انسانی جسم میں خلیوں کی جانچ

     امریکہ  کی  UC San Diego انسٹی ٹیوٹ کے  محققین نے  حالیہ دنوں میں  مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے، ایک تکنیک وضع کی ہے جس سے انسانی خلیے کا مزید گہرائی سے مطالعہ  کیا جا سکے گا ۔ نہ صرف گہرائی سے مطالعہ کیا جا سکے گا بلکہ اس کے مزید چھوٹے چھوٹے اجزا کی نشان دہی بھی کی جا سکے گی، جو پہلے موجود ٹیکنالوجی کی مدد سے ممکن نہیں بنائی جا سکی۔  اس سے انسانی جسم میں پیدا ہونے والی بیماری کی جڑ کو سمجھنے اور پھر اس جڑ کو ختم کرنے کے لیے کوئی تکنیک وضع کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔  محققین نے اس تکنیک کو ملٹی سکیل انٹی گریٹڈ سیل

Multi Scale Integrated Cell

 کا نام دیا ہے۔

مصنوعی ذہانت پر مبنی یہ تکنیک  خلیے کے چھوٹے چھوٹے اجزا کی نشان دہی کرتی ہے۔   اس نشان دہی کے ذریعے انسانی نشوونما اور بیماری  کے سورس کا  سراغ لگایا جا سکتا ہے۔

اب تک، زیادہ تر انسانی بیماریوں  کی بنیاد خلیے کے خراب   اجزا کو سمجھا جاتا ہے۔ خرابی کی وجہ سے جہاں ایک ٹیومر  پیدا  ہو جاتا ہے۔  یہ  ٹیومر، زیادہ تر جینز کے خاص پروٹین پیدا نہ کر پانے  کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے یا میٹابولک پروسس میں کوئی بیماری پیدا  ہو جاتی  ہے۔ لیکن، بالکل درست طریقے سے،  یہ سمجھنے کے لیے کہ کسی بیماری میں خلیے کے کون سے  اجزا یا کوئی جزو خراب   ہوا ہے، سائنسدانوں کو ابھی مزید ایجادات یا تکنیکس وضع کرنا ہوں گی۔ کیونکہ،  اس بات  کا پتہ کہ خلیے کا کون سا جزو خراب ہوا ہے، اس وقت تک نہیں لگ سکتا جب تک  تمام حصوں کی مکمل  فہرست مرتب نہ ہو جائے اور اس بات کا یقین نہ ہو جائے کہ دریافت شدہ خلیے کےعلاوہ، کوئی اور خلیے کا جزو دریافت ہونا باقی نہیں۔

مائیکروسکوپی، بائیو کیمسٹری کی تکنیکوں اور مصنوعی ذہانت کو یکجا کرکے،  زیر بحث تکنیک وضع کی گئی ہے۔ یونی ورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو اسکول آف  میڈیسن کے خیال میں یہ تکنیک انسانی خلیوں کی تفہیم میں ایک اہم  سنگ میل ثابت  ہو سکتی ہے۔ ملٹی اسکیل انٹیگریٹڈ سیل (MuSIC  ) کے نام  سے وضع ہونے والی یہ تکنیک 24 نومبر 2021 کو نیچر میں بیان  کی گئی ہے۔ نیچر، در اصل، سائنسی تحقیقات  پر مبنی مقالہ جات اور مضامین چھاپنے والا نامور جریدہ ہے۔

سان ڈیاگو سکول آف میڈیسن اور مورز کینسر سینٹر کے پی ۔ایچ۔ ڈی پروفیسر ٹری آئیڈیکر نے اس تکنیک کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا: "اگر  آپ کسی خلیے کو اپنے ذہن میں تصور کرتے ہیں تو شاید آپ اپنی سیل بائیولوجی کی نصابی کتاب میں مائٹوکونڈریا، اینڈوپلاسمک ریٹیکولم اور نیوکلئس کے رنگین خاکے کی تصویر کشی  کر  رہے ہوتے ہیں۔ لیکن کیا یہ پوری  تصویر  ہوتی ہے؟ یقینی طور پر نہیں،سائنسدانوں نے طویل عرصے سے محسوس کیا ہے  کہ جو ہم جانتے ہیں،  وہ  خلیے کے مکمل اجزا نہیں ہیں۔ لیکن اب ہمارے پاس خلیے کو مزید گہرائی  سے دیکھنے کا ایک طریقہ آ گیا ہے۔"

پائلٹ اسٹڈی میں، MuSIC کے ذریعے انسانی گردے کی سیل لائن کے اندر موجود تقریباً 70 اجزاء  کو دیکھا گیا۔ ان اجزا میں  نصف ایسے تھے جو پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔  ایک اور ٹیسٹنگ کے دوران، محققین نے پروٹین کے ایک گروپ کو دیکھا  جس نے ایک  غیر دریافت شدہ ترتیب  بنائی ہوئی  تھی۔  سائنسدانوں نے  خاصی مغزماری کے بعد بالآخر  اسے پروٹین کا ایک نیا کمپلیکس  قرار  دیاجو RNA کو باندھتا   ہے۔  یہ کمپلیکس  ممکنہ طور پر  سلائسنگ کرنے میں  حصہ لیتا ہے، جو ایک اہم سیلولر  عمل ہے جو جینز کو پروٹین  بنانے  کے قابل بناتا ہے، اور اس بات کا تعین کرنے میں مدد کرتا ہے کہ کون سے جین کس وقت  متحرک ہوں گے۔

خلیات کے اندرونی حصے  اور وہاں پائے جانے والے بہت سے پروٹینز   کا مطالعہ عام طور پر دو میں سے ایک تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے کیا جاتا ہے:

مائیکروسکوپ امیجنگ یا بائیو فزیکل ایسوسی ایشن microscope imaging or biophysical association ۔

 امیجنگ کے ساتھ، محققین دلچسپی کے پروٹینوں میں مختلف رنگوں کے فلورسنٹ ٹیگز شامل کرتے ہیں اور خوردبین  کے ذریعے ان کی نقل و حرکت  کو ٹریک کرتے ہیں۔ بائیو فزیکل ایسوسی  ایشن میں ، محققین کسی پروٹین کے لیے مخصوص اینٹی باڈی کا استعمال کر تے ہیں تاکہ اسے سیل سے باہر نکالا جا سکے اور یہ  دیکھا جا سکے کہ اس کے ساتھ اور کیا کیا منسلک ہے۔

محقیقین ٹیم کئی سالوں سے خلیات کے اندرونی کام اور اس کے اجزا  کا کا نقشہ بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ لیکن اس کے لیے درج  بالا  دونوں  تکنیکس کامیابی نہیں دے پائیں۔ MuSIC کے بارے میں جو چیز مختلف ہے وہ سیلولر مائکروسکوپی امیجز سے براہ راست سیل کا نقشہ بنانے کے لیے  مصنوعی ذہانت کا استعمال ہے۔

ان ٹیکنالوجیز کا مصنوعی ذہانت کے ساتھ مجموعہ منفرد اور موثر معلوم ہوتا ہے۔   اس تکنیکس کے ذریعے بیالوجی  کے میدان میں بہت سے نئے انکشافات ہو سکتے ہیں۔