انتظار حسین اور اردو رسم الخط

اردو کے بہت بڑے افسانہ نگاروں میں انتظار حسین کا نام یقیناً شامل ہوتا ہے۔ ان کا اپنا ایک خاص اندازِ تحریر ہے جو ہمیں بے حد پسند ہے۔ گزشتہ دنوں محمد خالد اختر کی کتاب " مکاتیبِ خضر"  خریدی اور اس میں انتظار حسین کے نام حضرتِ خضر کا خط پڑھ کر طبیعت باغ باغ ہوگئی۔ انتظار حسین کی تحریر کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے۔ خالد نے انہیں"  رِپ وین ونکل"  سے تشبیہ دی ہے کہ  عین ان کی تحریرکا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ خوب ۔

 حال ہی میں انتظار حسین کا مشہور افسانہ  "شہرزاد" کی موت پڑھا۔ کیا خوبصورت افسانہ ہے۔ جب تک شہرزاد موت کے ڈر سے کہانیاں سوچتی رہی، اس کے اندر کی تخلیق کار زندہ رہی۔ جوں ہی موت کا خوف ختم ہوا، کہانیاں تخلیق کرنا ختم۔ شہرزاد گویا مرگئی۔ ہمیں ان کا یہ نکتہ بہت خوب صورت لگا۔ جب تک انسان سوچنے کے قابل ہے ، تخلیق کرنے کے قابل ہے۔ جب سوچنا چھوڑدیا گویا موت سے پہلے ہی مرگئے۔

سرِ دست انتظار حسین کی کتاب "علامتوں کا زوال" سے ایک مضمون  رسم الخط اور پھول پر بات کرنے کو جی چاہتا ہے۔ لکھتے ہیں۔

"بات ہے رسم الخط کی لیکن معاف کیجیے مجھے ایک اشتہاری اعلان یاد آرہا ہے،  جو سن لائٹ صابون بنانے  والوں کی طرف سےنشر  ہوا ہے۔ سن لائٹ کی کسی ٹکیا میں انہوں نے ایک چابی چھپاکر رکھ دی ہے۔ جس کسی خریدار کی ٹکیا سے یہ چابی نکلے گی، اسے وہ ایک موثر انعام دیں گے۔ اس اعلان کے بعد سے پاکستان کے شہروں میں سن لائٹ صابون بہت بکتا شروع ہوگیا ہے اور مولانا محمد حسین آزاد نے یہ بتایا تھا کہ نئے انداز کی خلعتیں اور زیور جو آج مناسبِ حال ہیں، انگریزی صندوقوں میں بند ہیں ، ان صندوقوں کی کنجی انگریزی دانوں کے پاس ہے۔

یہاں تک تو "ولے بخیر گزشت" کہ علومِ جدید حاصل کرکے دنیا کی برابری کرنے کا شوق کچھ برا  بھی نہیں۔ جب تک مسلمانوں کے پاس علم تھا، دوسری قومیں ان کی زبان سیکھ کر ان سے علم حاصل کرنے کو بھی جائز سمجھتی تھیں۔ آج مغرب کے پاس علم ہے جسے ہم ان کی زبان کے ذریعے حاصل کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔"

 آگے چل کر اسی سے ایک ایسا نکتہ نکالتے ہیں جسے پڑھ کر انسان جھوم جائے۔

"اصل میں ہم پچھلے سو سال سے مغرب سے صابون کی ٹکیاں خرید رہے ہیں اور ان صندوقوں کی کنجی کی تلاش میں ہیں جن میں نئے علوم بند ہیں، تازہ خبر یہ ہے کہ یہ کنجی رومن رسم الخط کی ٹکیا میں بند ہے۔

لاٹری کے ذریعے دولت تو حاصل کی جاسکتی ہے ۔ مگر ہم علم بھی لاٹری ہی کے ذریعے حاصل کرنے کی فکر میں ہیں۔

ہم نے اردو میڈیم سے میٹرک کیا تھا لہٰذا اردو ہی سے شغل رہا اور فارسی رسم الخط ہی میں اردو پڑھی اور لکھی۔ فارسی رسم الخط جیسے ہمارے خون میں رچی بسی ہے۔ نیا زمانہ آیا ، انگریزی زبان ذریعۂ تعلیم بنا تو ہم نے اپنے ہی بچوں کو رومن میں اردو لکھتے دیکھا۔ پھر کمپیوٹر اور موبائل آئے تو تب بھی اردو لکھنے کے لیے رومن رسم الخط ہی کو استعمال کیا جاتا۔ یہی زمانہ تھا جب رسم الخط تبدیل کرنے کی باتیں شروع ہوئیں۔یوں دو طبقہ ھائے خیال بن گئے۔ ایک وہ جو فارسی رسم الخط ہی کو بہتر سمجھتے تھے۔ دوسرا گروہ رومن رسم الخط کو اپنا کر دنیا کے ساتھ چلنا چاہتا تھا۔"

انتظار حسین کیا چھا لکھتے ہیں۔

" آدمی نے پہلی پہل براہِ راست چیزوں کی تصویریں بناکر صرف مطلب کا اظہار کیا۔ یہ تصویریں تجریدی رنگ میں ڈھلتے ڈھلتے رسم الخط بن گئیں۔ اب یہ تصویریں رسم الخطوں کی تہوں میں اسی طرح پیوست ہیں جس طرح اجتماعی لاشعور میں قدیم شکلیں اور تشبیہات مدفون رہتی ہیں۔"

آگے لکھتے ہیں

" عربی و فارسی رسم الخط ہماری تہذیب کی وہ شکل ہے جو اس کی بنیادی وحدت کے نشان کا مرتبہ رکھتا ہے۔ لیکن اگر ہماری تہذیب کی دوسری شکلیں جارہی ہیں تو یہ نشان کب تک کھڑا رہے گا۔ اور اگر یہ نشان گرگیا تو تہذیب کی باقی شکلیں کتنے دن کی مہمان ہیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب یار لوگ ترکی کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ جوں ہی ترکی نے اپنا رسم الخط بدلا، ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ فوراً اردو کا رسم الخط فارسی سے تبدیل کرکے رومن رسم الخط اپنا لیں، یوں وہ بچے جو انگریزی میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، کم از کم اپنی زبان سے تعلق رکھ پائیں گے۔ نیز سونے پر سہاگہ یہ کہ کمپیوٹر پر اردو لکھنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ گوروں سے کوئی امید نہیں تھی کہ ہندی اور چائینیز کی طرح کمپیوٹر پر اردو بھی لے آئیں گے۔ مائیکروسوفٹ نے کچھ ہمت کرکے شاید ونڈوز اردو میں بنالی تھی لیکن پاکستان میں کوئی اسے خریدنے پر تیار نہ ہوا۔ ہم تو مفت سوفٹ وئیر اپنے کمپیوٹر پر انسٹال کرنے کے ہمیشہ سے عادی ہیں۔ ایک زمانے میں کراچی میں ہر قسم کا سوفٹ وئیر، ڈسک پر کاپی کرکے بیچا جاتا ۔ یہ سستا حل ہم پاکستانیوں کو بہت بھاتا۔"

 

انتظار حسین نے رسم الخط کو پھولوں سے تشبیہ دی ہے، فارسی رسم الخط جو ہماری رگوں میں دوڑ رہا تھا ، اسے دیسی پھولوں اور رومن رسم الخط کو بدیسی پھولوں سے ۔ کہتے ہیں:

"جب باغیچوں سے ان کے اپنے پھول رخصت ہوجائیں اور پرائے پھول کھلنے لگیں تو یہ وقت اس زمین کی پوری تہذیب پر بھاری ہوتا ہے۔ رسم الخط اپنی جگہ کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ تہذیب کا حصہ ہوتا ہے ۔ یہ تہذیب شکلوں کے ایک سلسلے کو جنم دیتی ہے۔ یا پہلے سے موجود شکلوں کو ایک نئی معنویت دے دیتی ہے۔"

آگے اپنی بحث کے اختتام پر لکھتے ہیں:

"انگریزی پھول اور رومن حروف اجنبی زمینوں سے آئے ہیں۔ہمیں ان سے مہک نہیں آتی۔"

 

آج موبائل کے تقریباً ہر سسٹم اور سوفٹ وئیر پر اردو کی بورڈ کی سہولت موجود ہے۔ آج بچہ بچہ اردو لکھ اور پڑھ سکتا ہے۔ اردو میں میسج اور واٹس ایپ میسج لکھنا ایک عام ہی بات ہوگئی ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم اس خوفناک دور سے کوسوں نہیں میلوں اور صدیوں دور نکل آئے ہیں جب رومن رسم الخط کو اپنانے کی بات ہوتی تھی۔اب اردو کا عربی و رسم الخط ہی زندہ رہنے والا ہے۔اب ہمیں نہ آرٹ بیسڈ ان پیج چاہیئے نہ ہی اردو ونڈوز ۔ اب اسی سسٹم میں رہتے ہوئے ہم کمپیوٹر ، اور موبائل ہر جگہ اردو لکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔ انتظار حسین زندہ ہوتے تو اس صورت حال پر بہت خوش ہوتے۔

متعلقہ عنوانات