انسان کوئی بھی تو فرشتہ بنا نہیں
انسان کوئی بھی تو فرشتہ بنا نہیں
سچ پوچھئے تو کوئی یہاں بے خطا نہیں
وہ جس کو اپنے دل کا فسانہ سنا سکیں
ہم کو تو کوئی شخص ابھی تک ملا نہیں
چہرہ بدل بدل کے وہ آیا ہے بار بار
وہ ہو کسی بھی چہرے میں مجھ سے چھپا نہیں
کشتی کو تو نے چھوڑ دیا یوں ہی ناخدا
کیا تو سمجھ رہا ہے ہمارا خدا نہیں
قائم رہے جو توبہ پہ ساقی کے روبرو
ایسا تو میکدے میں کوئی پارسا نہیں
ہم ہیں قصوروار ہمیں اعتراف ہے
تہمت لگانے والے بھی تو دیوتا نہیں
وہ بے وفا تھا چھوڑ کے مجھ کو چلا گیا
میں بھول جاؤں اس کو مگر بھولتا نہیں
اس کے قریب جاؤں تو ملتا نہیں ہے وہ
اور دور ہو بھی جاؤں تو مجھ سے جدا نہیں
زیبیؔ رفیق ہوتے ہیں سب اچھے دور کے
جب وقت ہو کڑا کوئی پہچانتا نہیں