انسان کو ملتے ہیں نئی بات کے پتھر
انسان کو ملتے ہیں نئی بات کے پتھر
ٹکراتے ہیں جس وقت خیالات کے پتھر
احساس پہ گرتے ہیں جو اوقات کے پتھر
جذبوں کو کچل دیتے ہیں حالات کے پتھر
جب پیار کی راہوں میں قدم اس نے بڑھایا
مجنوں کو بھی مارے گئے دن رات کے پتھر
کعبہ ہو یا کاشی ہو ذرا غور سے دیکھو
عظمت کی نشانی ہیں مقامات کے پتھر
کیا ہو گیا اس دور کو ارباب خرد کو
پڑنے لگے عقلوں پہ روایات کے پتھر
دیوانہ جو گزرا ہے کبھی تیری گلی سے
مارے اسے لوگوں نے سوالات کے پتھر
کیوں کر نہ ہو آئینۂ جذبات شکستہ
آئے ہیں مرے نام جوابات کے پتھر
دل پر مرے اس جان وفا نے سر محفل
پھینکے ہیں نگاہوں سے اشارات کے پتھر
محفل میں نگارؔ ان کے لئے میں نے تراشے
الفاظ کی شکلوں میں خیالات کے پتھر