکن تھا ہی نہیں۔ گو یہ بات انہوں نے ترقی پسند تحریک کے خلاف کہی تھی لیکن اس کا جواب یہ دیا گیا تھا کہ ہاں یہ بات صحیح ہے کہ ترقی پسند تحریک نے نئے خیالات نہیں دیے لیکن نئے خیالات کو منظم ضرور کیا ہے؟ سبط حسن  جی ہاں بلکہ ایک جہت بھی دی ہے جو یقینا ًقومی ترقی اور انسان دوستی کی جہت تھی۔ مظہر جمیل  لیکن مسلم شمیم صاحب کے سوال سے ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اقبال بے شک ایک بہت بڑی فکری تبدیلی کا موڑ رہے ہیں اور ان کے ہاں نئے خیالات و تصورات زیادہ واضح شکل میں آتے ہیں۔ انہیں مغربی علوم اور فکر پر سرسید اور دوسرے پیش روؤں کے مقابل کہیں زیادہ دسترس حاصل تھی۔ وہ فلسفہ کے آدمی تھے، تاریخ پر گہری نظر رکھتے تھے اور انہوں نے مشرقی و مغربی ادب اور افکار کو نسبتاً زیادہ باریک بینی کے ساتھ دیکھا تھا۔ پھر بساط عالم پر جو سیاسی اور معاشی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں، خصوصاً انقلاب روس اور اس کے اثرات کو بھی دیکھ رہے تھے۔ نئے سامراجی اور سرمایہ دارانہ استحصال پربھی ان کی نگاہ تھی اور یہ ساری چیزیں ان کی شاعری میں بھی ایک مثبت رویے کے طور پر آتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ان کے ہاں ایک دوسرا روپ بنیاد پرستی FUNDAMENTALISM کا ملتا ہے۔ جہاں وہ مذہب کی وہ توجیہہ کرتے ہیں جو ذہن اور عمل کو ماضی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس طرح کیا ان کے ہاں ایک تضاد کی صورت پیدا نہیں ہوتی؟ سبط حسن  جی ہاں، در اصل اقبال بہت بڑا موضوع ہے اور اس مختصر سی نشست میں اس کا احاطہ ممکن بھی نہیں ہے لیکن اشارتاً کچھ گفتگو ہو سکتی ہے۔ اقبال کے ہاں لوگ جس تضاد کی نشاندہی کرتے ہیں وہ در اصل بورژوا تہذیب کا تضاد ہے جس سے مفر ممکن ہی نہیں۔ میں نے اس تضاد کی نوعیت کے بارے میں ’’اقبال کا تصور بشر IQBAL,S CONCEPT OF MAN میں لکھا بھی ہے کہ اقبال پر وہی کچھ گزری جو ہیگل پرگزری تھی۔ ہیگل میں بھی تضاد تھا۔ یعنی ایک طرف وہ ما بعد الطبعیاتی METAPHYSICAL تصورات پیش کرتا ہے جو رجعت پرستانہ ہیں، دوسری طرف اس کی EPISTOMOLOGY یعنی تصورات کائنات ہے جو انقلابی فلسفہ ہے۔ جب وہ کائنا ت کی حرکت و تغیرکے بارے میں تجزیہ کرتا ہے تو جدلیاتی DIALECTICAL رویہ اپناتا ہے جو ترقی پسندانہ نقطہ نظر ہے۔ لیکن دیکھئے نتیجہ کیا ہوا۔ ہیگل کی جدلیاتی DIALECTICS کو مارکسزم نے اپنا لیا اور اس کی جو ما بعد الطبعیات METAPHYSICS تھی اسے فشسٹوں نے اپنا لیا۔ جب وہ کہتا ہے کہ ALL THAT IS JUST اور اسٹیٹ کی تعریف کرتے ہوئے جب وہ کہتا ہے ’’اسٹیٹ اسپرٹ کا اعلیٰ ترین مظہر ہے۔‘‘ تو اس رجعت پسندانہ فلسفہ کو ہٹلر استعمال کرتا ہے۔ اب آپ دیکھئے کہ ایک ہی مفکر کے ہاں دو فکری دھارے ایک دوسرے کے متوازی چلتے ہیں۔ لیکن محض اس بنا پر ہیگل کے مرتبہ اور عظمت کو تو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال کے ساتھ بھی یہی صورت حال پیش آئی۔ یہ صحیح ہے کہ اقبال ما بعد الطبعیات کے دائرے سے کبھی باہر نہ نکل سکے، لیکن ان کی جو EPISTOMOLOGY یا نظریہ کائنات ہے اور ان کے ہاں تاریخ کو دیکھنے کا جو انداز ہے، وہ یقینا ترقی پسندانہ رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان کا تصورمذہب بھی بڑی حد تک انقلابی ہے۔ چنانچہ وہ اپنے لیکچر زمیں بار بار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسلام جامدعقائد کے مجموعے کا نام نہیں ہے بلکہ ایک انتہائی حرکی DYNAMIC تصورحیات پیش کرتا ہے جس میں مسلسل تغیر اور ارتقا ہوتا رہنا چاہئے۔ اجتہاد ان کی فکر کا اہم نکتہ ہے۔ یہی صورت ان کی شاعری میں نظر آتی ہے جب وہ کہتے ہیں، سکون محال ہے قدرت کے کارخانے میںثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میںیایہ کائنات ابھی ناتمام ہے شایدکہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکونیہ جو اقبال کا تصور کائنات ہے وہ ایک عام ملا کے لئے جو ہر قسم کی فکری آزادی کا دشمن ہے، کسی طرح قابل قبول ہو ہی نہیں سکتا۔ لہٰذا اقبال پر بھی کفر کے فتوے لگتے رہے۔ اقبال انتہائی روشن خیال مفکر تھے اور اسی لئے وہ سوشلزم کے لئے بھی نسبتاً نرم گوشہ SOFT CORNER رکھتے تھے اور اسے تاریخی ارتقا کا ایک حصہ سمجھے تھے۔ شاہد نقوی  کبھی آپ کی اقبال سے بالمشافہ ملاقات بھی ہوئی تھی، جیسی کہ سجاد ظہیر وغیرہ کی ہوئی تھی؟ سبط حسن جی ہاں! صرف ایک بار مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی۔ مجھے یاد ہے وہ ہماری طالب علمی کا زمانہ تھا۔ علامہ کسی سلسلے میں علی گڑھ تشریف لائے تھے اور خواجہ غلام السیدین صاحب کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہمارا اس گھرانے میں آنا جانا رہتا تھا۔ احمدعباس میرے کلاس فیلو تھے۔ اظہر عباس سے بھی دوستی تھی۔ چنانچہ میں نے ان لوگوں سے کہا، ’’یار ہماری ملاقات کراؤ علامہ سے۔‘‘ کہنے لگے، ’’علامہ سے ملنے کا صحیح وقت سہ پہر کا ہوتا ہے، جب وہ چندلمحوں کے لئے تنہا ہوتے ہیں ورنہ ہر وقت ارادت مندوں کے ہجوم میں گھرے رہتے ہیں۔ تم سہ پہر میں آجاؤ تو ملوا دیں گے۔‘‘ لہذا ہم پہنچ گئے۔ یہی کوئی چار یا پانچ بجے کا وقت رہا ہوگا۔ سردیوں کے دن تھے اور علامہ پچھلی جانب چبوترے پرمونڈھے پردھوپ میں بیٹھے حقہ سے شغل فرما رہے تھے۔ اس وقت ہم نئے نئے سوشلسٹ ہوئے تھے اور بعض متنازعہ مسائل پرعلامہ کے خیالات جاننے کا شوق بھی بہت تھا۔ چنانچہ ہم وہاں گئے اورسلام عرض کیا اور کہا کہ ہم طالب علم ہیں۔ کہنے لگے بیٹھو۔ ہم نے کچھ ادھر ادھر کی باتیں کیں۔ وہ بھی ہماری باتوں کا کبھی سرسری اور کبھی تفصیلی جواب دیتے رہے۔ ہم نے پوچھا، ’’علامہ صاحب یہ ’اکملت لکم دینکم‘ کا اصل مفہوم کیا ہے۔ یہ دین کس طرح مکمل ہوتا ہے۔ مکان تو مکمل ہو جاتا ہے پھر بھی اس میں ترمیم و اضافہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لیکن دین کے مکمل ہونے سے کیا مراد ہے جبکہ آپ نے بھی بھی بار بار ارتقا کا ذکر کیا ہے۔‘‘ اس وقت تک بانگ درا اورعلامہ اقبال کی کتاب RELIGIOUS THOUGHT IN ISLAM آچکی تھی اور پڑھے لکھے لوگوں میں ان کے لیکچروں کا بڑا چرچا تھا۔ فرمایا، ’’تم نے بیالوجی BIOLOGY پڑھی ہے؟‘‘ عرض کیا، ’’نہیں۔‘‘ فرمایا، ’’تو پھر تم اس کا اصل مطلب نہیں سمجھ سکتے۔‘‘ اب ظاہر ہے کہ ہمارے لئے خاموش ہو جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اس کے بعد ہم نے پوچھا کہ ’’اچھا صاحب، ہمارے ہندوستان کے یہ جو مسائل ہیں ان کا کیا حل ہے۔‘‘ تو علامہ نے بلاتردد فوراً جواب دیا، ’’سوشلزم، کوئی نہ کوئی شکل تو سوشلزم کی اپنانی ہی پڑے گی۔‘‘ پھر فرمایا، ’’میری نئی کتاب آ رہی ہے۔ اسے ضرور دیکھنا، میں نے اس میں ان تمام مسائل پر لکھا ہے۔‘‘ چنانچہ ہم نے دیکھا کہ ’’بال جبریل‘‘ چھپ کر آئی تواس میں سارے ہی CURRETNمسائل پر اقبال کے اشعارموجود ہی تھے۔ یہاں تک کہ انقلاب روس کے بارے میں، لینن کے بارے میں، مارکس کے بارے میں بھی ان کی نظمیں موجود ہیں اور پھر ان کے خطوط بھی ہیں۔ ینگ ہسبنڈ SIR FRANCIS YOUNG HUSBAND کے نام لکھتے ہیں۔ BOLSHEVISM PLUS GOD IS ISLAM چنانچہ اقبال کے یہاں تغیر، ارتقا اور حرکت کا جو تصور ہے وہ انتہائی انقلابی اور زندگی سے بھرپور ہے۔ اسی طرح ان کے انسان کا جو تصور ہے وہ بھی مشرق کے مروجہ تصورات کے مقابل بالکل نیا ہے اور اس سے قبل صرف ہمارے ہاں ہی نہیں بلکہ مشرق کے دوسرے مذاہب میں بھی ارتقا کا کوئی تصور تھا ہی ہیں۔ چاہے وہ ہندوازم ہویا بدھ مذہب یا عیسائیت۔ سارے ہی مذاہب میں انسان کی ارضی زندگی کو کسی نہ کسی صورت زوال کا نتیجہ قرار دیا گیا۔ یعنی وہ آدم کو جنت سے نکالے جانے کا تصور ہے۔ نافرمانی کی پاداش اور گناہ کے کفارہ کے طور پر، تو یہ در اصل انسان کے زوال کی داستان ہے اور اسے تعبیر بھی کیا جاتا ہے FALL OF MAN سے۔ ملٹن نے کہا ہے نا، OF MAN,S FIRST DISOBEDIANCE AND THE FRUIT OF THATFORBIDDEN TREE THAT HAST BROUGHT DEATH IN THIS WORLDاسی طرح ہندوازم میں یہ زندگی کلجگ ہے جو انسان اپنی سزا کے طور پر بھوگ رہا ہے۔ ابتدا میں ست یگ تھا۔ انسان کی زندگی کا سنہرا دور تھا۔ انسان کے بارے میں یہ تصور مشرق میں بھی تھا اور مغرب میں بھی، اور اٹھارہویں صدی سے پہلے تو مجھے کسی فلسفہ اور فکری نظام میں انسانی زندگی کے بارے میں ارتقا اور ترقی کا وہ تصور نہیں ملتا جو اٹھارہویں صدی کے بعدعام ہوا۔ اب آپ اس نطقہ نظر سے اپنے ادب کو دیکھ لیجئے، وہاں ترقی کا تصور نہیں ملے گا۔ بس زوال ہی زوال ہے۔ غالب تک کے ہاں دیکھئے وہ کہتے ہیں، ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک تھی ناپسندگستاخی فرشتہ ہماری جناب میںاب آپ اس سارے پس منظرمیں اقبال کے تصور بشر کو دیکھئے۔ کہتے ہیں، عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیںدیکھئے اقبال نے فکرپر کیسا روشن دریچہ کھول دیا ہے۔ اب تک جو انسان گناہ کی پاداش بھگت رہا تھا، اقبال نے اسے وجہ تخلیق کائنات قرار دیا۔ یہ صحیح ہے کہ مغرب میں PROGRESS کا تصور اٹھارہویں صدی کے بعد تیزی سے مقبول ہونا شروع ہو گیا تھا لیکن اقبال سے پہلے ہمارے پاس اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اقبال نے ان تمام جدید تصورات سے ہماری فکر و ادب کو متعارف کروایا اور جس کمال، خوبی، ہنرمندی اور فن کاری سے انہیں شعری قالب میں ڈھالا ہے وہ بجائے خود بے مثال ہے۔ بلکہ مجھے معاف رکھیں میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ ترقی پسند شاعری اپنی تمام تواناائی، دلکشی، نموپذیری اور حقیقت آفرینی کے باوجود ملوکیت، سرمایہ داری، سامراج اور محنت پرجو کچھ اقبال نے لکھ دیا ہے اس کے پاسنگ برابر ایک نظم بھی اپنے ہاں سے پیش نہیں کر سکتی۔ اقبال نے اصل میں اس میکنزم کو سمجھ لیا تھا جس کے ذریعے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ سماج میں محنت کش کا استحصال ہوتا ہے۔ وہ یہ جان گئے تھے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں قدر فاضل کیسے پیدا ہوتی ہے۔ اسی لئے ان کی نظموں کا CONTENT انتہائی طاقتور اور حقیقت پسندانہ رہا ہے اور اس CONTENTکے اظہار کے لئےانہوں نے جوپیکر تراشے ہیں وہ بھی اتنے ہی دلکش ہیں۔ ورنہ اقبال کی شاعری بھی تاثیر سے عاری رہ جاتی۔ ابھی تک اقبال کے امکانات اور اثرات کو صحیح طور پر دریافت نہیں کیا گیا ہے اورانہیں متنازعہ موشگافیوں میں الجھا دیا گیا ہے۔ ہم تو اقبال کو ان کے سارے تضادات کے ساتھ اپناہی شاعرسمجھتے ہیں۔ ان کے ہاں جو خوبیاں ہیں وہ ہمارے لئے قابل تقلید ہیں۔ چلئے ان کی شاعری کا ما بعد الطبعیاتی حصہ ہمارے لئے قابل قبول نہ ہو تو نہ ہو جیسے بنیاد پرستوں کے لئے ان کا تصور کائنات، تصور انسان اور تصور مذہب قابل قبول نہیں ہے تو اس سے اقبال کی عظمت میں کوئی کمی نہیں آتی۔ شاہد نقوی میں سر سید کے بارے میں ایک سوال کروں گا۔ جیسا کہ ابھی دوران گفتگو یہ بات سامنے آئی ہے کہ سر سید سیاسی طور پر رجعت پسند اور سماجی طور پر ترقی پسند فکر کے آدمی تھے لیکن ان کی چلائی ہوئی تحریک کے اثرات سیاسی بھی تھے اور سماجی بھی، جن کے خلاف اور حق میں رد عمل بھی پیدا ہوئے تو کیا ادب کے محاذ پر سر سید تحریک کے خلاف کوئی قابل ذکر رد عمل سامنے آیا تھا؟ سبط حسن  جی ہاں، سر سید کے خلاف تو لکھنؤ اسکول کا محاذ تھا جو پرانی اقدار کا حامی تھا۔ جن میں پنڈت رتن ناتھ سرشار بھی تھے اور منشی سجاد حسین بھی۔ اودھ پنچ کا سارا گروپ سرسید اور ان کے ساتھیوں کے خلاف تھا۔ حالی کے مقدمہ شعر و شاعری کے خلاف بھی خاصا لکھا گیا تھا کہ ’’میدان پانی پت کی طرح پامال ہے‘‘ وغیرہ۔ دوسری طرف دیوبند کا مورچہ تھا۔ ایسے دیوبندیوں میں ایک خوبی تھی کہ وہ سیاسی طور پر وطن پرست (نیشنلسٹ) تھے لیکن سماجی طور پر انتہائی رجعت پسند۔ اس وقت علی گڑھ جو سیاسی طور پر رجعت پسندی کا گڑھ تھا اور سماجی طور پر ترقی پسند ماحول رکھتا تھا، زیادہ تر لوگوں کی معراج سرکاری ملازمتوں اورسول سروس کا حصول تھا۔ ادیبوں، شاعروں میں بھی دو واضح گروہ موجود تھے۔ ایک گروہ روشن خیال اور ترقی پسند فکر کے حامیوں پر مشتمل تھا تو دوسرے گروہ میں رجعت پسند اور ماضی پرست خیالات کے حامل ادیب اور شاعر شامل تھے۔ مسلم شمیم  ایک طرف تو ۱۹۳۶ء سے قبل ہندوستان کی سیاسی فضا میں ایک ہیجان اور ہلچل پیدا ہو چکی تھی۔ دوسری طرف بین الاقوامیت کا تصور بھی مقبول ہو رہا تھا اور فاشزم سے انسانی تہذیب کو جو خطرات لاحق ہو رہے تھے ان پر پڑھے لکھے لوگوں میں تشویش پیدا ہو گئی تھی لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ۱۹۳۶ء کی ادبی تحریک کا پہلا منشور لندن میں بیٹھ کر لکھا جاتا ہے۔ اس طرح ترقی پسند تحریک پر جو ایک اعتراض ہے، باہر سے امپورٹ کئے جانے کا تواس سلسلے میں آپ کیا فرمائیں گے؟ مظہر جمیل اعلان لندن سے پہلے پیرس میں ادیبوں کی کانفرنس بھی ایک حوالہ بنتی ہے؟ سبط حسن  جی ہاں، بات در اصل یہ ہے کہ سجاد ظہیر نے اس سلسلے میں تفصیل سے لکھا ہے کہ یورپ میں پہلی جنگ عظیم کے بعد ۱۹۲۹ء میں جو کسادبازاری پیدا ہوئی ہے اور فاشزم کی یلغار نے دنیا بھر کے ادیبوں کو اس طرف متوجہ کر دیا تھا۔ اس وقت نہ صرف یورپ بلکہ امریکہ میں بھی ترقی پسند فکر رکھنے والے ادیبوں کے گروپ وجود میں آ رہے تھے اور بہت سے اہم نام آپ کو ان تحریکوں سے وابستہ نظر آتے ہیں۔ جیسے UPTONSINCLAIR سینکلر، جون اسٹائن بیک، ارنسٹ ہیمنگوئے، تھوڈر ڈرائزر وغیرہ۔ غرض نئے لکھنے والوں کے گروپ پیدا ہو چکے تھے، جن میں سوشلسٹ خیالات رکھنے والے بھی تھے اور جمہوریت پسند ہومینسٹ بھی۔ یہ صحیح ہے کہ بعض ہندوستانی نوجوان ادیب جو اس وقت یورپ میں تھے اس فضا سے متاثر ضرور ہوئے تھے لیکن یہ کہنا کہ ترقی پسند ادب کی تحریک باہر سے امپورٹ ہو کرآئی تھی بالکل غلط ہے کیونکہ سجاد ظہیر وغیرہ کے آنے سے قبل ہی تھوڑی بہت پیش رفت ہندوستان میں بھی ہو چکی تھی۔ جوش کی شاعری میں سرمایہ داری کے خلاف، ملائیت کے خلاف، جاگیرداری کے خلاف اور خرد افروزی کے حق میں جو خیالات ہیں یا اقبال کے ہاں جو ترقی پسندرجحانات ہیں انہیں آپ کیا کہیں گے۔ پھر ’’انگارے‘‘ چھپتی ہے جس میں پروفیسر احمد علی اور ڈاکٹر رشید جہاں وغیرہ کی کہانیاں بھی شامل تھیں۔ اخترحسین رائے پوری کا مضمون ’’ادب اور زندگی‘‘ کی اشاعت، مجنوں گورکھپوری اور نیاز فتح پوری کی تحریریں۔ غرض یہ سارے اہم واقعات ۱۹۳۶ سے پہلے پیش آتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نئے خیالات کی اساس آہستہ آہستہ بنتی چلی جا رہی تھی۔ ہرچند وہ کوششیں منظم شکل میں نہیں تھیں اور جیسا کہ آپ نے شروع میں کہا تھا کہ انجمن ترقی پسند مصنفین نے محض اتنا کام کیا کہ ان کوششوں کو منظم کر کے ایک جہت دے دی اوربس۔ انجمن پنجاب کے بعد یہ ادیبوں کی واحد ملک گیر تنظیم تھی جس کا دائرہ اثر ملک گیر تھا اور جو اردو کے علاوہ دوسری تمام قابل ذکر زبانوں میں بھی سرگرم عمل تھی۔  اس سے قبل انفرادی فکری دھارے تو موجود تھے لیکن کوئی تنظیم ہی نہیں تھی۔ اب جو یہ تنظیم قائم ہوئی تو اس نے ادب کا ایک رخ بھی متعین کیا۔ یعنی ادب کا تعلق سماجی عوامل اور آزادی کی تحریکوں سے قائم ہوا۔ یہ زمانہ جسے میں ہندوستانی تہذیب کی نشاۃ ثانیہ کا زمانہ کہتا ہوں، در اصل ۱۹۳۰ کے لگ بھگ شروع ہو چکا تھا۔ اسے صحیح معنوں میں RENAISSANCE کہنا چاہئے کہ اس عہد میں نہ صرف ادب بلکہ دوسرے تہذیبی مظاہر میں بھی تبدیلیاں آئیں جیسے موسیقی ہے۔ ہماری موسیقی جو درباروں کے ختم ہو جانے کے بعد مر رہی تھی، اس دور میں پھر زندہ ہوتی ہے اورجگہ جگہ میوزک کالجز کھلتے ہیں اور میوزک کی بڑی بڑی کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ اس طرح موسیقی کا تعلق عوام سے پھر جڑتا ہے۔ استاد کریم خاں، استاد فیاض علی خاں اور بھنڈارکر وغیرہ کوعوام میں جوعزت اور مقبولیت اس عہد میں ملتی ہے اس کی مثال اس سے پہلے کبھی نہیں ملے گی۔ اسی طرح پینٹنگ دیکھئے۔ اس میں بھی نئے اسلوب آتے ہیں اور جمینی رائے وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔ نیو تھیٹر اور بمبئی ٹاکیز کی فلمیں ’’اچھوت کنیا‘‘ جیسی فلم اس زمانے میں بنتی ہے جس کا تصور اس سے پہلے ممکن ہی نہیں تھا۔ یہ سب نئے تہذیبی مظاہر تھے  کا رخ عوام اور وطنیت کی طرف تھا۔ ہماری ترقی پسند تحریک اس بدلتے ہوئے دھارے ہی کا یک حصہ تھی۔ اس سے علاحدہ کوئی چیز نہیں تھی۔ بلکہ بغور دیکھئے تو یہ عظیم تحریک ہندوستان کی فکری و تہذیبی ارتقائی عمل کا لازمی نتیجہ نظر آئے گی۔ مظہر جمیل آپ نے تقریبا چھ سوسالہ تہذیبی تاریخ پر روشنی ڈالی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا فکری منظر کس کس طرح تبدیل ہوتا رہا ہے لیکن یہ تو فرمایئے کہ آپ کا اس تحریک سے تعلق کس طرح قائم ہوا۔ کوئی خاص واقعہ اس کا سبب تھا یا عمومی حالات؟ سبط حسن  بھائی سچی بات یہ ہے کہ ہم ترقی پسند ادب کی تحریک میں نیشنلزم اور سوشلزم کے واسطے سے آئے ہیں۔ ہم کالج ہی کے زمانے میں سوشلسٹ ہو چکے تھے اور اس زمانے میں لکھتے وکھتے بھی رہتے تھے کچھ الٹی سیدھی چیزیں۔ اس زمانے ہی سے ادب سے کچھ نہ کچھ واسطہ رہا۔ ہم اس وقت حیدرآباد میں قاضی عبدالغفار کے اخبار سے منسلک تھے۔ قاضی صاحب بہت روشن خیال ادیب تھے تو ہمارا اس تحریک سے علاحدہ رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ جب سجاد ظہیر لندن سے لوٹے تو میں اتفاق سے اس وقت چھٹیوں میں الہ آباد گیا ہوا تھا، وہیں میری ان سے ملاقات ہوئی۔ ان سے ہماری کچھ دور کی رشتہ داری بھی ہوتی تھی۔ پھر ان کا خط آیا حیدرآباد میں کہ بھئ ہم ترقی پسند مصنفین کی انجمن قائم کر رہے ہیں۔ میں نے اس سلسلے میں یوسف حسن خاں کو لکھا ہے کہ حیدرآباد میں بھی شاخ قائم کرے۔ بنے بھائی کی یوسف خاں سے پیرس سے دوستی تھی۔ وہاں معلوم نہیں ان کے کیا خیالات رہے ہوں، لیکن یہاں تو وہ نظام حیدرآباد کی سوانح عمری لکھنے کے کام پر مامور تھے اور ترقی پسندیت سے قطعی متضاد سوچ رکھتے تھے۔ چنانچہ ہم نے سجاد ظہیر کو صورت حال سے آگاہ کر دیا اور انہیں لکھ دیا کہ ڈاکٹریوسف حسن خاں ترقی پسند مصنفین کی انجمن کے لئے شاید ہی کارآمد ہوں۔ پر انہوں نے مجھے لکھا کہ ’’بھئی تم لوگ خود ہی وہاں ORGANISE کرو۔ ڈاکٹر یوسف حسن خاں نے میرے خط کا جواب بھی نہیں دیا۔‘‘ بس جناب پھر تنظیمی کام شروع ہو گیا۔ اس وقت حیدرآباد میں پرجوش ادیبوں کا ایک بڑا متحرک گروپ موجود تھا۔ مخدوم محی الدین اس گروپ کے قافلہ سالار تھے۔ اختر حسین رائے پوری بھی ان دنوں وہیں تھے۔ مرزا ظفر الحسن مرحوم تھے۔ بزرگوں میں مولوی عبد الحق صاحب اور قاضی عبد الغفار تھے۔ ہم نے ان سے تذکرہ کیا اور یہ سوچا کہ اگر سروجنی نائیڈو کسی طرح سے انجمن کی تائید کریں تو بہت اچھا ہو جائے۔ ہم لوگوں کی تو ہمت نہیں تھی ان کے پاس جانے کی، لیکن قاضی عبد الغفار نے ہماری ہمت بندھائی۔ قاضی صاحب کے سروجنی نائیڈو سے گھریلو مراسم تھے۔ لہذا وہ ہم لوگوں کو لے کر وہاں پہنچے۔ انہوں نے بہت سکون سے ہماری باتیں سنیں اوربہت خوش ہوئیں اور ہماری حوصلہ افزائی بھی اس حد تک کی کہ انجمن کا پہلا جلسہ ہی ان کے مکان گولڈن تھریش میں منعقد ہوا تھا۔ اس کے بعد جب میں لکھنؤ گیا تو انجمن سے زیادہ وابستگی رہی اور جب ہم نے ’’نیا ادب‘‘ رسالہ نکالا تو وہ انجمن کا سرکاری ترجمان قرار پایا تو اسی زمانے سے ہمارا رابطہ ترقی پسند ادب کی تحریک سے چلا آتا ہے۔ مظہر جمیل اس کا پہلا منشور ہندوستان ہی میں بنا تھا، اس کے بارے میں کچھ فرمائیے؟ سبط حسن  جی ہاں، پہلا منشور لاہور میں بنا تھا۔ مجھے بڑا افسوس اور صدمہ ہے اس اوریجنل تحریک کے ضائع ہو جانے کا جسے لاہور میں سجاد ظہیر، تاثیر، فیض، صوفی غلام مصطفے، تبسم وغیرہ نےمل کر ابتدائی شکل دی تھی۔ اس وقت تنظیم کا نام بھی غالبا ًکچھ اور تجویز ہوا تھا۔ میرے پاس اس ابتدائی منشور کا رف ڈرافٹ تھا جس میں جگہ جگہ تصحیح اور اضافہ کیا گیا تھا۔ وہ تاریخی دستاویز ابھی چند برس پہلے تک میرے پاس تھی۔ اس کے ساتھ غلام مصطفے تبسم کی ایک رپورٹ بھی تھی۔ قصہ یوں ہے کہ جب فیض صاحب ملک سے باہر غالبا ً لوٹس میں شریک ہونے جا رہے تھے تو انہوں نے یہ چند کاغذات مجھے بھجوا دیے تھے حفاظت کے خیال سے۔ اور میں نے انہیں اپنے ایک بیگ میں دوسرے اہم کاغذات کے ساتھ رکھ دیاتھا کہ ایک روز کوئی چور صاحب دن دہاڑے گھر میں گھس آئے۔ وہ سمجھے کہ بیگ میں کچھ رقم ہوگی اور اٹھا کر لے گئے اور نہ جانے کہاں پھینک دیا، مجھے ان کاغذات کے گم ہو جانے کا انتہائی ملال ہے۔ مظہر جمیل تو پہلا منشور لکھا لاہور میں گیا لیکن منظور کہاں ہوا تھا؟ سبط حسن  میرا خیال ہے لکھنؤ کانفرنس میں منظور ہوا تھا۔ ۱۹۳۶ میں اس کانفرنس میں میں شریک نہیں تھا۔ فیض صاحب بھی نہیں تھے، اس وقت تو شاید بنے بھائی کو یہ گمان بھی نہیں تھا کہ یہ تنظیم اس سرعت کے ساتھ ملک گیر سطح پر پھیل جائے گی اور لوگ اس کثیر تعداد میں اس میں شریک ہوں گے۔ مظہر جمیل غالباً پریم چند نے صدارت کی تھی پہلی کانفرنس کی؟ سبط حسن  جی ہاں اور اس میں اپنا معرکہ آرا خطبہ بھی پڑھا تھا۔ اس کے بعد میں تقریباً ساری ہی کانفرنسوں میں شریک رہا ہوں سوائے ایک آدھ کے۔ مثلاً کلکتہ، الہ آباد، دلی، حیدرآباد وغیرہ میں جو کانفرنسیں ہوئیں۔ مسلم شمیم  تو وہ منشور جو لندن میں بنا تھا اور جس پر سجاد ظہیر نے لوگوں کے دستخط لئے تھے وہ کہاں منظور ہوا تھا؟ سبط حسن  نہیں میں سمجھتا ہوں وہ منشور نہیں تھا بلکہ اعلان نامہ تھا جس پر لوگوں سے تبادلہ خیال ہوا تھا اور پھر اس کی روشنی میں پہلا منشور لکھا گیا تھا اور لکھنؤ کانفرنس میں منظور ہوا تھا۔ مظہر جمیل  وہ جو بھیمڑی کانفرنس میں ایک تبدیلی تنظیم کے منشور میں کی گئی تھی اور جس میں شدت پسندانہ رویہ اختیار کیا گیا تو اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ سبط حسن میں بھیمڑی کانفرنس میں شریک نہیں تھا، لیکن اس سلسلے میں میں نے ابھی ایک خط ہیرالڈ میں لکھا ہے جس کے ذریعے اختر حسین رائے پوری صاحب کے ایک مضمون میں بعض باتوں کی وضاحت کی ہے۔ میں نے عرض کیا ہے کہ بھیمڑی یا لاہور کانفرنس کی جو شدت پسندی تھی وہ اس وقت کے معروضی حالات کا ردعمل تھی۔ اس وقت عوامی تحریکیں اپنے عروج  فاشزم کو شکست فاش ہو چکی تھی۔ مشرقی یورپ میں سوشلسٹ حکومتیں قائم ہوگئی تھیں۔ انقلاب روس اپنی جڑیں مضبوط کر چکا تھا اور انقلاب چین کی فتح ہو چکی تھی۔ سامراجیت کی طاغوتی طاقتیں پسپائی اختیار کر رہی تھیں۔ ہر جگہ انقلابی سوچ رکھنے والے یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ انقلاب سڑک کے کونے تک آ پہنچاہے، بس ایک ذرا سا زور لگانے کی ضرورت ہے۔ یہی زمانہ تھا جب انڈونیشیا، ملیشیا، فلپائن، کوریا، ویت نام، الجیریا اور دوسرے ملکوں میں مسلح جد و جہد شروع ہوتی ہے۔ خود ہندوستان میں تلنگانہ مسلح جد و جہد سے گزر رہا تھا۔ ساری دنیا کے انقلابیوں میں بائیں بازو کی انتہائی پسندی عود کر آئی تھی، جس کے شکار ہم بھی ہوئے اور ادب برائے سوشلزم کا نعرہ اپنایا گیا جو ایک فاش غلطی تھی۔ کیونکہ اس وقت زیادہ سے زیادہ قومی جمہوری انقلا ب کی بات کی جا سکتی تھی۔ لہذا بھیمڑی کانفرنس یا لاہور کانفرنس کی شدت پسندی بلاسبب نہیں تھی بلکہ معروضی حالات کا صحیح تجزیہ نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی اور یہ غلطی کسی ایک شخص یا گروہ کی نہیں تھی بلکہ اس وقت کی اجتماعی غلط فکر کا نتیجہ تھی۔ جسے ترقی پسندوں نے فوراً ہی محسوس بھی کر لیا تھا اور اس کی اصلاح بھی کرلی گئی تھی۔ مظہر جمیل بھیمڑی کانفرنس یا لاہور کانفرنس میں جو تبدیلی آئی تھی اس سے تحریک کا بنیادی کردار بدل کر رہ گیا تھا اور یہ تنظیم جو متحدہ محاذ کی حیثیت سے وجود میں آئی تھی محض بائیں بازو کے ادیبوں کی جماعت بن کر رہ گئی؟ سبط حسن  ہاں، اس سے تحریک کو یقینا ًنقصان پہنچا ہے، خصوصا ًتنظیمی طور پر، لیکن انجمن نے فوراً ہی اس غلطی کی تلافی کرلی تھی۔ لہذا دلی اور کراچی کانفرنس کے اعلان ناموں میں تنظیم کے اصل کردار کو دوبارہ بحال کر دیا گیا تھا۔ مسلم شمیم  اس تحریک کے پچاس سال مکمل ہو چکے ہیں۔ لندن میں گولڈن جوبلی کانفرنس منعقد ہو چکی ہے اور پاکستان و ہندوستان میں اس سلسلے کی تقریبات کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ اس پورے عرصے میں تحریک کو بعض حلقوں کی طرف سے مسلسل ہدف ملامت بھی بنایا جاتا رہا ہے۔ کبھی شدت پسندی کا نام لے کر، کبھی ہیئت کے حوالے سے اورکبھی مذہب و تہذیب کے تعلق سے، توکیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ اعتراضات در اصل اس نقطہ نظر اور اس فکر کی وجہ سے کیے جاتے تھے جو ترقی پسندوں کو عزیز تھے؟ سبط حسن یہ اعتراضات کئی طرح کے تھے، بعض اعتراض تو ہماری فکر پر تھے اور بعض ہماری تحریروں پرمعترض تھے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے فوراً بعد حلقہ ارباب کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد اور منشا ہی ترقی پسند ادبی تحریک کی مخالفت اور مزاحمت تھا۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جس کے مفادات ترقی پسند تحریک کی کامیابی سے متاثر ہوئے تھے۔ انگریزوں کے کاسہ لیں، سرمایہ دار یا بنیاد پرست تو ہمارے مخالف تھے ہی۔ غرض ہر طرف سے مخالفت کا سامنا تھا لیکن نہ تو ہم نے کبھی مخالفت کی پروا کی اور نہ اعتراضات سے دل برداشتہ ہوئے بلکہ جہاں تک ممکن ہوسکا ان اعتراضات کا غیر جذباتی اور مدلل انداز میں جواب دینے کی کوشش کی ہے اور آخر مخالفین تھک ہار کربیٹھ رہے۔ مظہر جمیل آج کے دور میں ترقی پسندی سے آپ کیا مراد لیتے ہیں؟ سبط حسن بھئی سیدھی سی بات ہے، ترقی پسندیت کے جو آدرش کل تھے وہی آج بھی ہوں گے۔ ہمیشہ معروضی حالات ہی ترقی پسندیت کی کسوٹی پر ٹھہرتے ہیں۔ روشن خیالی، خرد افروزی اور جمہوری اقدار کے تحفظ اور پاسداری کے بغیر تو ترقی پسند فکر کا تصور ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی طرح استحصال کی تمام ممکنہ صورتوں کے خلاف خواہ وہ معاشی ہوں یا سیاسی، سماجی اور تہذیبی ترقی پسندوں کو قلمی محاذ قائم کرنا ہی چاہئے۔ ظالم اور مظلوم میں سے ظاہر ہے، مظلوم کی جانب داری ترقی پسندی کا ایک اہم نکتہ رہا ہے۔ ہمارے ہاں جہل کے خلاف منظم جد و جہد کی بھی ضرورت ہے جس میں ہمیں روشن خیال لوگوں کا تعاون حاصل کرنا ہوگا۔ بات دراصل یہ ہے کہ معروضی حالات کا صحیح تجزیہ کرنے کی صلاحیت ہی صحیح نتائج تک پہنچنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ لہذا ترقی پسندوں کو اس سلسلے میں توجہ دینی چاہئے اور ایسی وسیع بنیادوں پر متحدہ محاذ کی تشکیل کی جانی چاہئے جس میں روشن خیال، جمہوریت پسند، خردپسند، قوم پرست ادیبوں اور دانشوروں کی شرکت ممکن ہوسکے۔ قطع نظر ان کے سیاسی نظریات اور خیالات کے۔ بشرطیکہ وہ عوام دوستی کے معیار پر پورے اترتے ہوں۔ کٹرپن اور شدت پسندی کی بجائے رویہ میں لچک اور تدبر کا عنصر شامل ہونا ضروری ہے۔ چھوٹے چھوٹے اختلافات سے ہراساں ہونے کے بجائے ان سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ یہ جو جدیدیت اور وجودیت کی تحریکیں ہیں تو ان پرکوئی تشویش نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ یہ ہمارے فکری حریف نہیں ہیں۔ اگر بعض معاملات میں اختلافات رکھنے بھی ہوں تو چلنے دیجئے، ان اختلافات کو بھی۔ اگر کوئی نثری نظم لکھتا ہے تو لکھنے دیجئے، کوئی علامتی افسانہ لکھنا چاہتا ہے تو اس میں کیا ہرج ہے۔ آخر زبان بھی تو ایک علامت ہی ہے نا۔ خود ترقی پسندوں نے ہر دور میں نت نئے تجربے کئے ہیں۔ آج آپ ان تجربات پر کس طرح پابندی لگا سکتے ہیں۔ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھ کر نہیں رہ جانا چاہئے بلکہ اس فکری دشمن کی شناخت کرنی چاہئے جس سے اصل میں ہمارا سابقہ ہے اور وہ دشمن ہی ہے جو روشن خیالی کی جگہ فکری تنگ نظری اور رواداری کی بجائے مختلف عصبیتوں کی پرورش کرتا ہے اور استحصالی ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں دوسری اہم بات جسے میں ضروری خیال کرتا ہوں وہ خود تنقیدی کا طریقہ، ہمیں اپنی تحریروں کا اپنے رویے کا وقتاً فوقتاً تنقیدی جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔ مظہر جمیل  پاکستان کی تہذیبی فضا کے تعلق سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان در اصل مختلف تہذیبوں اور زبانوں کا ملک ہے۔ ان تہذیبوں اور زبانوں کا باہم اشتراک صدیوں سے جاری رہا ہے، لیکن آج ان تہذیبوں کا اشتراک کمزور ہوتا جاتا ہے، اسے آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟ سبط حسن اس سلسلے میں، میں نے تفصیلی طور پر مسئلے کا جائزہ لیا بھی ہے اور اپنے خیالات لکھے بھی ہیں۔ یہاں بھی میں یہی بات دہراؤں گا کہ پاکستان کثیرالقومی اور کثیراللسان ملک ہے۔ صورت حال کچھ ہمارے ہی ساتھ نہیں ہے دنیا کے بہت سے ملک ہیں، جو اس صورت حال سے دوچار ہیں بلکہ دیکھا جائے تو ایسے خوش نصیب ملک کم ہیں جن کی ایک زبان، ایک تہذیب، ایک تاریخ اور ایک مزاج ہو جیسے فرانس یا جرمنی۔ اب ان کے مقابل ہندوستان اور روس کی طرح ممالک زیادہ ہیں جہاں مختلف تہذیبیں اور مختلف زبانیں اپنی اپنی جداگانہ شناخت رکھتی ہیں۔ ہمیں دیکھنا یہ چاہئے کہ ان ممالک نے اس مسئلے کو کس طرح حل کیا ہے۔  آپ جانتے ہیں کہ ان کثیراللسان ممالک میں ہر زبان اور ہر تہذیب کو ترقی کے مساوی مواقع دیے گئے ہیں لیکن کسی دوسری زبان اور تہذیب کی قیمت پر نہیں۔ لیکن ہمارے ہاں صورت حال ذرا مختلف رہی ہے اور ہم نے اس کو ہمیشہ سیاسی مسئلہ ہی کے طور پر دیکھا ہے۔ نتیجتا ًسیاسی مصلحتیں اصل مسئلے کے حل میں مانع ہوتی رہی ہیں۔ حالانکہ قائد اعظم کے چودہ نکات جو قیام پاکستان سے قبل مرتب کئے گئے تھے، اور جن کا اعادہ گول میز کانفرنس کے موقع پر بھی ہوا تھا، اس سلسلے میں واضح تھے۔ ان میں ہندوستان کے ہر صوبے کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ قائد اعظم کی تقاریر کو دیکھئے، ان میں بھی وہ صوبوں کو زیادہ سے زیادہ اور مرکز کو کم سے کم اختیارات دینا چاہتے تھے، لیکن پاکستان بنتے ہی ہم نے ایک مخالف سمت میں سفر شروع کردیا، یعنی مرکز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کا نعرہ لگایا اور صوبوں کو برائے نام اختیارات تفویض کئے گئے۔ صوبوں کی حکومتوں میں آئے دن توڑ پھوڑ اور جوڑ توڑ کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف علاقوں کے لوگوں میں محرومی کا احساس بڑھتا چلا گیا۔ نعرہ یہ تھا کہ ایک ریاست، ایک مذہب، ایک زبان اور زبان بھی اردو جو کسی علاقے کی زبان نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس زبان کی خوبیاں ہیں جس سے شاید ہی کسی کو انکار ہوکہ یہی وہ زبان ہے جو ملک کے طول و عرض میں سمجھی جاتی ہے۔ میری بھی مادری زبان اور میں بھی اس کی ترقی کا دل سے خواہاں ہوں لیکن ظاہر ہے کسی دوسری زبان کی ترقی کی قیمت پرنہیں۔ اردو کو ہمارے مخصوص حالات میں ایک رابطے کی زبان کے طور پر قبول کیا جا سکتا تھا لیکن اسی وقت جب کہ مختلف صوبے کے لوگ ایسا کرنا چاہیں ناکہ زبردستی ان پر تھوپ کر۔ پھر اشتعال کی حد یہ ہے کہ اسے ’’مقتدرہ زبان‘‘ یعنی صاحب اقتدار زبان کہا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں اصل بات یہ ہے کہ مختلف زبان بولنے اور مختلف تہذیبی روایت رکھنے والوں کے درمیان پیدا ہونے والے احساس محرومی دور کرنے کی صورتیں پیدا کی جائیں۔ لیکن اس طرف سنجیدہ کوششیں ہو ہی نہیں رہی ہیں بلکہ اس کے برعکس کوشش اس بات کی ہے کہ صوبائی منافرت کو زیادہ سے زیادہ تیز کر کے سیاسی اور معاشی استحصال کے ذریعے سیاسی مفادات حاصل کئے جا رہے ہیں۔ اس وقت اس سلسلے میں تین نقطہ نظر سامنے آئے ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستان ایک قوم ہے۔ اس کی ایک تہذیب اور ایک زبان ہے۔ یہ وحدانی طرز فکر اور مضبوط مرکز کے حامی صاحبان اقتدار کی فکر ہے۔ دوسرا زاویہ نظر یہ ہے کہ نہیں پاکستان کوئی قوم نہیں ہے، اس کی کوئی زبان نہیں ہے۔ اس کی کوئی وحدت نہیں اور قوم اصل میں سندھی ہے، پنجابی ہے، بلوچی اور پختون ہیں۔ یہ ایک انتہا پسندانہ نقطہ نظر ہے اور جس کو میں درست نہیں سمجھتا۔ تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جویہ کہتے ہیں کہ پاکستان مختلف قومیتوں کا ملک ہے۔ جہاں مختلف زبانیں اور تہذیبیں ہیں اور جو اپنی اپنی جداگانہ شناخت قائم رکھتے ہوئے بھی ایک فیڈرل ریاست کی حیثیت سے پاکستان کی حدود میں رہ سکتی ہیں۔ تو یہ تیسرا نقطہ ہی در اصل صحیح انداز فکر ہے۔ جہاں تک رابطے کی زبان کا تعلق ہے تو اس کام کے لئے فی الحال اردو سے بہترکوئی زبان موجود نہیں ہے۔ انگریزی تو بہر حال رابطے کی زبان بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی، کیونکہ اس کو بولنے اور پڑھنے والے اتنی قلیل تعداد میں ہیں کہ اس کا بیان ہی کرنا بے محل ہوگا۔ اب رہ گئی اردو تو اس کی ترقی دوسری زبانوں کی قیمت پر بالکل نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس سے خود اس زبان کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچے گا، جیسا کہ مشرقی پاکستان میں ہوا۔ وہاں اردو کے خلاف منافرت در اصل مرکز پسند استحصال ٹولے کے خلاف منافرت تھی جنہوں نے اردو کا نام لے کر بنگالی زبان اور تہذیب پر ترقی کی راہیں بند کی تھیں۔ لہذا وہی بنگالی جو اردو کے بارے میں پسندیدگی کا اظہار کرتے تھے، اس کے دشمن بن گئے، اور اب دیکھئے وہاں کیا صورت حال ہے۔ اگر یہاں بھی اردو دوستی کے روپ میں اس طرح کا استحصالی رویہ اپنایا جاتا رہا تو یہاں بھی اس کے خلاف شدید رد عمل کا پیدا ہونا بعید از قیاس نہیں، کسی بھی زبان کو ملک کے لوگوں کی مرضی اور استصواب کے بغیر تھوپا نہیں جا سکتا۔ تہذیبی و لسانی آزادی در اصل منسلک ہوتی ہے معاشی اور سیاسی آزادی سے، جو ہمارے ہاں محض حکمراں طبقوں نے اپنے لئے مخصوص کر رکھی ہیں، جس کا تدارک جتنی جلدی کر لیا جائے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ مسلم شمیم ترقی پسند ادب کے بارے میں اکثریہ فتوی سننے میں آتا ہے کہ ترقی پسند ادبی تحریک مدت ہوئی ختم ہو چکی ہے اور اب ترقی پسند ادب ماضی کی چیز ہے؟ سبط حسن دیکھئے یہ سب باتیں بالکل بے معنی ہیں جس طر ح یہ دعوی قیاسی ہے اسی طرح اس کے خلاف باتیں بھی بے بنیاد ہوں گی اگر آپ ثبوت میں نئی تحریروں کو پیش نہ کرسکیں۔ ایک زمانے میں ادب میں جمود کا نعرہ لگایا تھا۔ پھر خود ادب کے مرحوم ہو جانے کی خبر سنائی گئی تھی لیکن لوگوں نے دیکھا کہ یہ خبر کس حد تک صحیح تھی۔ مجھے تو ادبی سرگرمی میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا نظر آتا ہے اور مجموعی صورت حال سے بالکل مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ جہاں تک اتار چڑھاؤ کا تعلق ہے تو دنیا کے ادب میں ایسے دور آتے ہی رہتے ہیں۔ خود انگریزی ادب کی آج جو صورتحال ہے اسے کوئی بہت زیادہ حوصلے افزا تو نہیں کہہ سکتا۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جس طرح آج کوئی مؤرخ تاریخی مادیت کا حوالہ دیے بغیر تاریخ نہیں لکھ سکتا چاہے، وہ بورژوا مؤرخ ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح آج کوئی ادیب ترقی پسندی کے آدرش اورمقاصد سے ہٹ کر بہترادب تخلیق نہیں کر سکتا۔ ہاں ماضی پرستی یا خیال پرستی کی بات دوسری ہے، پھر ترقی پسندوں نے ادب کے ہر شعبہ میں جو کامیابی اور اضافے کئے ہیں، اسے اگر کوئی جھٹلاتا ہے تو اسے آپ محض مخالفت برائے مخالفت اور جاہلانہ تعصب کے سوا اور کیا کہیں گے۔ زندگی کی حقیقتوں، اس کے تضادات اور معروضی حالات کو اب خارج از ادب رکھنا ممکن ہی نہیں رہا اور یہی وجہ ہے کہ ترقی پسندیت کے مخالفین کے ہاں بھی کسی نہ کسی طور پر سماجی مسائل کا پرتو آ جاتا ہے۔ لہذا زوال وغیرہ کا الزام یا دعویٰ اس طرح بے بنیاد اور بے معنی ہے جس طرح ’’ادب میں جمود‘‘ اور ’’ادب کی موت‘‘ کا اعلان بے معنی اور بے بنیاد ثابت ہوئے ہیں۔ ان معروضات پر زیادہ توجہ دینی بھی نہیں چاہئے بلکہ ان معترضین اور خود ترقی پسندوں کو علاقائی زبانوں کے ادب میں ہونے والی قابل فخر ترقی پرنظر رکھنی چاہئے۔ آج سندھی ادب میں جو ترقی پسندانہ نظریات سے بھرپور اور جاندار ادب تخلیق ہو رہا ہے یا پنجابی، بلوچی، پشتو، سرائیکی یا براہوی زبانوں کے ادب میں زندگی کی جس طرح عکاسی ہو رہی ہے اور ان زبانوں کے بولنے والوں کے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور تہذیبی مسائل جس طرح ان کے ادب میں جگہ پا رہے ہیں، کیا یہ ترقی پسند تحریک کی وسعت اور ہمہ گیریت کی نشاندہی کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ ترقی پسندیت کا ٹھیکہ کوئی اردو لکھنے والوں ہی نے نہیں لے رکھا ہے بلکہ یہ تحریک ملک کی ہر زبان میں سرایت کر چکی ہے جس سے انکار ممکن ہی نہیں۔ مسلم شمیم اگر معترضین کے اعتراض کو تھوڑ ی دیر کے لئے تسلیم کر بھی لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ترقی پسند ادب کے مقابل کون سا ادب ہے جو پیش کیا جا سکتا ہے؟ سبط حسن جی ہاں، بات تو یہی ہے اور اس دلیل کا معترضین کے پاس کوئی جواب ہوتا نہیں ہے۔ اس عرصے میں جتنی فکری تحریکیں مغرب میں پیدا ہوئیں، ان سب کا چربہ ہمارے ہاں اتارا گیا۔ بہت دنوں تک سارتر صاحب کی وجودیت کا ڈنکا پیٹا گیا کہ یہ ترقی پسندوں کےمقابل کی فکر ہے اور اس میں فرد کے ذاتی مسائل کا حل موجود ہے۔ ہمارے ہاں بھی بعض حضرات نے فیشن کے طور پر وجودیت کے نام پر لکھنا شروع کیا۔ پھر جدیدیت کاغلغلہ بلند ہوا اور لوگوں نے جدیدیت کے نام پر وجودیت کے نام پر، دو راز کار اور بے مقصد ادب تخلیق کیا جس میں تاثر تو کیا معنی ابلاغ تک نہیں تھا۔ لیکن یہ سب لوگ آج بساط ادب پر کہاں ہیں۔ اس وقت تو یہ بزعم خود معروف جدیدیوں کے ہاں بھی اس زاویہ نظر کی طرف مراجعت ہوتی نظر آتی ہے جو اب سے پہلے ادب کو محض ایک شخصی فعل سمجھتے تھے اور ترقی پسندوں کی اس بات پر خفا تھے کہ تخلیق ادب ایک سماجی عمل کا نام ہے۔