سیٹلائٹ انٹرنیٹ پر غلبہ حاصل کرنے کی دوڑ مزید تیز ہو نے لگی !
آپ نے سنا ہوگا کہ دنیا بھر کے براعظموں کے درمیان انٹرنیٹ کی کیبل سمندروں کی تہہ میں بچھائی جاتی ہے لیکن یہ اس وقت بڑا مسئلہ بنتا ہے جب ان تاروں پر بڑی مچھلیاں مثلاً شارک وغیرہ اپنے تیز دانتوں سے وار کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ تاروں کی تباہی سے دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی سروس متاثر ہوتی ہے ۔ اس سے جہاں کمپنیوں کا کروڑوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے وہیں صارفین کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہےا ور کاروبار بھی شدید متاثر ہوتے ہیں۔
اس مشکل کا حل انٹرنیٹ ترسیل کی کمپنیوں نے سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی صورت میں تلاش کیاہے۔ سیٹلائٹ انٹرنیٹ یوں تو برسوں سے موجود ہے، لیکن دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کے درمیان سیٹلائٹ کے ذریعے اپنے صارفین کو انٹرنیٹ فراہم کرنے کا یہ مقابلہ مزید تیز ہونے والا ہے، ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے ہزاروں سسٹمز کو زمین کے مدار میں لانے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔
اس صنعت میں سب سے پہلا قدم ایمیزون نے گزشتہ منگل کے دن اٹھا یا جب اس نے اپنا 10بلین ڈالر کا سیٹلائٹ زمین سے خلا میں بھیجنے کے لئے راکٹ کمپنیو ں سے معاہدے کیے۔ امریکی آن لائن ریٹیل کمپنی آئی ٹی سروسز میں اپنے منافع بخش کاروبار کو مزید مضبوط کرنا چاہتی ہے،اوربراڈ بینڈ صارفین کو ایک اچھی سروس فراہم کرنا چا ہتی ہے ،اس میں وہ لو گ شامل ہیں جو روایتی کیبل کے ذریعے قابل اعتماد انٹر نیٹ استعمال نہیں کرپارہے۔
ایمیزون کو راکٹ فراہم کرنے والی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو سٹیفن اسرائیل نے کہا ہے کہ “ سیٹیلائٹ حل فائبر کے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے ۔"انہو ں نے وضاحت کی کہ سٹیلا ئٹ کنکشن کے مقا بلے میں فا ئبر بہت مہنگا ہے خا ص طو ر پردور دراز علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے لیے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ایمیزو ن اس بھر ے با زار کو تیزی سے تو ڑ سکے گا ؟
امریکی صارفین کو پہلے سے ہی سیٹلا ئٹ انٹرنیٹ کی سہو لت مو جو د ہے اوران لو گو ں کو hughes net اور viasat تک رسا ئی حا صل ہے ۔ جبکہ یورپ میں، اورنج کی ذیلی کمپنی Nordnet اپنے صارفین کو براڈ بینڈ پیش کرنے کے لیے Eutelsat Konnect سیٹلائٹ کا استعمال کرتی ہے۔
لیکن چونکہ یہ سروسز جیو سٹیشنری مدار میں سیٹلائٹس کا استعمال کرتی ہیں ، یعنی زمین کی سطح سے 35,000 کلومیٹر (22,000 میل) سے زیادہ ، ان کی رفتار فائبر کی طرح نہیں ہو سکتی، گیمنگ جیسے تیز رفتار کاموں کے لیے استعمال میں ان کے صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایمیزون کے مستقبل کے سیٹلائٹس، جیسا کہ ایلون مسک کے اسپیس ایکس کے ذیلی ادارے سٹار لنک کے ذریعہ پہلے ہی لانچ کیے گئے ہیں، صرف 600 کلومیٹر اونچائی والے سیٹلائٹ زیریں زمینی مدار (LEO) میں کام کریں گے۔گویا یہ زمین کے انتہائی قریب ہوں گے۔ اس سطح پر گردش کرتے سیٹلائٹ کو مقناطیسی طوفانوں کا سامنا تو کرنا پڑسکتا ہے لیکن ان کی لانچنگ کی لاگت اس قدر کم ہوگی کہ راکٹ کمپنیوں سے انہیں بار بار لانچ کیا جاسکے گا۔
مارچ کے آخر میں، اقوام متحدہ کی بین الاقوامی ٹیلی کمیونیکیشن یونین نے ریمارکس دیے کہ "انٹرنیٹ کی کنیکٹیو یٹی کو عیش و عشرت سمجھا جاتا تھا،لیکن COVID-19 وبائی امراض کے دوران بہت سے لوگوں کے لیے انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی بہت اہم بن گئی تھی کیونکہ آبادی کو گھر میں رہنے کے احکامات کا سامنا کرنا پڑا اور بہت سے کام کاج کو انٹر نیٹ پر منتقل کر دیا گیا تھا ۔"
اسی ہفتے دنیا کے سب سے بڑے خلائی ٹیکنالوجی کے تجارتی شو کے موقع پر ایک کمپنی کے ایگزیکٹو نے اے ایف پی سے ملاقات کے دوران پیش گو ئی کی ہے کہ:"دنیا بھر میں بینڈوتھ کی ضرورت آسمان کو چھو رہی ہے، اور ہم مانگ کو پورا کرنے کے لیے کبھی بھی کافی سیٹلائٹ لانچ نہیں کرپائیں گے۔"