انسان جو خدا بن گئے
قصص الانبیاء کا مصنف نمرود کی خدائی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ نمرود کنعان بن آدم بن سام بن نوحؑ کا بیٹا تھا اورزبان اس کی عربی تھی۔ اس نے اپنے لشکر کی مدد سے ملک شام اور ترکستان کو فتح کیا۔ بعدہ ہندوستان اور روم کو بھی قبضہ میں لایا اور مشرق سے مغرب تک تمام جہاں پر اس کی حکومت تھی اور بابل اس کا دارالسلطنت تھا۔ اس نے ایک ہزار سات سو برس بادشاہت کی۔ وہ بڑا متکبر تھا اور کہتا تھا کہ میں خدا ہوں۔ آسمان کا خدا کیا چیز ہے۔ تب خدا نے حضرت ابراہیمؐ کو پیدا کیا اورحضرت ابراہیم نے نمرود کو خدائے واحد پر ایمان لانے کی دعوت دی مگر نمرود نے یہ دعوت ٹھکرا دی۔ الم ترالی الذی حاج ابراھیم فی ربہ ان آتہ اللہ الملک اذ قال ابراھیم ربی الذی یحیی ویمیت قال انا احی و امیتکیا تم نہیں جانتے کہ اس نے ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں بحث کی، وہی جس نے اس کو بادشاہت عطا کی تھی۔ جب ابراہیم نے کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جو حیات اور موت دیتا ہے تو اس نے کہا کہ میں بھی حیات اور موت دیتا ہوں۔ سورہ بقرہ ۲۵۸جب حضرت ابراہیم کی بت شکنی کا چرچا ہوا اور نمرود کو خبر پہنچی کہ ابراہیم دیوتاؤں کی پرستش کی مخالفت کرتا ہے تو وہ بہت برہم ہوا اوراس کے مصاحبوں نے اس کو مشورہ دیا کہحرقوہ و انصروا آلھتکم ان کنتم فاعلیناگر تو کچھ کرنا چاہتا ہے تو ابراہیم کو آگ میں جلا دے اور اپنے خداؤں کی نصرت کر۔ (سورہ انبیاء۶۸) اور نمرود نے حکم دیا کہ ایک چہار دیواری ایسی بناؤ کہ احاطہ اس کا بارہ کوس کا ہو، اونچائی اس کی سو گز کی اور منادی کروا دی کہ جتنے ہمارے دوست ہیں وہ لکڑی کاٹ کر لائیں اور اس احاطہ میں ڈال دیں اور احاطہ لکڑیوں سے بھر گیا تو نمرود نے ان میں آگ لگوا دی اور جب آگ کے شعلے آسمان تک پہنچنے لگے توحضرت ابراہیم کو گوپھن میں رکھ آگ میں پھینک دیا گیا۔ مگر اسی وقت غیب سے آواز آئی۔ قلنا یا نار کونی بردا و سلاما علی ابراھیم۔ ہم نے کہا کہ اے آگ ٹھنڈی ہو جا ابراہیم پر۔ اور وہ آگ حضرت ابراہیم کے لئے گلشن حیات بن گئی۔ تب نمرود نے ابراہیم کے خدا سے آسمان پر لڑنے کا عزم کیا۔ طبری کہتا ہے کہ نمرود نے گدھ کے چار بچے پالے اور جب وہ گوشت اور شراب پی پی کرخوب موٹے ہو گئے تو ان کو اپنے تخت کے چاروں پایوں سے باندھا اور چاروں کونوں پر ایک ایک نیزہ نصب کیا اور نیزے کی انی پر گوشت لپیٹ دیا تاکہ گدھ گوشت کے لالچ میں اوپر ہی کی طرف پرواز کرتے رہیں اور خود تیر کمان لے کر تخت پر بیٹھا اور گدھ نمرود کو لے کرآسمان کی طرف اڑنے لگے اور نمرود اپنی اونچائی پر پہنچ گیا کہ پہاڑ مٹی کا ڈھیر نظر آنے لگے۔ اور کرہ ارض سمندر میں جہاز کی مانند دکھائی دینے لگا۔ تب نمرود نے آسمان پر تیر چلایا لیکن تیر واپس آ گیا اورنمرود اپنے ارادے میں ناکام رہا۔ آخر کار خدا کے حکم سے ایک کیڑا اس کی ناک میں گھس گیا اور نمرود چار سو برس تک اذیت اٹھاتا رہا اور ہلاک ہوا۔ قرآن شریف میں خدائی دعوی کرنے والے اس بادشاہ کا نام نہیں آتا البتہ انجیل کے پرانے عہدنامے میں نمرود کا ذکر موجود ہے (کتاب پیدائش باب ۱۰) اور یہود کی ابتدائی کتابوں میں بھی نمرود کے قصے تفصیل سے ملتے ہیں۔ عرب مفسر اور مؤرخ غالبا ان روایتوں سے واقف تھے۔ چنانچہ انہوں نے خدائی کا دعوی کرنے والے بادشاہ کو متفقہ طور پر نمرود لکھا ہے اور قرآن شریف کی آیتوں کی تشریح میں اس بادشاہ سے وہ سب داستانیں منسوب کردی ہیں جو یہود میں رائج تھیں لیکن عراق کے آثار قدیمہ سے اب تک ایسی کوئی لوح برآمد نہیں ہوئی ہے جس سے ان روایتوں کی تصدیق ہوتی ہو۔ حتی کہ بادشاہوں کی جو فہرستیں دستیاب ہوئی ہیں ان میں بھی نمرود نام کے کسی آدمی کا تذکرہ نہیں ملتا۔ ہاں موصل سے ۲۲ میل کے فاصلے پر اشور نصیر پال (۸۸۳۔ ۵۹ ق۔ م) نے جس مقام پر اپنا محل اور نیا دارالسلطنت تعمیر کیا تھا اسے ضرور نمرود کہتے ہیں۔ اشور نصیر پال بڑا جنگجو اور فاتح فرماں روا گزرا ہے۔ عین ممکن ہے کہ شہرنمیرود کے اس بادشاہ کی (یا اس کے جانشینوں کی جنہوں نے یہودیوں کو اسیر کیا تھا) داستانیں یہودی روایتوں میں منتقل ہو کرنمرود بادشاہ کی داستانیں بن گئی ہوں۔ گو نمرود کی شخصیت کا اب تک سراغ نہیں مل سکا ہے لیکن گدھ کی پیٹھ پر بیٹھ کر آسمان پر جانے کا قصہ قدیم بابلی (بیسویں صدی قبل مسیح) اشوری اور نواشوری عہد کے کئی نوشتوں میں ملا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گدھ کی داستان بہت پرانی ہے۔ سومیر کی فہرست شاہان میں کیش کے ایک بادشاہ اتانا کا ذکر آیا ہے جو گڈریا تھا اور آسمان پر گیا تھا۔ قدیم عکادی عہد کی ایسی کارتوسی مہریں بھی ملی ہیں جن پر ایک گڈریے کی تصویر کندہ ہے اور وہ گدھ کی پیٹھ پر بیٹھ کر آسمان پر پرواز کر رہا ہے، البتہ اتانا کی داستان میں سفر کے جو محرکات درج ہیں وہ نمرود کے سفر سے بالکل مختلف ہیں۔ اتانا بے چارہ تو لا ولد تھا اس لئے وہ آسمان پر شجر تولید لانے گیا تھا نہ کہ خدائے عرش کا مقابلہ کرنے۔ کہتے ہیں کہ اتانا بڑا طاقتور بادشاہ تھا۔ اس کا خزانہ ہیرے جواہرات سے بھرا تھا لیکن اس کے کوئی اولاد نہ تھی۔ اس لئے وہ بہت مغموم رہتا تھا۔ ایک دن وہ شہر سے دور جنگلوں میں گھوم رہا تھا کہ اس نے کسی پرندے کے کراہنے کی آواز سنی۔ بادشاہ آواز کی سمت چل پڑا اور جب آواز کے قریب پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک زخمی گدھ کنویں کے اندر پڑا کراہ رہا ہے۔ اتانا نے پرندے سے پوچھا کہ اے پرند تو اس کنویں میں کیسے گرا اور تجھے کس نے زخمی کیا۔ گدھ نے کہا کہ اے بادشاہ میں بڑا پاپی ہوں۔ ایک سانپ میرا دوست تھا۔ میں نے اس کے ساتھ بد عہدی کی۔ سزا بھگت رہا ہوں۔ اے اتانا اگر تو مجھے اس قید سے رہائی دلوائے تو میں تیرے دل کی مراد پوری کردوں اور تیری ملکہ کی گود نو مہینے میں ہری ہو جائے۔ بادشاہ نے گدھ کو کنویں سے نکالا اور جب اس کے پرسوکھ گئے تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ تو میری پیٹھ پر بیٹھ جا۔ میں تجھے اڑا کر وہاں لے جاؤں گا جہاں شجر تولید اگتا ہے لیکن خبردار راستے میں آنکھیں نہ کھولنا۔ بادشاہ نے گدھ کی ہدایتوں پرعمل کیا اور گدھ کی مدد سے شجر تولید حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ قدیم داستان گو نے تمہید میں خدائےعرش انو کے دربار کا نقشہ کھینچا ہے اور بتایا ہے کہ یہ قصہ اتنا پرانا ہے کہ اس وقت تک عراق میں بادشاہت بھی نازل نہیں ہوئی تھی۔ گدھ کی کہانیعظیم دیوتا انو اپنے تخت پر بیٹھ اتھا۔ وہی جو قسمت کا فیصلہ کرتا ہے۔اور دوسرے دیوتاؤں سے زمین کے بارے میں مشورہ کر رہا تھا۔ان دیوتاؤں سے جنہوں نے چاروں کونے پیدا کئے۔ وہ سب انسان کے خلاف تھے۔پس انہوں نے انسان کے لئے وقت مقرر کر دیا تھا۔اس وقت تک کالے بال والوں نے کسی کو بادشاہ نہیں بنایا تھا۔اس وقت تک کسی کے سر پر تاج بھی نہیں رکھا گیا تھا۔ نہ کلغی باندھی گئی تھی۔ اور نہ عصائے شاہی میں لاجوردی کا جڑاؤ کام بنا تھا۔ دیوتاؤں کے مندر بھی تعمیر نہیں ہوئے تھے۔ساتوں دیوتاؤں نے آباد کاروں پر پھاٹک بند کر دیے تھے۔ اورعصائے شاہی، تاج، کلغی اور گڈریئے کا آنکر۔ (بادشاہت کی تمام علامتیں) سب عرش پر انو کے پاس جمع تھے۔ کیونکہ اس وقت تک زمین کے باشندو ں کے بارے میں دیوتاؤں نے کوئی مشورہ نہیں کیا تھا۔ تب بادشاہت آسمان سے اتری۔اس تمہید کے بعد قصے کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ ایک گدھ کسی پیڑ پر رہتا تھا۔ وہیں ایک سانپ نے بھی اپنی بل بنا رکھی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد سانپ اور گدھ میں دوستی ہوگئی اور انہوں نے عہد کیا کہ ہم ہمیشہ ایک دوسرے کے کام آئیں گے۔ انہوں نے بہادر شمس کے روبرو قسم کھائی کہجو کوئی اپنے عہد کی خلاف ورزی کرے۔شمس اسے جلاد کے حوالے کر دے۔اور وہ راستہ بھول کر بھٹکتا پھرے۔اور پہاڑ اپنے دروں کو اس پر بند کردے۔اور شمس کا جال اسے پکڑ لے اور گرا دے۔جب گدھ جنگلی بیل یا جنگلی گدھے کا شکار کرتا ہے۔تو سانپ اس میں حصہ لگاتا اور کھا کراپنے بچوں کو بھرانے چلا جاتا۔جب سانپ پہاڑی بکرے یا ہرن کو مارتا۔تو گدھ اس میں حصہ لگانے آجاتا اور کھا کر اپنے بچوں کو بھرانے چلا جاتا۔ اس طرح بہت دن گزر گئے۔ اور گدھ کے بچے عمر اور وزن میں خوب بڑھ گئے۔تب گدھ کے دل میں بدی نے گھر کیا۔ اور اس نے اپنے دوست کے چھوٹے بچوں کو کھانے کا تہیہ کیا۔ اس نے منہ کھولا اور اپنے بچے سے کہامیں سنپولوں کو کھاؤں گا۔ اور آسمان پر اڑ جاؤں گا۔اور درخت کی چوٹی پر اتر کر اس کے پھل سے پیٹ بھر لیا کروں گا۔ مگر اس کا بچہ بڑا ہوشیار تھا۔ اس نے باپ سے کہا۔ باپ۔ ایسا ہرگز نہ کرنا۔ ورنہ شمس کا جال تجھے پکڑ لے گا۔شمس کا سراپ تجھے ہلاک کر دے گا۔ لیکن گدھ نے بیٹے کی بات نہ مانی۔وہ نیچے اتر کر اور سنپولوں کو کھا گیا۔ دوپہر میں جب سانپ اپنے بچوں کے لئے کھانا لے کر لوٹا اور بل میں گیا تواس کے بچے غائب تھے۔ اس نے ہر جگہ ڈھونڈا مگر بچوں کو نہ پایا۔ تب وہ شمس کے روبرو گیا۔ اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ اور اس نے رو رو کر شمس سے فریاد کی! بہادر شمس میں نے تجھ پر بھروسہ کیا۔ میں نے گدھ کو اپنا دوست بنایا اور اس کی خدمت کی۔ لیکن گدھ آیا اورمیرے بچوں کو کھا گیا۔ اب میرا گھونسلہ ویران ہے۔ میرے بچے مرچکے ہیں۔او شمس! گدھ نے میرے ساتھ جو بدی کی ہے۔ اس سے آگاہ ہو۔ او شمس! بے شک تیرا جال پوری زمین پر پھیلا ہوا ہے۔ اور آسمان بھی اس کے پھندے میں اسیر ہے۔پس گدھ تیرے جال سے بچ کر نہ پائے۔ بدکار زوجو دوستوں کے ساتھ برائی کرتا ہے۔‘‘ جب شمس نے سانپ کی فریاد سنی تو اس نے اپنا منہ کھولا اور سانپ سے کہا! تو یہاں سے روانہ ہو جا۔ پہاڑ کو عبور کر۔وہاں میں تیرے لئے ایک جنگلی بیل کو باندھ دوں گا۔ تواس کا پیٹ پھاڑنا اور اس کے اندرچھپ کر بیٹھ جانا۔تب ہر قسم کے پرندے آسمان سے بیل کا گوشت کھانے نیچے آئیں گے۔ اور گدھ بھی آئے گا۔کیونکہ اس کو اپنا خراب انجام معلوم نہیں ہے۔ مگر وہ بڑی احتیاط سے آئے گا۔اور پیٹ کے اندر گوشت تلاش کرے گا۔جب وہ اندر داخل ہو تو اسے پکڑ لینااور اس کے پنکھ اورچونچ توڑ دینا۔ اور اسے ایک گڈھے میں پھینک دینا۔ جہاں وہ بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مرجائے گا۔‘‘ شمس کے حکم کے مطابق سانپ نے پہاڑعبور کیا۔ اور جب وہ بیل کے پاس پہنچا۔تو اس نے بیل کا پیٹ چاک کیا۔اور اس کے اندراپنا بسیرا بنایا۔اور ہرطرح کے پرند گوشت کھانے آسمان سے نیچے آئے۔اگر گدھ کو اپنا انجام معلوم ہوتا تو وہ دوسرے۔ پرندوں کے ساتھ گوشت کھانے کبھی نہ آتا۔ گدھ نے منہ کھولا اور اپنے بچے سے کہا، آؤ بچے بیل کا گوشت کھانے چلیں۔لیکن بچہ بہت ہوشیار تھا۔ اس نے باپ سے کہا، ’’باپ نیچے مت اترو۔ شاید بیل کے اندر سانپ چھپا بیٹھا ہو۔ مگر گدھ نہ مانا۔ اس نے کہا،’’میں تو نیچے گوشت کھانے ضرور جاؤں گا۔ سانپ بھلا مجھے کیسے کھا سکتا ہے۔‘‘ اور وہ نیچے اترا اور بیل کے پاس گیا۔ اس نے بیل کا اگلا حصہ غور سے دیکھا۔ اس نے بیل کا پچھلا حصہ غور سے دیکھا۔ پھر اس نے بیل کے پیٹ میں جھانک کر دیکھا۔اور جب وہ اندر داخل ہوا تو سانپ نے اسے پروں سے پکڑ لیا۔ گدھ نے اپنا منہ کھولا اور سانپ سے کہا، ’’مجھ پر رحم کھا۔ میں تجھے ایسا تحفہ دوں گاجوشادی میں دولہا کو دیا جاتا ہے۔‘‘ سانپ نے اپنا منہ کھولا اور گدھ سے کہا، ’’اگر میں تجھے چھوڑ دوں تو شمس کو کیا جواب دوں گا۔‘‘ ’’وہ الٹے مجھی کو سزا دے گا‘‘پس اس نے گدھ کے پنکھ اور چونچ توڑ ڈالے اور اس کے پر نوچ لئے۔ اور اسے گڈھے میں پھینک دیا۔ تاکہ وہ بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر جائے۔ اور گدھ روز شمس سے فریاد کرتا، ’’کیا میں گڈھے میں پڑا پڑا جان دے دوںخداوند میری جان بخشی کر دے۔ میں ابد تک تیرے گن گاتا رہوں گا۔‘‘ شمس نے اپنا منہ کھولا اور گدھ سے کہا، ’’تو بدکار ہے اور تونے مجھے بہت دکھ دیا ہےدیوتاؤں نے جس چیز کو منع کیا تھاتو نے وہ چیز کھائیاب تو لاکھ وعدے کرےمیں تیرے پاس نہ آؤں گاالبتہ میں تیرے پاس ایک آدمی بھیجوں گاوہ تیرا ہاتھ پکڑے گا۔‘‘ اتانا شمس سے روز التجا کرتا۔’’شمس دیوتا! میں نے اپنی سب سے موٹی بھیڑیں تجھے کھلائیں۔ زمین میرے ہلوانوں کا خون پیتی ہے۔ میں دیوتاؤں کی عزت کرتا ہوںندائے غیب کی محافظ دیوداسیوں نے ہر طرح کی مدد کیخداوند۔ اب تو اپنے منہ سے مژدہ سنا۔ مجھے شجر تولید کی زیارت نصیب کر۔ میرا بوجھ ہلکا کر اور میرا ایک نام لیواپیدا کر۔‘‘ شمس نے اپنا منہ کھولا اور اتانا سے کہا۔ ’’تو سفر پر روانہ ہو اور پہاڑ کو عبور کر۔وہاں تجھے ایک گڈھا ملے گا۔گڈھے کے اندر جھانک کر دیکھ۔وہاں ایک گدھ زخمی پڑا ہے۔ وہی تجھے شجر تولید کی زیارت کروائے گا۔‘‘ اتانا شمس کے حکم سے سفر پر روانہ ہوا۔ اس نے پہاڑ عبور کیا۔اور جب وہ گڈھے کے پاس پہنچا۔اور اس کے اندر جھانکا۔تو وہاں ایک گدھ پھنسا پڑا تھا۔ گدھ نے اپنا منہ کھولا اور اتانا سے کہا،’’بتا تویہاں کیوں آیا ہے۔‘‘ اتانا نے منہ کھولا اور کہا،’’میرے دوست مجھے شجر تولید کا راستہ دکھا۔مجھے شجر تولید بخش دے۔ میرا بوجھ ہلکا کردے تاکہ دنیا میں میرا نام چلے۔‘‘ گدھ نے اتانا کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اور کہا، تو بے شک اتانا ہے۔تو مجھے اس گڈھے سے نکال،پھر میں تجھے اولاد دوں گا۔اور ابد تک تیرے گن گاتا رہوں گا۔‘‘ اتانا نے بڑی مشکل سے گدھ گڈھے سے نکالا۔ تب گدھ نے اتانا سے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں اور تم خداوند انو، ان لیل اور آیا کے محل کے پھاٹک کے سامنے کھڑے ہیں اور ہم نے تعظیم سے اپنے سر جھکا لئے ہیں۔ پھر ہم قمر، شمس، اداد اورعشتار کے پھاٹک پر پہنچے ہیں۔ میں نے پھاٹک کھولا اور ادھر ادھر نگاہ دوڑائی تو مجھے ایک سنہرے تخت پرعشتار بیٹھی ہوئی دکھائی دی۔ وہ چمکیلے زیورات سے لدی ہوئی تھی اور اس کے تخت کے پایوں کے پاس شیر لیٹے سو رہے تھے۔ میں تخت کے قریب پہنچا تو شیر جاگ اٹھے اور خوف سے میری آنکھ کھل گئی۔ عشتار کی زیارت اس بات کی علامت تھی کہ اتانا کی آرزو پوری ہوگی۔ اس تمہید کے بعد گدھ نے اتانا سے کہا کہمیں تجھے انو کے دربار میں لے جاؤں گا۔تو میرے سینے پر اپنا سینہ رکھ لے۔اورمیرے پروں کو اپنے ہاتھوں سے مضبوط پکڑ لے۔اور اپنے بازو میرے بدن کے گرد حمائل کر دے۔چنانچہ اتانا نے ایسا ہی کیا اور گدھ اتانا کو لے کر عرش کی جانب پرواز کرنے لگا۔ جب وہ ایک کوس اوپر اڑ چکے۔تو گدھ نے اتانا سے کہا، ’’میرے دوست ذرا زمین کی طرف دیکھو اور بتاؤ وہ کیسی نظر آتی ہے اور سمندر اور ایکو پہاڑ پر بھی نظر ڈالو۔‘‘ اتانا نے جواب دیا کہ زمین ایک پہاڑی کی مانند ہے۔اور سمندر پانی کا تالاب معلوم ہوتا ہے۔ اور جب دو کوس اوپر اڑ چکے تو گدھ نے پھر وہی سوال کیا۔ اور اتانا نے کہا کہ ’’اب زمین ایک کھیت کی مانند ہے۔ اورسمندر روٹی کی ٹوکری معلوم ہوتا ہے۔‘‘ اورجب وہ تین کوس اڑ چکے تو گدھ نے پھر وہی سوال کیا۔ اوراتانا نے کہا کہ ’’اب تو مالی کے کنویں کے مانند نظرآتی ہے۔‘‘ اور اتانا ڈر گیا اور اس نے گدھ سے کہا کہ میرے دوست میں اس سفر سے باز آیا۔ تم مجھے واپس لے چلو۔ مگر گدھ نے دلاسا دیا اور اتانا کی ڈھارس بندھائی۔ وہ انو کے عرش پر پہنچے اور انو، ان لیل، اور آیا کے پھاٹک میں داخل ہوئے۔ اور انہوں نے دیوتاؤں کے روبرو تعظیم سے اپنے سرجھکائے۔ بالآخر اتانا شجر تولید حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور گدھ کی پیٹھ پر بیٹھ کر وطن واپس آیا اور اس کے اولاد ہوئی اور اس کا نام دنیا میں باقی رہا۔
عجیب بات ہے کہ عکادی اور اشوری نوشتوں میں کسی ایسے بادشاہ کا تذکرہ نہیں ملتا جس نے خدائی کا دعوی کیا ہو یا جسے رعایا دیوتا سمجھ کر پوجتی رہی ہو۔ بلکہ عکادی اور اشوری فرماں روا تو دیوتاؤں کی خدمت کرنا اور ان کے لئے عالیشان معبد تعمیر کرنا اپنا فرض منصبی خیال کرتے تھے۔ وادی دجلہ و فرات کی داستانوں میں فقط ایک ہیرو۔۔۔ گل گامش۔۔۔ ایسا گزرا ہے جس کی خداوندی صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ مگر وہ بھی فقط ’’تین چوتھائی دیوتا تھا اور ایک چوتھائی انسان کیونکہ حیات ابدی اس کی قسمت میں نہیں لکھی تھی۔‘‘ لیکن مصر کے فراعنہ اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں دیوتا اور دیوتا کی اولاد خیال کرتے تھے۔ چنانچہ ایک شاہی رسم کے مطابق شادی کے بعد فرعون کی ملکہ خدائے مصر آمون رع کے مندر میں جاتی تھی۔ اور آمون کی خواب گاہ میں رات بسر کرتی تھی اور آمون رع فرعون کے بھیس میں خواب گاہ میں آتا تھا اور ملکہ کے ساتھ مباشرت کرتا تھا۔ یہ رسم اس وقت تک جاری رہتی تھی جب تک ملکہ واقعی حاملہ نہ ہوجاتی (اس مباشرت کا منظر دیر البحری اور لکسر کے قدیم معبدوں میں دیواروں پر بڑی چابکدستی سے کندہ کیا گیا ہے۔ اوراس کی رنگین تصویریں بھی بنائی گئی ہیں۔ (تصویروں کے اندر حیرو غلافی خطوط میں اس منظرکی تفصیل بھی لکھ دی ہے۔) اسی بنا پر مصر کے بادشاہ آمون رع کے اوتار تصور ہوتے تھے اور ان کی ذات اتنی ہی واجب الاحترام اور سزا وار اطاعت و ستائش تھی جتنی آمون رع کی۔ مصری عقیدے میں بادشاہ کبھی مرتا نہ تھا بلکہ آمون رع کے پاس چلا جاتا تھا۔ اس عقیدے کے سیاسی مقاصد اور محرکات تو معمولی عقل کے انسان کی بھی سمجھ میں آسکتے تھے۔ لیکن ہماری بحث کا موضوع ملوکیت کے روحانی حربے نہیں ہیں بلکہ ہم تو یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ لوگوں میں دیوتاؤں اور خداؤں کا تصور کب، کیوں اور کیسے پیدا ہوا۔ پچھلے باب میں عرض کیا جا چکا ہے کہ زراعت عورتوں کی ایجاد ہے۔ چنانچہ زراعت کے ابتدائی دورمیں ہرجگہ اموی نظام قائم تھا۔ اور یہی وجہ ہےکہ زرعی پیداوار کی افزائش کی تمام ساحرانہ رسمیں جگ ماتا یا مادر ارض کی مورتیوں کے گرد گھومتی ہیں۔ لیکن جب انسان نے بھاری بھاری ہل ایجاد کئے تو اموی نظام کے لئے اجل کا پیغام آگیا۔ کیونکہ ہل اور بیل کی مدد سے کاشتکاری کے لئے جس جسمانی قوت کی ضرورت تھی وہ فقط مردوں کو حاصل تھی۔ ہل کے ذریعہ کھیتی باڑی کرنے سے زرعی پیداوار کئی گنا بڑھ گئی۔ اور فاضل پیداوار کی خرید و فروخت کا رواج پڑا۔ پیداوار اور تجارتی لین دین میں جس نسبت سے اضافہ ہوتا گیا، عورت کا اثر و اقتدار معاشرے میں اسی نسبت سے گھٹتا گیا۔ یہاں تک کہ دنیا کے اکثربیشتر خطوں میں اموی نظام قریب قریب معدوم ہو گیا اور اس کی جگہ ابوی نظام نے فروغ پایا۔ اس سماجی انقلاب کا اثر زندگی کے دوسرے شعبوں پر بھی پڑا۔ مثلا ًاموی نظام میں سحر کی تمام رسمیں عورتیں ادا کرتی تھیں لیکن ابوی نظام کے تسلط کے بعد سحر کا سارا کاروبار عورتوں کے ہاتھ سے نکل گیا۔ عہد ماضی کی یاد تازہ کرنے کے لئے اگرچہ اکا دکا جادوگرنیاں ابوی نظام میں بھی باقی رہیں لیکن اب ان کی حیثیت بالکل ثانوی تھی۔ یہ بتانا تو مشکل ہے کہ وادی دجلہ و فرات میں اموی نظام کی جگہ ابوی نظام کب رائج ہوا۔ البتہ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اموی نظام وہاں شہری ریاستوں کے وجود میں آنے سے پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔ یہ بھی ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ انسان کے ذہن نے دیوتاؤں کی تخلیق ابوی نظام ہی کے زمانے میں کی، خواہ یہ ابوی نظام گیاہستانی اور گلہ بانی کے دور کا ہو (آریاؤں کے دیوتا) یا ہل اور کانسے کی تہذیب کے دورکا (مصر، عراق وغیرہ) البتہ یہ مسئلہ غور طلب ہے کہ انسانی معاشرے کو ان دیوتاؤں کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اور ذہنی شعور کی کس منزل پر پہنچ کر انسان نے اس ضرورت کو محسوس کیا۔ ان سوالوں کے جوا ب میں علماء آثار قدماء کے انداز فکر سے استدلال کرتے ہیں۔ چنانچہ پروفیسر فرینک فرٹ اور جیکب سن نے اپنی تصنیف فلسفے سے پہلے (BEFORE PHILOSOPHY) میں قدماء کے انداز فکر کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ لوگ قدرت کے تمام مظاہر کو فعال اور صاحب ارادہ شخصیتیں تصور کرتے تھے۔ ان کے نزدیک بعض شخصیتیں بڑی مشفق اور مہربان تھیں جیسے زمین سورج اور چاند کی شخصیتیں۔ بعض شخصیتیں بڑی طاقتور تھں۔ جیسے آندھی اور بجلی اور طوفان کی شخصیتیں۔ بعض بڑی پر اسرار اور پیچیدہ تھیں جیسے پانی کی شخصیت کہ خوش ہو تو کھیتیاں لہلائیں اور چراگاہیں سرسبز ہوجائیں اور ناخوش ہوتو پانی کا بہاؤ انسانوں، فصلوں اور مویشیوں سب کو فنا کر دے بعض شخصیتیں بڑی ڈراؤنی تھیں جیسے بیماری اور موت کی شخصیتیں۔ قدیم انسان ان شخصیتوں کے لئے دیوتا کی اصطلاح استعمال کرتا تھا مگر وہ ان دیوتاؤں کو فوق الفطرت یا ماورائے حقیقت نہیں سمجھتا تھا بلکہ اس نے توان دیوتاؤں کو انسانی شکلیں، صورتیں، عادتیں اور خصلتیں بھی عطا کردی تھیں۔ اس کا خیال تھا کہ یہ دیوی اور دیوتا انسان کے مانند کھاتے پیتے اور آرام کرتے ہیں۔ انسانوں ہی کی مانند ان کی شادی ہوتی تھی اور انسانوں کی مانند وہ اولاد پیدا کرتے ہیں۔ یہ دیوی دیوتا عشق کی لذتوں اور ہوس کی بے شرمیوں سے بھی آشنا تھے۔ ان سے نیکیاں بھی سرزد ہوتی تھیں اور بدیاں بھی۔ وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے بھی تھے اور ایک دوسرے کے خلاف سازشیں بھی کرتے رہتےتھے۔ اور روتے بھی تھے اور غصہ بھی کرتے تھے۔ بیماریاں انہیں بھی ستاتی تھیں اور لافانی ہونے کے باوجود کبھی کبھی ملکہ ظلمات کا دست دراز انہیں بھی موت کے مزے چکھا دیا کرتا تھا۔ غرض کہ ان دیوتاؤں کا رہن سہن انسانی معاشرے کا پرتو تھا۔ اسی بنا پر یونان کے مشہور مورخ زینو فون (۴۳۰۔ ۳۵۵ ق۔ م) نے مزاحیہ انداز میں کہا تھا کہ اگر گھوڑے، بیل اور شیر بھی دیوتاؤں کو مانتے ہوتے تو ان کے دیوتاؤں کی شکلیں اور خصلتیں گھوڑے بیل اور شیر سے مشابہ ہوتیں اور ارسطو نے اپنی کتاب ’’سیاسیاست‘‘ میں لکھا تھا کہ انسان فقط اپنے دیوتاؤں کی شکلوں کا قیاس اپنی شکلوں سے نہیں کرتا بلکہ ان کی زندگی کے طور طریقوں کو بھی اپنا جیسا سمجھتا ہے۔ مگر بعض علماء عمرانیات (ہربرٹ اسپنسر اور گرانٹ ایلن وغیرہ) اس نظریے کو نہیں مانتے اور دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ مظاہر قدرت کی دیوی دیوتا کا روپ دینے کے لئے جو ذہنی شعور درکار ہوتا ہے ابتدائی انسان ا سے محروم تھا۔ وہ اگر شعور رکھتا تھا تو فقط اپنے اسلاف کا۔ وہ اسلام ہی کے حقیقی اور فرضی کارناموں سے واقف تھا۔ اور ان کو یاد کرتا رہتا تھا۔ امتداد زمانہ کے ساتھ ان اسلاف کی اصلی شخصیتیں روایتوں کے انبار تلے دب گئیں۔ رفتہ رفتہ حقیقت پرخرافات کی اتنی تہیں جم گئیں کہ لوگ اسلاف کی اصل شخصیتوں کو بھول گئے اور افسانوی شخصیتوں کو دیوتا سمجھ کر ان کی پرستش کرنے لگے۔ اگرکسی شخص کے کارنامے قبیلے تک محدود رہے تو وہ قبیلے کا دیوتا کہلایا۔ اگر کسی شخص کو قومی قورما کا رتبہ نصیب ہوا تو وہ پوری قوم کا دیوتا قرار پایا۔ اور اگر اس کے کارناموں نے پورے ملک کی زندگی کو متاثر کیا تو وہ پورے ملک کا دیوتا تسلیم کر لیا گیا۔ ان عالموں نے قدیم مصر، یونان، چین، رومۃ الکبری اور ہندوستان کی تاریخوں سے اسلاف پرستی کی بہ کثرت شہادتیں پیش کی ہیں اور بتایا ہے کہ کس طرح بعض نامور بادشاہوں یا ہیرؤں کو ان کے مرنے کے بعد دیوتا کا مرتبہ حاصل ہوا۔ مثلا رگ وید کا سب سے بڑا دیوتا اندر در اصل ان آریہ قبیلوں کا ہیرو تھا جنہوں نے وادی سندھ کی تہذیب کو تاراج کیا۔ اسی طرح رام چندر اور رام کرشن مہاراج وادی گنگ وجمن کے قدیم ہیرو تھے جن کو دیوتا کا رتبہ مل گیا۔ ان دانشوروں نے دورحاضر کی ان پسماندہ قوموں کی اسلاف پرستی کی بھی بہ کثرت مثالیں دی ہیں جو اب تک ہر مرنے والے کو دیوتا سمجھتی ہیں۔ اور فقط انہیں کی پرستش کرتی ہیں۔ ہربرٹ اسپنسر نے تو اپنے دعوے میں یہاں تک مبالغہ کرتا ہے کہ تمام دیوی دیوتا خواہ وہ مصر کے ہوں یا چین اور یونان کے عراق کے ہوں یا ہندوستان اور میکسیکو کے۔ ابتدا میں در اصل ناموراسلاف ہی تھے۔ دانایان آثار و عمرانیات نے دیوتاؤں کے ضمن میں خدائے واحد کے تصور سے بھی بحث کی ہے۔ وہ علماء مذہب کے اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے کہ ابتدائی انسان ایک خدا کو مانتا تھا اور اسی کی عبادت کرتا تھا۔ یا یہ کہ شرک کی بدعتیں وحدانیت کے نمودار ہوئیں۔ تب وحدانیت کی تبلیغ کرنے والے پیغمبرآئے اور انہوں نے وحدانیت کو شرک کے بتوں سے پاک صاف کیا۔ علماء عمرانیات کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ایسی کوئی تاریخی شہادت موجود نہیں ہے جس سے ثابت ہوسکے کہ انسان ابتداہی سے وحدانیت پرست تھا۔ یہ تو درست ہے کہ شرک اور بت پرستی کا قلع قمع خدائے واحد پر ایمان لانے والے مذاہب نے کیا لیکن اس کی کوئی شہادتیں نہیں ملتی کہ ابتدائی انسان بھی موحد تھا۔ گرانٹ ایلن نے تو یہودیوں کے خدائے واحد یہواہ سے بحث کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ یہودی حضرت موسی کے بعث کے سیکڑوں برس بعد تک متعدد مقامی اور قومی دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے اور ان کا خدائے واحد کا تصور پانچویں چھٹی صدی قبل مسیح سے پہلے مکمل نہیں ہوا تھا۔ لیکن خدائے واحد کی بحث ہمارے موضوع سے خارج ہے کیونکہ دجلہ و فرات یا نیل کی وادی میں بسنے والی پرانی قومیں خدائے واحد کے تصور سے کبھی آشنا نہیں ہوئیں۔ مصر کے فقط ایک فرعون۔۔۔ احناطون۔۔۔ (۱۳۷۵۔ ۳۵۸ق۔ م) نے وحدانیت کا سکہ بٹھانے کی کوشش کی تھی لیکن یہ وحدانیت بھی سورج دیوتا اطون کی تھی اور پروہتوں نے اس کوشش کو بھی ناکام بنا دیا تھا۔ بہرحال اسلاف کی عظمتوں کے افسانوں نے دیوتا کا روپ اختیار کیا ہو یا مظاہرقدر کی فعالی اور صاحب ارادہ شخصیتوں کا تصور دیوتاؤں کے پیکر ہیں ڈھل گیا ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ دیوتاؤں کی تخلیق ذہن انسانی ہی کی مرہون منت ہے مگر تخلیق کا یہ عمل کئی مدارج سے گزرا ہے اور یہ وہی مدارج ہیں جہاں پہنچ کر انسان کی سماجی زندگی میں اہم تغیرات رونما ہوئے ہیں۔ سر جیمس فریزران مدارج کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ پہلا دور وہ تھا جس میں سحر کو فروغ ہوا۔ اس دور کا سب سے بڑا مسئلہ خوراک تھا۔ چنانچہ انسان خوراک کی فراہمی کے لئے اپنی جسمانی طاقت کے علاوہ اعمال سحر سے بھی کام لیتا تھا۔ ابتد ا میں تو پورا قبیلہ ان رسموں میں برابر کا شریک ہوتا تھا۔ لیکن معاشرے میں جب تقسیم کار نے رواج پایا تو جادو منتر کے فرائض قبیلے کے سب سے تجربہ کار اور ذی فہم فرد کے سپرد کر دیئے گئے۔ وہ فراہمی خوراک کی ذمہ داریوں سے آزاد ہو گیا اور اس کی ساری قوت اور وقت ساحرانہ عمل کو موثرسے موثر بتانے پرصرف ہونے لگی۔ یہی شخص قبیلے کا حکیم اور طبیب بھی ہوتا تھا۔ وہ علاج معالجے کے لئے دھاتیں اور جڑی بوٹیاں تلاش کرتا اور ان کی تاثیر معلوم کرتا تھا۔ موسم کی تبدیلیوں کا مطالعہ کرنا اور ان تبدیلیوں کا جو اثرحیوانات اور نباتات پر ہوتا ہے اس سے آگاہی بھی جادوگری کے فرائض میں داخل تھی اور قبیلے کو پورا یقین ہوتا تھا کہ ہماری شکاری مہمیں اس شخص کی ساحرانہ طاقتوں کی بدولت کامیاب ہوتی ہیں۔ وہ جب چاہتا ہے تو آسمان سے پانی برسنے لگتا ہے اور جب چاہتا ہے تو ہوا کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے جادو کے زور سے شکار میں زخمی ہونے والوں کو اچھا کر دیتا ہے اور ٹوٹی ہوئی ہڈی کو جوڑ دیتا ہے۔ وہی مویشیوں کی نسل بڑھاتا ہے اور اناج کی فصلیں اگاتا ہے۔ جس شخص میں اتنے اوصاف ہوں وہ ظاہر ہے کہ قبیلے کا سب سے صاحب اثر و اختیار شخص ہوگا۔ رفتہ رفتہ جب انفرادی ملکیت نے طاقت پکڑی تو ان ساحروں کی دولت اور قوت میں اور اضافہ ہوگیا۔ وہ بادشاہ بن گئے اور بادشاہوں کے لئے خدائی کا دعویٰ کرنا چنداں دشوار نہ تھا۔ چنانچہ سرجیمس فریزر دور حاضر کی پسماندہ قوموں سے مثالیں پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جنوب مشرقی افریقہ کی زمباز قوم فقط اپنے راجہ کو دیوتا مانتی ہے اور اس کی پوجا کرتی ہے۔ یہ راجہ بھی اپنے آپ کو خدا سمجھتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ باررش اسی کے حکم سے ہوتی ہے اور اگر بادل کبھی حکم عدولی کرتے ہیں تو وہ آسمان میں تیر مار کر بادلوں کوسزا دیتا ہے۔ گرمی اور سردی کے موسم بھی اسی کی مرضی سے آتے جاتے ہیں۔ اسی طرح وسطی افریقہ کی باگاندہ قوم کا ایمان ہے کہ ان کا ساحر دیوتا جھیل نیانزا کے کنارے پہاڑوں میں رہتا ہے۔ اس دیوتا سے بادشاہ اور رعایا دونوں خوف کھاتے ہیں۔ وہ اپنی قوم کوغیب کی باتیں بتاتا ہے۔ اس میں بیمار کو اچھا کرنے اور تندرست کو بیمار بنانے کی صلاحیت ہے۔ وہ چاہے تو بارش ہو اور نہ چاہے تو زمین کو پانی کا ایک قطرہ بھی نصیب نہ ہو۔ اروار URUAR قوم کا سردار بھی اپنے آپ کو خدا سمجھتا تھا وہ کئی کئی دن کچھ کھاتا نہ تھا۔ اور ڈینگ مارتا تھا کہ میں خدا ہوں مجھ کوغذا کی کیا ضرورت ہے۔ میں تفریحا کبھی کبھی کچھ کھا لیتا ہوں۔ اور ادا قوم کے سردار نے انگریز افسروں سے جنہوں نے نائیجریا پرحملہ کیا تھا کہا تھا کہ خدا نے مجھے اپنا ہم شکل بنایا ہے اور میں خود بھی خدا ہوں۔ سیام کا بادشاہ بھی دیوتا کی مانند پوجا جاتا تھا۔ اس کی رعایا کو بادشاہ کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنے کی اجازت نہ تھی۔ جب وہ سڑک پر گزرتا تو لوگ سر بسجدہ ہو جاتے تھے۔ اس کے لئے چند الفاظ مخصوص تھے اور یہ الفاظ کسی اور کے لئے استعمال نہیں ہو سکتے تھے۔ اس کے سرکے بالود، پاؤں کے تلوؤں، حتی کہ اس کی سانس کے لئے بھی الفاظ مخصوص تھے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ جاپان کے موجودہ بادشاہ ہیروہیتو کو جاپانی قوم سورج دیوتا کا بیٹا اور دیوتا سمجھتی تھی۔ ان عقائد پر ہم کو حیرت نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ مسلمان بھی گزشتہ تیرہ سو سال سے ہر بادشاہ کو ظل اللہ اور ظل سبحانی کہہ کر پکارتے رہے ہیں حالانکہ اسلام تمام مذاہب سے زیادہ وحدانیت کی تلقین کرتا ہے اور ملکوکیت کے بجائے جمہوریت کاعلم بردار ہے۔ وادی دجلہ و فرات کے دیوتاؤں کے ظہور و نمود کے بارے میں ہماری معلومات ہنوز بہت ناقص ہیں۔ چنانچہ وثوق سے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اِن لیل، ایا، انو اور دوسرے دیوتا در اصل ساحر یا بادشاہ تھے جن کو لوگوں نے دیوتا بنا دیا۔ یا مظاہر قدرت کو شخصی پیکر دینے کے باعث یہ صورت پیدا ہوئی۔ البتہ یہ واقعہ ہے کہ دیوتاؤں کی آڑ میں ان کے پروہتوں نے اپنے عقیدت مندوں کے ذہنوں اور دلوں پر کئی ہزار برس تک حکومت کی۔ یہ پروہت پرانے زمانے کے ساحر ہی تھے جنہوں نے شخصی ملکیت کے دور میں ہر بڑے شہر میں اپنے اپنے مرکز قائم کر لئے تھے۔ وہی ان شہروں کے اولین سیاسی سربراہ بھی تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شہر کے بانی یا سربراہ کو آنے والی نسلوں نے دیوتاؤں کا مرتبہ دے دیا ہو اور سحر کے مرکزمذہبی معبدوں میں تبدیل ہو گئے ہوں کیونکہ ان مرکزوں میں دولت کی فراوانی کا تقاضا یہی تھا کہ لوگوں کو اطاعت عقیدت اور عبادت کی طرف مائل کیا جائے۔ عراقی دیومالا کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وادی فرات کے دیوتاؤں کے خدوخال شہری ریاستوں کے دور میں ابھرے۔ چنانچہ انسان نے دیوتاؤں کے معاشرے کا جو نقشہ بنایا وہ اس کے اپنے معاشرے ہی کا عکس تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مطلق العنان بادشاہتیں ہنوز قائم نہیں ہوئی تھیں بلکہ ریاستوں کا نظم و نسق جمہوری طریقوں پر چلتا تھا۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ عراقی دیومالا میں کائنات کے تمام اہم مسائل دیوتاؤں کی مجلس شوری میں طے پاتے ہیں۔ کائنات پرکسی ایک دیوتا کی فرماں روائی نہیں ہے بلکہ جو فیصلہ کرتا ہے وہ باہمی صلاح و مشورے سے ہوتا ہے۔ مجلس شوری ہی یہ فیصلہ بھی کرتی ہے کہ اس کے احکام کو نافذ کرنے کا فرض کس دیوتا کے سپرد کیا جائے۔ جس طرح جمہوری ریاستوں کے اندرسب لوگ برابرنہ تھے بلکہ کوئی دولت مند تھا، کوئی محتاج، کوئی آقا تھا اور کوئی غلام۔ اسی طرح دیوتاؤں کی آسمانی ریاست میں بھی سب کے مرتبے مساوی نہ تھے۔ بلکہ وہاں بھی چھوٹےبڑے کی تمیز ہوتی تھی اور انسان نے ان کے مرتبے کا معیار ان کی طاقت قرار دیا تھا۔ جو دیوتا جتنا طاقتور تھا مجلس شوری میں مساوات کے باوجود اس کا اثر و اقتدار اتنا ہی زیادہ تھا۔ یہی طاقتور دیوتا مجلس شوریٰ اور کا بینہ کے رکن سمجھے جاتے تھے۔ ان میں سب سے ممتاز مندرجہ ذیل دیوتا تھے۔ (۱) انُو۔(۲) اِ ن لیل (ایا) جوہوا اور طوفان کا دیوتا اورانو کا بیٹا تھا۔ (۳) اِن کی۔ زمین اور میٹھے پانی کا دیوتا۔(۴) ننورتا۔ جنگ کا دیوتا۔(۵) نن ہورسگ۔ مادر ارض یا مادر کائنات۔ (۶) انانا (عشتار) محبت اور افرائش نسل کی دیوی۔ ان لیل کی بہن۔(۷) ارش کی گل۔ ملکہ ظلمات۔ موت کی دیوی۔ انانا کی بہن۔(۸) ننا (سین) چاند دیوتا۔(۹) انو (شمس) سورج دیوتا۔انُو۔۔۔ کے لفظی معنی آسمان کی وسعتوں کے ہیں۔ یہ وسعتیں زمین، سورج، چاند سب کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اورسب سے زیادہ بسیط اور کشادہ ہیں، اس لئے دیوتاؤں کی مجلس شوری میں انو کی شخصیت سب سے زیادہ لائق احترام ہے۔ انو دیوتاؤں کے قبیلے کا سب سے بزرگ، سب سے سنجیدہ، سب سے متحمل مزاج اور باوقار فرد ہے۔ وہ قاعدے قانون سے کبھی انحراف نہیں کرتا اور نہ کبھی جانبداری دکھاتا ہے۔ وہ نہایت نیک، رحم دل اور خطا پوش ہے۔ ایک روایت کے مطابق کائنات کا خالق انو ہی ہے۔ انونے سب سے پہلے آسمان پیدا کیا۔ تب آسمان نے زمین کو پیدا کیا۔اور زمین نے دریاؤں کو پیدا کیا۔اور دریاؤں نے نہروں کو پیدا کیا۔ اور نہروں نے دلدل کو پیدا کیا۔ اور دلدل نے کیڑوں کو پیدا کیا۔ (دانت کے درد کا منتر) دیوتاؤں کی مجلس شوری طلب کرنا انو کا فرض تھا۔ البتہ وہ عام طور پر اظہار رائے سے گریز کرتا تھا۔ موجودات عالم کی تقدیر کا فیصلہ ایک لوح پر لکھ لیا جاتا تھا۔ اس لوح کا محافظ اِن لیل تھا۔ اِن لیل یا ایا--- اِن لیل کے لفظی معنی طوفان کے آقا کے ہیں۔ عراقی دیومالا میں ان لیل سب سے زیادہ صاحب جلال اور طاقتور دیوتا شمار ہوتا تھا۔ وہ انو کی قوت تھا، انوکی طاقت کا مظہر تھا اور مجلس شوری کے فیصلوں پر عمل درآمد کا فرض عام طور پر اسی کے سپرد ہوتا تھا آسمان اور زمین کے درمیان اسی کا راج تھا۔ اسی نے زمین کو آسمان سے الگ کیا تھا۔ ورنہ ابتدا میں دونوں آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ مجلس شوری میں بھی اکثر اسی کی بات مانی جاتی تھی۔ مثلا گل گامش کی داستان میں ثور فلک اور جمبابا کی ہلاکت کے بعد جب مجلس شوری میں انو یہ خیال ظاہر کرتا ہے کل گل گامش اور ان کدو میں سے ایک کو مرنا ہوگا تو ان لیل بڑے تحکمانہ انداز میں یہ فیصلہ صادر کرتا ہے کہ ان کدو کو مرنا ہوگا۔ گل گامش نہیں مرے گا۔ شمس دیوتا دونوں کی وکالت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان کدو اور گل گامش نے ثور فلک اور جمبابا کو میری اجازت سے ہلاک کیا تھا لہذا وہ بے قصور ہیں۔ مگر ان لیل اسے یہ کہہ کر ڈانٹ دیتا ہے کہ تم روزانہ ان کے پاس جاتے ہو اور انہیں میں گھل مل گئے ہو اسی لئے ان کی وکالت کر رہے ہو۔‘‘ بے چارہ شمس خاموش ہو جاتا ہے اور اِن لیل کی بات مان لی جاتی ہے۔ ان لیل کی اس ہیبت اور طاقت کی وجہ سے نیفر جہاں ان لیل کا بڑا مندر تھا وادی کا سب سے مقدس شہر خیال کیا جاتا تھا۔ چنانچہ بابل کے عروج سے پیشتر سومیر اور عکاد کے بادشاہوں کی رسم تاجپوشی ان لیل کے مندر ہی میں ادا کی جاتی تھی اور وادی کا ہر بادشاہ اپنا وقار بڑھانے کی خاطر نیفر کو اپنی قلمرو میں شامل کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ سومیری اورعکادی زبانوں میں سب سے زیادہ بھجن اور گیت ان لیل ہی کی تعریف میں ہیں اور جن لوگوں نے عراق میں آندھیوں کے جھکڑوں اور ریت کے بگولوں کی حشرسامانیاں دیکھی ہیں وہ بخوبی محسوس کرسکتے ہیں کہ وہاں کے قدیم باشندے اس جلالی قوت سے کیوں خوف کھاتے تھے اوراس کی خوشنود ی اور رضاجوئی کی کیوں کرفکر کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ ایک گیت میں ان لیل کی حمد و ثنا ان لفظوں میں کی گئی ہے۔ اِن لیل، کوہ عظیم کے بغیر۔کوئی شہر نہیں بن سکتا، کوئی بستی نہیں بن سکتی۔ کوئی دکان نہیں چل سکتی۔ بھیڑوں کا باڑہ نہیں بن سکتی۔ کوئی بادشاہ پیدا نہیں ہوسکتا، کوئی مہاپروہت پیدا نہیں ہوسکتا۔ دریاؤں میں سیلاب کا پانی چڑھ نہیں سکتا۔ سمندر کی مچھلیاں بید کی جھاڑیوں میں انڈے نہیں دے سکتیں۔پرندے زمین میں گھونسلے نہیں بنا سکتے۔ آسمان میں گشت لگانے والے بادلوں سے نمی نہیں برس سکتی۔ پودے اورجھاڑیاں جو میدانوں کی رونق ہیں پنپ نہیں سکتیں۔ کھیتوں اور مرغزاروں میں اناج کی بالیاں پھوٹ نہیں سکتیں۔ پہاڑی جنگلوں کے درختوں میں پھل نہیں آسکتے۔ سومیر و عکاد کے مشہور زمزمہ تخلیق کا ہیرو بھی ان لیل ہی ہے۔ البتہ ۱۹ ویں صدی قبل مسیح میں جب بابل کو فروغ ہوا تو وہاں کے پروہتوں نے اس نظم میں تحریف کر کے ان لیل کے بجائے اپنے شہر کے دیوتا مردک کو داستان کا ہیرو بنا دیا۔ اِنکی۔۔۔ انکی کے لفظی معنی آقائے ارض کے ہیں۔ اس دیوتا کی شخصیت بہت پیچیدہ ہے۔ وہ بیک وقت خشکی کا دیوتا ہے اور میٹھے پانی کا بھی۔ سامی لوگ اسے آیا کہتے تھے۔ یعنی پانی کا گھر۔ کسی ایک دیوتا میں خشکی اور تری کا امتزاج بظاہرعجیب معلوم ہوتا ہے لیکن یہ تصور در اصل اس تجربے کا پرتو ہے جو دجلہ و فرات کے ڈیلٹا میں رہنے والوں کو ہرروز ہوتا ہے۔ وہاں دلدل اور ندی نالے اس کثرت سے ہیں کہ خشکی اور تری میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کا لازمی جزو ہیں۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ انکی شہر اریدو کا جو اس خطے کی سب سے قدیم بستی ہے۔ خاص دیوتا تھا۔ ان کی دانائی اور فراست کا دیوتا تھا۔ وہ معلم اعظم بھی تھا۔ اورعلوم وفنون کا محافظ بھی۔ جادو منتر کرنے والے بھی اسی سے دعا کرتے تھے۔ وہ دیوتاؤں کا بڑا بھائی ہے جو خوش حالی لاتا ہے۔ جو کائنات کا حساب داں ہے۔اور ساری دنیا کا دماغ اور کان۔ نناّ۔۔۔ چاند اور سورج کی تابانی نے دنیا کی سبھی پرانی قوموں کو متاثر کیا ہے۔ چنانچہ ہندوستان، ایران، مصر اور یونان غرض کہ ہر ملک میں چاند اور سورج کو رتبہ حاصل تھا۔ رگ وید اور پارسیوں کی مقدس کتاب گاتھا میں تو چاند سورج کی ثنا و صفت میں بہ کثرت گیت اور بھجن موجود ہیں۔ یہی صورت حال وادی دجلہ و فرات میں بھی پائی جاتی ہے۔ البتہ اتنا فرق ضرور ہے کہ مصر، ہند، ایران اور یونان کے برعکس اہل عراق چاند کو سورج پر فضیلت دیتے تھے۔ ان کے عقیدے میں اتو یا شمس در اصل ننا یاسین کا بیٹا تھا۔ اسی طرح فلسطین اور شام کی پرانی قوموں کا بڑا دیوتا چاند تھا۔ جسے وہ ایلات کہتے تھے۔ چاند کی افضلیت کا سبب غالبا ان علاقوں کا موسم تھا۔ وہاں سورج کی تمازت اتنی تیز ہوتی ہے کہ لوگ دھوپ سے بچنے کے لئے پناہ کے گوشے تلاش کرتے ہیں۔ البتہ جب رات آتی ہے اور چاند کی خنک روشنی سے صحرا اور ریگزار منور ہو جاتے ہیں تو لوگوں کی جان میں جان آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں اُر اور ماری (حریری) کی بادشاہتیں بہت دن قائم رہیں۔ اور ان دونوں شہروں کا بڑا دیوتا چاند (سین) ہی تھا۔ جس طرح ہندو ایکادشی اور پورن ماشی کا تیوہار مناتے ہیں اسی طرح عراق کے لوگ ’’سوایل لا‘‘ کا تیوہار مناتے تھے۔ لیکن فرق یہ تھا کہ ہندو چاند کی پہلی تاریخ اور چودھویں تاریخ کو مقدس مانتے ہیں اور اہل عراق تیسویں تاریخ کو ’’سوایل لا‘‘ کے معنی ہاتھ اٹھانے کے ہیں۔ غالبا چاند کی تیسویں تاریخ کو جب رات اندھیری ہوتی تھی تو لوگ ہاتھ اٹھا کر اٹھاکر دیوتا سے واپس آنے کی دعا کیا کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک دعا اشور بنی پال کے کتب خانے کی لوحوں پر لکھی ہوئی برآمد ہوئی ہے۔ اے سین! اے ننار تو جو منور ہے۔تو جو اپنے بندوں کے لئے روشنی فراہم کرتا ہے۔تیری مشعل آگ کی مانند چمکتی ہے۔تو مسافروں کی رہنما ئی کرتا ہے۔تونے زمین اور آسمان کو روشنی سے بھر دیا ہے۔تجھے دیکھ کر لوگوں کی ڈھارس بندھتی ہے۔تیری روشنی شمس کے مانند ہے۔جو تیرا پلوٹھی کا بیٹا ہے۔عظیم دیوتا تیرے آگے سر جھکاتے ہیں۔اور زمین کے فیصلے تیرے روبرو رکھے جاتے ہیں۔جب عظیم دیوتا تجھ سے مشورہ طلب کرتے ہیں۔تو تو انہیں نیک مشورہ دیتا ہے۔ وہ مجلس شوری میں تیرے سائے میں بیٹھتے ہیں۔آج تیسویں تاریخ کو تجھے گہن لگ گیا ہے۔پس میں نے تیرے اعجاز میں لوبان اور نجور جلائے ہیں۔ اور سب سے شیریں شراب نذر کی ہے۔ ایک گیت ہیں ننار کی ما ورائ صفا ت بیا ن کرنے کے بعد شاعر اس کا رشتہ زمین سے ان نقطوں میں جوڑتا ہے۔ تو وہ ہے کہ جب تیرا کلام زمین پر نازل ہوتا ہے۔تو ہریالی اورسبزیاں اگتی ہیں۔اور بھیڑیں بکریاں موٹی ہوتی ہیں۔ اور ان کی نسل بڑھتی ہے۔ اور صداقت و انصاف کا ظہور ہوتا ہے۔ اور لوگ سچ بولتے ہیں۔تیرا کلام دور آسمان میں اور زمین کے نیچے پوشیدہ ہے۔تیرا کلام کون سمجھ سکتا ہے۔ کون اس کی ہمسری کر سکتا ہے۔زمین اور آسمان میں تیرا کوئی ثانی نہیں۔ اَتُو شمس۔۔۔ یہ درست ہے کہ اہل عراق چاند کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے اور اس کی ٹھنڈی اور پر اسرار روشنی ان کے جسم کو آرام پہنچاتی تھی مگر وہ جانتے تھے کہ زندگی کی ساری رونق سورج ہی کے دم سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رفتہ رفتہ ان کے عقیدے میں شمس کو وہ مقام حاصل ہو گیا جو مصر میں آمون رع کو حاصل تھا چنانچہ سورج سے وہ تمام صفات منسوب کر دی گئیں جو بعد میں خدا کی ذات سے منسو ہوئیں۔ وہ جہاں بیں اور دانائے راز قرار پایا جس کی نگاہیں ہر نیکی بدی کو دیکھ لیتی تھیں۔ انسان کی کوئی حرکت اس سے پوشیدہ نہیں تھی اور نہ کائنات کا کوئی گوشہ اس سے چھپا ہوا تھا۔ لیکن اس ہمہ گیر قوت کے باوجود وہ نہایت شفیق، ستار عیوب اور رحم دل دیوتا تھا۔ وہ مشکل کے وقت ہر حاجت مند کے کام آتا تھا۔ وہ انصاف اور صداقت کا پیکر تھا۔ وہ بدلوگوں کو سزا دیتا تھا اور نیک لوگوں کو انعام و اکرام سے نوازتا تھا۔ چنانچہ ایک شاعر شمس دیوتا کی تعریف ان لفظوں میں کرتا ہے، تو جو تاریکی کو روشنی میں بدل دیتا ہے۔اور زمین آسمان کی بدیوں کو کچل دیتا ہے۔تیری شعاعیں سمندر کی لہروں اور پہاڑ کی اونچی چوٹیوں کو اپنے جال میں گرفتار کر لیتی ہیں، سب لوگ تیرے ظہور پر خوش ہوتے ہیں۔ تو دنیا کے سب لوگوں کا نگاہ بان ہے۔ خداوند ایا نے جتنی مخلوقات پیدا کی ہیں۔تو ان سب کی نگرانی کرتا ہے۔اور جن لوگوں کو زندگی عطا ہوئی ہے تو ان کا بھی پاسبان ہے۔ بیشک تو زمین اور آسمان کی سب مخلوقات کا گڈریا ہے۔ تو روزانہ بڑی مستعدی سے زمین کے اوپر سے گزرتا ہے۔ تیری شعاعیں اس گہرائی میں پہنچ جاتی ہیں۔ جس کا علم عظیم دیوتاؤں کوبھی نہیں ہے۔ سمندر کے اژدہے بھی تیری روشنی کے منتظر رہتے ہیں۔دن کے وقت تیرا چہرہ تردد سے تاریک نہیں ہوتا۔ اور رات کے وقت تو آسودہ اور مطمئن آرام کرتا ہے۔تو کتنی دیر تک جاگتا رہتا ہے۔تو دن کے وقت سفر کرتا رہتا ہے۔ اور رات کے وقت واپس جاتا ہے۔ تیرے سوا کسی دیوتا کو اتنی فکر نہیں۔کہ ہمارے لئے اپنےکو تھکائے اور ہلکان کرے۔ اس کے باوجود کوئی دیوتا اتنا تاباں و شاداں نہیں جتنا تو ہے۔ تو ان تمام ملکوں کے منصوبوں سے بھی واقف ہے۔ جن کی زبانیں ہم سے مختلف ہیں۔ اے شمس! ساری دنیا تیری روشنی کے لئے بیتاب رہتی ہے۔تو خشکی کے اس مسافر کا رفیق ہے۔جس کی راہ کٹھن ہے۔اور تری کے اس مسافر کی ہمت بڑھاتا ہے۔جو پانی سے ڈرتا ہے۔تو انجان راہوں میں شکاری کی رہبری کرتا ہے۔ اور وہ سورج کی مانند اونچی سے اونچی جگہوں کو آسانی سے عبور کر لیتا ہے۔ تو سوداگر اور اس کی تھیلی کو سیلاب سے بچاتا ہے۔ تیرا وسیع جال اس آدمی کو گرفتار کر لیتا ہے۔ جس نے اپنی دوست کی بیوی پر بری نگاہ ڈالی۔ تو بدی کرنے والوں کے سینگ توڑ دیتا ہے۔اور جو شخص حساب میں بد دیانتی کرتا ہے۔تو اس کی بنیاد گرا دیتا ہے۔بے ایمان حاکم کو تو بندی خانہ کی راہ دکھاتا ہے۔اور رشوت لینے والے کو سزا دلواتا ہے۔اور جو شخص رشوت نہیں لیتا۔بلکہ کمزوروں اور مظلوموں کی وکالت کرتا ہے۔تو اس کو خوشی کی دولت سے مالا مال کر دیتا ہے۔اور وہ حاکم جو سچا فیصلہ کرتا ہے۔شاہی محل کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اور وہ ساہوکار جو بھاری سود لیتا ہے۔اور ناجائز نفع کماتا ہے۔آخر کار تیرے حکم سے تھیلی کا بوجھ کھو دیتا ہے۔اور وہ جو تین شیکل پرایک شیکل نفع کماتا ہے۔ تیرا پسندیدہ ہوتا ہے۔اور وہ جو تولتے وقت ڈنڈی مارتا ہے۔یا غلط بٹے استعمال کرتا ہے۔آخرکار تیرے حکم سے اپنی تھیلی کا بوجھ کھو دیتا ہے۔ نیک کام کرنے والوں کو تو۔جیسے چشمہ حیات کے مانند اچھے پھل عطا کرتا ہے۔کمزور انسان اپنی کھوکھلی آواز سے۔تجھی کو پکارتا ہے۔اور مفلس، مظلوم، ضعیف اور بدسلوکیوں کا شکارتجھی سے فریاد کرتے ہیں۔ یہ تھے صف اول کے دیوتا جن کو انو اور ان لیل کا قرب حاصل تھا۔ مگر ان کے علاوہ قدرت کے تمام مظاہر اور اوصاف کے الگ الگ دیوتا بھی تھے۔ ان چھوٹے چھوٹے دیوتاؤں کی وہ حیثیت تونہ تھی جو انو کے ارکان وزارت کی تھی لیکن وادی دجلہ و فرات کے باشندے ان کی بھی پوجا کرتے تھے۔ اور ان کے بت مندروں میں رکھتے تھے۔ مثلا جو کا دیوتا اشنان تھا۔ اور مویشیوں کا دیوتا شموفان تھا۔ اور بچوں کی ولادت کی دیوی گولا تھی اور نرسل کی دیوی ندابا تھی اورسفر کا دیوتا پاسگ تھا۔ چنانچہ علماء آثار کا تخمینہ ہے کہ عراق میں کم از کم تین ہزار دیوی دیوتاؤں کی پرستش ہوتی تھی۔ ان خداؤں کے علاوہ ہر خاندان بلکہ ہر گھر کا ایک ذاتی معبود بھی ہوتا تھا۔ اس معبود کا نام نہ تھا اور نہ اس کا کوئی بت بنایا جاتا تھا البتہ اس کے لئے ہر گھر میں ایک چھوٹا سا حجرہ یا گوشہ ضرور مخصوص ہوتا تھا اور خاندان کا بزرگ اس حجرہ میں بیٹھ کر اپنے انفرادی دیوتا کی پوجا کرتا تھا۔ اس معبود سے گھر والوں کے تعلقات بالکل ذاتی ہوتے تھے بلکہ یا یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ وہ گھر کا ایک فرد ہوتا تھا۔ قیاس کہتا ہے کہ اٹھارہویں صدی قبل مسیح میں جب حضرت ابراہیم نے اپنے آبائی وطن ارکر خیرباد کہا اور حاران ہوتے ہوئے فلسطین میں داخل ہوئے تو وہ اپنے اسی بے نام معبود کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے اور یہ وہ معبود تھا جس کو انجیل، ابراہیم اور اسحاق کا خدا کہتی ہے کیونکہ وہ ابراہیم کا ذاتی خدا تھا جو سفر اور حضر میں ابراہیم کے ساتھ رہتا تھا۔