انقلاب

اے جان نغمہ جہاں سوگوار کب سے ہے
ترے لیے یہ زمیں بے قرار کب سے ہے
ہجوم شوق سر رہ گزار کب سے ہے
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے


نہ تابناکیٔ رخ ہے نہ کاکلوں کا ہجوم
ہے ذرہ ذرہ پریشاں کلی کلی مغموم
ہے کل جہاں متعفن ہوائیں سب مسموم
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے


رخ حیات پہ کاکل کی برہمی ہی نہیں
نگار دہر میں انداز مریمی ہی نہیں
مسیح و خضر کی کہنے کو کچھ کمی ہی نہیں
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے


حیات بخش ترانے اسیر ہیں کب سے
گلوئے زہرہ میں پیوست تیر ہیں کب سے ہے
قفس میں بند ترے ہم صفیر ہیں کب سے
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے


حرم کے دوش پہ عقبیٰ کا دام ہے اب تک
سروں میں دین کا سودائے خام ہے اب تک
توہمات کا آدم غلام ہے اب تک
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے


ابھی دماغ پہ قحبائے سیم و زر ہے سوار
ابھی رکی ہی نہیں تیشہ زن کے خون کی دھار
شمیم عدل سے مہکیں یہ کوچہ و بازار
گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے