انشائیہ کیا ہے؟
انشائیہ کیا ہے۔ بادی النظر میں انشائیہ یا ایسّے کی حدود کومتعین کرنا ایک خاصا کٹھن کام ہے کیونکہ نہ صرف تاریخی اعتبار سے انشائیہ کے مفہوم اور ہیئت میں کئی ایک انقلابی تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں بلکہ ہرانشائیہ کیا بلحاظ مواد اور کیا بہ لحاظ تکنیک ایک جداگانہ کیفیت کا حامل ہے۔ تاریخی اعتبار سے بیکنؔ لیمب، چٹرٹنؔ کے طریق کار میں اس قدر تضاد ہے کہ ان کے لکھے ہوئے مضامین کو ایک ہی زمرے میں شامل کرتے ہوئے سخت ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔اسی طرح دور جدید کے بیشتر لکھنے والوں نے انشائیہ کے سلسلے میں کافی سے زیادہ آزادی سے کام لیاہے اور ناقد کے لیے انشائیہ کے مقتضیات اور امتیازی محاسن کوعلیحدہ کرکے دکھانا مشکل ہوگیا ہے۔ تاہم غائر نظر سے دیکھنے پر انشائیہ کی متنوع کیفیات اور ابلاغ واظہار کے مختلف سانچوں کے پس پشت ایک علیحدہ صنف ادب کے نقوش واضح طورپر ابھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اورہم ذرا کوشش سے انشائیہ کی حدود کومتعین اورمحاسن کو بے نقاب کرسکتے ہیں۔ایک چیز جو انشائیہ کودوسری اصناف ادب سے ممیز کرتی ہے اس کا غیررسمی طریق کار ہے۔ دراصل انشائیہ کے خالق کے پیش نظر کوئی ایسا مقصد نہیں ہوتا جس کی تکمیل کے لیے وہ دلائل وبراہین سے کام لے اور ناظر کے ذہن میں ردوقبول کے میلانات کوتحریک دینے کی سعی کرے۔ اس کا کام محض یہ ہے کہ چندلمحوں کے لیے زندگی کی سنجیدگی اورگہماگہمی سے قطع نظرکرکے ایک غیررسمی طریق کار اختیار کرے اوراپنے شخصی ردعمل کے اظہار سے ناظرکواپنے حلقہ احباب میں شامل کرے۔دوسرے لفظوں میں تنقید یا تفسیر کا خالق اس افسر کی طرح ہے جوچست اور تنگ سا لباس زیب تن کیے دفتری قواعد وضوابط کے تحت اپنی کرسی پر بیٹھا، احتساب اورتجزیے کے جملہ مراحل سے گزرتا ہے اورانشائیہ کا خالق اس شخص کی طرح ہے جو دفتر سے چھٹی کے بعد اپنے گھر پہنچتا ہے، چست اور تنگ سا لباس اتار کر ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن لیتا ہے اور ایک آرام دہ موڑھے پر نیم دراز ہوکر اورحقہ کی نے ہاتھ میں لیے انتہائی بشاشت اور مسرت سے اپنے احباب سے مصروف گفتگو ہوجاتا ہے۔ انشائیہ کی صنف اسی شگفتہ موڈ کی پیداوار ہے اوراس کے تحت انشائیہ کا خالق نہ صرف رسمی طریق کار کے بجائے ایک غیررسمی انداز اختیار کرتا ہے بلکہ غیرشخصی موضوعات پر نقدوتبصرے سے کام لینے کے بجائے اپنی روح کے کسی گوشے کو بے نقاب اور اپنے شخصی ردعمل کے کسی پہلوکواجاگر کرتا ہے۔انشائیہ کے خالق کے پاس کئی ایک ایسی کہنے کی باتیں ہوتی ہیں جنہیں وہ آپ تک پہنچانے کی سعی کرتا ہے۔ اس طور کہ آپ فی الفور اس کے دائرۂ احباب میں شامل ہوجاتے اور اس کے دل تک رسائی پالیتے ہیں۔ شاید اسے کوئی واقعہ بیان کرنا ہوتا ہے، کسی ’’ذہنی کیفیت‘‘ پر سے نقاب اٹھانا یا محض زندگی کے مظاہر کوایک نئے زاویے سے پیش کرنا ہوتا ہے اور وہ اس صنف ادب کا سہارا لے کر اپنی شخصیت یا ذات کے کسی نہ کسی گوشے کو عریاں کرنے میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے۔ بنیادی طورپر انشائیہ کے خالق کا کام ناظر کو مسرت بہم پہنچانا ہے۔ اس کے لیے وہ طنز سے کچھ زیادہ کام نہیں لیتا کیونکہ طنز ایک سنجیدہ مقصد لے کر برآمد ہوتی ہے اوراس کے عمل میں نشتریت کا عنصرموجود ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک اچھے انشائیہ میں طنز کبھی بھی مقصود بالذات نہیں ہوتی بلکہ محض ایک ’سہارے‘ کا کام دیتی ہے۔ اسی طرح انشائیہ کا خالق محض مزاح تک اپنی سعی کومحدود نہیں رکھتا کیونکہ محض مزاح سے سطحیت پیداہوتی ہے اور بات قہقہہ لگانے اورہنسنے ہنسانے سے آگے نہیں بڑھتی۔ 1اس کے برعکس ایک اچھا انشائیہ پڑھنے کے دوران میں آپ شاید حظ، مزاح، تعجب، طنز، اکتساب علم اور تخیل کی سبک روی ایسے بہت سے مراحل سے روشناس ہوں لیکن انشائیہ کے خاتمے پر آپ کومحسوس ہوگا کہ آپ نے زندگی کے کسی تاریک گوشے پر روشنی کا ایک نیاپرتو دیکھا ہے اور آپ زندگی کی عام سطح سے اوپر اٹھ آئے ہیں۔ کشادگی اور رفعت کا یہ احساس ایک ایسا متاع گراں بہا ہے جو نہ صرف آپ کومسرت بہم پہنچاتا ہے بلکہ آپ کی شخصیت میں بھی کشادگی اور رفعت پیدا کردیتا ہے۔انشائیہ کی ایک اور امتیازی خصوصیت اس کی عدم تکمیل ہے۔ ایک مقالہ لکھتے وقت جہاں یہ ضروری ہے کہ موضوع زیربحث کے تمام تر پہلوؤں پر سیر حاصل تبصرہ کیا جائے اور تحلیل، تجزیہ اور دلیل سے اپنے نقطہ نظر کواس انداز سے پیش کیا جائے کہ مقالہ ایک مکمل واکمل صورت اختیار کرلے، وہاں انشائیہ کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں موضوع کی مرکزیت توقائم رہتی ہے لیکن اس مرکزیت کا سہارا لے کر بہت سی ایسی باتیں بھی کہہ دی جاتی ہیں جن کا بظاہر موضوع سے کوئی گہرا تعلق نہیں ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں ایک مقالے کی بہ نسبت انشائیہ کا ڈھانچہ کہیں زیادہ لچکیلا (LOOSE)ہوتا ہے اوراس میں مقالے کی سنگلاخی کیفیت موجود نہیں ہوتی۔اس کے علاوہ انشائیہ میں ایک مرکزی خیال کے باوصف دلائل کا کوئی منضبط سلسلہ قائم نہیں کیا جاتا اور انشائیہ کے مطالعہ کے بعدیہ محسوس ہوتا ہے کہ انشائیہ لکھنے والے نے موضوع کے صرف ان پہلوؤں کواجاگر کیا ہے جو اس کے شخصی ردعمل سے اثرپذیر تھے اور جن کی منفرد کیفیت اس بات کی متقاضی تھی کہ مصنف ان کوناظر تک پہنچانے کی سعی کرتا۔ اس مقام پر ایک انشائیہ اور غزل کے ایک شعر میں گہری مماثلت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ غزل کے شعر کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کسی ایک نکتہ کو اجاگر توکیا جاتا ہے لیکن اس کے تمام تر پہلوؤں کوناظر کے فکر وادراک کے لیے نامکمل صورت میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہی حال انشائیہ کا ہے کہ اس میں موضوع کے صرف چند ایک انوکھے پہلوؤں کوپیش کردیا جاتا ہے اور اس سے بہت سے دوسرے پہلو تشنہ اور نامکمل حالت میں رہ جاتے ہیں۔بنیادی طور پر انشائیہ لکھنے والے کا مقصد آپ کی سوچ بچار کے راستہ کو ہموار کرنا ہے۔ بے شک وہ اپنے موضوع کے بیان میں صرف واردات اور تجربات اوراپنے ذاتی ردعمل کے اظہار تک ہی اپنی مساعی کومحدود رکھتا ہے، تاہم اس کے پیش نظرمقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ آپ کوسوچنے پر مائل کرے۔ چنانچہ ایک اچھے انشائیہ کی پہچان یہ ہے کہ آپ اس کے مطالعہ کے بعد کتاب کو چند لحظوں کے لیے بند کردیں گے اورانشائیہ میں بکھرے ہوئے بہت سے اشارات کا سہارا لے کر خودبھی سوچتے اورمحظوظ ہوتے چلے جائیں گے۔انشائیہ نگار کی اس روش کا نتیجہ انشائیہ کی وہ مخصوص صورت ہے جواسے دوسری اصناف ادب سے ممیز کرتی ہے۔ یعنی ایک انشائیہ نثر کی دوسری اصناف سے اپنے اختصار کے باعث علیحدہ نظرآتا ہے۔ سانیٹ کی طرح انشائیہ کا بھی ایک مختصر سا میدان ہے، جس کے اندرانشائیہ لکھنے والا آپ کو تصویر کا ایک مخصوص رخ دکھاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک وہ جذبات واحساسات اور تخیلات میں کانٹ چھانٹ اور کفایت (ECONOMY) کا قائل نہ ہو، اس کے لیے چند لفظوں میں موضوع کی سب سے نوکیلی کیفیات کو پیش کرنا مشکل ہوگا۔ لیکن اختصار کی یہ خصوصیت اس بات کے تابع ہے کہ انشائیہ کا پس منظر کس قدر شاداب یا بے آب و گیاہ ہے۔چنانچہ بقول ہڈسنؔ اگر انشائیہ لکھنے والے نے اس لیے اختصار سے کام لیا ہے کہ اس کے پاس کہنے کی باتیں ہی گنتی میں کم ہیں اوراس کے تجربات اور محسوسات تعداد اور شدت میں نہ ہونے کے برابر ہیں تواس کا لکھا ہوا انشائیہ یقیناً انشائیہ کے معیارپر پورا نہیں اترے گا۔ اس کے برعکس اگر انشائیہ لکھنے والے کا ذہن زرخیز ہے اوراس کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن اس نے انشائیہ کی محدود سی دنیا میں اپنے احساسات اور تخیلات کو اختصارکے ساتھ پیش کرنے کی سعی کی ہے تواس کا یہ انشائیہ یقیناً ایک قابل قدرچیز ہوگا اور ناظرین کو وہ تمام کیفیات مہیا کرے گا جو انشائیہ سے مخصوص ہیں۔ایک آخری چیز جسے انشائیہ کا امتیازی وصف سمجھنا چاہئے اس کی ’تازگی‘ ہے۔ یوں تو تازگی ایک ایسی خصوصیت ہے جس کے بغیر کوئی بھی صنف ادب فن کے اعلیٰ مدارج تک نہیں پہنچ سکتی، تاہم شاید انشائیہ ہی ایک ایسی صنف ہے جس میں نہ صرف تازگی کا سب سے زیادہ مظاہر ہ ہوتا ہے بلکہ جس کی ذرا سی کمی بھی انشائیہ کو اس کے فنی مقام سے نیچے گرا دیتی ہے۔ تازگی سے مراد محض اظہار وابلاغ کی تازگی نہیں کیونکہ یہ چیز توبہرحال انشائیہ میں موجود ہونی چاہئے۔ تازگی سے مراد موضوع اور نقطہ نظر کا وہ انوکھاپن ہے جو ناظرکو زندگی کی یکسانیت اور ٹھہراؤ سے اوپر اٹھاکر ماحول کا ازسرنو جائزہ لینے پر مائل کرتا ہے۔ عام طورپر ہم سب زندگی کے مظاہر کو ہرروز دیکھتے دیکھتے ان کے اس قدر عادی ہوجاتے ہیں کہ ہمںک ان کے بہت سے انوکھے پہلو نظر ہی نہیں آتے اور زندگی ہمارے لیے ایک کھلی ہوئی کتاب کا درجہ اختیار کرلیتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب محض ہمارے ردعمل کا قصور ہے، ورنہ زندگی کے دامن میں نئے پہلوؤں کے قحط کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔انشائیہ لکھنے والے کا کام یہ ہے کہ وہ ہمیں ایک لحظہ کے لیے روک کر زندگی کے عام مظاہر کے ایسے پہلو دکھاتا ہے جنہیں ہماری نظروں نے اپنی گرفت میں لیا ہی نہیں تھا اور جو ہمارے لیے گویا موجود ہی نہیں تھے۔ اس مقام پر ایک انشائیہ لکھنے والے اور ایک غیرملکی سیاح میں قریبی مماثلت بھی دکھائی دیتی ہے کہ جس طرح ایک سیاح کو کسی نئے ملک کی بہت سی ایسی انوکھی باتیں فوراً معلوم ہوجاتی ہیں جواہل وطن کی نظروں سے اوجھل ہوتی ہیں، اسی طرح ایک انشائیہ لکھنے والا زندگی کے عام مظاہر کے ان تازہ پہلوؤں کوفوراً دیکھ لیتا ہے جو زندگی میں سطحی دلچسپی کے باعث ایک عام انسان کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔زندگی کی ان انوکھی اور تازہ کیفیات کا احساس دلانے کے لیے انشائیہ کا خالق کئی ایک طریق کار اختیار کرنا چاہتا ہے۔ مثال کے طورپر وہ بلندی پر سے زندگی کے بظاہر اعلیٰ اور بلند مظاہرکی پستی کا ایک تصور قائم کرتا ہے یا ایک شریر آئینے میں سے ماحول کا بگڑا ہوا منظر دکھاتا ہے۔ یا پھر زندگی کے تسلیم شدہ قواعد اور ضوابط پرنظرثانی سے ہمیں چونکانے لگتا ہے۔ بہرصورت اس کا کام تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنا اور ہمیں عادت اور تکرار کے حصار سے لحظہ بھر کے لیے آزادی دلانا ہے تاکہ ہم غیرجانبدارانہ طریق سے زندگی کے روشن اور تاریک رخ کا جائزہ لے سکیں۔ واضح رہے کہ انشائیہ کا خالق کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرتا اور نہ کوئی مشورہ ہی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کوئی مکمل نقطہ نظر پیش کرنے سے بھی اجتناب کرتا ہے۔ اس کا کام محض ایک عام چیز کے کسی انوکھے اور تازہ پہلو کی طرف آپ کومتوجہ کرنا اورآپ کو ایک مخصوص انداز سے سوچنے کی ترغیب دینا ہے۔مثال کے طورپر بعض انگریزی مضامین کے عنوانات دیکھئے کہ کس طرح انشائیہ لکھنے والے نے زندگی کی عام ڈگر سے ہٹ کر زندگی کے دیوانہ وار بڑھتے ہوئے قافلے پر ایک نظر ڈالی ہے اور ایک انوکھی صنف ادب کا سہارا لے کر ناظر کو بھی اپنے تجربے میں شامل کرلیا ہے۔ یہ چند عنوانات دیکھئے،“IN PRAISE OF MISTAKES”(ROBETLYND)“ON THE PLEASURE OF NO LONGER BEING YOUNG”(CHESTERTON)“WHY DISTANT OBJECTS PLEASE” (HAZLITT)“ON THE IGNORANCE OF THE LEARNED”(HAZLITT)یہ عنوانات اس بات پر دال ہیں کہ انشائیہ کا خالق اپنے موضوع کے انتخاب میں جدت سے کام لیتا ہے۔ تاہم بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی کیونکہ انشائیہ کا خالق مضمون کے تاردپود میں بھی ایک خوشگوار تازگی کوبرقرار رکھتا ہے۔ چنانچہ انشائیہ کے مطالعہ کے بعد ناظرکومحسوس ہوتا ہے کہ وہ چند لمحوں میں حظ، تعجب اور مسرت کی بہت سی منازل طے کرآیا ہے۔ غور کیجئے توانشائیہ کی امتیازی صورت ایک بڑی حد تک اسی خوشگوار تازگی کی رہین منت ہے۔انشائیہ کے بنیادی محاسن کواجاگر کرنے کے بعد قدرتی طورپر یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اردو میں انشائیہ کی صنف کے بارے میں تحقیق کی جائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ اردوانشائیہ نے اب تک کیا ترقی کی ہے اور مستقبل میں اس کے فروغ وارتقاء کے کیا امکانات ہیں لیکن جب اردو انشائیہ کا جائزہ لیا جائے تو مایوسی کا سامنا ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نںیہ کہ بعض نقادوں نے اردو انشائیہ کے تاریخی اور تدریجی ارتقاء کو مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اردو میں انشائیہ کے وجود کوثابت کرنے کی دھن میں انہوں نے کسی قابل قدر تحقیقی سرگرمی کا ثبوت نہیں دیا بلکہ ہر قسم کے طنزیہ مضامین یا غیرشخصی سنجیدہ نگارشات کو انشائیہ کا نام دے کر محض خود کوتسلی دینے کی سعی کی ہے۔ فی الواقع اردو میں تاحال انشائیہ کی صنف بطور ایک تحریک کے معرض وجود میں نہیں آئی۔سرسیداحمدخاں کے بعض مضامین کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ہم انہیں انشائیہ کے تحت شمار کرسکتے ہیں لیکن میری دانست میں ایسا کرنا درست نہیں کیونکہ سرسید کے بیشترمضامین میں ایک توسنجیدہ مباحث کا انداز ملتا ہے جوانشائیہ میں نہیں ہونا چاہئے۔ دوسرے انداز بیان میں وہ شگفتگی نہیں جو انشائیہ کا بنیادی وصف ہے۔ تیسرے ان مضامین میں سرسید نے اپنی ذات کے کسی نامعلوم گوشے کو عریاں کرنے کے بجائے خارجی زندگی کے واقعات اور مسائل کو نمایاں کیا ہے۔ سرسید کے بعد انشائیہ کے ضمن میں سجادحیدریلدرم اور خواجہ حسن نظامی کے نام عام طور سے پیش کیے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان اہل قلم نے انشائیہ نویسی کی صلاحیت کے باوصف اس صنف ادب کا کوئی صحیح نمونہ پیش نہیں کیا۔ سجادحیدر یلدرم کا مضمون ’مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ‘ یقینا انشائیہ کے زمرے میں آتا ہے لیکن ہرشخص جانتا ہے کہ یہ مضمون اوریجنل نہیں بلکہ ماخوذ ہے۔ سجادحیدر کے بعض دوسرے مضامین میں کہیں کہیں انشائیہ نویسی کے تیور ضرور ملتے ہیں لیکن ان میں سے شاید کوئی ایک مضمون بھی ایسا نہیں ہے جسے انشائیہ کے طورپر پیش کیا جاسکے۔خواجہ حسن نظامی کے ہاں بھی انشائیہ نویسی کا رجحان تھا اور وہ ایک انشائیہ نویس کی طرح زندگی کے بظاہر غیراہم موضوعات پر قلم اٹھانے پر بھی مائل تھے۔ (مثلاً مچھر وغیرہ پر ان کے مضامین) لیکن ان تمام مضامین میں انشائیہ کی دواہم خصوصیات کا فقدان ہے۔ ایک تو ان مضامین کا لہجہ انشائیہ کے لہجے سے ہم آہنگ نہیں۔ دوسرے ان میں مصنف کی اپنی ذات یا شخصیت اجاگر نہیں ہوئی۔ چنانچہ یہ مضامین انشائیہ کے تحت شمار نہیں ہوسکتے۔ فرحت اللہ بیگ کے ہاں وہ بہت سی باتیں ملتی ہیں جو انشائیہ کا امتیازی وصف قرار پاچکی ہیں۔ مثلاً شگفتہ انداز نگارش اورموضوع سے مصنف کا گہرا تعلق وغیرہ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ فرحت اللہ بیگ کے ہاں بھی دوسرے کرداروں کی عکاسی یا واقعات کا بیان ہی انشاء کا غالب ترین عنصر ہے اور اسی لیے وہ بھی اپنی ذات کے کسی گوشے کی عریاں نہیں کرسکے۔ ’’نذیراحمد کی کہانی‘‘ اور پھول والوں کی سیر اردوادب مںع زندہ رہنے والی تخلیقات ضرورہیں لیکن انہیں انشائیہ کے طورپر پیش کرنا بے حد مشکل ہے۔جدیددور میں مولانا ابوالکلام آزادؔ کی تصنیف ’’غبارخاطر‘‘ کے بعض مضامین انشائیہ سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً چڑیوں کے سلسلے میں مولانا موصوف کے تجربات یا قہوہ کے بارے میں ان کا مخصوص ردعمل۔ ان مضامین میں پرشکوہ اسلوب نگارش کی بجائے مولانا نے ایک ایسا ہلکا پھلکا اور شگفتہ سٹائل اختیار کیا ہے جو انشائیہ کے مزاج سے ہم آہنگ ہے۔ افسوس کہ مولانا نے اپنے اس مخصوص انداز میں کچھ زیادہ مضامین تحریر نہیں کیے۔ اگر وہ اس صنف کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہوتے اور اپنے مضامین سے انکشاف ذات کا کام بھی لیتے تو یقیناً انہیں انشائیہ کے ضمن میں ایک امتیازی مقام حاصل ہوتا۔جدیددور میں مضمون نگاری کو بے شک اہمیت ملی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ انشائیہ کی بجائے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کوفروغ حاصل ہوا ہے۔ چنانچہ پطرسؔ کے تقریباً سارے مضامین مزاحیہ ہیں اورکنھیالال کپورؔ کے بیشتر مضامین طنزیہ ہیں لیکن ان دونوں کے ہاں شاید ایک مضمون بھی ایسا نہیں ہے جسے انشائیہ کے مزاج کا حامل کہا جاسکے۔ رشیداحمدصدیقیؔ کے ہاں اگرچہ طنزیہ انداز غالب ہے اوران کے مزاح کی اساس ایک حد تک لفظی الٹ پھیر ہی پر قائم ہے، تاہم ان کے مضامین میں کہیں کہیں انشائیہ کے تیور ضرور مل جاتے ہیں۔ پھر بھی ہم انہیں ’’انشائیہ نویس‘‘ تویقیناً نہیں کہہ سکتے۔کرشن چندرؔ کی کتاب ’’ہوائی قلعے‘‘ کے بعض مضامین انشائیہ سے قریب ہیں لیکن شاید یہ زمانہ ہی طنز و احتساب کا تھا کہ کرشن چندرؔ نے خود کو اپنی ذات کی بجائے خارجی ناہمواریوں کی طرف متوجہ کیا اور اسی لیے انشائیہ تخلیق نہیں کرپائے۔ ان کے مقابلے میں فلکؔ پیما کے ہاں انکشاف ذات کا عنصر نسبتاً زیادہ ہے اوران پر انگریزی انشائیہ کا اثر بھی ہے۔ مگربدقسمتی سے فلکؔ پیما کے بیشتر مضامین مختصر نوٹس (NOTES)کی صورت اختیار کر گئے ہیں یا مکالمے کے انداز میں ڈھل گئے ہیں۔ چنانچہ ان مضامین کو بھی ہم انشائیہ نہیں کہہ سکتے۔جدیدترین دورمیں انشائیہ کی طرف سنجیدگی سے توجہ ہونے لگی ہے۔ ڈاکٹر داؤد رہبر کے بعض مضامین بالخصوص ’’لمحے‘‘ اور ’’چمن آرائی‘‘ کو انشائیہ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ دوسرے مضامین میں ڈاکٹر صاحب نے غواصی کی بجائے بیان اورمشاہدے پر نسبتاً زیادہ توجہ صرف کی ہے۔ اس سے انشائیہ کی بجائے افسانے کا رنگ زیادہ شوخ ہوا ہے۔ مشکورحسین نے بھی انشائیہ لےھنا کی کوشش کی ہے۔ اپنے مضامین میں انہوں نے انشائیہ کے بنیادی محاسن کو پیش نظر ضرور رکھا ہے لیکن وہ اپنے خیالات کے اظہار میں ضرورت سے زیادہ سنجیدہ ہیں۔ دوسرے ان کے ہاں ایک نمایاں اصلاحی رنگ بھی آگیا ہے۔ یہ دونوں باتیں انشائیہ کے لیے مضر ہیں۔پچھلے چند برس میں انشائیہ نویسی کے سلسلے میں کچھ اور نام بھی سامنے آئے ہیں۔ مثلاً مشتاق قمر نے ’’چھڑی‘‘، ’’لیونانہم‘‘، ’’بیٹھنا‘‘ اور ’’آئس کریم کھانا‘‘ لکھ کر یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ آگے چل کر انشائیہ نگار کے روپ میں ابھرنے والے ہیں۔ جمیل آذرؔ کا انشائیہ ’’پک نک‘‘ اور محمودشامؔ کا انشائیہ ’’بے ہمتی‘‘ بھی صحیح معنوں میں انشائیہ ہیں اور ان دونوں نے انشائیہ کے امتیازی محاسن کواچھی طرح ملحوظ رکھا ہے۔ اسی طرح غلام جیلانی اصغرؔ بھی ایک نہایت عمدہ انشائیہ ’’بستر پر لیٹنا‘‘ لکھ کر اس صف میں شامل ہوچکے ہیں۔ان دنوں انشائیہ سے دلچسپی کا ایک اہم ثبوت یہ ہے کہ انشائیوں کے مجموعے پیش کرنے کا رجحان بھی وجود میں آگیا ہے۔ پچھلے دنوں ڈاکٹر وحیدقریشیؔ نے انشائیوں کا ایک نہایت ضخیم مجموعہ بڑی محنت سے مرتب کیا مگرانشائیے کے نام سے اس میں ہر طرح کے معیاری اور غیرمعیاری طنزیہ، مزاحیہ اور سنجیدہ مضامین جمع کردیے۔ دراصل جب تک انشائیہ کے امتیازی محاسن کو پوری طرح ملحوظ نہ رکھا جائے، اس قسم کے مجموعوں کوپیش کرنے سے انشائیہ کی تحریک کو فائدہ کے بجائے نقصان پہنچنے کا زیادہ احتمال ہے۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پہلے سنجیدگی سے انشائیہ کا مطالعہ کریں۔ اس کی حدود متعین کریں، اسے ’’پہچانیں‘‘ اورپھر اس میزان پر ہر اس ادبی تخلیق کو تولنے کی کوشش کریں جسے بطورانشائیہ پیش کیا جائے۔ میری دانست میں انشائیہ کو فروغ دینے کا یہی ایک احسن طریق ہے۔حاشیہ(۱) طنز یا مزاح انشائیہ کی ایک اضافی خرابی ہے، اس کا جزولاینفک ہرگز نہیں۔ چنانچہ یورپی ادب میں ہمیں بہت سے اعلیٰ درجے کے ایسے انشائیے ملتے ہیں جن میں خیال اور اسلوب کی تازگی ہی سب کچھ ہے لیکن جن میں طنز یا مزاح سے کوئی کام نہیں لیا گیا۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جہاں کہیں انشائیہ میں طنز یا مزاح مقصود بالذات قرار پاتا ہے، انشائیہ کا مزاج ہی تبدیل ہوجاتا ہے اور وہ انکشاف ذات کے عمل کو تج کر ایک محتسب یا مسخرے کے طریق کار کواپنا لیتا ہے۔ یہاں ذرا توقف کیجئے تاکہ میں بعض اصولی اور بنیادی باتوں کی طرف آپ کومتوجہ کرسکوں۔ طنز، زندگی کی ناہمواریوں کے احساس سے جنم لیتی ہے اور ناہمواریاں صرف اس وقت نظر کی گرفت میں آتی ہیں جب آپ عام ذہنی روش سے اوپر اٹھ کر ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ طنز نگار وہ شخص ہے جو آپ کو فراز سے مخاطب کرتا ہے اور چونکہ وہ ایک بلند جگہ پر کھڑا ہے اور خودکو ان ناہمواریوں سے محفوظ سمجھتا ہے جنہیں وہ مذاق کا نشانہ بناتا ہے، اس لیے اس کی ہنسی میں جذبہ افتخار اور احساس برتری ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ دوسری طرف مزاح نگار نشیب کے اس مقام پر کھڑا ہے جہاں وہ خودناہمواریوں سے ہم آہنگ ہے اوراس لیے قدرتی طورپر اس کا ردعمل ہمدردی اور محبت سے مملو ہے لیکن ان دونوں کے برعکس انشائیہ نگار نہ توآپ کوفراز سے مخاطب کرتا ہے اور نہ نشیب سے، وہ تو آپ سے ایک ہموار سطح پر ہم کلام ہوتا ہے۔بے شک طنز ومزاح کا استعمال اس کے لیے شجرممنوعہ نہیں ہے اور وہ اپنے مرکز ی نقطے (ہموار سطح) سے لحظہ بھر کے لیے اوپر اور نیچے بھی جاتا ہے تاہم وہ ہر بار اپنے مرکزی نقطے کولوٹ ضرور آتا ہے۔ دوسری طرف طنز نگار فراز کے نقطے سے ایک قدیم نیچے نہیں اترتا اور مزاح نگار نشیب کے نقطے سے ایک قدم اوپر نہیں جاتا۔ اپنے اپنے مرکزی نےطل سے ذرا سی جنبش بھی ان کے لیے مہلک ہے۔ لیکن انشائیہ نگار نسبتاً آزاد ہے اور دونوں اطرف میں آجاسکتا ہے تاہم خودانشائیہ نگار کے لیے اپنے مرکزی نقطے کوترک کرکے کسی اورنقطے کو اپنالینا موت کوآواز دینا ہے۔ پس انشائیہ اورطنزیہ یا مزاحیہ مضمون میں زمین اور آسمان کا فرق ہے اور جو لوگ انشائیہ کو پہچانتے ہیں، اسے کسی اور صنف سے خلط ملط کرنے کے کبھی مرتکب نہیں ہوتے۔