انسان نے اول اول بولنا کیونکر شروع کیا؟

علمائے فلالوجی (علم اللسان) نے جو نقشہ دنیا کی زبانوں کی تقسیم کا مرتب کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک براعظم کی زبانوں کی تعداد حسب ذیل ہے،


(۱) ایشیا ۹۸۷
(۲) یورپ ۳۵۸
(۳) افریقہ ۲۷۶
(۴) امریکہ ۱۲۶۴
(۵) اوشینیا ۷۹


یہ تقسیم باعتبار جغرافیہ کے ہے۔ زبانوں کی ترکیب اور بناوٹ کے لحاظ سے ان کی بڑی بڑی قسمیں حسب ذیل ہیں،


(۱) آرین زبانیں
(۲) سامی زبانیں
(۳) تورانی زبانیں


اول خاندان کی زبانوں میں سنسکرت، لاطینی، یونانی، ژند، زبانیں داخل ہیں، جو مردہ ہو چکی ہیں۔ اس خاندان کی زندہ زبانوں میں انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، ایطالی، اندلسی، ڈچ، ہندی، فارسی وغیرہ یورپ و ایشیا کی موجودہ زبانیں داخل ہیں۔ دوسرے خاندان میں سے عبرانی اور حمیری زبانیں مردہ ہو چکیں، عربی ایک زندہ زبان ہے جس کو دنیا کے تیرہ آدمیوں میں سے ایک آدمی بو لتا ہے۔ تیسرے خاندان کی زبانوں میں ترکی، چینی، جاپانی، برہمی وغیرہ زبانیں داخل ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس قدر زبانیں کیوں کر پیدا ہوئیں اور انسان نے اول اول بولنا کیوں کر شروع کیا؟ ہر زبان کے بولنے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں کی زبان دنیا میں سب سے پہلے بولی گئی۔ دنیا کے اکثر مذہبی آدمی تو یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ انسان کو زبان خدا نے سکھائی اور بطورِ الہام الفاظ اس کے دل میں القا کیے گئے مگر زمانۂ حال کے علماء جو ہر بات کا پتہ پتال تک لگاتے ہیں، ان الفاظ کو سن کر خاموش نہیں رہ سکتے۔


اٹھارہویں صدی عیسوی کے فلاسفہ، لاک، ایڈم سمتھ، ڈوگلڈ اسٹوارٹ وغیرہ یہ کہتے تھے کہ انسان پہلے تو بالکل گونگا تھا۔ کوئی آواز بےمعنی یا بامعنی اس کے منہ سے نہیں نکلتی تھی۔ اگر ایک آدمی دوسرے آدمی سے اپنے دل کی بات کہنی چاہتا، تو ہاتھ پاؤں سے اشارہ کرتا تھا اور طرح طرح کی حرکتوں سے اپنا مطلب سمجھاتا تھا۔ جب اشاروں اور حرکتوں سے ہمیشہ کام نہ چلا تو وہ طبعاً بولنے پر مجبور ہوا۔ اس کی زبان خودبخود کھل گئی اور ہر مطلب کے لیے الفاظ اس کے منہ سے نکلنے لگے۔ ان الفاظ پر متکلم اور سامع دونوں کا اتفاق ہوتا گیا اور رفتہ رفتہ ایک وسیع زبان پیدا ہو گئی۔ یہاں تک تو یہ فلاسفہ متفق ہیں۔ آگے چل کر اس بات میں اختلاف ہے کہ الفاظ میں سے فعل پہلے پیدا ہوا یا اسم، بعض تو کہتے ہیں کہ سب سے پہلے فعل پیدا ہوا۔ کیوں کہ اسم کا اشارہ سے سمجھا دینا ممکن ہے۔ مگر فعل میں جو معنی پوشیدہ ہیں وہ اشارے سے سمجھے نہیں جا سکتے۔ اس لیے مثلاً جب کبھی کوئی آدمی بھیڑیے کو آتا دیکھتا تو وہ ’’آیا، آیا‘‘ کہہ کر چلاتا اور دوسرے کو خبردار کرتا تھا۔


بعض کہتے ہیں کہ فعل سے پہلے اسم پیدا ہوا، کیوں کہ اسم کے معلوم ہونے کے بعد فعل کا اس کی طرف منسوب کر دینا آسان ہے۔ ان کے نزدیک اس زمانے کے آدمی بھیڑیے کو دیکھ کر ’’آیا، آیا‘‘ کہہ کرنہیں چلاتے تھے بلکہ ’’بھیڑیا، بھیڑیا‘‘ کہہ کر غل مچاتے تھے۔ اب اس بحث کو جانے دو کہ پہلے فعل پیدا ہوا یا اسم۔ اصلی بحث تو یہ ہے کہ جب کوئی آدمی اس وقت بولنا نہیں جانتے تھے تو الفاظ ان کی زبان سے خودبخود کیوں کر نکلنے شروع ہوئے اور ہر لفظ پران کا اتفاق کیوں کر ہوا؟


زمانۂ حال کے علما نے اس مسئلے کے حل کرنے کا نیا طریقہ ایجاد کیا ہے۔ انہوں نے دنیا کی زبانوں کا باہم مقابلہ کیا ہے اور ایک زبان کے الفاظ کو دوسری زبان کے الفاظ سے ملانا شروع کیا ہے۔ اس سے نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا میں زبانوں کے تین بڑے خاندان ہیں۔ (۱) آرین، (۲) سامی، (۳) تورانی۔


ہر خاندان میں جو زبانیں شامل ہیں ان کے الفاظ ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ مگر ایک خاندان کے کسی زبان کے الفاظ کا دوسرے خاندان کے کسی زبان کے الفاظ سے مشابہ ہونا ابھی تک ثابت نہیں ہوا۔ علمائے السنہ اب تک برابر کوشش کر رہے ہیں کہ جس طرح ہر خاندان کی زبانیں با ہم متحد ثابت ہوئیں، اسی طرح ان خاندانوں کو بھی ایک اصل کے ساتھ متحد ثابت کریں۔ ہر خاندان کی زبانوں کی جدا جدا تحقیقات بھی کی گئی ہے، جس سے معلوم ہوا ہے کہ ہر زبان کیسی ہی وسیع ہو مگر اس کی بنیاد چند ابتدائی مادوں سے شروع ہوئی ہے، جن کی تعداد ہزار تک کسی طرح نہیں پہنچ سکتی۔


مثلاً عبرانی زبانی کی نسبت تحقیقات کرنے سے معلوم ہوا کہ وہ (۵۰۰) ابتدائی مادوں سے تیار ہوئی ہے۔ یہ مقولہ پروفیسر رینان کا ہے، جو فرانس کی نہایت نامور عالم ہے۔ پروفیسر میکس مولر نے سنسکرت کی نسبت بھی یہی امر دریافت کیا ہے کہ اس وسیع زبان کے بھی ابتدائی مادے (۵۰۰) سے زیادہ نہیں ہیں۔ چینی زبان میں چالیس اور پچاس ہزار کے درمیان الفاظ ہیں مگر ڈاکٹر جولین نے بتایا ہے کہ وہ اصلی مفرد مادے جن سے اس زبان کے کل الفاظ تیار ہوئے ہیں (۴۵۰) سے زیادہ نہیں ہیں۔ تحقیقات کے اس نئے طریقے سے جب یہ معلوم ہو گیا کہ ہر زبان میں اصلی مادوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے تو اب اتنا ہی دریافت کرنا باقی رہ گیا کہ وہ کون سا طریقہ ہے جس کے ذریعے سے انسان نے ان ابتدائی مادوں کو معلوم کیا اور ان سے بولنا شروع کیا۔


علمائے السنہ نے اس باب میں تین نظریے اختیار کیے ہیں۔ پہلا نظریہ تو وہی اٹھارہویں صدی کے فلاسفہ کا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے انسان اپنا مطلب اشاروں اور حرکتوں سے نکالتا تھا۔ جب اس کے دل و دماغ پر خیالات کا ہجوم ہوا اور اشارات اور حرکات سے کام نہ چل سکا تو ان آوازوں کی نقل اتارنے لگا جو اس کو سنائی دیتی تھیں۔ مثلاً جب کتے کی طرف اشارہ کرتا تو ’’بھوں بھوں‘‘ کہہ کر اس کی آواز کی نقل اتارتا تھا۔ کوے کو ’’کائیں کائیں‘‘ کی آواز سے بتاتا تھا۔ چڑیا کو ’’چوں چوں‘‘ سے تعبیر کرتا تھا۔ اسی طرح ہوا کو ’’سائیں سائیں‘‘ پتھر کو ’’کھٹ کھٹ‘‘ کہہ کر بتاتا تھا۔ جب آوازوں کی نقل سے کام بخوبی چلنے لگا تو اس نے یہی طریقہ ہر مطلب کے سمجھانے کے لیے پسند کر لیا۔ اس طریقہ سے زبان کے اصلی اور ابتدائی مادے تیار ہو گئے۔ پھر ترکیب، تبدیل، حذف وغیرہ طریقوں سے ایک ایک مادے سے ہزاروں الفاظ نکل آئے اور زبان میں یہ قوت پیدا ہو گئی کہ وہ ہر مطلب کو ادا کر سکے۔


دوسرا نظریہ جو کانڈی لاک وغیرہ علما نے اختیار کیا ہے اس سے محتلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم آوازوں کی نقل اتارنے کا نظریہ کیوں مانیں اور انسان کو انسان کے درجے سے گراکر اس کو حیوانات کے زمرے میں کیوں داخل کریں۔ کیا نیچر نے اس کو ایسی آوازیں عطا نہیں کیں جن سے وہ اپنے مطلب کو ظاہر کر سکے۔ اس کو کیا حاجت ہے کہ وہ جانوروں کی آواز کے ساتھ آواز ملایا کرے اور ان کا منہ چڑایا کرے۔ کیا غم اور خوشی، غصے اور تکلیف کے وقت اس کے منہ سے مختلف آوازیں نہیں نکلتیں۔ یہ اس کی طبعی آوازیں ہیں اور انہیں سے زبان کی بنیاد ڈالی گئی ہے۔ یہی آوازیں وہ ابتدائی اور اصلی مادے ہیں جن سے زبان کے تمام الفاظ پھوٹ کر نکلے ہیں۔


تیسرا نظریہ جو حال میں ہی ایجاد ہوا ہے، اس کے موجدوں میں دونہایت نامور شخص پروفیسر میکس مولر اور پروفیسر رینان ہیں۔ پروفیسر میکس مولر نے اپنی ایک کتاب میں، جو اس نے زبان کی اصلیت اور اس کی نشوونما پر لکھی ہے، بیان کیا ہے کہ آواز کی نقل اتارنے سے کسی مطلب کا سمجھانا بے شک ممکن ہے۔ مثلاً ایک انگریز نے، جو چینی زبان سے ناواقف تھا، جب اس کے سامنے ایک چینی ہوٹل میں کھانا چنا گیا، خانساماں سے ’’کوک کوک‘‘ کہہ کر یہ پوچھا کہ کیا یہ مرغ کا گوشت ہے۔ اس نے ’’بھوں بھوں‘‘ کہہ کر سمجھایا کہ نہیں مرغ کا نہیں بلکہ کتے کا گوشت ہے۔ مگر یہ آوازیں کسی زبان کے تیار کرنے کے لیے کارآمد نہیں ہیں۔ نہ ان سے کوئی زبان مرکب ہوئی ہے۔


اگر کوئی زبان جانوروں کی آوازوں سے بن سکتی تو سب سے پہلے جانوروں کا نام انہیں آوازوں میں رکھا جاتا، حالاں کہ بلی کے نام کو اس کی ’’میاؤں میاؤں‘‘ سے اور کتے کے نام کو اس کے ’’بھوں بھوں‘‘ سے اور چڑیا کے نام کو اس کی ’’چوں چوں‘‘ سے کوئی مناسبت نہیں ہے۔ بیشک بعض جانوروں کے نام ایسے ہیں جو ان کی آوازوں سے ملتے جلتے ہیں۔ مگر وہ مصنوعی پھول ہیں جن سے اصلی پھولوں کی بوباس کا سراغ لگانا ناممکن ہے۔ ان آوازوں سے الفاظ کا اشتتاق نہیں ہوا۔ جب ہم الفاظ کی مرکب اور پیچیدہ صورتوں پر غور کرتے ہیں اور ان سے وہ تمام ترکیبی زیادتیاں اور پیچیدگیاں دور کرکے ان کو سادہ اور ابتدائی مادوں کی شکل میں لے آتے ہیں تو ہم کو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ ان تمام ترکیبوں کو تحلیل کرتے کرتے کوئی آواز باقی نہیں رہی۔ یا کچھ آوازیں باقی رہیں مگر ان کو باقی ابتدائی مادوں میں شمار میں کچھ نسبت نہیں۔


یہ اعتراض تیسرے گروہ کاپہلے گروہ کے نظریے پر ہے۔ دوسرے گروہ کے نظریے پر ان کا اعتراض یہ ہے کہ کوئی زبان ان آوازوں سے بھی مرکب نہیں ہوئی جو انسان کی طبعی آوازیں کہلاتی ہیں، نہ ایسا ہونا ممکن ہے۔ کیوں کہ جب انسان کی طبعی آواز ختم ہوتی ہے تو وہ بامعنی الفاظ کے ساتھ بولنا شروع کرتا ہے۔ ہوران ٹک کہتا ہے کہ جب طبعی آوازیں دور ہو جاتی ہیں تب کوئی زبان زبان بنتی ہے۔ انسان ان آوازوں کا جبھی استعمال کرتا ہے جب کہ اس کو ایسا حادثہ پیش آئے جو اس کی طبیعت کو بدل دے اور وہ اصلی الفاظ کو بھول جائے یا موقع کے جاتے رہنے کا خوف دامن گیر ہو۔ اگر زبان کی بنیاد طبعی آوازیں ہوتیں تو زور کی ہنسی کو ’’قہ قہ‘‘ غمگین ہونے کو ’’ہائے ہائے‘‘ نفرت کو ’’آخ تھو‘‘ رونے کو ’’ہو ہو‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کرتے۔ ہنسنا، رونا، نفرت، غم وغیرہ الفاظ کیوں بولے جاتے۔ حالاں کہ ان آوازوں اور ان لفظوں میں کوئی علاقہ نہیں ہے۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ آوازیں اشاروں اور حرکتوں کی نسبت ادائے مطلب کے لیے کچھ زیادہ مفید نہیں ہیں۔ اس لیے ممکن نہیں ہے کہ کسی زبان کی بنیاد ان آوازوں پر رکھی جائے۔


اس کے علاوہ ایک اور بات ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر زبان جانوروں کی آوازوں یا طبعی آوازوں سے مل کر بنتی تو یہ نہایت تعجب کی بات ہے کہ بے زبان جانور کیوں بولنا شروع نہ کریں۔ حالانکہ جانوروں میں بعض جانور ایسے بھی ہیں جو آوازوں کی نقل اتار سکتے ہیں۔ مثلاً طولا، ہنس راج وغیرہ اور بعض جانور خوشی، غم اور خوف کے وقت خاص قسم کی آوازیں بھی نکال سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں اگر ایسا ہی ہوتا تو الفاظ سب سے پہلے محسوسات کی جزئی صورتوں کے لیے جو ذہن میں آتے ہیں، ایجاد کیے جاتے۔ پھر بتدریج کلی صورتوں پر ان کااطلاق ہوتا۔ مثلاً اگر کوئی کتے کا نام بھوں بھوں رکھتا تو ضرور تھا کہ یہ کسی خاص کتے کا نام ہو اور اس سے پہلے پہل وہی کتا مراد لیا جائے۔ پھر بتدریج ہر کتے پر یہ لفظ بولا جائے۔


صحیح بات یہ ہے کہ انسان نے پہلے پہل کلی صورتوں کے لیے الفاظ ایجاد کیے۔ کیوں کہ جب ہم زبان کے الفاظ کو تحلیل کرتے ہیں اور ان کو اصلی مفرومادوں کی طرف لے جاتے ہیں تو ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ الفاظ سب سے پہلے اشیا کی ان صفات کے لیے جو ان کے ساتھ مخصوص ہیں، یا ان کے افعال کے لیے موضوع ہوئے تھے، مثلاً اگر کہف کے لفظ کا آرین زبانوں میں سراغ لگایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسے مادے سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں سوراخ کرنا، چھپانا۔ اسی طرح نہر کا لفظ ایسے مادے سے مشتق ہوا جس کے معنی جاری ہونے کے ہیں۔ دونوں معنی کلی ہیں۔ جو اول جزئی معنوں کے لیے خاص کیے جاتے ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ کلی پر بولے جانے لگے۔


میرے نزدیک بے زبان جانور کلی معنوں کا تصور نہیں کر سکتے۔ تمام جانداروں میں صرف انسان ہی اس کی قدرت رکھتا ہے۔ اسی سبب سے فکر اور نطق یہ دونوں صفات انسان ہی کے ساتھ خاص ہیں۔ فکر اور نطق دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے۔ جو کلام بغیر فکر کے ہو وہ خالی آواز ہے اور جو فکر بغیر کلام کے ہو وہ لغو اور بے کار ہے۔ فکر اس کلام کا نام ہے جو پست ہو اور کلام اس فکر کا نام ہے جو بلند ہو۔ ہر کلمہ جو انسان کی زبان سے نکلتا ہے وہ ایک مجسم فکر ہے۔ یہ سارا بیان عالم السنہ پروفیسر میکس مولر کی کتاب کا خلاصہ ہے۔


پروفیسر میکس مولر یہ بھی کہتا ہے کہ انسان نے اول اس قوت کی مدد سے جو اس کی فطرت میں ودیعت کی گئی تھی، وہ اصلی مادے ایجاد کیے جن پر زبان کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اس کے بعد یہ قوت قلت استعمال سے کمزور ہو گئی اور مدت دراز تک اس کے کام میں نہ آنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ معطل ہوکر بالکل جاتی رہی۔ سونے اور لوہے کو بجاکر دیکھو دونوں کی آواز الگ الگ ہے۔ اسی طرح لکڑی اور ٹھیکری کی آوازیں جدا جدا ہیں۔ انسان طبعی مخلوقات میں سب سے برتر اور سب سے کامل ہے۔ اس میں صرف یہی قوت نہیں ہے کہ وہ اپنے گردوپیش کی آوازوں کی نقل اتارے یا بے زبان جانوروں کی طرح صرف طبعی آوازوں کی مدد سے اپنے مطالب کو ادا کرے۔ بلکہ اس میں ایک اور نئی قوت بھی رکھی گئی ہے، جس کا کام یہ ہے کہ اس کی مدد سے انسان اپنے مافی الضمیر کو الفاظ سے تعبیر کر سکتا ہے۔


اول انسان کے دماغ میں کوئی خیال گردش کرتا تھا گویا کہ وہ قوت جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے، دماغ پر اپنی ضربات پہنچاتی تھی۔ ضربات سے جو آوازیں پیدا ہوئیں وہ الفاظ ہیں۔ یہی الفاظ زبان کے لیے بمنزلہ ابتدائی مادوں کے ہو گئے۔ اس کے بعد انسان نے ان الفاظ میں تغیر و تبدل کرکے ہزاروں نئے الفاظ نکال لیے اور رفتہ رفتہ زبان کی ایک عالی شان عمارت اِن بنیادوں پر اٹھائی گئی۔ اصلی مادوں کے ایجاد کرنے کے بعد اس قوت کو کام کرنے کا کوئی موقع نہیں رہا۔ اور جس طرح انسان کی ہر قوت قلت استعمال سے رفتہ رفتہ مضمحل پھر معدوم ہو جاتی ہے، اس طرح یہ قوت بھی بتدریج بنی نوع انسان سے زائل ہو گئی۔ یہاں تک ہم نے میکس مولر کا نظریہ بیان کیا ہے۔


اس نظریے پر پروفیسر ہوٹنی نے جو امریکہ کا مشہور عالم ہے اعتراض کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ پروفیسر میکس مولر کے بیان سے لازم آتا ہے کہ انسان نے اول اس قوت کی مدد سے بولنا شروع کیا جو اس کی جبلت میں موجود تھی۔ اس کے بولنے کا یہ سبب نہیں تھا کہ اس کو سوسائٹی کے ساتھ میل جول اور تبادلۂ خیالات کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ حالاں کہ یہ واقعہ کے بالکل خلاف ہے۔ میکس مولر کے نزدیک نطق اور فکر دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ حالاں کہ فکر، بدون نطق کے بھی پایا جا سکتا ہے۔ اگر میکس مولر کا خیال صحیح ہے کہ انسان نے ایک عجیب و غریب جبلی قوت کی مدد سے الفاظ ایجاد کیے تو اس سے لازم آتا ہے کہ وہ قوت اب بھی ہو اور دنیا سے معدوم نہ ہوئی ہو۔ انسان کے ذہن میں اب بھی نئے نئے خیالات آتے ہیں۔ مگر کبھی یہ نہیں ہوتا کہ جب اس کے ذہن میں خیالات کی لہریں آنے لگیں تو بےاختیار نئے نئے الفاظ بھی زبان سے نکلنے لگیں جو ان جدید خیالات کو تعبیر کر سکیں۔ پس جس حالت میں کہ اب بھی اس قوت کی حاجت ہے اور باوجود حاجت کے اس کا کوئی کرشمہ دیکھا نہیں جاتا، تو یہ نتیجہ نکالنا کچھ عجیب نہیں ہے کہ یہ حیرت انگیز قوت پہلے بھی کبھی انسان کے حصے میں نہیں آئی۔


ہمارے نزدیک تیسرا نظریہ جس کے بانیوں میں پروفیسر میکس مولر اور پروفیسر رینان ہیں، صحیح نہیں ہے۔ ہم پہلے اور دوسرے نظریے کو صحیح سمجھتے ہیں اور دونوں کو ملاکر یہ یقین کرتے ہیں کہ انسان نے اشارات و حرکات کے بعد جن آوازوں سے بولنا شروع کیا وہ یا تو خود انسان کی طبعی آوازیں تھیں یا گردوپیش کی آوازوں کی نقل تھیں۔ پھر اس نے دونوں قسم کی آوازوں میں تغیر و تبدل کرکے زبان ایجاد کی۔


دوسرے گروہ کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ اس نظریے کے تسلیم کرنے سے انسان اپنے درجے سے گرکر حیوانات میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ درحقیقت انسان بھی ایک ترقی یافتہ حیوان ہے۔ اس کی موجودہ لیاقتیں اور قابلیتیں ایک دم سے نمودار نہیں ہوئیں بلکہ رفتہ رفتہ اس کی ہر قوت کو نشوونما ہوا ہے۔ تیسرے گروہ کا یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ اگر انسان نے جانوروں کی آوازوں کی نقل اتار کر بولنا شروع کیا ہے تو سب سے پہلے جانوروں کے نام وہی رکھے جاتے جو ان کی آوازیں ہیں۔ ہم ان کو یقین دلاتے ہیں کہ انسان نے ایسا ہی کیا ہے۔ جانوروں کے جونام ان کی آوازوں سے ملتے جلتے ہیں، ان کی نسبت تو ان کو بھی تامل نہیں ہے مگر وہ نام جو آوازوں سے ملتے جلتے نہیں ہیں، ان کو شک میں ڈالتے ہیں۔ یہ نام یا تو درحقیقت آواز ہی پر رکھے گئے تھے۔ بگڑتے بگڑتے ان ناموں کی یہ حالت ہو گئی کہ اب مشکل سے ان کے خط و خال پہچانے جاتے ہیں۔ یا وہ اس زمانہ میں مقرر ہوئے ہیں جب کہ انسان نے اس سادہ طریقہ کے علاوہ اور طریقے نام رکھنے کے ایجاد کر لیے تھے۔


الفاظ کو تحلیل کرتے کرتے جو اصل مادے ہم نے ایجاد یا دریافت کیے ہیں، اگر ان میں سے کوئی مادہ ایسا ہے کہ ایک زبان میں وہ کسی آواز پر دلالت نہیں کرتا تو دوسری زبان میں اس کو تلاش کرو، جو اسی خاندان کی زبان ہے۔ اگر اس میں بھی نہ ملے تو اس خاندان کی تیسری زبان میں ٹٹولو۔ اس تحقیق سے یقیناً ہم اس نتیجہ پر پہنچ جائیں گے کہ وہ مادہ اگرچہ ایک زبان میں آواز پر دلالت نہیں کرتا مگر دوسری زبان میں جو اسی خاندان کی ہے اس کی آواز سنائی دیتی ہے۔ چونکہ دونوں زبانیں ایک ہی خاندان کی ہیں، اس لیے یہ کہنا قرین قیاس ہے کہ جب دونوں زبانوں کے بولنے والے ایک ہی جگہ آباد تھے اور ایک ہی مشترک زبان بولتے تھے تو اس وقت وہ لفظ آواز کے لیے وضع کیا گیا تھا۔ پھر ایک گروہ نے اس کو دوسرے معنوں کے لیے بولنا شروع کیا اور جب وہ اپنے مشترک گروہ سے جدا ہوکر دوسری جگہ آباد ہوئے تو انہوں نے اس کے اصلی مفہوم کو فراموش کر دیا تھا۔


ممکن ہے کہ ہم ہر مادے کی نسبت ایسی انتہائی اور کامل تحقیقات نہ کرسکیں کیوں کہ کمپیریٹو فلالوجی (علم اللغات بالمقابلہ) ایسا علم ہے جس کی عمر بہ نسبت دیگر علوم کے بہت تھوڑی ہے اور اس کی ترقی کے لیے ابھی ہزاروں مشکلات پر غالب آنا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کی بہت سی زبانیں متروک اور مردہ ہو چکی ہیں اور ان کی مکمل ڈکشنریاں موجود نہیں ہیں۔ یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ طبعی آوازوں کے ساقط ہو جانے کے بعد کوئی زبان زبان بنتی ہے۔ اور اس وقت طبعی آوازوں سے بہت کام لیا جاتا ہے۔ اور وہ بہت زیادہ کارآمد بھی نہیں ہیں، اس لیے کہ جب ہم انسان کی اس حالت کا سراغ لگاتے ہیں جب کہ وہ مثل دیگر حیوانوں کے موجودہ ترقی کے ہتھیاروں سے مسلح نہیں تھا تو اس وقت کی نسبت یہ خیال کرنا کہ اس کی ہر قوت ایک دم سے معراج کمال کو پہنچ گئی تھی محض غلط ہے۔


علمائے انتھروپالوجی (علم الانسان) کی نہایت دقیق اور عمیق تحقیقات سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ جب انسان دنیا میں نمودار ہوا تو ہر لحاظ سے حیوان مطلق اور ہر قسم کی ترقیوں سے عاری تھا۔ اس نے سکونت، پوشش، غذا، بولنے لکھنے، سوچنے اور سمجھنے میں بے شمار برسوں تک آہستہ آہستہ ترقی کی اور آخرکار وہ اس حالت پر پہنچ گیا کہ دیگر حیوانوں سے ممتاز ہوکر ایک نئی نوع کو وجود میں لایا۔ آوازوں کے نقل اتارنے یا طبعی آوازوں کی مدد سے اپنے مطالب کے لیے اب اس کے پاس مکمل طریقے ہیں۔ اس کو اس بات پر مجبور کرنا کہ اب بھی وہ انہیں ناقص اور نامکمل طریقوں سے کام لے، جن کے ایجاد کرنے کی ضرورت اس وقت اسے پیش آئی تھی، بعینہ یہ چاہنا ہے کہ دنیا موجودہ ترقی سے ہزاروں کوس پیچھے ہٹ جائے۔ اب بے شک وہ آوازیں کارآمد نہیں رہیں مگر یہ کہنا کہ وہ کبھی کار آمد نہیں تھیں، غلط ہے۔


یہ اعتراض بھی حیرت انگیز ہے کہ اگر انسان نے طبعی آوازوں کی مدد سے یا جانوروں کی آوازوں کی نقل سے بولنا سیکھا ہے تو جانور کیوں نہیں بولنا شروع کر دیتے۔ حالانکہ ان میں بعض جانور آوازوں کی نقل اتار سکتے ہیں اور بعض جانور طبعی آوازیں بھی نکال سکتے ہیں۔ ہمارے معترض اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ انسان نے جو بولنا شروع کیا ہے، وہ بے شمار برسوں کے بعد اس قابل ہوا ہے کہ ادائے مطالب کے لیے الفاظ کا استعمال کر سکے۔ طوطے اور ہنس راج جو نہایت ادنیٰ درجہ کے حیوان ہیں، ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ موجودہ حالت میں انسان کی طرح فصیح و بلیغ اسپیچ کر سکیں بالکل بے معنی ہے۔ اوولیوشن (ارتقاء) کا نظریہ جس کو ڈارون نے نہایت عمدگی سے زندہ مخلوقات میں ثابت کیا ہے، ہم کو بتاتا ہے کہ کس طرح ایک بسیط مادہ زندگی (پروٹوپلازم) نے ترقی کی اور اس سے مختلف حیوانات کی نسلیں کیوں کر شروع ہوئیں اور حیوانات میں بتدریج ترقی ہوکر کیوں کر اعلیٰ قسم کے حیوانات کی نسل پیدا ہوئی اور ان میں بے شمار برسوں کی تبدیلیوں کے بعد کیوں کر انسان کی قابلیتیں نمودار ہوئیں۔


یہ نظریہ اب علم کے درجہ پر پہنچ گیا ہے اور ڈارون کے بعد اس کو بہت علوم پر منطبق کیا گیا ہے۔ جو تبدیلیاں اور ترقیاں حیوانات کے ایک گروہ میں بے شمار برسوں کے بعد ظہور میں آئی ہیں، ان کے لیے یہ توقع کرنا کہ وہ ایک دم سے ادنی حیوانات میں ظہور پذیر ہوں اور وہ اعلیٰ حیوانات کے درجہ پر یکلخت پہنچ جائیں، ایک مضحکہ آمیز خیال ہے۔ پروفیسر میکس مولر اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ انسان نے اول کلی صورتوں کے لیے الفاظ تراشنے شروع کیے۔ مگر ہم کو ان کے اس یقین پر تعجب آتا ہے۔ ناممکن ہے کہ ایک بچہ کلی تصورات ذہن میں لا سکے۔ انسان کی ابتدائی حالت کو طفولیت سے تشبیہ دینا بے جا نہیں اور اسی لیے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ اس حالت میں انسان محسوسات کی جزئی صورتوں کا خیال کر سکتا تھا اور انہیں جزئی صورتوں کے نام رکھتا تھا۔ جب اس کے دل و دماغ نے ترقی کی اور کلی تصورات اس کے ذہن میں آنے لگے تو وہ انہیں جزئی تصورات کے ناموں کو کلی تصورات پر بولنے لگا۔


بےشک ہم تسلیم کرتے ہیں کہ بے زبان جانور کلی معنوں کا تصور نہیں کر سکتے اور ان میں سے صرف انسان ہی ایسا تصور ذہن میں لا سکتا ہے، مگر ہم پوچھتے ہیں کہ آیا انسان کو یہ قدرت ایک دم سے حاصل ہوئی؟ ہم کو ایک منٹ کے لیے بھی یہ خیال نہیں آ سکتا کہ وہ نطق اور فکر جس کو پروفیسر میکس مولر انسان کے ساتھ خاص بتاتے اور دونوں کو لازم ملزوم کہتے ہیں، ان پر انسان ایک دم سے قادر ہو گیا تھا۔ جس طرح ایک بچہ نہایت سادہ اور بسیط حالت سے رفتہ رفتہ ترقی کرکے بلوغ کو پہنچتا ہے، یہی حال بالکل نوع انسان کا ہے اور انسان کی تمام قوتیں اور قابلیتیں بتدریج کمال کو پہنچتی ہیں۔


اب ایک شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ اگر پروفیسر میکس مولر کے نظریے کو تسلیم کیا جاتا ہے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ قوت جس کی مدد سے انسان نے نئے نئے الفاظ ایجاد کیے، اب اس کی حاجت نہیں رہی اور اسی لیے وہ دنیا سے معدوم ہو گئی اور اگر تمہارے نظریے کو تسلیم کیا جائے تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ آوازوں کی نقل اتارنے یا طبعی آوازوں کی مدد سے نام رکھنے کاطریقہ، جس سے انسان بولنا سیکھا، اب اس کی حاجت نہیں رہی اور اسی لیے وہ طریقہ اب بےکار ہو گیا۔ جب دونوں صورتوں میں ایک ایسی قوت یا طریقے کو تسلیم کرنا پڑتا ہے، جس کا وجود پہلے تھا اور اب وہ معدوم ہے تو ان دونوں میں کیا فرق ہے اور ایک خیال کو دوسرے خیال پر ترجیح دینے کی کیا وجہ ہے؟


اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ پروفیسر میکس مولر کے نظریے کو تسلیم کرنے سے ایسی قوت کے اول وجود اور پھر بے سبب معدوم ہونے کو ماننا پڑتا ہے جس کی حاجت اب بھی ہے، مگر اس کا کوئی ظہور نہیں ہوتا، جیسا کہ پروفیسر ہوٹنی نے بیان کیا ہے۔ ہمارے نظریے سے ایک ایسے ناقص طریقے کے وجود کو تسلیم کرنا پڑتا ہے، جس کی حاجت ابتدا میں مکمل طریقے نہ ہونے کے سبب سے تھی مگر اب اس سبب سے کہ بہتر اور برتر اور کامل طریقے نئے نام رکھنے کے نکل آئے ہیں، اس کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ یہ کچھ اسی طریقے پر منحصر نہیں ہے بلکہ انسان ہمیشہ ان ناقص چیزوں کو چھوڑتا رہا ہے جن کو اس نے رفتہ رفتہ کمال کے درجے پر پہنچایا اور اب وہ ایک نئی حالت میں آکر زیادہ مفید ہو گئی ہیں۔


اس نظریے کے ثبوت کے لیے جس کو ہم نے اختیار کیا ہے بہت سی کتابیں یورپین زبانوں میں لکھی گئی ہیں۔ اگر ہمارے ناظرین ان کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیں تو ہم ان کا نام ونشان بتا سکتے ہیں۔ عربی میں صرف دو کتابیں ہماری نظر سے گزری ہیں، جن میں اس نظریے کو عربی زبان پر منطبق کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک کتاب الفلسفۃ اللغویہ ہے، جو مصر کے رسالہ ’’الہلال‘‘ کے اڈیٹر جرجی زیدان کی تصنیف ہے۔ دوسری کتاب کا نام المقدمہ جو ہمارے مخدوم مولوی سید کرامت حسین بیرسٹراٹ لا (الہ آباد) کی تصنیف ہے۔ دونوں کتابیں مصنفوں سے درخواست کرنے پر مل سکتی ہیں۔ ہماری زبان میں اب تک کوئی کتاب اس موضوع پر نہیں لکھی گئی۔ ہم اس مضمون پر آئندہ پھر کبھی قلم فرسائی کریں گے۔